🌹 والدین کے ساتھ حسنِ سلوک:



اللہ رب العزت نے انسانوں کو مختلف رشتوں میں پرویا ہے، ان میں کسی کو باپ بنایا ہے تو کسی کو ماں کا درجہ دیا ہے اور کسی کو بیٹا بنایا ہے تو کسی کو بیٹی کی پاکیزہ نسبت عطا کی ہے؛ غرض ر شتے بنا کر اللہ تعالیٰ نے ان کے حقوق مقرر فرما دیئے ہیں، ان حقوق میں سے ہر ایک کا ادا کرنا ضروری ہے، لیکن والدین کے حق کو اللہ رب العزت نے قرآنِ کریم میں اپنی بندگی اور اطاعت کے فوراً بعد ذکر فرمایا، یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ رشتوں میں سب سے بڑا حق والدین کا ہے۔

✨ والدین سے حسنِ سلوک کو اسلام نے اپنی اساسی تعلیم قرار دیا ہے اور ان کے ساتھ مطلوبہ سلوک بیان کرنے کے لئے ’’احسان‘‘ کی جامع اصطلاح استعمال کی، جس کے معانی کمال درجہ کا حسن سلوک ہے۔

▪ ہر مرد اور عورت پر اپنے ماں باپ کے حقوق ادا کرنا فرض ہے۔ والدین کے حقوق کے بارے میں قرآنِ کریم میں ارشاد ہوتا ہے۔

اور تیرے ربّ نے حکم دیا کہ تم صرف اس کی ہی عبادت کرو اور اپنے ماں باپ کے ساتھ حسنِ سلوک کیا کرو۔ اگر تیرے پاس ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کو کبھی اُف تک نہ کہو (یعنی ہوں بھی مت کرنا) اور نہ ہی ان کو جھڑکنا اور ان سے خوب اَدب سے بات کرنا اور ان کے سامنے شفقت و محبت سے انکساری کے ساتھ جھکے رہنا اور یوں دعا کرتے رہنا کہ اے پروردگار! ان دونوں پر رحمت فرما جیسے اُنہوں نے مجھ کو بچپن میں پالا اور پرورش کی۔
(سورة اسراء:23 تا 24)

💫 حضرت تھانوی رحمتہ اللہ نے بیان القرآن میں ”اف“ کا ترجمہ ”ہوں“ سے کیا ہے کہ اگر ان کی کوئی بات نا گوار گزرے تو ان کو جواب میں ہوں بھی مت کہنا۔
اللہ رب العزت نے بڑھاپے کی حالت کو خاص طور سے اس لیے ذکر فرمایا کہ والدین کی جوانی میں تو اولاد کو نہ ہوں کہنے کی ہمت ہوتی اور نہ ہی جھڑکنے کی، جوانی میں بدتمیزی اور گستاخی کا اندیشہ کم ہو تا ہے؛
البتہ بڑھاپے میں والدین جب ضعیف ہو جاتے ہیں اور اولاد کے محتاج ہوتے ہیں تو اس وقت اس کا زیادہ اندیشہ رہتا ہے۔ پھر بڑھاپے میں عام طور سے ضعف کی وجہ سے مزاج میں چڑچڑا پن اور جھنجھلاہٹ پیدا ہوتی ہے، بعض دفعہ معمولی باتوں پر بھی والدین اولاد پر غصہ کرتے ہیں، تو اب یہ اولاد کے امتحان کا وقت ہے کہ وہ اس کو برداشت کر کے حسنِ سلوک کا مظاہرہ کرتے ہیں، یا ناک بھوں چڑھا کر بات کا جواب دیتے ہیں، اس موقع کے لیے اللہ تعالی نے یہ حکم دیا ہے کہ جواب دینا اور جھڑک کر با ت کرنا تو دور کی بات ہے، ان کو اف بھی مت کہنا اور ان کی بات پر معمولی سی ناگواری کا اظہا ر بھی مت کرنا۔

💫حضرت علیؓ نے فرمایا کہ
اگر والدین کی بے ادبی میں اف سے کم درجہ ہوتا تو بھی اللہ جلَّ شانہُ اسے بھی حرام فرما دیتے۔
(الدالمنثور)

⚡ اس لئے قرآنِ حکیم میں والدین کی دلجوئی اور راحت پہنچانے کے احکام دینے کے ساتھ انسان کو اس کا زمانہ طفولیت (یعنی بچپن کا زمانہ) یاد دلایا کہ کسی وقت تم بھی اپنے والدین کے اس سے زیادہ محتاج تھے جس قدر آج وہ تمہارے محتاج ہیں تو جس طرح انہوں نے اپنی راحت و خواہشات کو اس وقت تم پر قربان کیا اور تمہاری بےعقلی کی باتوں کو پیار کے ساتھ برداشت کیا اب جبکہ ان پر محتاجی کا یہ وقت آیا تو عقل و شرافت کا تقاضا ہے کہ ان کے ان سابق احسان کا بدلہ ادا کرو۔


🌹 والدین کے ساتھ حسنِ سلوک ازروئے قرآن:


☘ قرآن مجید نے والدین سے حسنِ سلوک کا نہ صرف حکمِ الٰہی بیان کیا ہے بلکہ حسنِ سلوک کے لیے عقلی دلیل بھی مہیا کی ہے:

ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے متعلق نصیحت کی ہے، اس کی ماں نے دکھ پر دکھ اٹھا کر اسے حمل میں رکھا اور اس کی دودھ چھڑائی دو برس میں ہے کہ تو میری اور اپنے ماں باپ کی شکر گزاری کر، ( تم سب کو) میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے۔
(سورة لقمان:14)

☘اور ہم نے انسان کو اپنے ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس کی ماں نے اس کو بڑی مشقت کے ساتھ پیٹ میں رکھا اور بڑی مشقت کے ساتھ اس کو جنا اور اس کو پیٹ میں رکھنا اور دودھ چھڑانا تیس مہینے (میں پورا ہوتا ہے) یہاں تک کہ جب وہ اپنی جوانی کو پہنچ جاتا ہے اور چالیس برس کو پہنچتا ہے تو کہتا ہے:
اے میرے پروردگار! مجھ کو اس پر مداومت دیجئے کہ میں آپ کی نعمتوں کا شکر کیا کروں جو آپ نے مجھ کو اور میرے ماں باپ کو عطا فرمائی ہیں اور میں نیک کام کروں جس سے آپ خوش ہوں اور میری اولاد میں بھی میرے لیے خیر پیدا کر دیجئے، میں آپ کی جناب میں توبہ کرتا ہوں اور میں فرمانبردار ہوں۔
(سورة الاحقاف: 15)

☘ قرآن نے تمام انبیائے کرام کے پیغامِ رسالت میں والدین کی برتر حیثیت کو بیان کیا ہے اور مطلقہ احکام کی صورت میں بھی والدین کو توحید کے بعد سب سے اونچا درجہ دیا ہے:

اور وہ زمانہ یاد کرو جب ہم نے بنی اسرائیل سے قول و قرار لیا کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت مت کرنا اور ماں باپ کی اچھی طرح خدمت کرنا۔
(سورة البقرة:83)

☘ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے بچپن میں جو گفتگو کی تھی، اس میں بھی والدہ سے حسنِ سلوک کا خاص تذکرہ ہے:

اور مجھ کو برکت والا بنایا، میں جہاں کہیں بھی ہوں اور اس نے مجھے نماز اور زکوٰة کا حکم دیا جب تک میں دنیا میں زندہ رہوں اور اپنی والدہ کے ساتھ حُسنِ سلوک کرنے والا ہوں اور مجھ کو سرکش بدبخت نہیں بنایا۔
(سورة مریم: 31 تا 32)

☘ حضرت یحییٰ علیہ السلام کی صفات بیان کرتے ہوئے والدین کے ساتھ ان کے حسن سلوک کا خصوصی ذکر کیا:

اور وہ اپنے والدین کے خدمت گزار تھے اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے والے نہ تھے۔
(سورة مریم: 14)

☘(اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ (خدا کی راہ میں) کس طرح کا مال خرچ کریں۔ کہہ دو کہ (جو چاہو خرچ کرو لیکن) جو مال خرچ کرنا چاہو وہ (درجہ بدرجہ اہلِ استحقاق یعنی) ماں باپ اور قریب کے رشتے داروں کو اور یتیموں کو اور محتاجوں کو اور مسافروں کو (سب کو دو) اور جو بھلائی تم کرو گے خدا اس کو جانتا ہے۔
(سورة البقرة: 215)



🌹 والدین سے حسنِ سلوک ازروئے حدیث:


🌿 حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
اس کی ناک خاک آلود ہوئی، اس کی ناک خاک آلودہ ہوئی، اس کی ناک خاک آلودہ ہوئی،
عرض کیا گیا:
اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
کس کی؟؟؟
فرمایا، جس نے ماں باپ میں سے ایک کو یا دونوں کو بڑھاپے میں پایا اور پھر جنت میں داخل نہ ہوا۔
(صحیح مسلم)

🌿 نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے:
جو اپنے والدین کی نافرمانی کرتا ہے وہ ملعون ہے۔
(صحيح الترغيب)

🌿 ایک حدیث میں والد کی رضا اور خفگی کو ربّ کی رضا اور خفگی قرار دیا گیا ہے:
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
ربّ کی رضا والد کی رضا میں ہے اور رب کی ناراضگی والد کی ناراضگی میں ہے۔
(سنن ترمذی)

🌿 اور نیکیوں میں سے سب سے بڑی نیکی والدین کے دوستوں سے تعلق کو قرار دیا گیا ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
بلا شبہ نیکیوں میں سب سے بڑی نیکی باپ سے محبت رکھنے والوں سے اس کے چلے جانے کے بعد تعلق رکھنا ہے۔
(صحیح مسلم)

🌿 حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ
اس نے پیارے آقا علیہ الصلوة والسلام سے پوچھا کہ اللہ کے نزدیک محبوب ترین عمل کیا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا! وقت پر نماز پڑھنا.
میں نے پوچھا اس کے بعد
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا! والدین کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا۔
(صحیح بخاری)

🌿 حضرت ابوبکرؓ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
خداۓ پاک تمام گناہ جیسے چاہتا ہے معاف فرما دیتا ہے۔ ہاں مگر والدین کی نافرمانی اور ناراضگی کی سزا اس دنیا میں مرنے سے پہلے مل جاتی ہے۔
(حاکم)

🌿 حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے والدین کی خدمت کرنے کو جہاد سے افضل قرار دیا۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں شریکِ جہاد ہونے کی اجازت لینے کے لئے حاضر ہوا، آپ نے اس سے دریافت کیا:
کیا تمہارے والدین زندہ ہیں؟؟؟ اس نے عرض کیا کہ ہاں زندہ ہیں۔
آپ نے فرمایا:
بس اب تم ماں باپ کی خدمت میں رہ کر جہاد کرو یعنی ان کی خدمت سے ہی جہاد کا ثواب مل جائے گا۔
(بخاری)

🌿 نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے:

تین شخص ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ان کی طرف نہیں دیکھے گا: والدین کا نافرنان، مردوں کی مشابہت اختیار کرنے والی عورت اور دیوث(بے غیرت خاوند)، نیز تین شخص جنت میں داخل نہ ہوں گے۔ ماں باپ کا نافرمان، ہمیشہ شراب پینے والا اور دے کر احسان جتلانے والا۔
(صحيح النسائی)

🌿 حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، وہ فرماتی ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اس کے ساتھ ایک بوڑھا آدمی بھی تھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا کہ یہ بوڑھا کون ہے؟؟؟
اس شخص نے جواب میں کہا کہ یہ میرا باپ ہے، آپ علیہ السلام نے فرمایا:
یعنی ان کے آگے مت چلنا، مجلس میں ان سے پہلے مت بیٹھنا، ان کا نام لے کر مت پکارنا، ان کو گالی مت دینا۔
(معجم الاوسط، للطبرانی)

💥 والدین سے حسنِ سلوک کے متعلق اقوال:

💫 حضرت حسنؓ کا فرمان:

حضرت حسنؓ سے کسی نے دریافت کیا کہ ماں باپ کے ساتھ حسنِ سلوک کس طرح کیا جائے؟؟؟
تو انھوں نے فرمایا:
تو ان پر اپنا مال خرچ کر اور وہ تجھے جو حکم دیں اس کی تعمیل کر، ہاں اگر گناہ کا حکم دیں تو مت مان۔
(الدالمنثور)

💫 حضرت ابنِ عباسؓ کا ارشاد:

حضرت ابنِ عباسؓ نے فرمایا کہ والدین کے ساتھ حسنِ سلوک میں سے یہ بھی ہے کہ تم ان کے سامنے اپنے کپڑے بھی مت جھاڑو، کہیں کپڑوں کا غبار اور دھول ان کو لگ نہ جائے۔

💫 حضرت مجاہد رحمتہ اللہ کا قول:

حضرت مجاہد رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ
اگر والدین بوڑھے ہو جائیں اور تمھیں ان کا پیشاب دھونا پڑجائے تو بھی اف مت کہنا کہ وہ پچپن میں تمہارا پیشاب پاخانہ دھوتے تھے۔
(الدالمنثور)