🌹 زبان کی حفاظت کے فائدے:


🌟1. نجات:

سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
جو شخص خاموش رہا اس نے نجات پائی۔
علامہ البانی رحمتہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے۔


🌟2. جنت کی ضمانت:

سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
جو شخص مجھے اپنے دو جبڑوں کے درمیان کی چیز (زبان) کی اور دونوں ٹانگوں کے درمیان کی چیز (شرمگاہ) کی ضمانت دے دے تو میں اس کے لئے جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔
(بخاری)


🌟3. افضل ترین مسلمان:

سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مسلمانوں میں سے افضل آدمی کے متعلق پوچھا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔
(المسلمین)


🌟4. ایمان کی درستگی:

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
آدمی کا ایمان اس وقت تک درست نہیں ہو سکتا جب تک اس کا دل سیدھا نہ ہو جائے، اور دل اس وقت تک سیدھا نہیں ہو سکتا جب تک زبان سیدھی نہ ہو جائے۔
(أخرجہ أحمد و صححہ الالبانی)


🌟5. تمام انسانی اعضاء کی درستگی:

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ
"جب صبح ہوتی ہے تو انسان کے تمام اعضاء اس کی زبان سے التجاء کرتے ہیں کہ
اللہ سے ڈر! ہم بھی تیرے ساتھ ہیں، اگر تو سیدھی ہو گی تو ہم بھی سیدھے ہوں گے اور اگر تو ٹیڑھی ہو گئی تو ہم سب بھی ٹیڑھے ہو جائیں گے۔
(جامع ترمذی کتاب الزھد)


: 🌟6.اللّٰہ کی ناراضگی سے بچاؤ:

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ
(بعض وقت) بندہ اللہ کی رضامندی کی بات کرتا ہے اور اس کو پرواہ بھی نہیں ہوتی لیکن اس کے سبب سے اللہ تعالیٰ اس کے درجات بلند کرتا ہے اور بعض وقت بندہ اللہ تعالیٰ کو ناراض کرنے والی بات بولتا ہے اور اس کی پرواہ نہیں کرتا لیکن اس کے سبب سے وہ جہنم میں گر جاتا ہے۔
(صحیح بخاری، کتاب الرقاق)


🌟7. اللّٰہ اور یوم آخرت پر ایمان والا کام:

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
جو اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے، اسے چاہیے کہ وہ اچھی بات کرے یا خاموش رہے۔
(جامع ترمذی)


🌟8. جھنم سے نجات:

سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا:
اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! مجھے ایسا عمل بتائیے جو مجھے جنت میں لے جائے اور مجھے جہنم سے دور کر دے۔
(لمبی حدیث ہے جس کے آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا)
کیا میں تجھے ایسی بات نہ بتلاؤں؟ جس پر ان سب کا دارومدار ہے۔
میں نے کہا، کیوں نہیں، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔
پھر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی زبان پکڑی اور فرمایا:
اس کو روک رکھ
میں نے عرض کیا،
کیا ہم زبان سے جو گفتگو کرتے ہیں، اس پر بھی ہماری پکڑ ہو گی؟؟؟
نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
تیری ماں تجھےگُم پائے (یہ عربی محاورہ ہے کوئی بددعا ‏نہیں) جہنم میں لوگوں کو ان کی زبانوں کی کاٹی ہوئی کھیتیاں ہی اوندھے منہ گرائیں گی۔
(جامع ترمذی)‏


🌟9. فتنوں سے نجات:

عقبۃ ابنِ عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا:
اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! نجات کس طرح ممکن ہے؟؟؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
اپنی زبان کو قابو میں رکھو، تمہارا گھر تمہیں اپنے اندر سما لے (بغیر ضرورت کے گھر سے نہ نکلو) اور اپنی غلطیوں پر خوب آنسو بہاؤ۔
(جامع ترمذی)


🌟10.بہترین مسلمان:

بہترین مسلمان ہونے کے لئے کسی شخص کا لایعنی باتوں کو ترک کر دینا ہی کافی ہے۔

ابن القیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
آدمی قیامت کے دن نیکیوں کے پہاڑ لے کر آئے گا ،وہ دیکھے گا کہ اس کی زبان نے وہ تمام پہاڑ ملیامیٹ کر دیئے ہیں اور انسان گناہوں کے پہاڑ لیکر آئے گا اور وہ دیکھے گا کہ اللہ کے ذکر اور اس جیسی چیزوں سے وہ گناہوں کے پہاڑ ریزہ ریزہ ہو گئے ہیں۔​
(ترمذی)



🌹 زبان کی حفاظت کے اصول و تدابیر:


مندرجہ ذیل کچھ اصولوں پر عمل پیرا ہو کر ہم کافی حد تک اپنی حیاتِ مستعار میں نکھار پیدا کر سکتے ہیں۔ اس لیے کہ بسااوقات انسان زبان کی وجہ سے ایسی مشکلات میں مبتلا ہو جاتا ہے، جن سے نکلنا امرِ مشکل ہو جاتا ہے اور ان کی وجہ سے زندگی میں موجود سکون بے سکونی میں تبدیل ہو جاتا ہے۔


🌷1.زبان پر شریعت کی لگام لگانا:

حضرت ابوہریرہ رضی اللّٰہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اقدس صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ
جو شخص اللّٰہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اس کو چاہیے کہ اپنے مہمان کا اکرام کرے اور جو شخص اللّٰہ پر آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیے کہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ دے اور جو شخص اللّٰہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیے کہ خیر کی بات کرے یا خاموش رہے۔
(بخاری، ۸۷۹، ج۲)


🌷2. جس مجلس میں زبان کی فصلیں کٹ رہی ہوں اس کا بائکاٹ کرنا:

ارشاد باری تعالی ہے:
اور جب بے ہودہ بات کان میں پڑتی ہے تو اس سے کنارہ کر لیتے ہیں۔
(سورةقصص: 55)

نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
اور جب آپ ان لوگوں کو دیکھیں جو ہماری آیات میں عیب جوئی کر رہے ہیں تو ان لوگوں سے کنارہ کش ہو جائیں یہاں تک کہ وہ کسی اور بات میں لگ جائیں اور اگر آپ کو شیطان بھلا دے تو یاد آنے کے بعد پھر ایسے ظالم لوگوں کے ساتھ مت بیٹھیں۔
(سورة الانعام :68)


🌷3. یہ یقین کہ کراماً کاتبین اعمال لکھ رہے ہیں:

اگر آدمی کو یقین ہو جائے کہ اس کی زبان سے نکلی ہوئی ہر چھوٹی بڑی بات لکھی جا رہی ہے تو زبان سے نکلے ہوئے ہر ہر کلمہ کی اہمیت کو محسوس کرے گا اور بولنے سے پہلے ضرور سوچے گا۔

ارشاد باری تعالی ہے:
جب دو (فرشتے) لکھنے والے اس کے دائیں اور بائیں بیٹھے سب ریکارڈ کرتے ہیں۔ وہ کوئی بات منہ سے نہیں نکالتا مگر اس کے پاس ایک تیار نگراں موجود رہتا ہے۔
(سورہ ق:17 تا 18)

دوسری جگہ فرمایا:
اور تم پر نگراں مقرر ہیں جو معزز ہیں، اعمال لکھنے والے ہیں وہ جانتے ہیں جو کچھ تم کرتے ہو۔
(سورةانفطار: 10 تا 12)


🌷4. قیامت کے دن زبان کے بولنے اور انسان کے خلاف گواہی دینے پر یقین:


ارشاد باری تعالی ہے
جس دن مجرموں کی اپنی زبانیں، ہاتھ اور پاؤں ان کے کرتوت سے متعلق ان کے خلاف گواہی دیں گے۔
(سورة نور: 24)

انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہنس پڑے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
تم لوگ پوچھو گے نہیں کہ میں کیوں ہنسا؟؟؟
پھر آپ نے خود فرمایا:
قیامت کے دن ایک بندے کا رب سے جھگڑنے پر مجھے تعجب ہو گا وہ کہے گا،
اے میرے پروردگار! کیا تیرا وعدہ نہیں ہے کہ تو میرے اوپر ظلم نہیں کرے گا؟؟؟
اللہ تعالی فرمائے گا:
کیوں نہیں،
بندہ کہے گا تو پھر آج میں اپنے نفس کے علاوہ کسی کی گواہی اپنے حق میں قبول نہیں کروں گا۔
اللہ تعالی فرمائے گا:
تیری گواہی کے لئے میں اور میرے کراماً کاتبین (فرشتے) کافی نہیں ہیں؟؟؟
نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
یہی با ت بار بار دہرائے گا پھر اس کے منہ کو بند کر دیا جائے گا اور اس کے کرتوتوں کی گواہی اس کے اعضاء و جوارح دیں گے۔
(منہ کھلنے کے بعد) بندہ کہے گا:
تمہارے لئے بربادی ہو میں تو تمہاری خاطر اللہ سے لڑ رہا تھا۔
(مستدرک حاکم)
🌷5. جہنم سے خوف:

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کس عمل کی وجہ سے لوگ جنت میں زیادہ جائیں گے؟؟؟
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
اللہ کا تقویٰ اور حسن خلق
اور پوچھا گیا کہ کس عمل کی وجہ سے لوگ جہنم میں زیادہ جائیں گے؟؟؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
منہ اور شرمگاہ
(سنن ترمذی)


🌷6. زبان کو ذکرِ الہٰی میں مشغول رکھنا:


وقت بہت قیمتی شے ہے۔ اس کی قدر کرنا بہت ضروری ہے اور ذکرِ الہٰی کے سوا اس کی حفاظت ناممکن ہے کیونکہ بندے سے لغو اور بے کار باتیں ہو جاتی ہیں اور ان فضول باتوں میں پڑ کر وقت ضائع ہو جاتا ہے۔

✨ حضرت حسان بن سنانؓ سے مروی ہے کہ آپ ایک بالا خانے کے پاس سے گزرے تو اس کے مالک سے دریافت کیا:
یہ بالا خانہ بنائے تمہیں کتنا عرصہ گزرا ہے؟؟؟
یہ سوال کرنے کے بعد آپ دل میں سخت نادم ہوئے اور نفس سے مخاطب ہو کر فرمایا:
اے مغرور نفس! تو فضول و لایعنی سوالات میں وقت عزیز کو ضائع کرتا ہے۔
پھر اس فضول سوال کے کفارے میں آپ نے ایک سال روزے رکھے۔

وہ لوگ کس قدر خوش نصیب ہیں جو وقتِ عزیز کی قیمت جان کر اس کی قدر کرتے ہیں اور اپنی اصلاحِ نفس میں مصروف رہتے ہیں اور کتنے بدقسمت اور احمق ہیں وہ لوگ جنہوں نے زبان کی لگام ڈھیلی چھوڑ رکھی ہے اور لغویات میں مشغول رہتے ہیں۔


🌷7. اس بات کا یقین کہ زبان سے اعمالِ صالحہ کی حفاظت:

زبان سے اعمالِ صالحہ کی حفاظت ہوتی ہے۔ کیونکہ جو شخص زبان کی نگہداشت نہیں کرتا، بلکہ ہر وقت گفتگو میں مصروف رہتا ہے، تو لامحالہ ایسا شخص لوگوں کی غیبت میں مبتلا ہو جاتا ہے اور غیبت اعمالِ صالحہ کو اس طرح تباہ کرتی ہے جس طرح آسمانی بجلی۔ غیبت کرنے والے آدمی کے اعمال اس طرح ضائع ہوتے ہیں جس طرح پتھر منجنیق (ایک طرح کی توپ) میں رکھ کر مشرق و مغرب اور جنوب و شمال میں پھینک دیے جائیں۔

✨ اسی لیے تو رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا :

جو چُپ رہا وہ سلامت رہا۔


🌹 خاموشی:


زبان کو شرور و آفات سے بچانے کے لئے خاموشی سے بہتر کوئی چیز نہیں، اور یہ عقل مندی کی نشانی بھی ہے، کیونکہ عقل مند سوچتا زیادہ اور بولتا کم ہے۔ جو جتنا زیادہ بولتا ہے، غلطیاں بھی اتنی ہی زیادہ کرتا ہے، اور جو سوچتا زیادہ، بولتا کم ہے، وہ غلطیاں بھی کم کرتا ہے۔

رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
جو شخص خاموش رہا وہ نجات پا گیا۔
(سنن ترمذی)


✨ بولنے میں بہت خطرات ہیں اور خاموشی بے خطر چیز ہے۔ حضرت عبداللہ ابنِ عمر رضی اللہ عنہٗ نے بیان فرمایا کہ
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
یعنی جس نے خاموشی اختیار کی اس نے بہت سی آفات و مہلکات سے نجات پائی۔
(مشکوٰۃ المصابیح)

✨ حضرت ابوذر کو نصیحت:

ایک مرتبہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابوذر کو بہت سی نصحیتیں فرمائیں ان میں ایک یہ بھی تھی۔
یعنی تم لمبی خاموشی اختیار کرو کیونکہ اس کے ذریعہ شیطان ذلیل ہو کر دور ہو گا اور اس سے تمہارے دینی کاموں میں مدد ملے گی۔
(مشکوٰۃ)

کیوں کہ شیطان زبان ہی کے ذریعہ انسان پر زیادہ قابو پاتا ہے اگر کسی نے زبان بند رکھی تو شیطان کے حربہ اور حملہ سے بہت زیادہ محفوظ رہے گا اور دینی امور انجام دینے میں اس کی اللّٰہ پاک کی طرف سے مدد ہوتی رہے گی۔


✨ طویل خاموشی کا حکم:

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابوذر کو خطاب کر کے فرمایا:
کیا میں تم کو کوئی ایسی باتیں نہ بتا دوں جن پر عمل کرنا بہت ہلکی اور آسان چیز ہے اور اعمال کے ترازو میں خوب بھاری ہو گی۔
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ ضرور ارشاد فرمائیے؛ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
ان میں سے ایک تو طویل خاموشی ہے اور دوسری چیز اچھے اخلاق ہیں۔
پھر فرمایا:
قسم اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے ساری مخلوق نے ان دو کاموں جیسا (فائدہ مند) عمل نہیں کیا۔
(مشکوٰۃ)

💫 خاموشی کی عادت:

زبان کی حفاظت کا اصل طریقہ یہ ہے کہ ہم خاموش رہنے کی عادت بنائیں۔ اصل عادت بولنے کی نہ بنائیں اور جہاں ضرورت ہو وہاں بلاشبہ بولیں، دین کی یا دنیا کی جہاں جائز ضرورت ہو، چاہے خوش طبعی ہو، چاہے اعتدال کے ساتھ کسی کو تکلیف پہنچائے بغیر ہنسی مذاق ہو، چاہے مزاج پرسی ہو، وہاں بقدر ضرورت بولیں۔ البتہ بلاضرورت اور فضول بولنے کی عادت چھوڑ دیں اور زیادہ وقت خاموش رہیں اور اس خاموشی میں کلمہ طیبہ لا الہ الا اللہ کا ورد کرتے رہیں اور جب خاموش رہنے کی عادت پڑ جائے گی تو انشاء اللہ فضول گوئی کا مرض جاتا رہے گا۔ پھر انشاء اللہ گناہ کی دیگر باتیں بھی چھوٹنی شروع ہو جائیں گی۔اور جب بولیں تو پہلے چند سیکنڈ کے لئے سوچیں کہ جو باتیں میں کرنا چاہ رہا ہوں، وہ فضول یا گناہ کی باتیں تو نہیں ہیں۔ جب اس طرح سوچ کر بولنے کی عادت ڈالیں گے تو انشاء اللہ رفتہ رفتہ اچھی باتیں زبان سے نکالنے کی عادت پڑ جائے گی اور بری باتیں چھوٹنی شروع ہو جائیں گی۔