🌹 قبل از پیدائش اولاد کے حقوق:

بچے کے دنیا میں آنے سے قبل کا زمانہ بچے کی شخصیت پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔ اس لیے ماں کو چاہیے کہ خصوصاً اس زمانہ میں اپنے افکار و خیالات کو پاکیزہ رکھنے کی کوشش کرے۔
جو مائیں عبادت و ریاضت کا شوق اور تلاوتِ قرآن کا ذوق رکھنے والی ہوتی تھیں۔ ان کی گود میں پلنے والی اولاد بھی علم و عمل کا پیکر اور خوفِ خدا کا مظہر ہوا کرتی تھی۔

بہرحال ماں کو چاہیے کہ

✨1. نیک عمل کی کثرت کرے کہ والدین کی نیکیوں کی برکتیں اولاد کو ملتی ہیں۔

✨2. نمازوں کی پابندی کرتی رہے۔ ہرگز ہرگز سستی نہ کرے کہ ایسی حالت میں نماز معاف نہیں ہو جاتی۔

✨3. اس مرحلے پر تلاوتِ قرآنِ پاک کرے کہ ہماری مقدس بیبیاں اس حالت میں بھی نورِ قرآن سے اپنے قلوب کو منور کیا کرتی تھیں۔

▪ حضرت سیدنا خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمتہ اللہ علیہ کی عمر جس دن چار برس، چار مہینے، چار دن کی ہوئی۔ تو انکی تقریبِ بسم اللّٰہ کے لیے لوگ بلائے گئے۔ حضرت خواجہ غریب نواز رحمتہ اللہ علیہ بھی موجود تھے، انہوں نے پڑھانا چاہی مگر الہام ہوا کہ ٹھہرو! حمید الدین ناگوری آتا ہے وہ پڑھائے گا۔ اُدھر ناگور میں قاضی حمید الدین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو الہام ہوا کہ جلد جا! میرے ایک بندے کو بسم اللّٰہ پڑھا۔ قاضی صاحب فورا تشریف لائے اور آپ سے فرمایا:
صاحبزادے پڑھیئے "بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
آپ نے پڑھا، اعوذباللہ من الشیطن الرجیم، بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم اور شروع سے لے کر پندرہ پارے حفظ سنا دیئے۔
حضرت قاضی صاحب اور خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہم نے فرمایا:
صاحبزادے آگے پڑھیئے، فرمایا:
میں نے اپنی ماں کے شکم میں اتنے ہی سنے تھے اور اسی قدر ان کو یاد تھے وہ مجھے بھی یاد ہو گئے۔
(الملفوظ حصہ ۴ ص ۴۱۵)

✨4. اس حالت میں بالخصوص رزقِ حلال استعمال کریں۔ تاکہ بچے کا گوشت پوست حلال غذا سے بنے۔

▪ حضرت سیدنا بایزید بسطامی رحمتہ اللہ علیہ کی والدہ فرماتی ہیں کہ
جس وقت بایزید میرے شکم میں تھا تو اگر کوئی مشتبہ (شک و شبہ والی) غذا میرے شکم میں چلی جاتی تو میں اس قدر بے چین ہوتی کہ مجھے حلق میں انگلی ڈال کر نکالنا پڑتی۔"
(تذکرةالاولیاء، ذکر بایزید بسطامی)

▪ حضرت سیدنا سفیان ثوری رحمتہ اللہ علیہ پیدائشی متقی تھے۔ ایک مرتبہ آپ کی والدہ محترمہ نے ایامِ حمل میں ہمسایہ کی کوئی چیز بلا اجازت منہ میں رکھ لی تو آپ رحمتہ اللہ علیہ نے پیٹ میں تڑپنا شروع کر دیا۔ اور جب تک انہوں نے ہمسایہ سے معذرت طلب نہ کی آپ رحمتہ اللہ علیہ کا اضطراب ختم نہ ہوا۔
(تذکرةالاولیاء، ذکر سفیان ثوری)

▪ حضرت جابر بن عبداللہؓ روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
وہ گوشت ہر گز جنت میں داخل نہ ہو گا جو حرام میں پلا بڑھا ہے۔
(سنن الدارمی، کتاب الرقاق)

▪ حضرت عبداللہ بن حنظلہؓ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
سود کا ایک درہم جو انسان (اس کا سود ہونا) جانتے ہوئے کھائے، چھتیس بار زنا کرنے سے سخت تر ہے۔
(المسند، امام احمد بن جنبل)

✨5. کھانے پینے، چلنے بیٹھنے، سونے اٹھنے، لباس وغیرہ کے معاملات میں پیادے آقائے دوعالم علیہ الصلوة والسلام کی سنتوں پر عمل کرے۔

✨6. زبان کی احتیاط اپناتے ہوئے جھوٹ، غیبت، چغلی وغیرہ گناہوں سے بچتی رہے۔

✨7. صدقہ و خیرات کی کثرت کریں کہ صدقہ بلاؤں کو ٹالتا ہے۔

▪ حضرت سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے روایت ہے کہ
رسول اللہ صلی اللّٰہٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
صدقہ دینے میں جلدی کیا کرو کیوں کہ بلاء صدقہ سے آگے نہیں بڑھ سکتی۔
(مجمع الزوائد ،باب فضل صدقتہ الزکاۃ،)

✨8. بعض خواتین حالتِ حمل میں اپنے کمرے میں کسی بچے یا بچی کی تصویر لگا لیتی ہیں یاد رکھئے کہ مکان میں ذی روح کی تصویر لگانا جائز نہیں۔
(بہار شریعت)

▪ حضرت سیدنا ابنِ عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔
اس گھر میں فرشتے داخل نہیں ہوتے جس میں کتا یا تصایر ہو۔
(صحیح البخاری)

✨9. دعاؤں کی کثرت کرے کہ دعا مومن کا ہتھیار ہے۔

▪ حضرت سیدتنا مریم علیہا السلام کی والدہ نے بھی اس حالت میں دعا کی تھی چنانچہ قرآنِ پاک میں ارشاد ہوتا ہے:
اے رب میرے! یہ تو میں نے لڑکی جنی اور اللّٰہ کو خوب معلوم ہے جو کچھ وہ جنی اور وہ لڑکا جو اس نے مانگا اس لڑکی سا نہیں اور میں نے اس کا نام مریم رکھا اور میں اسے اور اس کی اولاد کو تیری پناہ میں دیتی ہوں راندے ہوئے شیطان سے۔
(سورہ آل عمران:36)

🌹 ماں کے لیے خوشخبری:

ایک مرتبہ نبیوں کے سردار پیارے آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عورتوں سے ارشاد فرمایا:
کیا تم میں سے کوئی اس بات پر راضی نہیں کہ جب وہ اپنے شوہر سے حاملہ ہو اور وہ شوہر اس سے راضی ہو تو

▪ اس کو ایسا ثواب عطا کیا جاتا ہے جیسا اللہ کی راہ میں روزہ رکھنے اور شب بیداری کرنے والے کو ملتا ہے۔

▪درِدزہ (یعنی وقت ولادت کی تکلیف) پہچنے پر ایسے ایسے انعامات دیئے جائیں گے کہ جن پر آسمان و زمین والوں میں سے کسی کو مطلع نہیں کیا گیا۔

▪ اور وہ بچے کو جتنا دودھ پلائے گی تو ہر گھونٹ کے بدلے ایک نیکی عطا کی جائے گی،

▪اور اگر اسے بچے کی وجہ سے رات کو جاگنا پڑے تو اسے اللہ کی راہ میں 70 غلام آزاد کرنے کا ثواب ملے گا۔
(الجامع الصغیر)




🌹 بعد اَز پیدائش اولاد کے حقوق:


🌷1. زندگی کا حق:

اِسلام سے پہلے لوگ اپنی اولاد کو پیدا ہوتے ہی مار ڈالتے تھے۔ اِسلام نے اِس قبیح رسم کا خاتمہ کرنے کی بنیاد ڈالی اور ایسا کرنے والوں کو عبرت ناک انجام کی وعید سنائی۔

⚡ واقعی ایسے لوگ برباد ہو گئے جنہوں نے اپنی اولاد کو بغیر علم (صحیح) کے (محض) بیوقوفی سے قتل کر ڈالا اور ان (چیزوں) کو جو ﷲ نے انہیں (روزی کے طور پر) بخشی تھیں ﷲ پر بہتان باندھتے ہوئے حرام کر ڈالا، بے شک وہ گمراہ ہو گئے اور ہدایت یافتہ نہ ہو سکے۔
(سورةالانعام: 140)

⚡ بھوک اور اَفلاس کے خدشہ سے اولاد کے قتل کی ممانعت کرتے ہوئے قرآن حکیم فرماتا ہے :
اور مفلسی کے باعث اپنی اولاد کو قتل مت کرو، ہم ہی تمہیں رزق دیتے ہیں اور انہیں بھی (دیں گے)۔
(سورةالانعام:151)

⚡ اور تم اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل مت کرو، ہم ہی انہیں (بھی) روزی دیتے ہیں اور تمہیں بھی، بے شک ان کو قتل کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔
(سورة بنی اسرائيل: 31)

⚡ اِسلام سے قبل بیٹیوں کی پیدائش کو نہایت بُرا اور قابلِ توہین سمجھا جاتا تھا اور انہیں زندہ درگور دفن کر دیا جاتا تھا۔ اِسلام نے اس خیالِ باطل کا ردّ کیا اور بیٹیوں کی پیدائش کو باعثِ رحمت قرار دیا۔
قرآن حکیم ایک مقام پر روزِ محشر کی سختیاں اور مصائب کے بیان کے باب میں فرماتا ہے :

اور جب زندہ دفن کی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس گناہ کے باعث قتل کی گئی تھی۔
(سورةالتکوير: 8 تا 9)

لہٰذا والدین پر یہ فرض ہے کہ اولاد سے زندگی کا حق نہ چھینیں۔



🌷2. آدابِ اِسلامی سے شناسائی کا حق:


ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے، بعد میں اس کے والدین اس کا مذہب تبدیل کرا دیتے ہیں۔

⚡ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
ہر بچہ فطرت (اسلام) پر پیدا ہوتا ہے تو اسکے والدین اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنادیتے ہیں۔
(بخاری، مسلم، ترمذی، ابوداؤد)

⚡ حضرت اسود بن سریع رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا۔ آپ کے ساتھ مل کر کفار سے جہاد کیا۔ وہاں ہم بفضل اللہ غالب آگئے۔
اس دن لوگوں نے بہت سے کفار کو قتل کیا یہاں تک کہ چھوٹے بچوں کو بھی قتل کر ڈالا حضور کو پتہ چلا تو آپ بہت ناراض ہوئے اور فرمانے لگے۔
یہ کیا بات ہے لوگ حد سے آگے نکل جاتے ہیں آج بچوں کو بھی قتل کر دیا ہے۔
کسی نے کہا:
یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آخر وہ بھی تو مشرکین کی ہی اولاد تھی۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نہیں نہیں۔
یاد رکھو تم میں سے بہترین لوگ مشرکین کے بچے ہیں۔ خبردار بچوں کو کبھی قتل نہ کرنا، نابالغوں کے قتل سے رک جانا۔ ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے یہاں تک کہ اپنی زبان سے کچھ کہے پھر اس کے ماں باپ اسے یہود نصرانی بنا لیتے ہیں۔
(مسند احمد)

بچوں کو اِسلامی تعلیمات سے شناسا کرنے اور اُنہیں اِسلامی آدابِ زندگی سکھانا ماں باپ کا فرض ہے۔

⚡ امام حسین رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
جس کے ہاں بچہ کی ولادت ہو تو وہ اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اِقامت کہے، اس کی برکت سے بچہ کی ماں کو کوئی چیز نقصان نہ پہنچا سکے گی۔
(ابو يعلی، المسند، بیہقی، شعب الایمان)

اس طرح ایک بچہ کو پیدائش کے وقت سے اُس آفاقی حکم سے روشناس کرا دیا جاتا ہے جو زندگیوں میں اِنقلاب پیدا کرنے کے لیے بھیجا گیا۔


🌷3. حُسنِ نام کا حق:

بچہ کا یہ حق ہے اُس کا پیارا سا نام رکھا جائے۔ اسلام سے قبل عرب اپنے بچوں کے عجیب نام رکھتے تھے، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسے نام ناپسند فرمائے اور خوبصورت نام رکھنے کا حکم دیا۔

⚡ حضرت ابو وہب جشمی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

انبیائے کرام کے ناموں پر اپنے نام رکھا کرو اور ﷲ تعالیٰ کو تمام ناموں میں سے عبدﷲ اور عبدالرحمٰن زیادہ پسند ہیں۔ سب ناموں سے سچے نام حارث اور ہمام ہیں جب کہ سب سے برے نام حرب اور مرہ ہیں۔
(بوداؤد، السنن، نسائی، )

⚡ امام طوسی روایت کرتے ہیں :
ایک شخص حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوا:
یا رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! میرے اس بچے کا مجھ پر کیا حق ہے؟؟؟
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
تُو اس کا اچھا نام رکھ، اسے آداب سکھا اور اسے اچھی جگہ رکھ (یعنی اس کی اچھی تربیت کر)۔
(اقتباس محمد بن احمد صالح، الطفل في الشريعة الاسلامية : 74)

⚡ حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
روزِ قیامت تم اپنے ناموں اور اپنے آباء کے ناموں سے پکارے جاؤ گے اس لیے اپنے نام اچھے رکھا کرو۔
(احمد بن حنبل، المسند، ابوداؤد)

🌷4. نسب کا حق:


بچے کے لیے نسب کا حق صرف اُسی کے ساتھ خاص نہیں بلکہ یہ ماں باپ کا بھی حق ہے۔
باپ کا حق اس نسبت سے ہے کہ وہ اپنی اولاد کے تحفظ اور تعلیم و تربیت کا اختیار رکھتا ہے، اُسے اپنی اولاد کی سرپرستی اور ولایت کا حق ہے۔ جب اولاد محتاج ہو اور باپ کمانے کی قدرت رکھتا ہو تو اسے اولاد کے لیے کمانے کاحق ہے اور اگر اولاد باپ کی زندگی میں فوت ہو جائے تو وہ اولاد ترکہ میں سے حصہ پائے گی۔
اسی طرح ثبوتِ نسب ماں کا بھی حق ہے کیونکہ اولاد ماں کا جزو ہے اور وہ فطری طور اس بات کی شدید خواہش رکھتی ہے کہ اپنی اولاد کی حفاظت اور بہتر پرورش کرے۔
اسی طرح ماں کے بڑھاپے اور طاقت نہ رکھنے کی صورت میں اُس پر خرچ کرنا اولاد کا فرض ہے۔
اِسی لیے اللہ تعالیٰ نسب کی حفاظت کا حکم دیتے ہوئے پوری جماعت کو مخاطب کر کے فرماتا ہے:

✨ تم اُن (مُنہ بولے بیٹوں) کو ان کے باپ (ہی کے نام) سے پکارا کرو، یہی اللہ کے نزدیک زیادہ عدل ہے، پھر اگر تمہیں ان کے باپ معلوم نہ ہوں تو (وہ) دین میں تمہارے بھائی ہیں اور تمہارے دوست ہیں۔ اور اس بات میں تم پر کوئی گناہ نہیں جو تم نے غلطی سے کہی لیکن (اس پر ضرور گناہ ہو گا) جس کا ارادہ تمہارے دلوں نے کیا ہو، اور اللہ بہت بخشنے والا بہت رحم فرمانے والا ہے۔
(سورة الاحزاب: 5)


🌷5. رضاعت کا حق:

لفظ رضاعت اور اس کے دیگر مشتقات قرآن حکیم میں دس مقامات پر آئے ہیں۔
المعجم الوسیط میں رضاعت کا معنی کچھ یوں بیان ہوا ہے :
ماں کا بچے کو دودھ پلانا رضاعت کہلاتا ہے۔

⚡ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو برس تک دودھ پلائیں یہ (حکم) اس کے لیے ہے جو دودھ پلانے کی مدت پوری کرنا چاہے، اور دودھ پلانے والی ماؤں کا کھانا اور پہننا دستور کے مطابق بچے کے باپ پر لازم ہے، کسی جان کو اس کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہ دی جائے، (اور) نہ ماں کو اس کے بچے کے باعث نقصان پہنچایا جائے اور نہ باپ کو اس کی اولاد کے سبب سے، اور وارثوں پر بھی یہی حکم عائد ہو گا، پھر اگر ماں باپ دونوں باہمی رضامندی اور مشورے سے (دو برس سے پہلے ہی) دودھ چھڑانا چاہیں تو ان پر کوئی گناہ نہیں، اور پھر اگر تم اپنی اولاد کو (دایہ سے) دودھ پلوانے کا ارادہ رکھتے ہو تب بھی تم پر کوئی گناہ نہیں جب کہ جو تم دستور کے مطابق دیتے ہو انہیں ادا کر دو، اور ﷲ سے ڈرتے رہو اور یہ جان لو کہ بے شک جو کچھ تم کرتے ہو ﷲ اسے خوب دیکھنے والا ہے۔
(سورةالبقرة: 233)

⚡ پیدائش کے بعد بچہ کے لیے ممکن نہیں ہوتا کہ وہ اپنی زندگی کی حفاظت اور افزائش کے لیے ماں کے دودھ کے علاوہ کوئی غذا استعمال کرے۔

⚡ اللہ تعالیٰ نے عورت پر واجب کیا ہے کہ وہ بچہ کو پورے دو سال دودھ پلائے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ یہ مدت ہر طرح سے بچہ کی صحت کے لیے ضروری ہے۔


🌷6. پرورش کا حق:


بچوں کی پرورش کرنا باپ کی ذمہ داری قرار دیتے ہوئے قرآن حکیم فرماتا ہے:
صاحبِ وسعت کو اپنی وسعت (کے لحاظ) سے خرچ کرنا چاہئے، اور جس شخص پر اُس کا رِزق تنگ کر دیا گیا ہو تو وہ اُسی (روزی) میں سے (بطورِ نفقہ) خرچ کرے جو اُسے اللہ نے عطا فرمائی ہے۔ اللہ کسی شخص کو مکلف نہیں ٹھہراتا مگر اسی قدر جتنا کہ اُس نے اسے عطا فرما رکھا ہے، اللہ عنقریب تنگی کے بعد کشائش پیدا فرما دے گا۔
(سورة الطلاق: 7)

⚡ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکر م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

جس کی تین بیٹیاں یا تین بہنیں ہوں اور وہ ان سے اچھا سلوک کرے تو اس کے لیے جنت ہے۔
(بخاری، ترمذي، )

⚡ حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
جس کی تین بیٹیاں ہوں، وہ ان کا خیال رکھے، ان کو اچھی رہائش دے، ان کی کفالت کرے تو اس کیلیے جنت واجب ہو جاتی ہے۔
عرض کی گئی:
اور دو ہوں تو؟؟؟
فرمایا:
اور دو ہوں تب بھی۔
عرض کی گئی:
اگر ایک ہو تو۔
فرمایا:
اگر ایک ہو تو بھی۔
(المعجم الاوسط)

🌷7. تربیت کا حق:

بچوں کی اچھی تربیت کر کے انہیں اچھا ذمہ دار اور مثالی مسلمان بنانا والدین کی ذمہ داری ہے۔ ان کی تربیت کے مختلف مراحل کا ذکر کرتے ہوئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

اپنی اولاد کو نماز کا حکم دو جب وہ سات سال کی ہو جائے اور جب وہ دس سال کی ہو جائے تو (نماز نہ پڑھنے پر) اُسے مارو، اور (دس سال کی عمر میں) انہیں الگ الگ سلایا کرو۔
(ابو داؤد، السنن)

⚡ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
اپنی اولاد کے ساتھ نیک سلوک کرو اور انہیں ادب سکھاؤ۔
(ابن ماجة، مزي، تهذيب الکمال)

⚡ حضرت معاویہ بن ابی سفیانؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
جس کے ہاں کوئی بچہ ہو تو وہ اس کی اچھی تربیت کرے۔
(ديلمي، الفردوس بماثور الخطاب، حسيني، البيان و التعريف)


🌷8. شفقت و رحمت کا حق:

⚡ حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ:
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے اہل و عیال کے ساتھ سب لوگوں سے زیادہ شفقت کرتے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک صاحب زادہ تھا جو مدینہ کے کنارے کے محلے میں کسی عورت کا دودھ پیا کرتا تھا، اس عورت کا خاوند لوہار تھا، ہم اُسے ملنے جایا کرتے تو اُس لوہار کا سارا گھر بھٹی میں اِذخر نامی گھاس جلانے کی وجہ سے دھوئیں سے بھرا ہوا ہوتا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے اس بیٹے کو چوما کرتے اور ناک لگا کر اسے سونگھا کرتے تھے۔
(الادب المفرد)

⚡ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ایک اعرابی (دیہاتی) آیا اور کہا:
کیا آپ بچوں کا بوسہ لیتے ہیں؟؟؟
ہم تو بچوں کا بوسہ نہیں لیتے! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ:
اگر اللہ نے تمہارے دل سے رحمت نکال دی ہے تو میں کیا کر سکتا ہوں؟؟؟
(صحیح بخاری، صحیح مسلم)

⚡ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کو اپنے کندھے پر اُٹھایا ہوا تھا اور فرما رہے تھے:
اے اللہ! میں اِس سے محبت رکھتا ہوں، تو بھی اِس سے محبت فرما۔
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

⚡ حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ:
ایک آدمی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں آیا، اُس کے ساتھ ایک بچہ بھی تھا، جسے وہ (ازراہِ شفقت) اپنے ساتھ چمٹانے لگا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا: کیا تم اِس بچے پر رحم کر رہے ہو؟
اُس نے کہا: جی ہاں!۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
تم اس پر جتنا رحم کھا رہے ہو، اللہ تعالیٰ اس سے زیادہ تم پر رحم فرما رہا ہے۔ وہ تو ارحم الراحمین ہے۔ تمام رحم کرنے والوں میں سب سے زیادہ رحم فرمانے والا ہے۔
(الادب المفرد)



🌷9. عدل کا حق:


حضرت نعمان بن بشیرؓ روایت کرتے ہیں:
اُن کے والد انہیں لے کر بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہوئے، پھر عرض کیا: میں نے اپنے اس بیٹے کو ایک غلام دیا ہے۔
فرمایا:کیا تم نے اپنے ہر بیٹے کو ایسا ہی دیا ہے؟
عرض کیا، نہیں۔
فرمایا: تو پھر اس سے واپس لے لو۔(صحيح بخاری، صحیح مسلم، نسائی)

⚡ ایک اور سند سے مروی روایت میں حضرت نعمان بن بشیرؓ بیان کرتے ہیں:
’’میرے والد نے اپنا کچھ مال مجھے ہبہ کر دیا تو میری والدہ نے کہا:
میں اس پر تب راضی ہوں گی جب تو رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس پر گواہ لائے۔ میرے والد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
کیا تم نے اپنی ساری اولاد کو ایسا ہی دیا ہے۔؟
میرے والد نے کہا: نہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
خدا سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کرو۔ پھر میرے والد نے وہ ہبہ واپس لے لیا۔
(صحيح مسلم، ابنِ کثیر، نسائی، ابنِ حبان )

⚡حضرت عبد اﷲ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
اپنی اولاد کو تحفہ دیتے وقت برابری رکھو، پس میں اگر اُن میں سے کسی کو فضیلت دیتا تو بیٹیوں کو فضیلت دیتا۔
(طبراني، بیہقی، )

⚡ حضرت انس بن مالک رضی اللّٰہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ
رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں ایک شخص بیٹھا ہوا تھا۔ اس کا بیٹا اس کے پاس آیا تو اس نے پکڑ کر اس کا بوسہ لیا اور اپنی گود میں بٹھا لیا۔ اس کے بعد اس کی بیٹی آئی۔ اس نے اس کو پکڑ کر اپنے پہلو میں بٹھا لیا۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
تم نے دونوں کے درمیان انصاف نہیں کیا۔
(شعب الایمان)

🌹 اولاد کی رضامندی کا حق:


قرآن کریم میں خدا تعالیٰ نے والدین کی اطاعت کے ضروری ہونے کو توحید جیسے اہم عقیدے کے ساتھ ذکر کر کے اس کی اہمیت بتلا دی ہے۔ اولاد کے ذمے لازم ہے کہ والدین کے شریعت کے موافق ہر حکم کو بجا لائے، اس لیے کہ والدین کے پیشِ نظر ہمیشہ اولاد کی خیر ہی ہوا کرتی ہے۔ والدین کے ذمے بھی لازم ہے کہ وہ اپنی اولاد میں ہر ممکنہ حد تک برابری اور انصاف کریں، ان کی خوشیوں کا خیال رکھیں، اور ان پر بے جا ظلم وزیادتی سے ہر طرح گریز کریں۔ جہاں تک شادی سے متعلق رضامندی کا تعلق ہے، تو اس سلسلے میں شریعت نے ہر بالغ شخص کی رضامندی کو اہمیت دی ہے۔ اس سلسلے میں اگر اولاد شرعاً کسی معقول عُذر کی بنا پر کسی رشتے سے انکاری ہو تو بغیر اس کی رضامندی کے اس کا نکاح نہیں کروایا جاسکتا ہے۔ البتہ اگر اس انکار کا کوئی قابلِ قبول شرعی عذر نہ ہو تو اولاد کو اپنے والدین کی بے جا نافرمانی درست نہیں ہے۔