💥 روئے زمین کی پہلی بد دعا:


سب سے پہلی وہ بددعا جس کے ہمہ گیر اثرات روئے زمین پر ظاہر ہوئے، ﷲ تعالیٰ کے سب سے پہلے رسول سیدنا نوح کی بددعا تھی، آپ ابوالبشر ثانی ہیں، اس عظیم ہستی نے ساڑھے نو سو سال کی طویل عمر پائی، ﷲ تعالیٰ نے آپ کو سر زمین عراق کے دو مشہور و معروف دریاؤں، دجلہ اور فرات کے درمیانی علاقے میں (جسے جزیرہ کہا جاتا ہے) آباد قوم کی طرف پیغمبر بنا کر بھیجا تھا، آپ ساری زندگی ﷲ تعالیٰ کی توحید اور اس کی خالص عبادت کی دعوت دیتے رہے، اس بھرپور زندگی میں راہِ حق میں نہ کبھی تھکاوٹ محسوس کی اور نہ اکتاہٹ، دن اور رات چھپ چھپ کر، اور علی الاعلان ہر طرح دعوتِ حق دیتے رہے۔

جیسا کہ ارشادِ قرآنی ہے:

✨نوح نے کہا: میرے پروردگار! میں نے اپنی قوم کو شب و روز بلایا، لیکن میری دعوت نے ان کے فرار کو اور زیادہ کر دیا اور جب بھی میں نے انہیں دعوت دی کہ تو انکو معاف کر دے انہوں نے اپنے کانوں میں اپنی انگلیاں ڈال لیں اور انہوں نے اپنے کپڑے اوڑھ لیے اور اپنی روش پر اڑ گئے اور نہایت تکبّر کا اظہار کیا، پھر میں نے انہیں برملا دعوت دی، پھر میں نے ان کے سامنے علی الاعلان اپنی دعوت پیش کی اور ان کو پوشیدہ طور بھی سمجھایا۔
(سورہ نوح :5 تا 9)

لیکن قوم نے آپ کا مذاق اڑایا اور نہایت ہی بے باکی سے ﷲ کے عذاب کا مطالبہ کیا:

✨ ان کی قوم نے کہا: اے نوح! تم ہم سے ہمیشہ ہی جھگڑتے رہے ہو اور تم نے جھگڑنے کی حد کر دی ہے, اگر تم سچے ہو تو جس عذاب کا تم ہم سے وعدہ کرتے رہے ہو، اب اسے لے ہی آؤ۔
(سورہ ھود : 32)


ساڑھے نو سو سال کی کاوشوں اور شب و روز دعوتی تگ و تاز کا نتیجہ یہ نکلا کہ نہایت ہی قلیل لوگ، جن کی تعداد تفاسیر میں چالیس سے لے کر اسّی تک بیان ہوئی ہے، ایمان لے آئے۔ اور اب ان سے زیادہ لوگوں کے ایمان لانے کی توقع بھی ختم ہو گئی، یہاں تک کہ خود ﷲ تعالیٰ نے فرمادیا:

✨ اب آپ کی قوم کا کوئی فرد ایمان نہیں لائے گا، سوائے ان کے جو ایمان لا چکے ہیں، آپ ان کے کرتوت پر افسوس نہ کیجئے۔
(سورہ ھود:36)

جب قوم کی شرارت حد سے زیادہ بڑھ گئی، اور ان کی طغیانیت اور سرکشی حدود پار کر گئی تو پھر آپ نے ﷲ تعالیٰ کے حکم سے اپنے قوم کے کافروں پر روئے زمین کی سب سے پہلی بددعا کی اور اپنی بددعا میں فرمایا:

✨ تو سر زمن پر کسی کافر کا گھر نہ رہنے دے، اگر تو نے انہیں چھوڑ دیا تو یہ تیرے بندوں کو گمراہ کر دیں گے، اور ان کی نسل سے جو بھی پیدا ہو گا، گناہ گار اور سخت کافر ہی ہو گا۔
(سورہ نوح: 27)



💥 پیارے آقا علیہ الصلوۃ والسلام کی کفار کے لیے بددعا:


✨حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں:
ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خانہ کعبہ میں نماز پڑھ رہے تھے، ابوجہل اور اس کے ساتھی وہاں موجود تھے، اتنے میں ابوجہل کے دماغ میں ایک شیطانی تدبیر آئی اور اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا:
کون ہے جو بنی فلاں کے محلے سے ذبح شدہ اونٹوں کی اوجھڑی لائے اور جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سجدے میں جائیں تو اسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پشت پر رکھ دے۔
قوم کا سب سے بدبخت شخص عقبہ بن ابی معیط اٹھا اور اپنے ساتھیوں کی مدد سے اوجھڑی لایا اور جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سجدے میں گئے تو اس نے آپ کی پشت پر دونوں کندھوں کے درمیان وہ اوجھڑی رکھ دی۔

✨ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کا بیان ہے:
میں یہ منظر دیکھ رہا تھا۔ لیکن اپنی بے بسی اور کمزوری کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کچھ مدد نہیں کر سکتا تھا اور ابوجہل اور اس کے ہمنشین اس المناک منظر کو دیکھ کر قہقے مارمار کر ہنس رہے تھے، ان کی خوشی سنبھالے نہیں جا رہی تھی، وہ ایک دوسرے پر لوٹ پوٹ ہو کر ہنس رہے تھے اور اس دوران آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حالتِ سجدہ میں ربِ رحیم سے مناجات میں مشغول تھے اور سرمبارک کو اٹھا نہیں رہے تھے۔

میں دوڑتا ہوا حضرت ابوبکرؓ کے پاس گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نورِ نظر، لختِ جگر حضرت فاطمہؓ کو اس کی اطلاع دی، ادھر سے حضرت ابوبکر ؓ دوڑتے ہوئے آئے اور ادھر سے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا روتی ہوئی آئیں اور ان دونوں نے مل کر اس اوجھڑی کو ہٹایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی نماز سے فراغت کے بعد ہاتھ اٹھائے، پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء کی اور پھر فرمایا:
اے اللہ! ابوجہل، عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ولید بن عتبہ، امیہ بن خلف اور عقبہ بن ابی معیط کو اپنی پکڑ میں لے لے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ساتویں شخص کا بھی نام لیا جو مجھے یاد نہیں رہا، ان لوگوں نے جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان سے بددعا کے یہ الفاظ سنے۔ تو ان کی ہنسی ہوا ہو گئی، چہروں پرخوف اتر آیا اور انہیں یقین ہو گیا کہ اب وہ کسی بھی طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بددعا کی زد سے بچ نہیں سکتے۔

✨ راوی حدیث کہتے ہیں:
اللہ کی قسم ! جن جن کا نام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لیا تھا ان کی مسخ شدہ لاشوں کو میں نے بدر کے اندھے کنویں میں پھینکا ہوا پایا۔
(بخاری مع الفتح )

✨ جنگِ بدر کے اختتام کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کنویں کے پاس تشریف لائے جس میں کہ ان مجرمین کی لاشیں گھسیٹی گئی تھیں، اس کی منڈیر پر کھڑے ہو کر ان میں سے ایک ایک شخص کا نام لے کر پکارا:
اے ابو جہل بن ہشام! اے عتبہ بن ربیعہ! اے شیبہ بن ربیعہ! اے امیہ بن خلف! تمہارے رب نے تم سے جس عذاب کا وعدہ کیا تھا کیا تم نے اسے نہیں پایا؟ اور میرے رب نے مجھ سے جس فتح و نصرت کا وعدہ فرمایا تھا اسے میں نے دیکھ لیا۔

✨ حضرت عمرؓ گویا ہوئے:
یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! آپ ایسے جسموں سے مخاطب ہیں جس میں روحیں نہیں ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
عمر! تم ان سے بہتر نہیں سن رہے ہو۔

✨حضرت قتادہ ؓ کہتے ہیں:
کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں تھوڑی دیر کے لئے زندہ کر دیا تھا تاکہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ان باتوں کو سنیں اور ان کی حسرت، ندامت، ذلت و رسوائی اور روسیاہی میں مزید اضافہ ہو جائے۔
(بخاری)