🔥 زبان کی حفاظت سے متعلق واقعات:


🌹حضرت ابوبکر صدیقؓ کا واقعہ:

🍃 ایک دن حضرت عمرؓ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے پاس گئے۔ وہاں پہنچےتو دیکھا کہ حضرت صدیقؓ اپنی زبان کھینچ رہے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ نے عرض کیا کہ ہائیں،اللہ آپ کو بخشے یہ کیا کر رہے ہیں۔حضرت صدیقؓ نے فرمایا کہ اس نے مجھے ہلاکت کے مواقع میں پہنچا دیا ہے، اس لیے کھینچ رہا ہوں۔
(مؤطا)


🌹 حضرت ابوہریرہؓ کی احتیاط:

حضرت ابوہریرہ رضی اللّٰہ عنہ کی قوتِ حافظہ مشہور ہے۔ تمام صحابہ کرام سے زیادہ قوی الحفظ تھے۔ ان کو اپنے حافظہ پر بڑا ناز تھا۔ اس کے باوجود ذرا سا شبہ ہوتا تو حدیث بیان کرنے سے ہچکچاتے تھے۔
بخاری و مسلم میں ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللّٰہ عنہ نے رسول اکرم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کی کہ (قیامت کے دن) دوبارہ جو صور پھونکا جائے گا ان دونوں کے درمیان چالیس کا فاصلہ ہو گا۔ حاضر ین نے دریافت کیا کہ
اے ابوہریرہؓ! (کیا چالیس؟)۔ آیا چالیس دن؟ جواب دیا
، میں نہیں کہہ سکتا۔ عرض کیا تو چالیس مہینے؟ فرمایا، میں نہیں کہہ سکتا۔ پھر دریافت کیا کہ آیا چالیس سال؟ جواب دیا کہ میں نہیں کہہ سکتا۔
سبحان اللہ! سب سے بڑے حافظ ومحدث کی یہ احتیاط ہے۔

⚡ علامہ نووی رحمتہ اللہ علیہ حدیث بالا کے ذیل میں لکھتے ہیں:
(یعنی اس حدیث میں جھوٹ کا سخت حرام ہونا بیان کیا گیا ہے، اور یہ بتایا ہے کہ جو شخص کوئی بات بیان کر رہا ہو اور غالب گمان ہے کہ وہ جھوٹ ہے تو یہ روایت کرنے والا جھوٹا ہو گا۔ اور کیونکر جھوٹا نہ ہو گا، جبکہ وہ ایسی چیز کی خبر دے رہا ہے (جو حقیقت میں نہیں ہے)۔


🌹 حضرت ماعز اسلمیؓ کا واقعہ:


حضرت ماعز اسلمیؓ ایک صحابی تھے۔ ان سے ایک مرتبہ ایک گناہ (زنا) صادر ہو گیا۔ انہوں نے بارگاہِ رسالت میں آ کر چار مرتبہ گناہ کا اقرار کیا۔ ہر بار آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی طرف سے بےتوجہی برتتے رہے۔ لیکن وہ برابر اقرار کرتے رہے۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ:
اس بات کے کہنے سے تمہارا کیا مطلب ہے؟؟؟
انہوں نے عرض کیا کہ؛
آپ مجھے پاک فرما دیں۔
اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو سنگسار کرنے یعنی پتھروں سے مارنے کا حکم دیا۔ چنانچہ ان کو سنگسار کر دیا گیا۔
اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے صحابہؓ میں سے دو آدمیوں کی یہ بات سنی کہ ایک دوسرے سے کہہ رہا ہے کہ اس کو دیکھو اللہ نے اس کی پردہ پوشی کی، پھر اس کے نفس نے نہیں چھوڑا یہاں تک کہ (اس نے خود آکر گناہ کا اظہار اور اقرار کیا اور) اس کو سنگسار کر دیا گیا جیسے کتے کو سنگسار کیا جاتا ہے۔
ان کی یہ بات سن کر اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خاموشی اختیار فرمائی۔ پھر تھوڑی دیر چلتے رہے، یہاں تک کہ ایک مردہ گدھے پر گزر ہوا، جس کی ٹانگ اوپر کو اٹھی ہوئی تھی۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان دونوں شخصوں کو بلایا (جنہوں نے مذکورہ کلمات کہے تھے) اور فرمایا کہ فلاں فلاں کہاں ہیں؟؟؟
ان دونوں نے عرض کیا کہ
یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم حاضر ہیں۔ فرمایا:
تم دونوں اترو اور اس مردہ گدھے کی لاش میں سے کھاؤ
ان دونوں نے کہا،
اے اللہ کی نبی! اس میں سے کون کھائے گا؟؟؟
فرمایا:
جو تم نے ابھی اپنے بھائی کی بے آبروئی کی (یعنی غیبت کی اور برا کہا) وہ اس کے کھانے سے بھی زیادہ سخت ہے۔ قسم اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، بلاشبہ یہ شخص (یعنی حضرت ماعز اسلمیؓ اپنی سچی توبہ اور ندامت کیوجہ سے) جنت کی نہروں میں غوطے لگا رہا ہے۔
(سنن ابوداؤد)


🌹 دو روزہ دار عورتوں کا عجیب واقعہ:


حضرت عبیدؓ سے روایت ہے کہ دو عورتوں نے روزہ رکھا ہوا تھا۔ ایک شخص آیا اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! یہاں دو عورتیں ہیں جنہوں نے روزہ رکھا ہوا ہے۔ اور قریب ہے کہ وہ پیاس سے مر جائیں۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خاموشی اختیار فرمائی۔
وہ شخص دوپہر کے وقت پھر آیا اور عرض کیا یا نبی اللہ، اللہ کی قسم وہ مر چکی ہیں یا مرنے کے قریب ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
ان دونوں کو بلاؤ۔
چنانچہ وہ دونوں حاضر ہو گئیں اور ایک پیالہ لایا گیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان میں سے ایک عورت سے فرمایا، قے کر۔ چنانچہ اس نے قے کی تو پیپ اور خون اور گوشت (کے ٹکڑے) نکلے جس سے آدھا پیالہ بھر گیا۔ پھر دوسری عورت کو قے کرنے کا حکم فرمایا۔ چنانچہ اس نے بھی پیپ اور خون اور آدھ کچرے گوشت وغیرہ کی قے کی، یہاں تک کہ پورا پیالہ بھر گیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
ان دونوں نے حلال چیزوں کو چھوڑ کر روزہ رکھ لیا اور جو چیزیں اللہ تعالیٰ نے حرام فرمائی تھیں ان کے چھوڑنے کا روزہ نہ رکھا۔ (بلکہ اس میں مشغول رہیں) ان میں سے ایک دوسری کے پاس بیٹھی اور دونوں لوگوں کے گوشت کھاتی رہیں (یعنی غیبت کرتی رہیں)۔
(البیہقی، مجمع الزوائد)