🌹حقوقِ زوجین:



دو اجنبی مرد و عورت کے درمیان شوہر اور بیوی کا رشتہ اس وقت قائم ہو سکتا ہے جبکہ دونوں کے درمیان شرعی نکاح عمل میں آئے۔ نکاحِ شرعی کے بعد دو اجنبی مرد و عورت رفیقِ حیات بن جاتے ہیں۔ ایک دوسرے کے رنج و خوشی، تکلیف و راحت، اور صحت و بیماری، غرضیکہ زندگی کے ہر گوشہ میں شریک ہو جاتے ہیں۔

✨ عقد نکاح کو قرآن کریم میں میثاق غلیظ کا نام دیا گیا ہے۔ یعنی 'نہایت مضبوط رشتہ
نکاح کیوجہ سے بےشمار حرام امور ایک دوسرے کیلیے حلال ہو جاتے ہیں۔ حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایک دوسرے کو لباس سے تعبیر کیا ہے۔ یعنی شوہر اپنی بیوی کیلیے اور بیوی اپنے شوہر کیلیے لباس کی مانند ہے۔ شرعی نکاح کے بعد جب آدمی شوہر اور عورت بیوی بن جاتی ہے تو ایک دوسرے سے خوشی حاصل کرنا جائز ہو جاتا ہے۔


🌹 نکاح کے دو اہم مقاصد:

اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں نکاح کے مقاصد میں دو اہم مقاصد مندرجہ ذیل آیت میں بیان کیے ہیں۔
اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ تمہاری ہی جنس سے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان سے آرام پاؤ، اس نے تمہارے درمیان محبت اور ہمدردی قائم کر دی یقیناً غورو فکر کرنے والوں کے لئے اس میں بہت سی نشانیاں ہیں۔
(سورة الروم:21)

✨ اس آیت میں نکاح کے دو اہم مقاصد بیان کیے گئے ہیں۔

▪1. میاں بیوی کو ایک دوسرے سے قلبی اور جسمانی سکون حاصل ہوتا ہے۔

▪2. میاں بیوی کے درمیان ایک ایسی محبت، الفت، تعلق، رشتہ اور ہمدردی پیدا ہو جاتی ہے جو دنیا میں کسی بھی دو شخصوں کے درمیان نہیں ہوتی۔

🌹 پہلا انسانی رشتہ:
اللہ تعالیٰ نے بندے اور رب کے رشتے کے بعد جو سب سے پہلا خوبصورت انسانی رشتہ بنایا وہ میاں بیوی کا رشتہ ہی تھا، حضرت آدم علیہ السلام کو جب تنہائی محسوس ہوئی تو ان کے سکون و تسکین کے لیے اللہ نے حضرت اماں حوا کو انہی کی بائیں پسلی سے تخلیق کیا۔
✨ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
عورتوں سے حسن سلوک کرو کیونکہ عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے اور پسلی کا اوپر والا حصہ زیادہ ٹیڑھا ہوتا ہے۔ پس اگر اسے سیدھا کرنا چاہو تو توڑ دو گے اور اگر (اپنے حال پر چھوڑ دو تو ہمیشہ ٹیرھا رہے گا) پس عورتوں سے اچھا سلوک کرو۔
(بخاری)
✨ عورت پسلی کے مانند ہے اگر اسے سیدھا کرو گے تو توڑ دو گے اور اگر اس سے نفع اٹھانا چاہو گے تو اس کے ٹیڑھا پن کے باوجود نفع پاؤ گے۔
(بخاری، مسلم)
▪ میاں بیوی کا رشتہ وہ خوبصورت رشتہ ہے جس پر شیطان کی سب سے بھیانک نظر ہوتی ہے کہ اس میں پھوٹ ڈلوا کر وہ نسلِ آدم کو گمراہ کر سکے۔
✨ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
ابلیس کا تخت پانی پر ہے۔ وہاں سے وہ اپنے لشکر روانہ کرتا ہے۔ اس کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ شیطان وہ ہوتا ہے جو سب سے زیادہ لوگوں میں فتنہ ڈالتا ہے۔ اس کے لشکر میں سے ایک آکر کہتا ہے میں نے ایسا ایسا کیا ہے وہ کہتا ہے تم نے کچھ بھی نہیں کیا۔ پھر ان میں سے ایک آکر کہتا ہے میں نے ایک میاں بیوی کے درمیان جھگڑا کرا دیا ہے۔ وہ اس کے قریب آکر کہتا ہے ہاں تم نے بہت اچھا کام کیا ہے اور اس کو گلے لگا لیتا ہے۔
(مسلم)
🌹 میاں بیوی ایک دوسرے کا لباس :
لباس کیا ہوتا ہے، جو ڈھانپتا ہے، ستر پوشی کرتا ہے، ہم میں سے کوئی مکمل نہیں ہوتا، اللہ نے جو شریکِ حیات کسی کی زندگی کیلیے چنا ہوتا ہے، وہ زندگی کا مکمل ساتھ بن جاتا ہے۔
▪ گویا اللہ تعالیٰ میاں بیوی کے خوبصورت رشتے کے بارے میں قرآنِ پاک میں فرماتا ہے۔
✨ وہ تمہارے لئے لباس ہیں اور تم ان کے لئے لباس ہو۔
(سورہ البقرہ:187)
▪ پیارے آقا علیہ الصلوٰة والسلام نے شوہر کو بیوی کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے اور اس کا خیال رکھنے کی ترغیب ان الفاظ میں دلوائی ہے، فرمایا:
✨ جو تم خود کھاؤ تو بیوی کو بھی کھلاؤ اور جو خود پہنو تو اسے بھی پہناؤ اور چہرے پر مت مارو اور اسے بُرے الفاظ نہ کہو اور اس سے (وقتی) قطع تعلق کرنا ہو تو گھر میں کرو۔
(ابوداؤد)
▪ اسی طرح حدیثِ مبارکہ میں عورت کو بھی اپنے شوہر کی موجودگی و غیر موجودگی میں احسن عمل کی تاکید فرمائی ہے۔
✨ عورت اپنے شوہر کے گھر، اس کے بچوں کی نگران ہے اور اس دائرہ عمل میں جواب دہ ہے۔
(صحيح بخاری)
💥 خاوند کے خلاف شکوہ و شکایات اور ناشکری سے پرہیز:
صبر و شکر سے زندگی آسان ہوتی ہے۔ جبکہ شکوہ و شکایات زندگی کو مشکل اور کٹھن بنا دیتے ہیں۔
زندگی شادی کر کے سکون میں نہیں آ جاتی، بلکہ زندگی کو پُرسکون بنایا جاتا ہے۔ زندگی کسی بھی سطح پر ہو اس کو صبر و شکر اور برداشت سہل بنا دیتی ہے، تکلیف دہ باتوں کو درگزر کر کے، اس پر محبت و تحمل سے بات کر کے، پہلے اپنی اصلاح کر کے اور پھر ضرورت پڑنے پر دوسرے کی محبت بھری اصلاح کر کے زندگی کو آسان بنایا جا سکتا ہے۔ شادی شدہ زندگی میں شکر گزاری کی بہت اہمیت ہے کہ اس سے میاں بیوی کے آپس کے تعلقات خراب نہیں ہوتے۔
🌹 حضرت اسماعیل علیہ السلام کی ذہانت کا عجیب واقعہ:
جب حضرت اسماعیل علیہ السلام جوان ہو گئے تو اپنی قوم جرہم کی ایک عورت سے نکاح کر لیا۔ جب ابراہیم علیہ السلام حضرت اسماعیل علیہ السلام سے ملنے کے لئے آئے تو اسماعیل علیہ السلام کو نہ پایا تو آپ نے ان کی بیوی سے پوچھا اس نے جواب دیا کہ وہ معاش کی تلاش میں گئے ہوئے ہیں۔ پھر حضرت ابراہیمؑ نے اس سے معاشی حالات دریافت کئے تو اس نے کہا کہ ہم بڑی تنگی اور سختی سے گزارا کرتے ہیں اور اپنے خاوند کی شکایتیں کرنا شروع کر دیں۔
آپ نے فرمایا کہ جب تمہارا شوہر آ جائے تو اس تک ہمارا یہ پیغام پہنچا دینا کہ
اپنے گھر کے دروازہ کی دہلیز بدل دے۔
جب حضرت اسماعیل علیہ السلام واپس آئے تو ان کو پیغام پہنچا دیا۔
آپؑ نے فرمایا کہ وہ میرے والد (حضرت ابراہیمؑ) تھے اور مجھے یہ حکم دے گئے ہیں کہ تجھے اپنے سے جدا کر دوں۔
انہوں نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی اور دوبارہ شادی کی۔ اب جب پھر کچھ عرصے بعد حضرت ابراھیم علیہ السلام آئے تو ان کے بیٹے گھر پر نہیں تھے، اب کے نئی بہو سے سلام دعا ہوئی تو شکرگزاری کے کلمات سنے اس پر جاتے ہوئے دعا دی اور کہا کہ
اپنے شوہر سے کہنا یہی چوکھٹ رکھے۔
بیوی نے ایسے ہی کلمات شوہر کو بتاۓ اور انہوں نے اللہ کا شکر ادا کیا اور الحمدللہ اپنے ابا جان کی دعا کی برکت سے بہت نعمتیں پائیں۔
✨ اسی طرح عورتوں کی ناشکری کی بنا پر ایک حدیث کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ انہوں نے سب سے زیادہ عورتوں کو جہنم میں دیکھا کہ وہ اپنے شوہروں کی ناشکری کرتی ہیں۔
اصل زینت صرف جسم کا سجنا سنورنا ہی نہیں بلکہ اصل زینت روح کی ہوتی ہے، روح کا سنگھار حقیقتاً شکر، صبر و حمد خلوص و وفا، درگزر اور احساس سے آتا ہے، زندگی سے لے کر موت تک ہر ہر معاملہ آزمائش ہے۔ انا، شادی شدہ رشتے کی دشمن ہی نہیں، سب سے ہہلے انا انسان کی خود کی دشمن ہوتی ہے، جو اسے مختلف وجہیں تلاش کر کے ناشکری اور اذیت میں مبتلا رکھتی ہیں، اور انسان خود اذیت میں رہتا ہے۔ وہ اپنے سکون کو خود اپنے ہاتھوں سے دور کرتا چلا جاتا ہے مگر حقیقت جان نہیں پاتا کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ کیونکہ میاں بیوی خود احتسابی کی بجاۓ الزام تراشی زیادہ آسان سمجھتے ہیں اور محبت کا رشتہ جلد ہی ناشکری کی آڑ میں آ کر مقابلے بازی میں ڈھل جاتا ہے کیونکہ اس رشتے کی اساس اللہ کے لیے وفا نہیں بلکہ انا ٹھہری! شیطان جو کہ لہو میں دوڑ رہا ہے وہ ہر ہر پل "میں" کو اکساتا رہتا ہے اور اللہ سے غافل ہوتے ہوئے ازواجی رشتہ "ہم" میں پروان چڑھنے کی بجاۓ میں میں کے ہاتھوں قتل و ذبح ہو جاتا ہے۔ اور قاتل خود کو مقتول سمجھتے رہتے ہیں۔