🌹 حضرت اویس قرنی ؒ کا ناقابلِ فراموش واقعہ:


عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور فنا فی الرسول کی بات ہو گی توحضرت اویس قرنی ؒ کا تذکرہ لازمی ہو گا۔تاریخِ اسلام میں علمائے کرام نے حضرت اویس قرنی ؒ کے حالاتِ زندگی بیان کرتے ہوئے آپ کی نیکی، تقویٰ و پرہیزگاری اور زہد کے بہت سے واقعات تحریر کیے ہیں۔

✨ حضرت اویس قرنی ؒ کا اپنی ماں کی خدمت، اُن کی اطاعت و محبت میں فریفتہ رہنا اور خصوصاََ ماں کی محبت میں مشغول رہنا قابلِِ رشک ہے، اسی بے مایہ عشق اور محبتِ مادر اور اُن کی خدمت میں مستغرق رہنے نے آپ کو عاشقِ فنا سے عاشقِ بقاء بنا دیا۔

✨ حضرت اویس قرنی رحمتہ اللہ علیہ جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ طیبہ میں اپنی زندگی کے بیس سال گزارنے کے بعد بھی شرفِ صحابیت سے بہرہ ور نہ ہو سکے۔
وہ عاشق صادق اس بات سے بھی بخوبی آگاہ تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ مبارک کی ایک جھلک انہیں صحابیت کے مرتبے پر فائز کر سکتی ہے، جس سے ان کا مقام تابعیت کے درجے سے اونچا ہو گا مگر انہوں نے اپنی ضعیف ماں کی خدمت کی خاطر شرفِ ِصحابیت سے محروم ہونا گوارا کر لیا اور جیتے جی اپنی ماں کے قدموں سے دوری اختیار نہ کی۔ ماں کی خدمت گزاری میں بدستور لگے رہنے کا حکم بھی جناب آقا و مولا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہی تھا، جس کی تعمیل میں وہ زندگی بھر ماں کی خدمت میں محو رہے اور تادمِ آخر ماں کی خدمت گزاری کو مرتبہ صحابیت کے حصول پر ترجیح دیتے رہے۔

✨ ایک بار وہ عاشقِ صادق رحمتہ اللہ علیہ اپنی ماں کی اجازت سے شوقِ دید سے سرشار ہو کر اپنے آقا کی زیارت کے لئے مدینہ طیبہ حاضر ہوئے لیکن ماں کا حکم تھا کہ اگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر میں تشریف فرما ہوں تو مل لینا اور نہ ہوں تو انتظار نہ کرنا اور واپس پلٹ آنا۔ اتفاق کی بات تھی کہ جب حضرت اویس قرنی رحمتہ اللہ علیہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درِ دولت پر پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر سے کہیں تشریف لے جا چکے تھے۔ چنانچہ وہ آقائے دو جہاں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام یہ پیغام چھوڑ کر واپس لوٹ آئے کہ آپ کا اویس زیارت کے لئے حا ضر ہوا تھا مگر چونکہ ماں کی طرف سے انتظار کرنے کی اجازت نہ تھی، اس لئے بغیر ملاقات کے واپس جا رہا ہے۔

حضرت اویس قرنی رحمتہ اللہ علیہ نے جس طرح ماں کی خدمت کی ہے، وہ تاریخ انسانیت کا ایک نادرالوقوع واقعہ ہے، جس کی نظیر ملنا محال ہے۔

✨ حضرت اُویس قرنی رحمتہ اللہ علیہ کو ماں کی خدمت کے عوض نگاہِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں جو بلند مقام عطا ہوا اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی صحبت میں رہنے والے صحابہ کرام رضی ﷲ عنہم سے حضرت اویس قرنی رحمتہ اللہ علیہ کے فضائل اور درجات بیان فرمایا کرتے تھے۔

▪ اویس قر نیؒ کو خیرالتابعین کا لقب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان مبارک سے عطا ہوا۔

▪ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ کرام رضی ﷲ عنہم کو بتاتے تھے کہ میرے اویس کی یہ علامت ہے کہ اس کے ہاتھ پر داغ ہے اور اس کا مقام یہ ہے کہ اس کی دعا سے میرے لاکھوں امتیوں کی بخشش و شفاعت ہو گی۔

✨ سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﺟﺐ ﻟﻮﮒ ﺟﻨﺖ ﻣﯿﮟ ﺟﺎ ﺭﮨﮯ ﮨﻮﮞ ﮔﮯ ﺗﻮ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﻭﯾﺲ ﻗﺮﻧﯽ ﺑﮭﯽ ﭼﻠﯿﮟ ﮔﮯ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻓﺮﻣﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ کہ ﺑﺎﻗﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﺟﺎﻧﮯ ﺩﻭ ﺍﻭﺭ ﺍﻭﯾﺲ ﮐﻮ ﺭﻭﮎ ﻟﻮ۔ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﻭﯾﺲ قرنی رحمتہ اللہ علیہ ﭘﺮﯾﺸﺎﻥ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﯿﮟ ﮔﮯ ﮐﮧ
ﺍﮮ اللہ! ﻣﺠﮭﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﭘﺮ ﮐﯿﻮﮞ ﺭﻭﮎ ﻟﯿﺎ گیا؟
ﺗﻮ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻓﺮﻣﺎئے گا ﮐﮧ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﺩﯾﮑﮭﻮ؛ ﺟﺐ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﺩﯾﮑﮭﯿﮟ ﮔﮯ ﺗﻮ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﮐﺮﻭﮌﻭﮞ، ﺍﺭﺑﻮﮞ ﮐﮯ ﺗﻌﺪﺍﺩ ﻣﯿﮟ ﺟﮩﻨﻤﯽ ﮐﮭﮍﮮ ﮨﻮﮞ ﮔﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ اللہ ﻓﺮﻣﺎئے گا ﮐﮧ ﺍﻭﯾﺲ ﺗﯿﺮﯼ ﺍﯾﮏ ﻧﯿﮑﯽ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﮩﺖ ﺧﻮﺵ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ﻣﺎﮞ ﮐﯽ ﺧﺪﻣﺖﺗُﻮ ﺍﻧﮕﻠﯽ ﮐﺎ ﺍﺷﺎﺭﮦ ﮐﺮ، ﺟِﺪﮬﺮ ﺟِﺪﮬﺮ ﺗﯿﺮﯼ ﺍﻧﮕﻠﯽ ﭘﮭﺮﺗﯽ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﺗﯿﺮﮮ ﻃﻔﯿﻞ ﺍﻥ ﮐﻮ ﺟﻨﺖ ﻣﯿﮟ داخل کر دوں گا۔

✨ صحابہ کرام رضی ﷲ عنہم جب ماں کی خدمت کے باعث شرفِ صحابیت سے محروم رہنے والے اویس قرنی رحمتہ اللہ علیہ کے فضائل و اوصاف سنتے تو اُن کے دل میں موصوف کی زیارت کا اشتیاق پیدا ہوتا- ایک مرتبہ حضرت عمرؓ اور حضرت علی شیر خداؓ نے اس خواہش کا اظہار کیا اور عرض کیا یا رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! کیا ہماری نگاہیں حضرت اویس قرنی رحمتہ اللہ علیہ کو دیکھ سکیں گی؟
تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا؛ ہاں تم دونوں میرے اویس کو دیکھو گے۔



✨ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال فرمانے کے بعد امیرالمومنین سیدنا حضرت عمر فاروقؓ کا جب زمانۂ خلافت آیا۔ حج کے دنوں میں عرب کے دور و نزدیک سے لوگ حج کے لئے آئے تو حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ یمن سے آنے والے لوگوں کے مختلف وفود سے ملتے۔

اس خیال سے کہ حضرت اویس رحمتہ اللہ علیہ بھی دوسرے لوگوں کے ہمراہ حج کرنے کے لئے آئے ہوں گے۔

ایک ایک وفد سے ملتے اور پوچھتے کہ کیا تم میں اویس نامی شخص بھی کوئی ہے اور وہ قافلے والے کہتے کہ ہم میں اس نام کا کوئی شخص نہیں ہے۔ ہر وفد کا یہی جواب تھا کہ وہ کسی اویس کو نہیں جانتے۔ لوگوں کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ جناب عمر فاروقؓ اور حضرت علی شیر خُداؓ ایک ایسے شخص کے بارے میں پوچھ رہے ہیں جو دیوانہ ہے اور آبادیوں سے دور جنگلوں ویرانوں میں رہتا ہے اور جب شہر میں آتا ہے تو لڑکے اُسے پتھر مارتے ہیں۔

▪ جب انہوں نے علامات بتائیں تو لوگ کہنے لگے ہاں؛ قرن شہر سے دور ویرانے میں اس نام کا ایک شخص رہتا ہے۔ لیکن وہ دیوانا ہے۔ جب ہنسنے پر آئے تو ہنستا ہی رہتا ہے اور رونے پر آئے تو روتا ہی رہتا ہے۔

✨ حج کے بعد دونوں حضرات (حضرت عمر فاروق اور حضرت علی رضی ﷲ عنہم) یمن گئے اور کھوج لگاتے لگاتے اس ویرانے میں پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ حضرت اویس قرنی رحمتہ اللہ علیہ حالتِ نماز میں ہیں اور قریب ہی بکریاں چر رہی ہیں۔ جن پر بھیڑیے پہرہ دے رہے ہیں۔
حضرت اویس قرنی رحمتہ اللہ علیہ نماز سے فارغ ہوئے تو حضرت عمر فاروقؓ اور حضرت علیؓ نے اپنا تعارف کروایا۔

✨ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﻭﯾﺲ ﮐﺎ ﯾﮧ ﺳﻨﻨﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺗﮭﺮﺗﮭﺮ ﮐﺎﻧﭙﻨﮯ ﻟﮕﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺟﯽ ﻣﯿﮟ ﻣﻌﺎﻓﯽ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍٓﭖ ﮐﻮﭘﮩﭽﺎﻧﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ ﻣﯿﮟ ﺗﻮ ﭘﮩﻠﯽ ﺩﻓﻌﮧ ﺣﺞ ﭘﺮ ﺍٓﯾﺎ ﮨﻮﮞ۔ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮؓ نے ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺗﻢ ﺍﻭﯾﺲ ﮨﻮ؟
ﺗﻮ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ؛ ﮨﺎﮞ۔ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﺍﻭﯾﺲ ﮨﻮﮞ۔
ﺣﻀﺮﺕ عمرؓ ﻧﮯ فرمایا ﮐﮧ ﮨﺎﺗﮫ ﺍﭨﮭﺎئیے ﺍﻭﺭ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻟﯿﮯ ﺩﻋﺎ فرمائیں۔ ﻭﮦ ﺭﻭﻧﮯ ﻟﮕﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺩﻋﺎ ﮐﺮﻭﮞ؟
ﺍٓﭖ ﻟﻮﮒ ﺳﺮﺩﺍﺭ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﻧﻮﮐﺮ۔ ﺍٓﭖ کہاں ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ کہاں۔ جو ﺍٓﭖ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺩﻋﺎ ﮐﺮﻭﮞ؟ ﺗﻮﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮؓ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﮨﺎﮞ، ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ﮐﺎ ﺣﮑﻢ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﻭﯾﺲ ﺟﺐ ﺑﮭﯽ ملے ﺗﻮ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺩﻋﺎ ﮐﺮﻭﺍﻧﺎ۔ ﭘﮭﺮ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﻭﯾﺲ ﻗﺮﻧﯽ ﻧﮯ ﺩﻭﻧﻮﮞ اصحاب ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺩﻋﺎ ﮐﯽ۔


پھر حضرت اویس قرنی رحمتہ اللہ علیہ کہنے لگے کہ میرا وہ تحفہ مجھے دے دیجیے، جو میرے محبوبِ پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کو دیا تھا یہ وہ جبّہ تھا جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عمر فاروق اور حضرت علی رضی ﷲ عنہم کو دیا تھا کہ جب تم میرے اویس قرنی کو ملنا تو میری طرف سے یہ تحفہ پیش کر دینا۔

✨ یہ ملاقات بھی بڑی عجیب تھی۔ دونوں اصحاب ان سے مختلف باتیں پوچھتے مگر حضرت اویس قرنی رحمتہ اللہ علیہ ہر بات کے موضوع کو اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف لے جاتے اور کہتے کہ میرے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کوئی بات مجھ کو بتاؤ کہ وہ کیسے اٹھتے، بیٹھتے تھے، باتیں کیسے کرتے تھے، وہ صرف اور صرف محبوب پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ادائیں ہی پوچھتے رہے۔

▪ ہمارے لئے حضرت اویس قرنی رحمتہ اللہ علیہ کی زندگی مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتی ہے اور ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ اپنی خواہش کتنی ہی شدید کیوں نہ ہو، والدین کی خدمت میں رکاوٹ نہیں بننی چاہییے، ساتھ ہی تمام عُشّاقِ رسول کو اویس قرنی رحمتہ اللہ علیہ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت و محبت اور ادب کی لامنتہا منزلوں سے آشناء کرایا ہے، حضرت اویس قرنی رحمتہ اللہ علیہ جسمانی طور پر لاکھ دور سہی، لیکن جو فضل و کرم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا آپ ؒ پر ماں کی خدمت کی وجہ سے ہوا، وہ یقیناً قابلِ رشک و ستائش ہے۔




🌹 والدین سے حسنِ سلوک کے متعلق واقعات:


💥 ایک شخص کی فرمانبرداری کا انعام:

حضرت عمرو بن میمون سے روایت ہے کہ جب حضرت موسی علیہ السلام اللہ کی ملاقات کے لیے گئے تو وہاں عرش کے سائے تلے ایک شخص کو دیکھا اور اس کی حالت اتنی اچھی تھی کہ خود موسی علیہ السلام کو اس آدمی پر رشک آیا تو موسی علیہ السلام نے اللہ تعالی سے اس آدمی کے بارے میں پوچھا کہ اے اللہ! تیرا یہ بندہ کون ہے؟؟؟
اللہ تعالی نے فرمایا :
یہ شخص تین کام کرتا تھا:
✨جو چیزیں میں نے اپنے فضل و کرم سے لوگوں کو نعمتیں عطا کی ہیں ان پر حسد نہیں کرتا تھا۔
✨والدین کی نافرمانی نہیں کرتا تھا۔
✨چغل خوری نہیں کرتا تھا۔

(مکارم الاخلاق لابن ابی الدنیا)


💥 حضرت موسیٰ علیہ السلام کاجنتی پڑوسی:

ایک دن حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ﷲ تعالیٰ سے دریافت کیا۔
اے باری تعالیٰ! جنت میں میرا پڑوسی کون ہو گا۔
جواب آیا:
وہ ایک قصاب ہو گا اور فلاں بستی میں رہتا ہے۔

چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اس قصاب سے ملے اور فرمایا کہ کیا تم مجھے اپنا مہمان بنانا پسند کرو گے تاکہ میں جان سکوں کہ اﷲ تعالیٰ نے تمہیں یہ بلند مقام و مرتبہ کس عمل کی بدولت عطا کیا ہے کہ تو جنت میں میرا پڑوسی ہو گا؟؟؟

وہ قصاب حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بات سن کر آپ کو اپنے گھر لے آیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دیکھا کہ اس نے اپنی ماں کو پالنے سے نکالا اور اسے اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلایا۔ تب اس کی ماں نے اسے یہ دعا دی کہ
"ﷲ! تجھے جنت میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا پڑوسی بنائے‘‘۔
تب حضرت موسیٰ علیہ السلام کو معلوم ہوا کہ اس قصاب کو یہ بلند مقام ومرتبہ اپنی ماں کی دعا ؤں اورخدمت کی بدولت حاصل ہو اہے۔


💥علقمہ کی والدہ کا ناراض ہونا:


حضرت علقمہ رضی ﷲ عنہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بڑے جلیل القدر صحابی ہیں۔ آپ سے بہت سی احادیث مروی ہیں۔ آپ صوم و صلوٰۃ کے پابند تھے۔ صدقات اور خیرات میں بہت آگے تھے۔
ایک دن سخت بیمار ہو گئے، بیماری اس قدر شدت اختیار کر گئی کہ آپ کے نزع کا وقت قریب آ گیا یہاں تک کہ آپ کی بیوی نے رسول اللہ صلی علیہ وآلہ وسلم کو یہ پیغام بھیجا کہ یا رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کا صحابی حالتِ نزع میں ہے۔
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عمّار، حضرت بلال اور حضرت صہیب رضی ﷲ عنہم کو بھیجا کہ حضرت علقمہ کو کلمہ کی تلقین کریں۔

چنانچہ انہوں نے بہت کچھ کیا لیکن حضرت علقمہ رضی ﷲ عنہ کی زبان پر کلمہ طیبہ نہیں جاری ہو رہا تھا۔
جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو علم ہوا تو آپ نے فرمایا کہ
کیا اس کے والدین میں دونوں یا کوئی ایک زندہ ہیں۔
تو صحابہ کرام رضی ﷲ عنہم نے عرض کیا:
ہاں! اس کی بوڑھی ماں زندہ ہے۔
تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بڑھیا کے پاس پہنچے۔
جب کہ ایک روایت میں اس طرح ہے کہ حضرت علقمہ رضی ﷲ عنہ کی ماں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس بڑھیا سے پوچھا کہ بتاؤ تمہارا بیٹا علقمہ کیسا تھا۔ تو بڑھیا نے عرض کیا۔
یا رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! علقمہ بہت نیک آدمی ہے، نماز کا پابند ہے، خیرات و صدقات کرتا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کیا
"تو اپنے بیٹے سے راضی ہے یا کہ ناراض؟؟؟
تو حضرت علقمہ کی والدہ نے عرض کیا:
یا رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! میں علقمہ سے راضی نہیں ہوں۔
جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے ناراضگی کی وجہ پوچھی تو بڑھیا کہنے لگی کہ وہ میری بات نہیں مانتا تھا اور اپنی بیوی کے کہنے پر چلتا تھا اور اس کو مجھ پر فضیلت دیتا تھا۔
جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علقمہ کی ماں کی باتیں سنی تو آپ نے فرمایا کہ
تیری اس ناراضگی کی وجہ سے علقمہ کی زبان کلمہ شریف پڑھنے سے بند ہے۔

پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت بلال رضی ﷲ عنہ سے فرمایا کہ
اے بلال (رضی ﷲ عنہ) لکڑیاں جمع کر لو۔
تو بڑھیا نے پوچھا یا رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! لکڑیوں کو کیا کریں گے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ان لکڑیوں میں علقمہ کو جلاؤں گا۔
تو بڑھیا نے عرض کیا:
یا رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! علقمہ میرا بچہ ہے۔ اور میرا دل یہ گوارہ نہیں کرے گا کہ میں اس کو جلتے ہوئے دیکھوں۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ
وہ جہنم کی آگ میں جا رہا ہے۔ جو اس دنیا کی آگ سے زیادہ سخت ہے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ
مجھے اس ربّ کی قسم کہ علقمہ کو اس کی نماز، روزہ، صدقہ و خیرات اس وقت تک فائدہ نہ دے گا جب تک تُو اس کو معاف نہ کرے گی۔
تو بڑھیا نے عرض کیا کہ یا رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! میں اس سے راضی ہو گئی ہوں۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت بلال رضی ﷲ عنہ کو حضرت علقمہ رضی ﷲ عنہ کے پاس بھیجا اور حضرت بلال رضی ﷲ عنہ کہتے ہیں۔
کہ میں جب علقمہ رضی ﷲ عنہ کے دروازے پر پہنچا تو اندر سے کلمے کی آواز آ رہی تھی اور حضرت علقمہ رضی ﷲ عنہ کلمہ طیبہ پڑھتے ہوئے دنیا سے رخصت ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علقمہ رضی ﷲ عنہ کی نماز جنازہ پڑھائی۔


حضرت حارثہ بن نعمانؓ:


سیدہ عائشہ صدیقہؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
میں سویا تو میں نے خود کو (خواب میں) جنت میں دیکھا، میں نے (وہاں) ایک قاری کی آواز سنی جو قرآت کر رہا تھا۔ میں نے دریافت کیا:
یہ کون ہے؟؟؟
تو انہوں نے جواب دیا:
یہ حارثہ بن نعمان ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
اسی طرح نیکی (کا بدلہ) ہے، اسی طرح نیکی (کا بدلہ) ہے۔

اور وہ حارثہ لوگوں میں سب سے زیادہ اپنی والدہ کے ساتھ نیک سلوک کرنے والا تھا۔
(مسند احمد)


💥 امام احمد بن حنبل رحمتہ ﷲ علیہ کی والدہ کی خدمت:


اسی طرح فقہ حنبلی کے بانی امام احمد بن حنبل رحمتہ ﷲ علیہ اپنی والدہ کی خدمت کا ازحد خیال رکھتے تھے۔ امام احمد اپنی والدہ کے کپڑے خود اپنے ہاتھوں سے دھویا کرتے اور ان کے لئے کھانا بناتے اور ان کی دیگر ضروریات کا بھی بے حد خیال رکھتے تھے۔




💥 ماں کی خاطر امام اعظم ابوحنیفہ نعمان بن ثابتؓ کا فتویٰ پوچھنا:


ماں کی فرمانبرداری اور اطاعت کے حوالے سے ایک بہت دلچسپ اور سبق آموز روایت جو ہمارے لئے ایک نمونہ عمل اور سند کی حیثیت رکھتی ہے۔

دنیائے اسلام کے نامور مجتہد و فقیہہ اور 80 فیصد مسلمانوں کے مسلمہ پیشوا امام اعظم ابوحنیفہ نعمان بن ثابتؓ علم و حکمت اور فقہ کے امام ہوتے ہوئے بھی اپنی والدۂ محترمہ کے حکم کے تعمیل کرتے ہوئے ایک کم علم واعظ عمر بن ذرعہ کے پاس اپنی والدہ کا مسئلہ (فتوی) معلوم کرنے کے لئے جاتے ہیں تو وہ پہلے امام صاحب سے فتویٰ معلوم کرتے ہیں اور پھر اپنی زبان سے دھراتے ہیں، پھر امام اعظم ان کی زبان سے مسئلہ سن کر اپنی والدہ محترمہ کو بتاتے تھے۔

ایک مرتبہ امام اعظم سے آپ کی والدہ نے فتویٰ پوچھا تو آپ نے شریعت کی روشنی میں مسئلہ بتا دیا لیکن آپ کی والدہ نہیں مانیں اور کہا کہ میں تو یہ مسئلہ (قصہ گو واعظ) عمر بن ذرعہ سے معلوم کروں گی۔
چنانچہ امام اعظم ابوحنیفہ اپنی والدہ کو لے کر عمر بن ذرعہ واعظ کے پاس گئے اور ان سے کہا کہ میری والدہ آپ سے مسئلہ معلوم کرنا چاہتی ہیں تو انھوں نے عرض کیا کہ آپ سے بڑھ کر کون عالم اور فقیہہ ہو سکتا ہے؟؟؟
آپ خود فتویٰ بتا دیں۔
امام صاحب نے فرمایا کہ میں نے تو اس طرح فتویٰ دیا ہے تو ذرعہ نے کہا کہ آپ نے بجا طور پر درست فرمایا ہے، یہ سن کر امام صاحب کی والدہ راضی ہو گئیں اور امام صاحب کے ساتھ گھر واپس چلی گئیں۔
(الخیرات الحسان)




💥 امام محمد بن سیرین اور ماں کا ادب:


تعبیر رویا کے بہت بڑے امام محمد بن سیرین اپنی والدہ کے ساتھ حسنِ سلوک کا انتہائی خیال رکھتے تھے۔
آپ فرماتے ہیں۔
ﷲ کی قسم! والدہ کے گھر میں موجود ہوتے ہوئے میں کبھی اپنے گھر (کے مکان) کی چھت پر نہیں چڑھا، صرف اس خیال سے کہ میں ان سے اُونچا نہ ہو جاؤں۔

امام محمد بن سیرین رحمتہ ﷲ علیہ کا معمول تھا کہ وہ اپنی والدہ کی خدمت میں کھانا خود پیش کرتے اور اس وقت تک کھانا شروع نہیں کرتے تھے جب تک کہ ان کی والدہ کھانا شروع نہ کر دیتیں۔ نیز وہ اس برتن سے کھانا نہیں کھاتے تھے جس میں ان کی والدہ کھا رہی ہوتیں۔ جب ان سے اس کی وجہ پوچھی گئی تو انہوں نے فرمایا کہ:
میں ڈرتا ہوں کہ کہیں میری والدہ کی نگاہِ انتخاب کسی کھانے کی چیز پر پڑے اور میں اسے اٹھا کر کھا لوں اور ماں کا نافرمان بن جاؤں۔


💥حضرت بایزید بسطامی رحمتہ ﷲ علیہ کا ماں کی خدمت کا واقعہ:


سلطان العارفین تاجدارِ ولایت حضرت بایزید بسطامی رحمتہ ﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ مجھے ولایت کے جتنے بلند مراتب اور درجات حاصل ہوئے وہ سب میری والدہ کی دعاؤں اور خدمت و اطاعت کرنے سے حاصل ہوئے ہیں۔
ایک مرتبہ میری والدہ نے رات کے وقت مجھ سے پانی مانگا۔ اتفاق سے اس وقت گھر میں پانی موجود نہیں تھا۔ چنانچہ میں پانی لینے کیلئے گھر سے دور نہر جا پہنچا اور وہاں سے پانی لا کر واپس پہنچا تو والدہ سو گئیں تھیں۔
میں پانی لے کر ساری رات والدہ کے سرہانے کھڑا رہا اور شدید سردی کی وجہ سے پانی بھی انتہائی یخ (ٹھنڈا) ہو چکا تھا۔
صبح جب والدہ بیدار ہوئیں اور مجھے پانی لئے کھڑا دیکھا تو فرمایا، بیٹے تم پانی رکھ کر سو جاتے، کھڑا رہنے کی کیا ضرورت تھی۔
میں نے کہا۔
میں اس خوف سے نہیں سویا کہ شاید آپ کسی وقت بیدار ہوں اور پانی نہ پی سکیں۔

یہ سن کر والدہ بہت خوش ہوئیں اور مجھے بہت ساری دعائیں دیں۔
(تذکرۃ الاولیاء)