🌹 اولاد کی رہنمائی کے چند اصول:



✨ اولاد کی اصلاح کا انداز ایسا ہونا چاہیے کہ ان کی اصلاح بھی ہو جائے اور والدین سے باغی بھی نہ ہوں۔ اس لئے جب بھی بچے کو سمجھائیں تو

▪ نرمی سے سمجھائیں۔ بچوں کے جذبات نازک ہوتے ہیں۔ بعض والدین کی عادت ہوتی ہے کہ جونہی بچے نے کوئی غلطی کی وہ اس کے احساسات کا خیال کیے بغیر اس کو کوسنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس سے بچے احساسِ کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اود والدین کو مخالف سمجھنا شروع کر دیتے ہیں۔

✨ حضرت ابو درداء رضی اللّٰہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
جسے نرمی میں سے حصہ دیا گیا اسے بھلائی میں سے حصہ دیا گیا اور جو نرمی کے حصے سے محروم رہا وہ بھلائی میں سے اپنے حصے سے محروم رہا۔
(جامع الترمذی)

▪ بچوں کی غلطی مثبت انداز میں ان پر آشکار کی جائے تاکہ وہ اپنے آپ کو قیدی تصور نہ کریں اور سمجھانے والے کو اپنا خیرخواہ اور ہمدرد سمجھیں۔

✨ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ عنہا سے مروی ہے کہ حضور پاک صلی اللہٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
نرمی جس چیز میں ہوتی ہے اسے زینت بخشتی ہے اور جس چیز سے نرمی چھین لی جاتی ہے اسے عیب دار کر دیتی ہے۔
(صحیح مسلم)

▪ بعض والدین بچوں کو سمجھاتے وقت مختلف دھمکیوں سے نوازتے ہیں مثلاً اب اگر تم نے ایسا کیا تو میں تمہیں گھر سے نکال دوں گا وغیرہ۔ ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ بچے کا ناپختہ ذہن اس کا بہت غلط اثر قبول کرتا ہے۔ اور نتیجتاً وہ بھی جوابی دھمکیوں پر اتر آتا ہے۔ اور سنبھلنے کی بجائے بگڑتا چلا جاتا ہے۔

▪بچے کو کبھی بھی آناًفاناً غصے میں سزا نہ دیجیے بلکہ اس کی غلطی سامنے آنے پر سوچیے کہ مجھے اسے کسطرح
سمجھانا چاہیے۔ پھر اس حکمت عملی کو اختیار کرتے ہوئے اسے سمجھائیے۔

▪ سب کے سامنے نہ جھاڑیے۔ حتیٰ الامکان تنہائی میں ہی سمجھائیں۔ ان شاءاللہ مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔



▪ بعض والدین اپنی اولاد کی بار بار غلطی پر بددعا دے ڈالتے ہیں۔ پھر جب یہ بد دعائیں اپنا اثر دکھاتی ہیں تو یہی والدین مصلے بچھا کر بیٹھ جاتے ہیں۔

✨ امام محمد غزالی رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں کہ
"ایک آدمی حضرت عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللّٰہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنے بچے کی شکایت کی۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا:
کیا تم نے اس کے خلاف بد دعا کی ہے؟؟؟ اس نے کہا: ہاں۔
فرمایا: تم نے خود ہی اسے برباد کر دیا ہے، بچے کے ساتھ نرمی اختیار کرنا ہی اچھا کام ہے۔
(مکاشفتہ القلوب)

▪ ایک بار کی غلطی پر بچے کو مختلف القابات مثلاً مکار، چور، جھوٹا وغیرہ کہنے والے والدین سخت غلطی پر ہیں۔ ان القابات کی تکرار سے بچہ یہ سوچتا ہے جب مجھے یہ لقب مل ہی گیا ہے تو میں کیوں نہ اس کام کو کامل طریقے سے کروں۔ پھر وہ اسی لقب کا حقیقی مستحق بن کر دکھاتا ہے۔

▪ اگر نرمی کے باوجود بچہ کسی غلطی کو بار بار کرتا ہے تو مقتضائے حکمت یہ ہے کہ اسے ذرا سختی سے سمجھایا جائے اگر پھر بھی باز نہ آئے تو ہلکی سزا دینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔

✨ حضرت جابر رضی اللّٰہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللّٰہ علیہ واٰلہٖ وسلّم کا فرمان ہے کہ
اللہ تعالیٰ اس بندے پر رحم فرمائے جو اپنے گھر میں کوڑا لٹکائے جس سے اس کے اہل ادب سیکھیں۔
(کنزالعمال)

▪ اگر بچے کی کسی غلطی پر سزا دینا ضروی ہو تو ہاتھ سے دے، اور اتنی ضرب لگائے کہ بچہ اسے برداشت کر سکے اور چہرے پر مارنے سے بچے۔

✨ حضرت ابوہریرہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
جب تم میں سے کوئی مارے تو اسے چاہیے کہ چہرے پر مارنے سے بچے۔
(سنن ابی داؤد)

▪ ماں کو چاہیے کہ بچے کے کھانے پینے کی پسندیدہ چیزیں گھر پر ہی بنا کر کھلائے پلائے، اس کی ضروریات کا خیال رکھے۔
ایک بزرگ کا کہنا ہے کہ جس کو اپنی ماں کے دونوں چشموں سے دودھ نصیب ہو جاتا ہے اور ماں کے ہاتھوں کی پکی ہوئی روٹی کھانا نصیب ہو جاتی ہے تو اسے آدھی ولایت نصیب ہو جاتی ہے۔ آدھی ولایت اسے اپنی کوشش اور ہمت سے حاصل ہوتی ہے اگر وہ حاصل کرنا چاہے۔

وضاحت:
امام زرنوجی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
اگر ممکن ہو تو غیر مفید اور معیاری کھانے سے پرہیز کرنا چاہیے کیونکہ بازاری کھانا انسان کو خیانت و گندگی کے قریب اور ذکر اللہ سے دور کر دیتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بازار کے کھانوں پر غرباء اور فقراء کی نظریں بھی پڑتی ہیں۔ اور وہ اپنی غربت و افلاس کی بناء پر جب اس کھانے کو نہیں خرید سکتے تو دل برداشتہ ہو جاتا ہے۔ اور یوں اس کھانے سے برکت اٹھ جاتی ہے۔

🌹 اولاد کو نماز کی تاکید:
نماز جنت کی کنجی ہے، والدین کو چاہیے کہ جنت کی اس کنجی کے حصول کیلیے اولاد میں نماز کی اہمیت اور ادائیگی کے جذبے کو اجاگر کریں تاکہ وہ دل جمعی کے ساتھ نماز کی پابندی کریں۔
جب بچہ سات سال کا ہو جائے تو اسے نماز پڑھنا سکھائیں اور آہستہ آہستہ اسے پانچوں وقت کی نماز کی ادائیگی کی طرف لانے کی کوشش کریں تاکہ بچپن ہی سے ادائیگئ نماز کی عادت پختہ ہو۔
بچے کو بالخصوص صبح سویرے اٹھنے اور وضو کر کے نماز پڑھنے کی عادت ڈالنی چاہیے۔
مگر سردیوں میں بچے کو وضو کیلیے نیم گرم پانی مہیا کرنا چاہیے۔ تاکہ وہ سرد پانی کی مشقت سے گھبرا کر وضو اور نماز سے جی نہ چرائے۔
بلکہ والد کو چاہیے کہ اپنے لڑکے کو مسجد اپنے ساتھ لے جائے۔ لیکن پہلے اسے مسجد کے آداب سے آگاہ کرے کہ مسجد میں شور نہیں مچانا، اِدھر اُدھر نہیں بھاگنا، نمازیوں کے آگے سے نہیں گزرنا وغیرہ۔
پھر اسے جماعت کی سب سے آخری صف میں دوسرے بچوں کے ساتھ کھڑا کرے۔ اس حکمتِ عملی کی بدولت بچے کا مسجد کے ساتھ روحانی رشتہ قائم ہو جائے گا۔
✨ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
بچوں کو سات سال کی عمر ہو جانے پر نماز سکھاؤ، اور دس سال کے ہو جانے پر انہیں نماز کے معاملے پر مارو۔
(سنن ترمذی)
💥 ایک شخص کا واقعہ:
مصنف کے ایک دوست نے بتایا:
میں دوستوں کے ساتھ سیر و سیاحت کے لیے آزاد کشمیر گیا۔ سفر کے دوران نمازِ عصر کا وقت ہو گیا۔ میری نظر سامنے موجود مسجد پر پڑی تو میں نے ڈرائیور سے عرض کی کہ آپ مہربانی فرما کر پندرہ بیس منٹ کے لئے گاڑی روک لیں تاکہ میں نمازِ عصر ادا کر لوں۔ گاڑی روک دی گئی اور میں نمازِ عصر ادا کرنے کے لئے مسجد میں داخل ہو گیا۔ جماعت ہو چکی تھی اور ایک انتہائی باوقار شخصیت، عمر رسیدہ، سفید داڑھی اور سر پر قیمتی عمامہ پہنے ہوئے بزرگ مسجد میں تشریف فرما تھے۔ مجھے دیکھتے ہی کھڑے ہو گئے اور میری داڑھی کے بوسے لینے لگے اور رو رو کر عرض کرنے لگے:
بیٹے! میری بخشش کی دعا کریں۔ بیٹے! دعا کریں اللّٰہ تعالیٰ میری کوتاہیوں کو معاف فرما دے۔
میں نے کہا:
بابا آپ کیوں شرمسار کرتے ہیں، میں تو گنہگار بندہ ہوں بلکہ آپ میرے لئے دعا کریں کہ اللّٰہ تعالیٰ ہمیں دین میں استقامت عطا فرمائے اور تمام زندگی اللّٰہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے احکامات پر عمل کر کے اپنی آخرت کو سنوارنے کی توفیق عطا فرمائے۔وہ بزرگ فرمانے لگے:
بیٹے! میں کس قدر پریشان ہوں، آپ تصور بھی نہیں کر سکتے۔میرا سارا سارا دن اور ساری ساری رات رونے میں گزر جاتی ہے۔
میں یہ سمجھا کہ ان کو کوئی مرض ہو گا۔ اس تکلیف کی وجہ سے انہیں نیند نہیں آتی ہو گی۔ چونکہ میں ڈاکٹر تھا، اس لئے ان سے عرض کی کہ آپ مجھے اپنی تکلیف بتائیں، میں ڈاکٹر ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ اس تکلیف کو دور کرنے کا ذریعہ بن جاؤں۔ اس پر وہ بزرگ اور زیادہ رِقت سے رونے لگے۔ اور انہوں نے فرمایا:
بیٹے! میں اس علاقے کا زمیندار ہوں۔ میرا ایک ہی بیٹا تھا۔ میں نے اسے بہترین تعلیم دلوائی اور وہ ایم۔ بی۔ بی۔ ایس کر کے یو۔ کے چلا گیا۔ اس نے یو۔ کے سے ایف۔ آر۔ سی۔ ایس کیا اور جب وہ پاکستان واپس آیا تو میں اسے لینے کے لئے کراچی گیا۔ کیونکہ اس وقت انٹرنیشنل فلائٹیس (بین الاقوامی پروازیں) صرف کراچی اترتی تھیں۔
میں اور بچے کی ماں کے ساتھ ساتھ سب خاندان والے بھی بہت خوش تھے۔ جب میرا بیٹا جہاز سے اترا تو یہ دیکھ کر میرے پاؤں کے نیچے سے زمین ہی نکل گئی۔ میرا بیٹا دو اشخاص کے کاندھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے لٹکتا ہوا جہاز سے باہر آیا۔ بڑی مشکل سے اسے جہاز سے نیچے اتارا گیا۔ اس کا جسم آگ کی طرح تپ رہا تھا۔ پریشانی کے عالم میں کراچی سے آزاد کشمیر پہنچا۔ سارے خاندان پر افسردگی چھا گئی بیٹا تھا کہ اسے غشی کے دورے پڑ رہے تھے۔
میں نے وضو کیا اور گھر کے ایک خالی کمرے میں جا کر دو رکعت نفل کی نیت کر کے نماز پڑھی اور اللہ سے رو رو کر دعا کی۔
یا اللہ! میرے بیٹے کی تکلیف دور فرما دے، میرے بیٹے کو شفاء عطا فرما دے۔ ابھی میں دعا کر ہی رہا تھا کہ میری بیوی نے بتایا کہ بیٹے کو ہوش آگیا ہے اور وہ آپ کو بلا رہا ہے۔ میں نے اللّٰہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور جلدی جلدی اس کمرے میں پہنچا جہاں میرا بیٹا موجود تھا۔ میں نے جھک کر بیٹے کی پیشانی کو چومنا چاہا لیکن میرے بیٹے نے اپنے دونوں ہاتھوں سے میری گردن پکڑ لی اور میرا گلا گھونٹنے لگا۔
میری بیوی آگے بڑھی اور بچے کو کوسنے لگی کہ اللّٰہ تعالیٰ کا خوف کر، یہ کیا کرتا ہے اور میرے بچے سے میری گردن چھڑوانے لگی۔
لیکن میرا بیٹا میری گردن چھوڑنے کے لئے تیار نہ تھا بلکہ وہ کہنے لگا میرے باپ نے مجھ پر بڑا ظلم کیا ہے۔ مجھے ایم۔ بی۔ بی۔ ایس کرایا، پھر ایف۔ آر۔ سی۔ ایس کے لئے لندن بھیجا لیکن اللّٰہ تعالیٰ کا فرض نماز ادا کرنے کے لئے زور نہ دیا۔ موت کا فرشتہ میرے سامنے کھڑا ہے، میرا حشر مجھے نظر آ رہا ہے، میں ایسے باپ کا گلا کیوں نہ گھونٹوں جس نے مجھے جہنم کی آگ سے بچنے کی تعلیم نہیں دی۔ مجھے ان کاموں سے کیوں نہ روکا جن کاموں کا اللّٰہ تعالیٰ نے روکنے کا حکم دیا تھا اور ان کاموں کو کرنے کا حکم کیوں نہ دیا جنہیں اللّٰہ تعالیٰ نے کرنے کا حکم دیا تھا۔ میرا بیٹا میرا گلا گھونٹ رہا تھا اور میری بیوی اس کے ہاتھوں سے میرا گلا چھڑا رہی تھی۔
اسی حال میں اس کی جان نکل گئی اور میری گردن اس کے ہاتھوں سے چھوٹ گئی۔ اب یہ فکر میری زندگی کا روگ بن چکی ہے۔ اگر روزِ محشر اس نے میری گردن دبوچ لی اور مجھے اللّٰہ تعالیٰ کے سامنے ایک مجرم کی حیثیت سے کھڑا کر دیا تو میں اللّٰہ تعالیٰ کو کیا جواب دوں گا! ان کی درد بھری کہانی سن کر مجھ پر بھی گریہ طاری ہو گیا۔ میں نے ان کے بار بار کہنے پر ان کے حق میں دعا کی اور روتی آنکھوں کے ساتھ وہاں سے روانہ ہوا۔
(مقصود الدنیا والآخرہ)
💥 اولاد کو قرآن پڑھانے کی تاکید:
قرآن ایک نور ہے۔ اگر بچوں کا دل و دماغ قرآن کی روشنی سے آراستہ کیا جائے تو ان شاءاللہ ان کا باطن بھی منور ہو جائے گا۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی اولاد کو تعلیم قرآن سے آراستہ کرنے والوں کو کئی بشارتیں عطا فرمائی ہیں۔
✨ حضرت ابو ہریرہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا:
جس شخص نے دنیا میں اپنے بچے کو قرآن پڑھنا سکھایا، تو بروزِ قیامت جنت میں اس شخص کو ایک تاج پہنایا جائے گا جس کی بناء پر اہلِ جنت جان لیں گے کہ اس شخص نے دنیا میں اپنے بیٹے کو تعلیم دلوائی تھی۔
(الجمعم الاسط)
✨ حضرت محمد صلی اللّٰہٰ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان مغفرت شان ہے:
جو شخص اپنے بیٹے کو ناظرہ قرآن کریم سکھائے اس کے سب اگلے پچھلے گناہ بخش دئیے جاتے ہیں۔
(المعجم الاوسط)
▪ اگر بچے کا رحجان ہو تو اسے قرآن پاک بھی حفظ کروایا جائے اس کی فضیلت زیادہ ہے۔
✨ حضرت انس بن مالک رضی اللّٰہٰ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللّٰہ ٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
جس شخص نے اپنے بیٹے کو قرآن مجید دیکھ کر پڑھنا سکھایا، اس کے اگلے پچھلے گناہ بخش دیئے جائیں گے اور جس نے اپنے بچے کو بغیر دیکھے پڑھنا سکھایا تو اللہ تعالیٰ اس باپ کو چودہویں رات کے چاند کی مانند اٹھائے گا اور اس کے بیٹے سے کہا جائے گا:
پڑھ، پس جب بھی وہ ایک آیت پڑھے گا، اللہ تعالیٰ اس کے باپ کا درجہ بلند فرما دے گا یہاں تک کہ وہ پورا قرآن ختم کر لے۔
(المعجم الاوسط)
▪والدین کو چاہیئے کہ اپنے بچے کو قرآن پاک پڑھانے کے لیے ایسے صحیح العقیدہ قاری صاحب کا انتخاب کریں جو بچے کو درست مُخارج سے قرآن پاک پڑھائیں کیونکہ قرآن پاک اتنی تجوید سے پڑھنا فرض عین ہے کہ حرف دوسرے سے صحیح ممتاز ہو۔
اس کے ساتھ ساتھ وہ قاری صاحب بچے کی تربیت میں والدین کے معاون بھی بنیں۔
💥 اولاد کو روزہ کی تاکید:
نماز کی طرح بچے کو روزہ رکھنا کا عادی بھی بنایا جائے۔ اسے روزے کی مشق اس طرح کروائی جائے کہ پہلے اسے چند گھنٹے بھوکے رہنے کا ذہن دیا جائے۔ پھر آہستہ آہستہ اس دورانیے کو بڑھایا جائے۔ اور جب بچہ روزہ رکھنے کے قابل ہو جائے تو اسے روزہ رکھوایا جائے۔ لیکن اسے باور کرایا جائے کہ محض بھوک پیاس برداشت کرنے کا نام روزہ نہیں بلکہ روزے میں ہر بُرے کام سے بچنا چاہیے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ جھوٹ، چغلی، غیبت وغیرہ جیسے ہر قسم کے گناہوں سے بچیں تاکہ ان کی تربیت میں پلنے والی اولاد متقی و پرہیزگار ہو۔