💥 بددعا کی مختلف صورتیں:


بعض اوقات غصے میں یا ہنسی مذاق میں ایک دوسرے کو بددعا کے کلمات کہہ دیتے ہیں۔ جو غلط نتائج کا باعث بنتے ہیں۔ ہماری زبان سے نکلا ہر لفظ اہمیت کا حامل ہے، کیونکہ کوئی بھی لمحہ قبولیت کا ہو سکتا ہے۔

جب بلاوجہ کسی کو بددعا دیں۔ یا پہنچائی گئی تکلیف سے بڑھ کر کسی کو نشانہ بنائیں۔ جس کے باعث ہماری بددعا سے کوئی سخت تکلیف اور پریشانی کا سامنا کرے، تو روزِ محشر یہ ہمارے لیے بھی وبال بن سکتا ہے، چند روزمرہ کی روٹین میں دی جانے والی بددعائیں درج ذیل ہیں:

⚡غرق ہو جاؤ...

⚡آگ لگے...

⚡تم پر اللہ کا قہر پڑے...

⚡مر جاؤ...

⚡بھاڑ میں جاؤ...

⚡تمہارا کچھ نہ رہے...

⚡تمہارے پیٹ میں کیڑے پڑیں...

⚡تمہاری ٹانگیں ٹوٹیں...

⚡زہر کھاؤ...

⚡کبھی نظر نہ آؤ...

⚡ذلیل ہو...

⚡تمہارا نام و نشان مٹے...

⚡کبھی نہ خوشی پاؤ...

⚡دھکے کھاؤ...

⚡تمہارے سب مریں...

⚡ برباد ہو جاؤ...

⚡ہلاک ہو جاؤ...

⚡تمہارا جنازہ اٹھے...

⚡تمہارے بچے مریں...

⚡تمہاری آنکھیں پھوٹیں...

⚡تمہارے ہاتھ ٹوٹیں...

⚡زبان پر چھالے پڑیں...



🔥 بددعا کی شرائط:


💥اوّل:
کسی مسلمان کیلیے کسی مسلمان پر بغیر حق کے بددعا ناجائز ہے، بلکہ اس کے لئے یہ بھی ناجائز ہے کہ دنیا یا آخرت میں اس پر مصیبت پڑنے کی تمنا ہی کرے۔

اور اگر اسکے مسلمان بھائی نے اس پر ظلم کیا ہو، یا بُرا سلوک کیا ہو تو اتنی ہی بددعا دے جتنا اُس نے اِس پر ظلم کیا ہے، اس سے آگے مت بڑھے، اور اگر اسکی طرف سے ملنے والی تکلیف پر صبر کرے، اور درگزر سے کام لے تو یہ اسکے لئے زیادہ بہتر ہے۔

✨ فرمانِ باری تعالی ہے:
اور اگر تم نے (بدلے میں) سزا دینی ہے تو اتنی ہی دو جتنی تمہیں تکلیف دی گئی ہے اور اگر تم صبر کرو تو یہ صبر کرنے والوں کیلئے بہتر ہے۔
( سورہ النحل: 126)


💥 دوم:

اگر مظلوم کی یہ خواہش ہو کہ ظالم پر بددعا کرے تو اس کیلئے یہ جائز نہیں ہے کہ اسکے اہلِ خانہ کیساتھ بدتمیزی کرے یا انکے خلاف بددعا کرے، کیونکہ انہیں ظالم کی حرکتوں کی وجہ سے دنیا میں اور نہ ہی آخرت میں کسی قسم کے مؤاخذے کا سامنا کرنا پڑے گا۔

✨ ابو رمثہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ کہتے ہیں:
میں اپنے والد کیساتھ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف چل دیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے والد سے فرمایا:
(یہ آپکا بیٹا ہے؟) انہوں نے کہا: جی ہاں! رب کعبہ کی قسم (یہ میرا بیٹا ہے)، تو آپ نے فرمایا:
(خبردار! اسے تمہارے گناہ پر نہیں پکڑا جائے گا، اور نہ ہی تمہیں اسکے گناہ پر پکڑا جائےگا)۔
پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی:
(وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى)۔
کوئی جان کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گی۔
(اسے البانی رحمتہ اللہ نے صحیح ابوداؤد میں صحیح قرار دیا ہے۔)
(ابوداؤد، نسائی)


حدیث کے الفاظ یعنی (لَا تَجْنِي عَلَيْهِ): تمہارے بیٹے پر جرم نہ کرو، جنایہ ایسے گناہ، اور جرم کو کہتے ہیں جو سزا یا قصاص کا موجب بنے، مطلب یہ ہے کہ تمہارے بیٹے سے تمہاری غلطی کا مؤاخذہ نہیں ہو گا، کیونکہ کسی بھی جرم کا ارتکاب کرنے والا اپنے اوپر ہی زیادتی کرتا ہے (اس لئے کہ جرم کی پاداش میں اسی کا مؤاخذہ ہو گا)،
کیونکہ فرمان باری تعالی ہے:
(کوئی جان کسی دوسری جان کا بوجھ نہیں اٹھاتی)
اس حدیث میں عرب کی غلط عادت کی تردید کی گئی ہے کہ جس میں باپ کو بیٹے کے کرتوت، یا بیٹے کو باپ کے کرتوت کی سزا دی جاتی تھی۔


💥 سوم:

کسی مسلمان کا دوسرے مسلمان پر یا اسکے اہلِ خانہ پر ہلاکت کی بد دعا کرنا، دعا میں زیادتی ہے، اس لئے یہ جائز نہیں ہے، بلکہ بددعا جنگجو کفار، یا تمام حدیں پار کرنے والے فسادی مسلمان کے بارے میں ہی کی جا سکتی ہے، جس کے شر سے لوگ اسکی ہلاکت سے ہی محفوظ رہ سکتے ہوں۔


💥 چہارم:

دعا کی قبولیت کیلئے یہ شرط نہیں ہے کہ نیک صالح ہو، اگر چہ نیکی اور اچھائی قبولیتِ دعا کا ایک سبب ضرور ہے لیکن شرط نہیں ہے، کیونکہ اللہ تعالی مظلوم کی بھی دعا قبول کرتا ہے، چاہے وہ نافرمان ہی کیوں نہ ہو۔

✨ چنانچہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "(مظلوم کی بددعا قبول ہوتی ہے، چاہے فاجر ہی کیوں نہ ہو، اسکا فجور اسی کی جان پر ہو گا۔)
(صحيح الجامع)


💥 پنجم:

کسی پر بددعا کرنے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ اسکی بددعا قبول ہو جائے گی، خاص طور اگر بددعا میں ظلم و زیادتی کا عنصر شامل ہو (تو بددعا قبول ہونے کے امکانات اور کم ہو جاتے ہیں) کیونکہ اللہ تعالی باحکمت اور انصاف کرنے والی ذات ہے، تو جس طرح اللہ تعالی کسی ظالمانہ فعل کو ناپسند کرتا ہے، اسی طرح مظلوم کی زیادتی اور اسراف کو بھی ناپسند کرتا ہے کیونکہ یہ بھی ایک ظلم ہے۔