🌹 اولاد کی تربیت و سلوک کے چند واقعات:


💥 حضرت اسماعیل علیہ السلام کی پیدائش و قربانی


حضرت ابراہیم علیہ السلام کی کافی عمر ہونے کے باوجود ابھی تک اولاد نہ تھی. لہذا اللہ سے دعا کی کہ مجھے ایک صالح بیٹا عطا فرما جو میرے گھر کی رونق بنے۔
اللہ تعالیٰ نے آپ کو جس بیٹے کی بشارت دی اس کی نمایاں صفت حلیم تھی۔
حضرت اسماعیل علیہ السلام کی پیدائش حضرت حاجرہؑ سے ہوئی۔ اللہ کے حکم سے آپ نے دونوں کو مکہ کی وادی میں بسا دیا تاکہ ایک ایسی قوم کی داغ بیل پڑ سکے جس میں سے آخری پیغمبر کی بعثت ہو۔ یہاں آپ اکثر آتے جاتے رہتے اور حضرت اسماعیلؑ اور انکی والدہ کی خبر گیری کرتے رہتے تھے۔

حضرت اسمٰعیلؑ جب اس عمر کو پہنچے جب وہ اپنے باپ کے کاموں میں ان کا ہاتھ بٹا سکتے تھے تو حضرت ابراہیمؑ کو ایک اور بہت بڑی آزمائش میں ڈالا گیا۔ آپ کو تین راتیں مسلسل خواب آتا رہا۔ جس میں آپ دیکھتے تھے کہ آپ اسی بیٹے کو جسے آپ نے اللہ سے دعا کر کے لیا تھا اور جو آپ کے بڑھاپے میں آپ کا سہارا بن رہا تھا، ذبح کر رہے ہیں۔

چنانچہ آپ نے سمجھ لیا کہ یہ اللہ کی طرف سے حکم ہے۔
چنانچہ حضرت ابراہیمؑ نے اپنے نوجوان بیٹے کو یہ خواب بتا کر ان کی رائے دریافت کی۔
آپ نے یہ رائے اس لئے دریافت نہیں کی تھی کہ اگر بیٹا اس بات پر آمادہ نہ ہو یا وہ انکار کر دے تو آپ اللہ کے اس کے حکم کی تعمیل سے باز رہیں گے بلکہ اس لئے پوچھا تھا کہ آیا یہ فی الواقع صالح بیٹا ثابت ہوتا ہے یا نہیں؟ کیونکہ آپ نے جو دعا کی تھی وہ صالح بیٹے کے لئے کی تھی۔ اور ساتھ ہی ساتھ تربیت کی بھی جانچ تھی۔

✨ حضرت اسمٰعیلؑ اس قدر خندہ پیشانی اور فراخ دلی سے قربان ہونے کو تیار ہو گئے جس کی دوسری کوئی مثال دنیا میں مل نہیں سکتی۔

وہ ایک نہایت صالح اور انتہائی فرمانبردار بیٹے ثابت ہوئے۔ کیونکہ بیٹے کی قربانی دینے کا حکم تو باپ کو ہوا تھا۔ بیٹے کو قربان ہوجانے کا حکم نہیں ہوا تھا۔ بیٹے نے اپنے والد کا فرمان بلاچوں چرا تسلیم کر کے اپنے والد کی بھی انتہائی خوشنودی حاصل کر لی اور اپنے پروردگار کی بھی۔

حضرت ابراہیمؑ نے اپنے بیٹے کو پیشانی کے بل اس لیے لٹایا کہ کہیں پدرانہ شفقت تعمیلِ حکمِ الٰہی میں آڑے نہ آجائے۔ اور چُھری چلاتے وقت ہاتھ میں لغزش نہ واقع ہو۔
منہ کے بل لٹانے سے نہ بیٹے کا چہرہ نظر آئے گا نہ پدرانہ جذبات رکاوٹ بنیں گے۔
(یہ بھی روایت ہے کہ حضرت اسمٰعیلؑ نے اسی مصلحت کے پیشِ نظر خود اپنے والد محترم کو ایسا مشورہ دیا۔)

جب باپ اور بیٹا دونوں نے اللہ کی فرمانبرداری کی بے نظیر مثال قائم کر دی تو اس وقت رحمتِ الٰہی جوش میں آگئی۔ اور فوراً حضرت ابراہیمؑ پر وحی ہوئی کہ بس بس، اس سے زیادہ کچھ نہ کرو۔ ہمیں تو صرف تمہارا امتحان لینا مقصود تھا۔ اور وہ ہو چکا۔ جس میں تم پوری طرح کامیاب اُترے ہو۔
ہمارا یہ مقصود ہرگز نہ تھا کہ تم فی الواقع بیٹے کو ذبح کر ڈالو۔
واضح رہے کہ حضرت ابراہیمؑ نے جو خواب دیکھا تھا وہ یہ تھا کہ "میں ذبح کر رہا ہوں یہ نہیں دیکھا تھا کہ میں نے ذبح کر دیا ہے اور جتنا خواب آپ نے دیکھا تھا اتنا کام ہوچکا تو آگے ذبح کر دینے سے اللہ تعالیٰ نے روک دیا۔

یعنی ہمارا دستور ہے کہ ہم نیکوکار لوگوں کو آزمائش میں ڈالتے ہیں پھر جب وہ اس آزمائش میں پورے اترتے ہیں، تو ان کے درجات بلند کرتے ہیں۔ ان کو فضیلت عطا کر دیتے ہیں۔ پھر جس آزمائش میں ہم انہیں ڈالتے ہیں اس سے نکلوا بھی دیتے ہیں۔

✨ جیسے حضرت ابراہیمؑ کو آگ کی آزمائش میں ڈالا وہ وہاں سے سلامت نکال بھی لائے گئے اور ان کا مرتبہ بھی بلند کیا۔

✨ اسی طرح بیٹے کی قربانی کی آزمائش میں بھی ان کے بیٹے کو بچا لیا اور درجات بھی بلند کیے۔



💥 حضرت ابو بکر صدیقؓ کی اپنی بیٹی پر شفقت:

حضرت براء بن عازب رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ
ایک مرتبہ کسی غزوہ سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ مدینہ منورہ تشریف لائے میں ان کے ساتھ ان کے گھر گیا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ان کی صاحبزادی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بخار میں مبتلا ہیں اور لیٹی ہوئی ہیں۔ چناچہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ ان کے پاس تشریف لائے اور پوچھا کہ میری بیٹی! طبیعت کیسی ہے اور (ازراہِ شفقت) ان کے رخسار پر بوسہ دیا
(سنن ابی داؤد، کتاب الادب، باب فی قبلتہ الخد، الحدیث ۵۲۲۲، ج۴ص ۴۵۵)

💥 حضرت عمر فاروقؓ کا اولاد سے پیار:

حضرت عمر فاروقؓ کے دور میں حضرت عامرؓ کسی اہم عہدے پر تھے۔ ایک بار حضرت عمرؓ سے ملنے کے لئے ان کے گھر پہنچے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ لیٹے ہوئے ہیں اور بچے سینے پر چڑھے ہوئے کھیل رہے تھے۔ حضرت عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ بات ناگوار گزری۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پیشانی کے اتار چڑھاؤ سے ان کی ناگواری کو بھانپ لیا اور حضرت عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بولے۔
آپ کا اپنے بچوں کے ساتھ برتاؤ کیسا رہتا ہے؟؟؟
حضرت عامر کو موقعہ مل گیا۔ بولے!
امیر المومنین! جب میں گھر میں داخل ہوتا ہوں تو گھر والوں پر سکتہ طاری ہو جاتا ہے سب اپنا دم سادھ کر چپ ہو جاتے ہیں۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بڑے سوز سے کہا:
عامر! امت محمدیہ کے فرزند ہوتے ہوئے یہ نہیں جانتے کہ مسلمانوں کو اپنے گھر والوں کے ساتھ کس طرح نرمی اور محبت کا سلوک کرنا چاہئے۔ اولاد کو پاکیزہ صالح تعلیم و تربیت سے آراستہ و پیراستہ کرنے کے لئے ساری کوششوں کو صرف کر دینا چاہیے اور اس راہ میں بڑی سے بڑی قربانی سے بھی گریز نہیں کرنا چاہیے۔ یہ والدین کی دینی و مذہبی ذمہ داری بھی ہے اور اہم فریضہ بھی ہے اور اولاد کے ساتھ عظیم احسان بھی اور اپنی ذات کے ساتھ سب سے بڑی بھلائی ہے۔


💥 نیک تربیت کی برکت:


ایک قافلہ گیلان سے بغداد کی طرف رواں دواں تھا۔ جب یہ قافلہ ہمدان شہر سے روانہ ہوا تو جیسے ہی جنگل شروع ہوا، ڈاکوؤں کا ایک گروہ نمودار ہوا اور قافلے والوں سے مال و اسباب لوٹنا شروع کر دیا۔ اس قافلے میں ایک نوجوان بھی تھا جس کی عمر 18 سال کے لگ بھگ تھی۔ ایک راہزن اس نوجوان کے پاس آیا اور کہنے لگا:
صاحب زادے تمہارے پاس بھی کچھ ہے؟
نوجوان بولا:
میرے پاس چالیس دینار ہیں جو کپڑوں میں سلے ہوئے ہیں۔
رہزان نے کہا کہ
صاحبزادے! مذاق نہ کرو، سچ سچ بتاؤ۔
نوجوان نے بتایا:
میرے پاس واقعی چالیس دینار ہیں یہ دیکھو میری بغل کے نیچے تھیلی کپڑوں میں سلی ہوئی ہے۔
راہزن نے دیکھا تو حیران رہ گیا اور نوجوان کو اپنے سردار کے پاس لے گیا اور سارا واقعہ بیان کیا۔
سردار نے کہا:
نوجوان کیا بات ہے، لوگ تو ڈاکوؤں سے اپنی دولت چھپاتے ہیں۔ مگر تم نے سختی کیے بغیر دولت ظاہر کر دی۔
نوجوان نے کہا۔
میری ماں نے گھر سے چلتے وقت مجھے نصیحت فرمائی تھی کہ بیٹا ہر حال میں سچ بولنا، بس میں اپنی والدہ کے ساتھ کیا ہوا وعدہ نبھا رہا ہوں۔

نوجوان کا یہ بیان تاثیر کا تیر بن کر ڈاکوؤں کے سردار کے دل میں پیوست ہو گیا۔ اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کا دریا چھلکنے لگا۔ اس کا سویا ہوا مقدر جاگ اٹھا۔
وہ کہنے لگا۔
صاحبزادے! تم کس قدر خوش نصیب ہو کہ دولت لٹنے کی پرواہ کیے بغیر اپنی والدہ کے ساتھ کیے ہوئے وعدے کو نبھا رہے ہو اور والدہ کی فرمانبرداری کر رہے ہو اور میں کس قدر ظالم ہوں کہ اپنے خالق و مالک کے ساتھ کیے ہوئے وعدے کو پامال کر رہا ہوں، اور مخلوقِ خدا کا دل دکھا رہا ہوں۔
یہ کہنے کے بعد وہ ساتھیوں سمیت سچے دل سے تائب ہو گیا اور لوٹا ہوا سارا مال واپس کر دیا۔

🌸 یہ نیک ماں کی گود میں پلے نیک سیرت نوجوان حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ تھے۔

💥 اللہ پر یقین:


حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمتہ اللہ علیہ کے بارے میں مشہور واقعہ ہے۔ ان کے نام کے ساتھ کاکی کا لفظ لگایا جاتا ہے۔ کاکی ہندی لفظ ہے جس کے معنی روٹی کے ہیں۔

واقعہ یہ ہے کہ جب آپ رحمتہ اللہ علیہ پیدا ہوئے تو ان کے والدین بیٹھے ہوئے آپس میں مشورہ کر رہے تھے۔ ہمارا بیٹا نیک کیسے بنے؟ اچھا کیسے بنے؟
چنانچہ ان کی ماں نے کہا:
میرے ذہن میں ایک تجویز ہے کل سے میں تجویز پر عمل کروں گی۔

اگلے دن جب بچہ مدرسہ میں چلا گیا۔ ماں نے کھانا بنایا اور کہیں چھپا کر رکھ دیا۔ بچہ آیا کہنے لگا:
ماں بھوک لگی ہے، مجھے کھانا دے دیجئے۔
ماں نے کہا بیٹا:
ہمیں بھی تو کھانا اللہ تعالیٰ ہی دیتا ہے۔ وہی رازق ہے، وہی رزق پہنچاتا ہے، وہی مالک و خالق ہے۔
ماں نے اللہ رب العزت کا تعارف کروایا اور کہا کہ بیٹا تمہارا رزق بھی وہی بھیجتا ہے۔ تم اللہ سے مانگو۔

بیٹے نے کہا:
ماں کیسے مانگوں؟
ماں نے کہا کہ
بیٹا مصلیٰ بچھاؤ، چنانچہ مصلیٰ بچھایا، بیٹا التحیات کی شکل میں بیٹھ گیا۔ چھوٹے چھوٹے معصوم ہاتھ اٹھائے۔
ماں نے کہا کہ بیٹا! دعا کرو، بیٹا دعا کر رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ مدرسہ سے آیا ہوں، بھوک لگی ہے، اللہ مجھے کھانا دیجئے۔
بیٹے نے تھوڑی دیر اس طرح عاجزی کی۔
پوچھنے لگا۔
ماں اب کیا کروں؟
ماں نے کہا کہ بیٹا تم ڈھونڈو، اللہ نے کھانا بھیج دیا ہو گا۔

تھوڑی دیر کمرے میں ڈھونڈا بالآخر اس جگہ سے کھانا مل گیا جہاں ماں نے رکھا تھا، بیٹے نے کھانا کھایا۔
اب بیٹے کے دل میں ایک خیال پیدا ہوا۔ وہ روز اللہ تعالیٰ کی باتیں پوچھتا، ماں اللہ سب کو کھانا دیتا ہے، پرندوں کو بھی، حیوانوں کو بھی، پتہ نہیں اس کے پاس کتنے خزانے ہیں؟ وہ ختم نہیں ہوتے، وہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں زیادہ معلومات حاصل کرنے کی کوشش کرتا۔
وہ محبت سے اللہ تعالیٰ کا نام لیتا، وہ سونے سے پہلے والدہ سے اللہ تعالیٰ کی باتیں پوچھتا، ماں خوش ہوتیں کہ میرے بیٹے کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت اور یقین بس رہا ہے۔

کچھ دن تک سلسلہ اسی طرح چلتا رہا مگر ایک دن ایسا ہوا کہ ماں اپنے رشتہ داروں میں کسی کے ہاں چلی گئی۔
جب خیال آیا تو پتہ چلا کہ بچے کے آنے کا وقت گزر چکا ہے۔ ماں نے برقعہ لیا اور تیز قدموں سے چل دیں اور راستے میں دعائیں بھی کرتی رہی کہ میرے مالک میں نے تو اپنے بچے کا یقین بنانے کیلئے یہ سارا معاملہ کیا تھا۔
اے اللہ! اگر آج میرے بچے کا یقین ٹوٹ گیا تو میری محنت ضائع ہو جائے گی۔ اے اللہ! پردہ رکھ لینا۔ اللہ میری محنت کو ضائع ہونے سے بچا لینا۔
ماں دعائیں کرتی آ رہی ہے جب گھر پہنچی تو دیکھا کہ بیٹا آرام کی نیند سو رہا ہے۔ ماں نے جلدی سے کھانا پکایا اور چھپا کر رکھ دیا۔
ماں نے بیٹے کو جگایا اور پوچھا کہ آج تجھے بھوک نہیں لگی تو بچہ کہنے لگا مجھے تو بھوک نہیں لگی۔
ماں نے پوچھا، وہ کیسے؟
تو بچے نے کہا کہ جب میں مدرسہ سے آیا تو میں نے مصلیٰ بچھایا اور میں نے دعا مانگی۔

اے اللہ! بھوک لگی ہوئی ہے، تھکا ہوا بھی ہوں، آج تو ماں بھی گھر پر نہیں ہے، اللہ مجھے کھانا دے دو۔
اس کے بعد میں نے کمرے میں تلاش کیا۔ مجھے ایک جگہ روٹی پڑی ہوئی ملی۔
ماں میں نے اسے کھا لیا مگر جو مزہ آج آیا ایسا مزہ پہلے کبھی نہیں آیا تھا۔

🌸 مائیں بچوں کی تربیت ایسے کیا کرتی تھیں اور اللہ رب العزت نے اس بچے کو پھر قطب الدین بختیار کاکی بنا دیا چنانچہ یہ مغل بادشاہوں کے شیخ بنے اور اپنے وقت میں لاکھوں انسان ان کے مرید ہوئے۔


🌹عبادت و ریاضت کا شوق:

حضرت بابا فرید رحمتہ اللہ علیہ کو گنج شکر یا شکر گنج کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ یہ آپ کا لقب ہے مگر اس طرح کہ آپ کے اسمِ گرامی کا ایک حصہ بن کر رہ گیا ہے۔
شکر گنج کی وجہ تسمیہ اس طرح بیان کی گئی ہے کہ جب پہلی بار قرسم خاتون رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے بیٹے کو نماز کی تلقین کی تو فرمایا:
فرزند! نماز ادا کیا کرو۔ اس سے اللہ راضی ہوتا ہے اور اپنے عبادت گزار بندوں کو بے شمار انعامات سے نوازتا ہے۔

حضرت بابا فرید الدین مسعود رحمتہ اللہ علیہ اس وقت بہت کم سن تھے۔
اسلیے مادرِ گرامی سے پوچھنے لگے۔
جو بچے نماز پڑھتے ہیں انہیں اللہ کی طرف سے کیا انعام ملتا ہے۔؟؟؟
مادرِ گرامی نے فرمایا:
نمازی بچوں کو پہلے شکر ملتی ہے۔ پھر جب وہ بڑے ہو جاتے ہیں تو اللہ انہیں دوسرے انعامات سے نوازتا ہے۔

حضرت فرید الدین مسعود رحمتہ اللہ علیہ والدہ محترمہ کی بات سن کر مطمئن ہو گئے۔ پھر جب وہ اِدھر اُدھر چلے جاتے تو قرسم خاتون رحمتہ اللہ علیہ خاموشی سے مصلے کے نیچے (شکر کی) پڑیا رکھ دیتیں۔

حضرت فرید الدین مسعود رحمتہ اللہ علیہ نماز ادا کرتے اور شکر کی صورت میں اپنا انعام پا لیتے۔

یہ سلسلہ کئی ماہ تک جاری رہا۔ پھر ایک روز قرسم خاتون رحمتہ اللہ علیہ گھریلو مصروفیات میں اپنا روزانہ کا عمل بھول گئیں۔
دوسرے دن یاد آیا تو آپ نے فرزند کو بلا کر پوچھا۔
فرید! کیا کل مصلے کے نیچے سے شکر ملی تھی؟؟؟

قرسم خاتون رحمتہ اللہ علیہ کے لہجے میں اضطراب نمایاں تھا۔
جی ہاں! مجھے ہر نماز کے بعد شکر مل جاتی ہے۔
حضرت بابا فرید الدین مسعود رحمتہ اللہ علیہ نے بصد احترام عرض کیا۔

بیٹے کی بات سنتے ہی قرسم خاتون رحمتہ اللہ علیہ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ وہ دل ہی دل میں اپنے اللہ کا شکر ادا کر رہی تھیں۔
تُو نے مجھے فرید کے سامنے شرمندہ ہونے سے بچا لیا۔ اگر تیرا دستِ غیب اسے شکر فراہم نہ کرتا تو وہ میرے بارے میں کیا سوچتا؟؟؟
پھر قرسم خاتون نے حضرت بابا فرید الدین مسعود رحمتہ اللہ علیہ کو گلے لگایا اور نہایت محبت بھرے لہجے میں فرمایا:
"میرا بیٹا فرید الدین مسعود (رحمتہ اللہ علیہ) گنج شکر ہے۔


💥 اللہ کی مہمانی کا شوق:


حضرت بی بی زلیخا اور حضرت سید احمد کو اللہ تعالیٰ نے دو بچے عنایت کیے تھے۔ ایک سید محمد جو بعد میں سلطان المشائخ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء، محبوبِ الہٰی کے نام سے مشہور ہوئے اور دوسری صاحبزادی سیدہ بی بی زینب۔
یہ دونوں بچے ابھی بہت کم عمر تھے کہ والدہ ماجدہ نے خواب میں دیکھا کہ کوئی پوچھتا ہے بیٹا چاہتی ہو یا شوہر؟؟؟
اُن کے منہ سے بے اختیار نکل گیا بیٹا! نیند سے ہوشیار ہوئیں تو افسوس کرنے لگیں کہ میں نے بیٹے کی بجائے شوہر کیوں نہ کہا، مگر پھر اس خیال سے دل کو تسلی دے لی کہ خواب کی باتیں اپنے اختیار کی تھوڑی ہوتی ہیں۔

اس واقعے کے بعد خدا کا کرنا یہ ہوا کہ حضرت سید احمد اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں اور اہلیہ محترمہ سیدہ بی بی زلیخا کو چھوڑ کر جنت سدھار گئے۔ اگرچہ حضرت سیدہ بی بی زلیخا نے میکے والوں سے امداد لینی پسند نہیں کی اور خود محنت مشقت کر کے اپنے یتیم بچوں کی پرورش کرنے لگیں۔
وہ سوت کاتا کرتی تھیں اور لونڈی اسے بازار میں جا کر بیچ آتی تھی۔ گزر بسر ہو جاتی تھی۔ مگر ایسی تنگی ترشی سے کہ بیوہ ماں اور بِن باپ کے بچوں کو کئی کئی وقت کے فاقے کرنے پڑتے تھے۔ تاہم اس صابر خاتون کی پیشانی پر بٙل نہ آتا تھا اور پیارے بچے بھی ماں کے ساتھ راضی بہ رضا رہتے تھے۔
جس دن حضرت کے گھر فاقہ ہوتا تھا، ماں بچوں سے کہتی تھی کہ آج ہم اللّٰہ کے مہمان ہیں۔ بچے سمجھ جاتے کہ آج کھانے کے لیے گھر میں کچھ نہیں ہے اور روٹی کی ضد کی بجائے بھوکے پیٹ ہی خوش رہتے تھے۔
حضرت فرماتے ہیں کہ مجھے بچپن میں خدا کی مہمانی کا اتنا شوق ہو گیا تھا کہ اب کئی وقت تک ہم کو کھانا ملتا رہتا تھا تو میں والدہ سے پوچھا کرتا تھا کہ ہم اللہ کے مہمان کب بنیں گے؟؟؟

💥 روزانہ ایک قرآنِ پاک کا ایصال ثواب:

ایک بزرگ ارشاد فرماتے ہیں کہ کسی شخص نے خواب میں دیکھا کہ
قبرستان کے مُردے اپنی قبروں سے باہر نکل کر جلدی جلدی زمین پر سے کوئی چیز سمیٹ رہے ہیں، لیکن مرُدوں میں سے ایک شخص فارغ بیٹھا ہوا ہے، وہ کچھ نہیں چنتا۔ ایک شخص نے اس سے جا کر پوچھا کہ
یہ لوگ کیا چن رہے ہیں؟
اس نے جواب دیا۔
زندہ لوگ جو کچھ صدقہ یا دعا یا تلاوتِ قرآن وغیرہ اس قبرستان والوں کو بھیجتے ہیں، اس کی برکات سمیٹ رہے ہیں۔ اس نے کہا تم کیوں نہیں چنتے؟؟؟
اس نے جواب دیا، مجھے اس وجہ سے فراغت ہے کہ میرا بیٹا حافظِ قرآن ہے جو فلاں بازار میں حلوہ بیچتا ہے، وہ روزانہ ایک قرآن پاک پڑھ کر مجھے بخشتا ہے۔
وہ شخص صبح اسی بازار میں گیا، دیکھا کہ ایک نوجوان حلوہ بیچ رہا ہے اور اس کے ہونٹ مسلسل ہِل رہے ہیں۔
اس نے نوجوان سے پوچھا۔
تم کیا پڑھ رہے ہو؟؟؟
اس نے جواب دیا کہ میں روزانہ ایک قرآن پاک پڑھ کر اپنے والدین کو بخشتا ہوں، اسی لیے تلاوت کر رہا ہوں۔
کچھ عرصے بعد اُسی شخص نے دوبارہ خواب میں اسی قبرستان سے مردوں کو کچھ چنتے ہوئے دیکھا۔ اس مرتبہ وہ شخص بھی چننے میں مصروف تھا کہ جس کا بیٹا اسے قرآن پاک پڑھ کر بخشا کرتا تھا۔ اس کو دیکھ کر اسے بہت تعجب ہوا۔ اتنے میں اس کی آنکھ کھل گئی، صبح اٹھ کر اسی بازار میں گیا اور تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ حلوہ والے کا بھی انتقال ہو چکا ہے۔
(روض الریاحین، الفصل الثانی الحکایت السابعتہ والمخسون)

💥 بسم اللہ شریف پڑھنے کی برکت:

حضرت عیسیٰ علیہ السلام ایک قبر پر گزرے تو عذاب ہو رہا تھا۔ کچھ وقفہ کے بعد پھر گزرے تو ملاحظہ فرمایا کہ نور ہی نور ہے۔ اور وہاں رحمتِ الٰہی کی بارش ہو رہی ہے۔ آپؑ بہت حیران ہوئے۔ اور بارگاہِ الٰہی میں عرض کیا کہ مجھے اس کا بھید بتایا جائے۔
ارشاد ہوا:
اے عیسیٰ! یہ سخت گناہگار اور بدکار تھا۔ اس وجہ سے عذاب میں گرفتار تھا۔ لیکن اس نے بیوی حاملہ چھوڑی تھی۔ اس کی وفات کے بعد اسکا لڑکا پیدا ہوا، اور آج اس کو مکتب بھیجا گیا، استاد نے اسے بسم اللہ پڑھائی، مجھے حیا آئی کہ میں زمین کے اندر اس شخص کو عذاب دوں جس کا بچہ زمین پر میرا نام لے رہا ہے۔ "
(التفسیر الکبیر)


💥 اللہ کا غضب:

کشمیر کے کسی علاقے میں ایک شخص کی 5 بچیاں تھیں۔ چھٹی بار ولادت ہونے والی تھی۔ اس نے ایک دن اپنی بیوی سے کہا کہ اگر اب کی بار بھی تو نے بچی کو جنا تو میں تجھے نومولود بچی سمیت قتل کر دوں گا۔
رمضان المبارک کی تیسری شب پھر بچی ہی کی ولادت ہوئی۔ صبح کے وقت بچی کی ماں کی چیخ و پکار کی پرواہ کئے بغیر اس بے رحم باپ نے (معاذ اللّٰہ) اپنی پھول جیسی زندہ بچی کو اٹھا کر پریشر ککر میں ڈال کر چولہے پر چڑھا دیا۔ یکایک پریشر ککر پھٹا اور ساتھ ہی خوفناک زلزلہ آگیا، دیکھتے ہی دیکھتے وہ ظالم شخص زمین کے اندر دھنس گیا۔ بچی کی ماں کو زخمی حالت میں بچا لیا گیا اور غالباً اسی کے ذریعے اس درد ناک قصے کا انکشاف ہوا۔
(زلزلہ اور اس کے اسباب)


💥 غلط تربیت کا خوفناک انجام:

ایک مجرم کو تختہ دار پر لٹایا جانے والا تھا۔ جب اس سے اس کی آخری خواہش پوچھی گئی تو اس نے کہا کہ میں اپنی ماں سے ملنا چاہتا ہوں۔ اس کی یہ خواہش پوری کر دی گئی۔ جب ماں اس کے سامنے آئی تو وہ اپنی ماں کے قریب گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کا کان نوچ ڈالا۔ وہاں پر موجود لوگوں نے اسے سرزنش کی کہ نامعقول ابھی جب کہ تو پھانسی کی سزا پانے والا ہے تو نے یہ کیا حرکت کی؟؟؟
اس نے جواب دیا کہ مجھے پھانسی کے اس تختے تک پہنچانے والی یہی میری ماں ہے کیونکہ میں بچپن میں کسی کے کچھ پیسے چرا کے لایا تھا۔ تو اس نے مجھے ڈانٹنے کی بجائے میری حوصلی افزائی کی اور یوں میں جرائم کی دنیا میں آگے بڑھتا چلا گیا اور انجام کار آج مجھے پھانسی دے دی جائے گی۔