💥والدین کی دعا و بددعا کا اثر



▪ حضرت مریم علیہا السلام کی والدہ کی دعا:

بی بی مریم علیہا السلام کیلیے ان کی ماں نے کتنی دعائیں کیں۔ اور پھر یہ دعائیں کرتی رہیں۔ یہی نہیں کہ بچے کی پیدائش ہو گئی تو دعائیں بند کر دیں۔

⚡قرآن مجید میں ہے کہ یہ اس کے بعد بھی دعائیں کرتی رہیں۔
اے اللہ میں اپنی بیٹی کو اور اس کی اولاد کو شیطان مردود سے تیری پناہ میں دیتی ہوں۔
(سورة آل عمران:36)

گویا بچی چھوٹی ہے مگر ماں کی محبت دیکھیے فقط اس بچے کیلیے ہی دعا نہیں مانگ رہی بلکہ ان کی آنے والی نسلوں کیلیے بھی دعا مانگ رہی ہیں۔

⚡ اللہ کو ماں کی یہ بات اتنی پسند آئی؛ فرمایا۔
اللہ نے پھر اس بچی کو قبول فرما لیا۔ اور پھر اس کی تربیت فرمائی۔
(سورة آل عمران:37)

تو یہ ماں کی دعا تھی اور مربّی تو حقیقت میں اللہ ہی ہے۔
تو والدین کی دعاؤں کو قبولیت حاصل ہے۔ بچوں کی جسمانی نشونما اور اخلاقی و روحانی تربیت والدین کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ جو والدین اس ذمہ داری کو احسن انداز میں پورا کرتے ہںں ان کی اولاد دنیا میں ان کیلیے راحت و آرام کا سبب بنتی ہے۔ اور آخرت میں ترقئ درجات کا سبب بنتی ہے۔

▪ والدین کی بددعا کا اثر:

اللہ پاک کے ہاں والدین کا مقام بلند ہے، والدین کے دل اور زبان سے جو دعا نکلتی ہے وہ سیدھی اوپر جاتی ہے۔ عرش کے دروازے کھل جاتے ہیں تو دعا اللہ کے یہاں پیش کر دی جاتی ہے، اور قبول کر دی جاتی ہے۔ مگر شیطان بڑا مردود ہے۔ وہ والدین کے ذہن میں یہ ڈالتا ہے کہ ہم بدعا تو دیتے ہیں مگر ہمارے دل میں نہیں ہوتی۔ یہ شیطان کا بڑا پھندا ہے۔ حقیقت میں تو یہ بددعا کے الفاظ کہلواتا ہے اور والدین کو تسلی دیتا ہے کہ تم نے کہا تو تھا کہ مر جاؤ مگر تمہارے دل میں نہیں تھا۔ کبھی بھی شیطان کے دھوکے میں آ کر بچے کو بددعا نہیں دینی چاہیے۔ کئی والدین بچوں کو بددعائیں دے کر ان کی عاقبت خراب کر دیتے ہیں۔ اور ان کی دنیا و آخرت خراب کر دیتے ہیں۔

واقعہ:
💫 ایک عورت کو اللہ نے بیٹا دیا مگر غصے میں قابو نہیں پا سکتی تھی، چھوٹی چھوٹی باتوں پر بچوں کو کوسنے لگ جاتی۔ ایک دفعہ بچے نے کوئی بات ایسی کر دی، غصہ آیا اور کہنے لگی کہ تُو مر جاتا تو اچھا تھا۔

اب ماں نے جو الفاظ کہہ دئیے اللہ نے اس کی دعا کو قبول کر لیا مگر بچے کو اس وقت موت نہیں دی بلکہ اس بچے کو اللہ تعالیٰ نے نیک بنایا۔ اچھا اور لائق بنایا۔ وہ بچہ بڑا ہوا۔ عین بھر پور جوانی کا وقت تھا۔ یہ نیک بن گیا، لوگوں میں عزت ہوئی۔ لوگ نام لیتے کہ بیٹا ہو تو فلاں جیسا ہو۔ پھر اللہ نے اس کو بخت دئیے، کاروبار بھی اچھا ہو گیا تھا، لوگوں میں اس کی عزت تھی۔ تذکرے اور چرچے تھے۔ اب ماں نے اس کی شادی کا ارادہ کیا۔ خوبصورت لڑکی کا انتخاب کیا۔ شادی کی تیاریاں ہوئیں۔ جب شادی میں چند دن باقی تھے۔ اس وقت اللہ نے اس کے بیٹے کو موت عطا کر دی۔ اب ماں رونے بیٹھ گئی۔ میرا تو جوان بیٹا رخصت ہو گیا۔ رو رو کر حال خراب ہو گئے۔ کسی اللہ والے کو اللہ نے خواب میں بتایا ہم نے اس کی دعا کو ہی قبول کیا تھا کہ اس نے بچپن میں اپنے بچے کو بددعا دی تھی کہ "تُو مر جاتا تو اچھا تھا۔" ہم نے نعمت اس وقت واپس نہیں لی۔ ہم نے اس نعمت کو بھر پور بننے دیا۔ جب عین شباب کے عالم میں یہ پہنچا، نعمت پک کر تیار ہو گئی، ہم نے اس وقت پھل توڑا تاکہ ماں کو سمجھ لگ جائے کہ اس نے کس نعمت کی ناقدری کی۔

⚡یہ واقعہ عبرت اور نصیحت پکڑنے کا ایک نمونہ ہے۔


🌹 بیٹی کی پیدائش پر بشارتیں:


بیٹی کی پیدائش اللہ کی جانب سے عطا کردہ ایک بہت بڑی رحمت اور بہت عظیم اعزاز ہے۔

⚡ قرآنِ پاک میں ارشاد ہوتا ہے:
"اللہ ہی کی حکومت ہے، آسمانوں اور زمین میں، وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے، وہ جسے چاہتا ہے لڑکیاں دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے لڑکے عنایت کرتا ہے۔ اور جسے چاہتا ہے لڑکے اور لڑکیاں (ملا جلا کر) دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے بانجھ کر دیتا ہے۔ وہ (سب کچھ) جاننے والا (اور) قدرت والا ہے۔
(سورةالشوریٰ: 49 تا 50)

⚡ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیٹوں سے قبل بیٹیوں کا ذکر فرمایا اور علماء نے اس سلسلہ میں وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ:
بیٹوں پر بیٹیوں کے ذکر کو مقدم کرنے میں بیٹیوں کی اہمیت و فضیلت کو اجاگر کرنے اور ان کے ساتھ مشفقانہ رویہ اختیار کرنے کی تاکید مقصود ہے، کیونکہ ہر دور میں بہت سے والدین میں بیٹی کی پیدائش پر بوجھ کا احساس پیدا ہوتا ہے۔

زمانہ جاہلیت میں بیٹیوں کی پیدائش پر اس حد تک نفرت انگیز طریقہ کار اختیار کیا جاتا تھا کہ وہ انہیں زندہ درگور کرنے سے بھی نہ کتراتے تھے۔ لہٰذا اس آیت میں گویا اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ تمہاری نگاہوں میں یہ کمتر اور حقیر بچی، میری نگاہوں میں سب سے زیادہ مقدم ہے۔
نیز اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے بیٹیوں کا ذکر اس لئے فرمایا تاکہ ان کی صنفی نزاکت کی جانب توجہ دلائے اور یہ کہ ان پر بہت زیادہ توجہ اور نگہبانی کی ضرورت پیش آتی ہے۔

▪بیٹیوں کی پیدائش اور بہترین پرورش پر چند بشارتیں دی گئی ہیں جو درج ذیل ہیں۔

✨ جب ایک بار حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے عرض کیا:
اے مالک جب تو خوش ہوتا ہے تو کیا کام کرتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
میں بارش برساتا ہوں،
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پھر عرض کیا:
جب تو اس سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے تو؛
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
میں بیٹیاں پیدا کرتا ہوں۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پھر عرض کیا:
یا باری تعالیٰ جب تو سب سے زیادہ خوش ہوتا ہے تو؛
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
میں مہمان بھیجتا ہوں۔

✨ حضرت نبیط بن شریطؓ روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
جب کسی کے ہاں لڑکی پیدا ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے گھر فرشتوں کو بھیجتا ہے جو آ کر کہتے ہیں کہ
اے گھر والو! تم پر سلامتی ہو۔
پھر فرشتے اس بچی کو اپنے پروں کے سائے میں لے لیتے ہیں۔ اور اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ ایک ناتواں و کمزور جان ہے جو ایک ناتواں سے پیدا ہوئی ہے،جو شخص اس ناتواں جان کی پرورش کی ذمہ داری لے گا تو قیامت تک مددِ خدا اس کے شاملِ حال رہے گی۔
(مجمع الزوائد، کتاب البروالصلة)

✨ حضرت نبیط بن شریطؓ روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
بیٹیوں کو برا مت کہو، میں بھی بیٹیوں والا ہوں۔ بیشک بیٹیاں تو بہت محبت کرنے والیاں، غمگسار، اور زیادہ مہربان ہوتی ہیں۔
(مسند الفردوس)

✨ حضرت ابنِ عباسؓ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
جس کے ہاں بیٹی پیدا ہو اور وہ اسے ایذا نہ دے اور نہ ہی بُرا جانے اور نہ بیٹے کو بیٹی پر فضیلت دے تو اللہ تعالیٰ اس شخص کو جنت میں داخل فرمائے گا۔
(المستدرک للحکام)

✨ حضرت عائشہ صدیقہؓ روایت کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
جس شخص پر بیٹیوں کی پرورش کا بار پڑ جائے اور وہ ان کے ساتھ حسنِ سلوک کرے تو یہ بیٹیاں اس کیلیے جہنم سے روک بن جائیں گی۔
(صحیح مسلم)

✨ حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ
میرے پاس ایک مسکین عورت آئی جس کے ساتھ اس کی دو بیٹیاں بھی تھیں، میں نے اسے تین کھجوریں دیں۔ اس نے ہر ایک کو ایک ایک کھجور دی۔ پھر جس کھجور کو وہ کھانا چاہتی تھی، اس کے دو ٹکڑے کر کے وہ کھجور بھی ان کو کھلا دی۔ مجھے اس واقعے سے بہت تعجب ہوا۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں اس عورت کے ایثار کا بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
اللہ تعالیٰ نے اس (ایثار) کی وجہ سے اس عورت کیلیے جنت کو واجب کر دیا۔
(صحيح مسلم )

🌹 آپ صلی اللّٰہ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی بیٹیوں پر شفقت:


🌟1. حضرت فاطمہؓ جب آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوتیں تو آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کھڑے ہو جاتے، ان کی طرف متوجہ ہو جاتے، پھر ان کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیتے، اسے بوسہ دیتے پھر ان کو اپنے بیٹھنے کی جگہ پر بٹھاتے۔ اسی طرح جب آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم حضرت فاطمہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہا کے ہاں تشریف لے جاتے تو وہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کو دیکھ کر کھڑی ہو جاتیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیتیں پھر اس کو چومتیں اور آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کو اپنی جگہ پر بٹھاتیں۔
(سنن ابی داؤد، کتاب الادب)

🌟2. حضرت زینب رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہا رسول اکرم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کی سب سے بڑی شہزادی ہیں جو اعلانِ نبوت سے دس سال قبل مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئیں۔ جنگِ بدر کے بعد آپ صلی اللّٰہٰ علیہ وآلہ وسلّم نے ان کو مکہ سے مدینہ بلا لیا۔ جب حضرت زینبؓ ہجرت کے ارادہ سے اونٹ پر سوار ہو کر مکہ سے باہر نکلیں تو کافروں نے ان کا راستہ روک لیا۔ ایک ظالم نے نیزہ مار کر ان کو اونٹ سے زمین پر گرا دیا جس کی وجہ سے ان کا حمل ساقط ہو گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو اس واقعے سے بہت صدمہ ہوا چنانچہ آپ نے ان کے فضائل میں ارشاد فرمایا:
میری یہ بیٹیوں میں اس اعتبار سے فضلیت والی ہے کہ میری طرف ہجرت کرنے میں اتنی بڑی مصیبت اٹھائی۔
جب آٹھ ہجری میں حضرت زینب رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہا کا انتقال ہو گیا تو نمازِ جنازہ پڑھا کر خود اپنے مبارک ہاتھوں سے قبر میں اتارا۔
(شرح العلامتہ الزرقانی)

🌟3. حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ
نجاشی بادشاہ نے حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں کچھ زیورات بطور تحفہ بھیجے جن میں ایک حبشی نگینے والی انگوٹھی بھی تھی۔ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم نے اس انگوٹھی کو چھڑی یا انکشتِ مبارکہ سے مس کیا اور اپنی نواسی امامہ کو بلایا جو شہزادئ رسول حضرت زینب رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہا کی بیٹی تھیں اور فرمایا:
اے چھوٹی بچی! اسے تم پہن لو۔
(سنن ابی داؤد)

🌟4. حضرت ابو قتادہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ
اللّٰہ کے محبوب صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم ہمارے پاس تشریف لائے تو آپ اپنی (نوسی) امامہ بنت ابو العاص کو اپنے کندھے پر اٹھائے ہوئے تھے۔ پھر آپ نماز پڑھانے لگے تو رکوع میں جاتے وقت انہیں اتار دیتے اور جب کھڑے ہوتے تو انہیں اٹھا لیتے۔
(صحیح بخاری)