اعضاء انسانی میں زبان کی حیثیت:


انسان کے اعضاء میں زبان ایک ایسا عضو ہے جو ہے تو چھوٹا لیکن بہ نسبت دوسرے اعضاء کے اس کو خاص قسم کی اہمیت حاصل ہے۔ گو عضو چھوٹا سا ہے لیکن اس کے کرشمے بڑے بڑے ہیں۔ اس کی خوبیاں بھی بہت ہیں۔ اور خرابیاں بھی بہت ہیں۔ اس کی وجہ سے آخرت کے بڑے بڑے درجات بھی نصیب ہوتے ہیں کیونکہ اس سے بڑی بڑی نیکیاں صادر ہوتی ہیں، اور دوسرے اعضاء جو نیک کام کرتے ہیں عموماً ان میں بھی زبان کی معاونت اور شرکت ہوتی ہے۔

دوسرا رخ یہ ہے کہ زبان سے بہت سے گناہ ہوتے ہیں، اور دوسرے اعضاء کے گناہوں میں بھی اس کی معاونت اور شرکت ہوتی ہے۔ کفر اور شرک کے کلمات زبان ہی سے نکلتے ہیں۔ جھوٹی قٙسم اس سے کھائی جاتی ہے اور جھوٹی گواہی اسی کے ذریعے دی جاتی ہے۔ غیبت، بہتان، چغلی، کسی کا مذاق بنانا، کافروں فاسقوں کی تعریف کرنا، تہمت لگانا، اور اسی طرح کے بڑے بڑے گناہ اس سے صادر ہوتے ہیں۔ بعض مرتبہ منہ سے بات نکل جاتی ہے۔ جس کی طرف دھیان بھی نہیں جاتا اور اس کی وجہ سے انسان دوزخ میں گرتا چلا جاتا ہے۔حضرت سفیان بن عبداللہ ثقفی رضی اللّٰہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کو مجھ پر سب سے زیادہ کس چیز کا خوف ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی زبان مبارک پکڑی اور فرمایا کہ سب سے زیادہ اس کا خوف ہے۔
(ترمذی)


🌺 زبان کی کھیتیاں:


ایک مرتبہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت معاذؓ کو چند باتیں بتائیں، پھر آخر میں فرمایا:
کیا میں تم کو ایسا عمل نہ بتاؤں جس کے ذریعے ان سب چیزوں پر قابو پا سکو گے۔(جو پہلے ذکر ہوئیں)۔

حضرت معاذؓ نے عرض کیا،
یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ضرور ارشاد فرمائیے۔
اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زبان کو پکڑ کر فرمایا:
اس کو اپنے حق میں مصیبت میں روکنا۔
حضرت معاذؓ نے کہا کہ
اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! کیا ہمارے بولنے پر بھی گرفت ہو گی؟؟؟
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
اے معاذ! تم بھی عجیب آدمی ہو، لوگوں کو دوزخ میں منہ کے بل اوندھا گرانے والی جو چیزیں ہوں گی وہ ان کی زبانوں کی کاٹی ہوئی کھیتیاں ہی تو ہوں گی۔
(ترمذی)


🌺 انسان اپنے قدم سے اتنا نہیں پھسلتا جتنا اپنی زبان سے پھسلتا ہے:

🍃 حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ
"بلاشبہ بندہ کوئی کلمہ کہہ دیتا ہے، اور صرف اس لیے کہتا کہ ہے کہ لوگوں کو ہنسائے، اسی کلمہ کی وجہ سے ایسی (ہلاکت والی) گہرائی میں گرتا چلا جاتا جس کا فاصلہ اس سے بھی زیادہ ہوتا ہے جتنا فاصلہ آسمان اور زمین کے درمیان ہے۔ (پھر فرمایا کہ) بلاشبہ انسان اپنی زبان سے اتنا زیادہ پھسل جاتا ہے جتنا اپنے قدم سے (بھی) نہیں پھسلتا۔
(مشکوٰۃ المصابیح،/۴۱۳٬،ازبہیقی)



🌺 زیادہ بولنا سختِ دلی کا باعث ہے:


🍃 حضرت عبداللہ ابنِ عمرؓ سے روایت ہے کہ حضور اقدس صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ
اللّٰہ کے ذکر کے علاوہ زیادہ باتیں نہ کیا کرو، کیونکہ اللّٰہ کے ذکر کے علاوہ زیادہ بات کرنا دل کی سختی کا باعث ہے، اور بلاشبہ اللّٰہ سے سب سے زیادہ دور وہی قلب ہے جو سخت ہے۔
(مشکوٰۃ المصابیح،۱۹۸،ازترمذی)


🍃 حضرت امِ حبیبہ رضی اللّٰہ عنہا سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
"انسان کی ہر بات (جو اس کے منہ سے نکلے) اس کے لیے وبال ہے اور نقصان کی چیز ہے، اس کے نفع کی چیز نہیں ہے، سواۓ اس کے امر بالمعروف کرے یا نہی عن المنکر کرے یا اللّٰہ کا ذکر کرے۔
(مشکوٰۃ المصابیح،۱۹۸،ازترمذی)


🌺 کم بولنا نعمت ہے:

🍃 حضرت ابوہریرہ رضی اللّٰہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اقدس صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ
جب تم کسی بندے کو دیکھو جسے دنیا سے بے رغبت ہونے کی اور کم بولنے کی نعمت دے دی گئی تو اس سے قریب ہو جاؤ (یعنی اس کی صحبت اختیار کرو) کیونکہ اس پر حکمت کا ارتقاء ہوتا ہے۔ (یعنی اس کے دل میں اللّٰہ پاک حکمت کی باتیں ڈالتے ہیں)۔
(مشکوۃالمصابیح،۴۴۶)

🍃 ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ
جس نے اپنی زبان کو محفوظ رکھا اللّٰہ تعالیٰ اس کی ان چیزوں کی پردہ پوشی فرمائیں گے جن کا ظاہر ہونا ناگوار ہوتا ہے۔ اور جس شخص نے اپنے غصہ کو روک لیا اللّٰہ تعالیٰ اس سے اپنے عذاب کو روک لے گا۔ اور جو شخص اللّٰہ کی بارگاہ میں معذرت پیش کرے (یعنی توبہ کرے) اللّٰہ تعالیٰ اس کی معذرت قبول فرمائے گا۔
(مشکوٰۃ المصابیح ،۴۳۴)



: 🌺 فضول کام اور لایعنی کلام نقصان دہ ہوتا ہے:

🍃 حضرت انس رضی اللّٰہ عنہ کا بیان ہے کہ صحابہؓ میں سے ایک شخص کی وفات ہو گئی۔ اس پر ایک شخص نے کہا کہ تو جنت کی بشارت سے خوش ہو جا۔ حضور اقدس صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی بات سن کر فرمایا کہ (تم خوشخبری دے رہے ہو) اور تمہیں معلوم نہیں کہ (اس کے اعمال کیا تھے) ممکن ہے کہ اس نے کوئی لایعنی بات کہی ہو، یا ایسی چیز کے خرچ کرنے میں کنجوسی کی ہو، جو خرچ کرنے سے نہیں گھٹتی۔
(مشکوٰۃ المصابیح،۴۱۳، ترمذی)

▪حضور اقدس صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے بشارت دینے والے صاحب کو تنبیہہ فرمائی کہ تم کیسے یقین کے ساتھ اس کو جنتی کہہ رہے ہو۔ ہر شخص کے پورے احوال و افعال اور اعمال و اشغال ہر ایک کے سامنے نہیں ہوتے۔ لہٰذا یقین کے ساتھ ایسی بات نہ کہی جائے جس سے غیب دانی کا دعویٰ ہو۔ البتہ مرنے والے کے لیے دعا اور استغفار کرے اور اس کی خوبیاں بیان کرے اور اللّٰہ سے اس کے لیے بہتری کی امید رکھے۔


🌺 زبان کو قید میں رکھنے کی ضرورت ہے:

🍃 حضرت عبداللہ ابنِ مسعودؓ نے فرمایا کہ جتنا زبان کو قابو میں رکھنے کی ضرورت ہے کسی دوسری چیز کو اس قدر مقید رکھنا کوئی ضروری نہیں (کیونکہ زبان کی آفات بہت زیادہ ہیں)۔ انسان کے ساتھ گناہوں کے بوجھ بندھوانے میں زبان سب اعضاء سے بڑھ کر ہے۔ گناہوں سے بچانا سب اعضاء کو ضروری ہے، لیکن زبان کی دیکھ بھال اور اس پر قابو پانا سب سے زیادہ اہم ہے۔

🍃 حضرت یونس ابنِ عبیدؓ نے فرمایا کہ جو شخص زبان کو غور کر کے استعمال کرتا ہے، میں اس کے اعمال اچھے دیکھتا ہوں۔

🍃 اور ایک بزرگ نے فرمایا کہ اپنی بات کو مال کیطرح محفوظ رکھو، اور جب خرچ کرنا چاہو تو خوب دیکھ بھال کر اور خوب سوچ کر خرچ کرو۔