💥 نفرت کے نقصانات:

نفرت کے مندرجہ ذیل نقصانات ہیں۔

🍂1. نفرت سے آپس کا پیار ختم ہو جاتا ہے۔ اس طر ح دل اللہ اور اس کے بندوں کی محبت سے خالی ہو جاتا ہے اور پیار سے خالی دل مردہ ہوتا ہے۔

🍂2. نفرت سے دل میں سختی آجاتی ہے، دل میں جھکاﺅ ختم ہو جاتا ہے اور دل کی سختی اللہ کو بہت ناپسند ہے۔

🍂3. اللہ خود بھی پیار کرتا ہے اور اپنے بندوں کو بھی پیار کا حکم دیتا ہے لیکن نفرت کر کے ہم اللہ کی نافرمانی کرتے ہیں اور نافرمان بندوں میں شامل ہو جاتے ہیں۔

🍂4. دلوں میں نفرت پیدا کرنا شیطان کا کام ہے اور ایسا کر کے ہم شیطان کا ساتھ دیتے ہیں اور اللہ کے راستے سے بھٹک جاتے ہیں۔

🍂5. نفرت سے ہماری ذات اور مضبوط ہوتی ہے یہ ذات ہی ہے کہ جو نفرت کو ختم کر کے جھکنے نہیں دیتی۔ اس طرح نفرت سے ہم اپنی ذات کو مٹانے کی بجائے بڑھاوا دیتے ہیں اور اللہ اور اپنے درمیان دیواریں کھڑی کر دیتے ہیں۔

🍂6. نفرت سے ہماری نظر خود کی بجائے دوسروں پر ہوتی ہے۔ اپنی غلطیاں اور کوتاہیاں دیکھنے کی بجائے دوسروں کی غلطیاں نظر آتی ہیں، دوسروں کے عیب نظر آتے ہیں اور اللہ دوسروں پر انگلی اٹھانے والے سے بہت ناراض ہوتا ہے۔

🍂7. نفرت کی وجہ سے کسی کی دل آزاری کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔

🍂8. دل میں نفرت کی وجہ سے ہر وقت منفی خیالات ابھرتے ہیں جس کی وجہ سے دل میں بے سکونی رہتی ہے، دل ہر وقت بے چین رہتا ہے۔

🍂9. نفرت سے دل میں بدلہ لینے کی آگ بھڑکتی ہے جس کے ردِّ عمل میں انسان ہاتھ پاﺅں سے کسی کو نقصان پہنچاتا ہے۔ اس طر ح اللہ کے بندوں کو نقصان پہنچتا ہے اور معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔

🍂10. نفرت سے لوگوں میں آپس میں فساد لڑائی جھگڑا پیدا ہوتا ہے۔ اللہ نے فساد مچانے والوں کو سخت وعید سنائی ہے۔ اس لیے نفرت کرنے والوں میں شامل ہو کر اللہ کو ناراض کرتے ہیں۔

🍂11. کسی کےلئے دل میں نفرت رکھنا ہمیں اللہ سے دور کر رہا ہوتا ہے کیونکہ اللہ کی قربت کا راز ہے کہ اللہ کے بندے سے بڑھ بڑھ کر محبت کی جائے اور اگر اس کے بندوں کے لئے نفرت رکھی جائے تو پھر اللہ کی قربت کا تصور بھی ممکن نہیں ہے۔

🍂12. نفرت کے عمل سے انسان بہت جلد بوڑھا ہو جاتا ہے۔



🔥 نفرت پیدا ہونے کے اسباب:

ایک آدمی جب کسی دوسرے انسان سے معاملہ کرتا ہے اور معاملہ کرتے وقت معاملہ کے اصول اور ضابطے کو نظرانداز کرتے ہوئے بداخلاقی کا مظاہرہ کرنے لگتا ہے تو ایسی صورت میں دِلوں میں نفرت پیدا ہوتی ہے، جس کی مختلف نوعیتیں ہو سکتی ہیں۔

▪ ان میں سے کچھ امور یہ ہیں جن کے باعث دلوں میں نفرت پیدا ہوتی یا بدظنی اور غلط فہمی کا ماحول بنتا ہے۔


💫 1. لوگوں کے احوال اور ان کے ظروف (گنجائش حوصلہ، صبر ) کی رعایت نہ کرنا:

ہر آدمی کے ساتھ کچھ احوال اور ظروف ہوتے ہیں، ان احوال کی رعایت نہ کرنے کے باعث دلوں میں نفرت پیدا ہوتی ہے، اس نکتے کی وضاحت حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کی امامت کے مسئلے سے بخوبی ہو جاتی ہے۔ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ نماز ادا کرتے، پھر آتے تو اپنی قوم کی امامت کراتے تھے۔
ایک شب انہوں نے…

نماز عشاء میں سورہ بقرہ کی تلاوت شروع کر دی، ایک راہ چلتا مسافر جس کے پاس دو اونٹنیاں تھیں، اپنی اونٹنیاں باہر چھوڑ کر نماز میں شامل ہو گیا، جب اس نے دیکھا کہ قرآت بہت طویل ہے تو اس نے نماز توڑ کر تنہا نماز ادا کی اور چلتا بنا، لوگوں نے اس سے کہا:
اے فلاں کیا تم منافق ہو گئے ہو۔
انہوں نے کہا:
نہیں واللہ میں ضرور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آ کر انہیں اس کی اطلاع دوں گا۔
چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے اور کہا کہ
یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! ہم لوگ اونٹنی والے آدمی ہیں، دن میں کام کرتے ہیں، معاذ نے آپ کے ساتھ عشاء کی نماز پڑھی، پھر آئے تو سورہ بقرہ شروع کر دی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معاذ رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا:
اے معاذ! کیا تو نمازیوں کو فتنہ میں مبتلا کرنا چاہتا ہے، جب لوگوں کی امامت کرو تو سورہ الشمس، سورہ الأعلی، سورہ العلق اور سورۃ اللیل کی
تلاوت کرو۔
(صحیح مسلم)

▪ فتنہ میں مبتلا کر دینے کا مطلب یہ ہے کہ نمازیوں میں ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں، بوڑھے، کمزور و ناتواں، ضرورت مند، تھکے ماندے وغیرہ۔ امام کے لیے ان سب کا لحاظ رکھنا ضروری ہے، ایسا نہ ہو کہ لوگ اکتا کر نماز باجماعت سے گریز کرنے لگیں۔

▪خود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جن کے اگلے پچھلے سارے گناہ معاف کر دئیے گئے تھے، لوگوں کے احوال کی بے حد رعایت کرتے تھے، نماز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھوں کی ٹھنڈک تھی تاہم جب امامت کرا رہے ہوتے اور نماز لمبی کرنے کا ارادہ ہوتا لیکن اسی بیچ کسی بچے کے رونے کی آواز کانوں میں پڑتی تو نماز ہلکی کر دیتے تھے کہ مبادا بچے کے رونے کے باعث ماں کو تکلیف نہ پہنچے۔
(بخاری، مسلم)


💫 2. بکثرت کسی چیز کا سوال کرنا:

نفرت پیدا کرنے کے اسباب میں سے ایک اہم سبب بکثرت کسی چیز کا سوال کرنا ہے، انسانی طبیعت ہے کہ جب ایک شخص پہلی بار کسی سے کوئی چیز مانگتا ہے تو وہ اس کی دلداری کرتے ہوئے اس کی ضرورت پوری کر دیتا ہے، لیکن ہر مرتبہ مانگنے والوں کے تئیں دلوں میں نفرت پیدا ہو جاتی ہے، خواہ مانگنے اور سوال کرنے کی نوعیت جیسی بھی ہو، کتنے لوگ قرض مانگنے کے عادی ہوتے ہیں، ایسے لوگوں کے پاس کسی چیز کی کمی نہیں ہوتی پھر بھی عادت سے مجبور ہوتے ہیں، اس طرح کسی سے بار بار قرض کا مطالبہ بھی قرض خواہ کی نظر میں اس کے وقار کو مجروح کرتا ہے۔

اسی طرح خدمت لینے کا مسئلہ ہے، اگر ایک بار، دو بار خدمت لے لی تو کوئی بات نہیں لیکن بار بار خدمت کا تقاضا کرنے والا انسان ظاہر ہے کہ مفاد پرست اور مصلحت پسند ہی ہو گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

💫 3. دوسروں کے سامنے اپنی پریشانیاں بیان کرنا:


ہر شخص کے سامنے اپنی پریشانی کا ذکر کرنا بھی نفرت کا سبب بنتا ہے، کہتے ہیں کہ
انسان کے پاس شکایت ذلت کا باعث ہے۔
اگر آپ جسمانی یا مالی کسی طرح کی پریشانی میں مبتلا ہیں تو ان کا ذکر غیروں سے مت کریں، کیونکہ شکایت کے بعد ان کی نگاہ میں آپ کی وقعت گھٹ جا ئے گی اور بسا اوقات وہ آپ کو حقیر سمجھنے لگیں گے۔

▪امام ابنِ جوزی رحمتہ اللہ نے نہایت پتے کی بات کہی ہے، وہ فرماتے ہیں:
اگر تم مالدار ہو تو دوسروں کو اپنی مالداری کی خبر مت دو، اگر تم غریب ہو تو دوسروں کو اپنی غربت سے آگاہ مت کرو، کیونکہ اگر لوگ تمہاری مالداری کو جان لیں گے تو تجھ سے حسد کرنے لگیں گے اور اگر تمہاری غربت کو جان لیں گے تو تجھے حقیر سمجھنے لگیں گے۔

: 💫 4. اپنے سر بستہ رازوں کو فاش کرنا:

اگر کسی گناہ کا ارتکاب ہو جائے یا آپ کے اندر کسی طرح کا کوئی عیب ہے تو اسے چھپا کر رکھیں۔ کیونکہ اسے فاش کر دینے سے آپ کا وقار مجروح ہو گا اور دلوں سے آپ کا احترام نکل جائے گا۔ لوگ نفرت کرنے لگتے ہیں۔

لیکن افسوس ہر معاشرے میں کچھ ایسے بد قماش پائے جاتے ہیں جو پردے میں کوئی گناہ کرتے ہیں، پھر اپنے ساتھیوں کے پاس آکر اسے مزے لے لے کر بیان کرتے ہیں، ایسا انسان ہو سکتا ہے تھوڑی دیر کے لیے لوگوں کی شاباشی حاصل کر لے تاہم وہ سب کی نگاہوں سے گر جاتا ہے اور غیر شعوری طور پر اپنا احترام کھو بیٹھتا ہے اور اسے نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


💫5. دوسروں کے احساسات و جذبات کو ٹھیس پہنچانا:

نفرت پیدا کرنے والے اسباب میں سے ایک بنیادی سبب دوسروں کے احساسات و جذبات کو ٹھیس پہنچانا ہے، کچھ لوگ دل لگی اور مزاح کے نام پر جیسے چاہتے ہیں پیش آجاتے ہیں اور جو چاہتے ہیں کہہ دیتے ہیں جس سے بسا اوقات اس کا ساتھی بدظن ہو جاتا ہے اور نفرت کا سبب بن جاتا ہے۔

دل لگی اور شگفتہ مزاجی انسانی زندگی کے لیے مطلوب اور ناگزیر ہے تاہم توازن اور اعتدال کے ساتھ اور وقار کو بحال رکھتے ہوئے نہ تو ہروقت انسان اپنا منہ پھلائے رکھے کہ اس کے مصنوعی خدوخال سے لوگوں کو نفرت ہونے لگے اور نہ ہنسی مزاق کو اپنا تکیہ کلام بنا لے کہ اس کی ہیبت جاتی رہے، اس کا وقار مجروح ہو اور اس کے لیے دلوں میں نفرت پیدا ہو۔

اسی طرح بعض دیگر رذائل اخلاق مثلا وعدہ خلافی، غیبت و چغل خوری وغیرہ بھی دلوں میں نفرت پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں۔