🌹 زوجین (میاں بیوی) کی ذمہ داریوں کی تین قسمیں:


انسان صرف انفرادی زندگی نہیں رکھتا ہے، بلکہ وہ فطرتاً معاشرتی مزاج رکھنے والی مخلوق ہے، اس کا وجود خاندان کے ایک رکن اور معاشرہ کے ایک
فرد کی حیثیت سے ہی پایا جاتا ہے، معاشرہ اور خاندان کی تشکیل میں بنیادی اکائی میاں بیوی ہیں، جن کے ایک دوسرے پر کچھ حقوق ہیں:

▪1. شوہر کی ذمہ داریاں یعنی بیوی کے حقوق شوہر پر۔

▪ 2. بیوی کی ذمہ داریاں یعنی شوہر کے حقوق بیوی پر۔

▪ 3. دونوں کی مشترکہ ذمہ داریاں یعنی مشترکہ حقوق۔


🌹 شوہر کی ذمہ داریاں یعنی بیوی کے حقوق شوہر پر:

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا:
اور (مردوں پر) عورتوں کا حق ہے،جیسا کہ(مردوں کا)عورتوں پر حق ہے، معروف طریقہ پر۔
(سورہ البقرہ: 228)

اس آ یت میں میاں بیوی کے تعلقات کا ایسا جامع دستور پیش کیا گیا ہے، جس سے بہتر کوئی دستور نہیں ہو سکتا اور اگر اس جامع ہدایات کی روشنی میں ازواجی زندگی گزاری جائے تو اس رشتہ میں کبھی بھی تلخی اور کڑواہٹ پیدا نہ ہو گی،

یہ قرآنِ کریم کا اعجاز ہے کہ الفاظ کے اختصار کے باوجود معانی کا سمندر گویا کہ ایک کوزے میں سمو دیا گیا ہے۔

یہ آ یت بتا رہی ہے کہ بیوی کو محض نوکرانی اور خادمہ مت سمجھنا بلکہ یہ یاد رکھنا کہ اس کے بھی کچھ حقوق ہیں جن کی پاسداری شریعت میں ضروری ہے۔ ان حقوق میں جہاں نان و نفقہ اور رہائش کا انتظام شامل ہے، وہیں اس کی دل داری اور راحت رسانی کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔ اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ
تم میں سب سے اچھا آ دمی وہ ہے جو اپنے گھر والوں (یعنی بیوی بچوں) کی نظر میں اچھا ہو۔

اور ظاہر ہے کہ ان کی نظر میں اچھا وہی ہو گا جو ان کے حقوق کی ادائیگی کرنے والا ہو۔

دوسری طرف اس آ یت میں بیوی کو بھی آ گاہ کیا کہ اس پر بھی حقوق کی ادائیگی لازم ہے۔کوئی بیوی اس وقت تک پسندیدہ نہیں ہو سکتی جب تک کہ وہ اپنے شوہر کے حقوق کو ادا کر کے اس کو خوش نہ کرے، چنانچہ احادیث میں ایسی عورتوں کی تعریف فرمائی گئی ہے جو اپنے شوہر کی تابع دار اور خدمت گزارہوں اور ان سے بہت زیادہ محبت کرنے والی ہوں اور ایسی عورتوں کی مذمت کی گئی ہے جو شوہروں کی نافرمانی کرنے والی ہوں۔


💥 شوہر کی ذمہ داریاں یعنی بیوی کے حق مندرجہ ذیل ہیں:


🌴1.مکمل مہر کی ادائیگی:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
عورتوں کو ان کا مہر راضی و خوشی ادا کرو۔
(سورةالنساء:4)

نکاح کے وقت مہر کا تعین اور جلد از جلد مہر کی ادائیگی ہونی چاہیے۔ اگرچہ طرفین کے اتفاق سے مہر کی ادائیگی کو مؤخر بھی کر سکتے ہیں۔ مہر صرف عورت کا حق ہے۔ لہٰذا شوہر یا اس کے والدین یا بھائی بہن کیلیے مہر کی رقم میں سے کچھ لینا جائز نہیں۔


▪وضاحت:
شریعت نے کوئی بھی خرچہ صنفِ نازک پر نہیں رکھا ہے۔ شادی سے پہلے اس کے تمام اخراجات والد کے ذمہ ہیں۔ اور شادی کے بعد عورت کے کھانے، پینے، رہنے، سونے اور لباس کے تمام اخراجات شوہر کے ذمہ ہیں۔
لہٰذا مہر کی رقم عورت کی خالص ملکیت ہے اس کو جہاں چاہے اور جیسے چاہے استعمال کرے، شوہر یا والد مشورہ تو دے سکتے ہیں مگر اس رقم میں تصرف کا مکمل اختیار صرف عورت کو ہے۔ اس طرح اگر عورت کو کوئی چیز وراثت میں ملی ہے تو عورت کی ملکیت ہو گی، والد یا شوہر کو وہ رقم یا جائیداد لینے کا کوئی حق نہیں۔

🌴2. بیوی کے تمام اخراجات پورے کرنا:

اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے:
بچوں کے باپ (یعنی شوہر) پر عورتوں (یعنی بیوی) کا کھانا اور کپڑا لازم ہے دستور کے مطابق۔
( سورہ البقرہ:233)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
عورتوں کے سلسلہ میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو کیونکہ اللہ کی امان میں تم نے ان کو لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حکم کی وجہ سے ان کی شرمگاہوں کو تمہارے لئے حلال کیا گیا ہے۔ دستور کے مطابق ان کا مکمل کھانے پینے کا خرچہ تمہارے ذمہ ہے۔
(مسلم)


▪ نفقہ کی مقدار:

حضرت امام قرطبی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ عورت کا جو نفقہ مرد کے ذمہ ہے وہ صرف تین چیزیں ہیں۔

1. طعام۔
2. قیام گاہ۔
3. لباس۔

اس سے زائد جو کچھ اپنی اہلیہ کو دیتا ہے یا اس پر خرچ کرتا ہے وہ ہمدردی اور احسان ہے۔


🌴3. بیوی کے لئے رہائش کا انتظام:

اللہ تبارک و تعالٰی کا ارشاد ہے:
تم اپنی طاقت کے مطابق جہاں تم رہتے ہو وہاں ان عورتوں کو رکھو۔
(سورہ الطلاق:06)

اس آ یت میں مطلقہ عورتوں کا حکم بیان کیا جا رہا ہے کہ عدت کے دوران ان کی رہائش کا انتظام بھی شوہر کے ذمہ ہے۔
جب شریعت نے مطلقہ عورتوں کی رہائش کا انتظام شوہر کے ذمہ رکھا ہے تو حسبِ استطاعت بیوی کی مناسب رہائش کی ذمہ داری بدرجہ اولیٰ شوہر کے ذمہ ہو گی۔


🌴4. بیوی کے ساتھ حسنِ معاشرت:

شوہر کو چاہیے کہ وہ بیوی کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔
اللہ تعالٰی کا فرمان ہے:
ان کے ساتھ اچھے طریقے سے پیش آؤ یعنی عورتوں کے ساتھ گفتگو اور معاملات میں حسنِ اخلاق کے ساتھ معاملہ رکھو تم انہیں ناپسند کرو لیکن بہت ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو بُرا جانو اور اللہ تعالیٰ اس میں بہت ہی بھلائی کر دے۔
(سورہ النساء:19)

▪ شوہر کی یہ چوتھی ذمہ داری 'بیوی کیساتھ حسنِ معاشرت' بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے اس کی ادائیگی کے مختلف طریقے حسبِ ذیل ہیں:

💫1. حسبِ استطاعت بیوی اور بچوں پر خرچہ کرنے میں فراخدلی سے کام لینا چائیے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

اگر کوئی شخص اللہ تعالیٰ سے اجر کی امید کے ساتھ اپنے گھر والوں پر خرچ کرتا ہے تو وہ صدقہ ہو گا یعنی اللہ تبارک تعالی اس پر اجر عطاء فرمائے گا۔
(بخاری)

💫2. بیوی سے مشورہ:
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ گھر کے نظام کو چلانے کی ذمہ داری مرد کے ذمہ رکھی گئی ہے جیسا کہ قرآن کریم میں مرد کے لئے قوام کا لفظ استعمال کیا گیا ہے یعنی
مرد عورتوں پر نگہبان اور منتظم ہیں لیکن حسنِ معاشرت کے طور پر عورت سے بھی گھر کے نظام کو چلانے کے لئے مشورہ لینا چاہیے۔

✨ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
یعنی بیٹیوں کے رشتے کے لئے اپنی بیوی سے مشورہ کیا کرو۔
(ابو داؤد، مسند احمد)

💫3. بیوی کی بعض کمزوریوں سے چشم پوشی کریں، خاص طور پر جب کہ دیگر خوبیاں و محاسن ان کے اندر موجود ہوں، یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ نے عموماً ہر عورت میں کچھ نہ کچھ خوبیاں ضرور رکھی ہیں۔

✨ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
اگر عورت کی کوئی بات یا عمل ناپسند آئے تو مرد عورت پر غصہ نہ کرے کیونکہ اس کے اندر دوسری خوبیاں موجود ہیں جو تمہیں بھی اچھی لگتی ہیں۔
(مسلم)

💫4. مرد بیوی کے سامنے اپنی ذات کو قابلِ توجہ یعنی جاذبِ نظر بنا کر رکھے کیونکہ تم جس طرح اپنی بیوی کو خوبصورت دیکھنا چاہتے ہو وہ بھی تمہیں اچھا دیکھنا چاہتی ہے۔

✨ صحابئ رسول و مفسر قرآن حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں اپنی بیوی کے لئے ویسا ہی سجتا ہوں جیسا وہ میرے لئے زیب و زینت اختیار کرتی ہے۔
(تفسیر قرطبی)

💫5. گھر کے کام و کاج میں عورت کی مدد کی جائے خاص کر جب وہ بیمار ہو۔

✨ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر کے تمام کام کر لیا کرتے تھے، جھاڑو بھی خود لگا لیا کرتے تھے، کپڑوں میں پیوند بھی خود لگا لیا کرتے تھے اور اپنے جوتوں کی مرمت بھی خود کر لیا کرتے تھے۔
(بخاری)


🌹 بیوی کی ذمہ داریاں یعنی شوہر کے حقوق بیوی پر:


💫1.شوہر کی اطاعت:
اللّٰہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا:
مرد عورتوں پر حاکم ہیں۔ اس وجہ سے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے کہ مردوں نے اپنے مال خرچ کئے ہیں۔ جو عورتیں نیک ہیں وہ اپنے شوہروں کا کہنا مانتی ہیں اور اللّٰہ کے حکم کے موافق نیک عورتیں شوہر کی عدم موجودگی میں اپنے نفس اور شوہر کے مال کی حفاظت کرتی ہیں۔ یعنی اپنے نفس اور شوہر کے مال میں کسی قسم کی خیانت نہیں کرتی ہیں۔
(سورة النساء:34)

اس آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے مرد کو عورت پر فوقیت و فضیلت دینے کی دو وجہیں ذکر فرمائی ہیں۔
⚡1. مرد و عورت و ساری کائنات کو پیدا کرنے والے اللّٰہ تبارک وتعالی نے مرد کو عورت پر فضیلت دی ہے۔

⚡2. مرد اپنے اور بیوی و بچوں کے تمام اخراجات برداشت کرتا ہے۔


▪اسی طرح دوسری آیت میں اللّٰہ تبارک وتعالی نے فرمایا:

مردوں کو عورتوں پر فضیلت حاصل ہے۔
(سورۃ البقرہ :228)

✨ رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
اگر عورت نے (خاص طور) پانچ نمازوں کی پابندی کی، ماہِ رمضان کے روزے اہتمام سے رکھے اپنی شرمگاہ کی حفاظت کی اور اپنے شوہر کی اطاعت کی تو گویا وہ جنت میں داخل ہو گئی۔
(مسند احمد)

✨ ایک عورت نے نبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا کہ مجھے عورتوں کی ایک جماعت نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایک سوال کرنے کے لئے بھیجا ہے اور وہ یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے جہاد کا حکم مردوں کو دیا ہے۔ چنانچہ اگر ان کو جہاد میں تکلیف پہنچتی ہے تو اس پر ان کو اجر دیا جاتا ہے اور اگر وہ شہید ہو جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے خصوصی بندوں میں شمار ہو جاتے ہیں کہ مرنے کے باوجود وہ زندہ رہتے ہیں اور اللّٰہ تبارک وتعالی کی طرف سے خصوصی رزق ان کو دیا جاتا ہے۔

✨ جو لوگ اللہ کی راہ میں شہید کئے گئے ہیں ان کو ہرگِز مُردہ نہ سمجھیں، بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے رب کے پاس روزیاں دیئے جاتے ہیں۔
(سورة آل عمران:169)

ہم عورتیں ان کی خدمت کرتی ہیں، ہمارے لئے کیا اجر ہے؟ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

✨ جن عورتوں کی طرف سے تم بھیجی گئی ہو، ان کو اطلاع کردو کہ شوہر کی اطاعت اور اس کے حق کا اعتراف تمہارے لئے اللّٰہ کے راستے میں جہاد کے برابر ہے، لیکن تم میں سے کم ہی عورتیں اس ذمہ داری کو بخوبی انجام دیتی ہیں۔
(بزاز، طبرانی)

▪ وضاحت:

حقیقت یہ ہے کہ مرد و عورت زندگی کی گاڑی کے دو پہیے ہیں۔ زندگی کا سفر دونوں کو ایک ساتھ طے کرنا ہے۔ اب زندگی کے سفر کو طے کرنے میں انتظام کی خاطر یہ لازمی بات ہے کہ دونوں میں سے کوئی ایک سفر کا ذمہ دار ہو، تاکہ زندگی کا نظام صحیح چل سکے۔

لہذا تین راستے ہیں۔
⚡1. دونوں کو ہی امیر بنایا جائے۔
⚡2. عورت کو اس زندگی کے سفر کا امیر بنایا جائے۔
⚡3. مرد کو اس زندگی کے سفر کا امیر بنایا جائے۔

پہلی شکل میں اختلاف کی صورت میں مسئلہ حل ہونے کے بجائے پیچیدہ سے پیچیدہ ہوتا جائے گا۔
دوسری شکل بھی ممکن نہیں ہے کیونکہ مرد و عورت کو پیدا کرنے کرنے والے نے صنفِ نازک کو ایسے اوصاف سے متصف پیدا کیا ہے کہ وہ مرد پر حاکم بن کر زندگی نہیں گزار سکتی لہٰذا اب ایک ہی صورت بچی، اور وہ یہ ہے کہ مرد اس زندگی کے سفر کا امیر بن کر رہے۔ مرد میں عادتاً و طبعاً عورت کی بہ نسبت فکر و تدبر اور برداشت و تحمل کی قوت زیادہ ہوتی ہے۔ نیز انسانی خلقت، فطرت، قوت اور صلاحیت کے لحاظ سے اور عقل کے ذریعہ انسان غور و غوض کرے تو یہی نظر آئے گا کہ اللّٰہ تبارک و تعالیٰ نے جو قوت مرد کو عطا کی ہے اور بڑے بڑے کام کرنے کی جو صلاحیت مرد کو عطا فرمائی ہے، وہ عورت کو نہیں دی گئی۔
لہٰذا امارت اور سربراہی کا کام صحیح طور پر مرد ہی انجام دے سکتا ہے۔

⚡ مرد حضرات بھی اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین کر لیں کہ بیشک مرد عورت کے لئے 'قوام' یعنی امیر کی حیثیت رکھتا ہے لیکن ساتھ ہی دونوں کے درمیان دوستی کا بھی تعلق ہے، یعنی انتظامی طور پر تو مرد 'قوام' یعنی امیر ہے لیکن باہمی تعلق دوستی جیسا ہے ،ایسا تعلق نہیں ہے جیسا مالک اور نوکرانی کے درمیان ہوتا ہے۔

بہرحال! چونکہ اللّٰہ تعالیٰ نے مرد کو قوام بنایا ہے اس لیے فیصلہ اس کا ماننا ہو گا۔ ہاں بیوی اپنی رائے اور مشورہ دے سکتی ہے اور شریعت نے مرد کو یہ ہدایت بھی دی ہے کہ وہ حتیٰ الامکان بیوی کی دلداری کا خیال بھی کرے لیکن فیصلہ اسی کا ہو گا۔ لہٰذا اگر بیوی چاہے کہ ہر معاملے میں فیصلہ ان کا چلے اور مرد 'قوام' نہ بنے تو یہ صورت فطرت کے خلاف ہے۔ عقل کے خلاف ہے اور انصاف کے خلاف ہے اور اس کا نتیجہ گھر کی بربادی کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔


2. شوہر کے مال و آبرو کی حفاظت:


اللّٰہ تبارک و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
جو عورتیں نیک ہیں وہ اپنے شوہروں کی تابعداری کرتی ہیں۔ اور اللّٰہ کے حکم کے موافق نیک عورتیں شوہر کی عدم موجودگی میں اپنے نفس اور شوہر کے مال کی حفاظت کرتی ہیں، یعنی اپنے نفس اور شوہر کے مال میں کسی قسم کی خیانت نہیں کرتی ہیں۔
(سورةالنساء:34)

✨ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
میں تمہیں مرد کا سب سے بہترین خزانہ نہ بتاؤں؟ وہ نیک عورت ہے، جب شوہر اس کی طرف دیکھے تو وہ شوہر کو خوش کر دے، جب شوہر اس کو کوئی حکم کرے تو شوہر کا کہنا مانے۔ اگر شوہر کہیں باہر سفر میں چلا جائے تو اس کے مال اور اپنے نفس کی حفاظت کرے۔
(ابوداؤد، نسائی)

شوہر کے مال کی حفاظت میں یہ ہے کہ عورت شوہر کی اجازت کے بغیر شوہر کے مال میں سے کچھ نہ لے، اور اس کی اجازت کے بغیر کسی کو نہ دے۔ ہاں! اگر شوہر واقعی بیوی کے اخراجات میں کمی کرتا ہے تو بیوی اپنے اور اولاد کے خرچے کو پورا کرنے کے لئے شوہر کی اجازت کے بغیر مال لے سکتی ہے۔

✨ جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہند بنت عتبہ سے کہا تھا جب انہوں نے اپنے شوہر ابوسفیان کے زیادہ بخیل ہونے کی شکایت کی تھی:
اتنا مال لے لیا کرو جو تمہارے اور تمہاری اولاد کے متوسط خرچہ کے لئے کافی ہو۔
(بخاری مسلم)

✨ شوہر کی آبرو کی حفاظت میں یہ ہے کہ عورت شوہر کی اجازت کے بغیر کسی کو گھر میں داخل نہ ہونے دے، کسی نامحرم سے بلا ضرورت بات نہ کرے۔ شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر نہ نکلے۔



💫3. گھر کے اندرونی نظام کو چلانا اور بچوں کی تربیت کرنا:


یہ عورتوں کی وہ ذمہ داری ہے جو ان کی خلقت کے مقاصد میں سے ایک مقصد ہے، بلکہ یہ وہ بنیادی ذمہ داری ہے جسکی ادائیگی عورتوں پر لازم ہے، عورتوں کو اس ذمہ داری کے انجام دینے میں کوئی کمی نہیں چھوڑنی چاہئے کیونکہ اسی ذمہ داری کو صحیح طریقہ پر انجام دینے سے گھر میں آرام و سکون پیدا ہو گا نیز اولاد دونوں جہاں کی کامیابی و کامرانی سے سرفراز ہو گی۔

✨ حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ جب صحابہ کرامؓ اپنی بیٹی یا بہن کو رخصت کرتے تھے تو اس کو شوہر کی خدمت اور بچوں کی بہترین تربیت کی خصوصی تاکید کرتے تھے۔


💫4. بیوی کی چند اہم دیگر ذمہ داریاں:


▪بیوی شوہر کی اجازت کے بغیر نفلی روزہ نہ رکھے:

حضرت ابو ہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
کسی عورت کے لئے حلال نہیں کہ وہ اپنے شوہر کی موجودگی میں روزے رکھے مگر شوہر کی اجازت سے یعنی کسی عورت کے لئے نفلی روزہ رکھنا شوہر کی اجازت کے بغیر حلال نہیں۔

▪عورت کے دل میں شوہر کے پیسے کا درد ہو:

عورت کے دل میں شوہر کے پیسے کا درد ہونا چاہیے تاکہ شوہر کا پیسہ فضول خرچی میں خرچ نہ ہو۔ گھر کو نوکرانیوں پر نہیں چھوڑنا چاہیے کہ وہ جس طرح چاہیں کرتی رہیں بلکہ عورت کی ذمہ داری ہے کہ وہ گھر کے داخلی تمام امور پر نگاہ رکھے۔


◾ چند مشترکہ حقوق اور ذمہ داریاں:


▪ ایک دوسرے کے راز افشا نہ کرنا:
حتیٰ الامکان خوشی و راحت و سکون کو حاصل کرنے اور رنج و غم کو دور کرنے کے لئے ایک دوسرے سے تعاون کرنا چاہیے۔
ایک دوسرے کے راز لوگوں کے سامنے ذکر نہ کیے جائیں۔

✨ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
قیامت کے دن اللہ کی نظروں میں سب سے بدبخت انسان وہ ہو گا جو میاں بیوی کے آپسی راز کو دوسروں کے سامنے بیان کرے۔
(مسلم)



💫 شوہر باہر کے کام اور بیوی گھریلو کام انجام دے:

قرآن و سنت میں واضح طور پر ایسا کوئی قطعی اصول نہیں ملتا جس کی بنیاد پر کہا جائے کہ کھانا پکانا عورتوں کے ذمہ ہے، البتہ حضرت فاطمہؓ کی شادی کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علیؓ اور حضرت فاطمہؓ کے درمیان کام کی جو تقسیم کی وہ اس طرح تھی کہ باہر کے کام حضرت علیؓ دیکھتے تھے، گھریلو کام مثلاً کھانا بنانا، گھر کی صفائی کرنا وغیرہ حضرت فاطمہؓ کے ذمہ تھا۔

زندگی قانونی پیچیدگیوں سے نہیں چلا کرتی، لہٰذا

• جس طرح قرآن و حدیث میں مذکور نہیں ہے کہ کھانا پکانا عورت کے ذمہ ہے۔

• اسی طرح قرآن وسنت میں کہیں واضح طور پر موجود نہیں ہے کہ شوہر کے ذمہ بیوی کا علاج کرانا لازم ہے۔

• اسی طرح قرآن وسنت میں مرد کے ذمہ نہیں ہے کہ وہ بیوی کو اس کے والدین کے گھر ملاقات کے لئے لے جایا کرے۔

• اسی طرح اگر بیوی کے والدین یا بھائی بہن اس کے گھر آئیں تو مرد کے ذمہ نہیں ہے کہ مرغ مسلم و کوفتے و کباب وغیرہ لے کر آئے۔
معلوم ہوا کہ دونوں ایک دوسرے کی خدمت کے جذبہ سے رہیں۔
باہر کے کام مرد انجام دے اور عورت گھر کے معاملات کو بخوبی انجام دے۔ کہیں بھی مقابلہ بازی کا رجحان نہ ہو۔


▪ایک دوسرے کی مشترکہ ضرورت کو پورا کریں:

میاں بیوی کی مشترکہ ذمہ داریوں میں سے ایک اہم ذمہ داری یہ ہے کہ دونوں ایک دوسرے کی تمام ضروریات حتیٰ الامکان پورا کریں۔

✨ حضرت ابو ہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ
"جب مرد اپنی بیوی کو اپنی طرف بلائے اور وہ عورت نہ آئے یا ایسا طرز اختیار کرے کہ جس سے شوہر کی ضرورت پوری نہ ہو اور اس کی وجہ سے شوہر ناراض ہو جائے تو ساری رات صبح تک فرشتے اس عورت پر لعنت بھیجتے رہتے ہیں، یعنی اس عورت پر خدا کی لعنت ہو اور لعنت کے معنی یہ ہیں کہ اللّٰہ تعالیٰ کی رحمت اس کو حاصل نہیں ہو گی۔"
(بخاری و مسلم)


▪ اپنے اہل وعیال کو جہنم کی آگ سے بچانے کے لئے مشترکہ فکر و کوشش کریں:


اللہ تبارک وتعالی نے ارشاد فرمایا:
اے ایمان والو! تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آ گ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں جس پر سخت دل مظبوط فرشتے مقرر ہیں جنہیں جو حکم اللہ تعالیٰ دیتا ہے اسکی نافرمانی نہیں کرتے بلکہ جو حکم دیا جائے بجا لاتے ہیں۔
(سورہ التحریم:6)

جب یہ آ یت نازل ہوئی تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں تشریف لائے اور فرمایا کہ
ہم اپنے آ پ کو تو جہنم کی آگ سے بچا سکتے ہیں مگر گھر والوں کا کیا کریں؟؟؟
تو آ پ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
تم ان کو برائیوں سے روکتے رہو اور اچھائیوں کا حکم کرتے رہو، ان شاءاللہ یہ عمل ان کو جہنم کی آگ سے بچانے والا بنے گا۔


▪وراثت میں شرکت:
دونوں میں سے کسی ایک کے انتقال ہونے پر دوسرا اس کی وراثت میں شریک ہو گا۔

✨ شوہر اور بیوی کی وراثت میں چار شکلیں بنتی ہیں۔

▪1. بیوی کے انتقال پر اولاد موجود نہ ہونے کی صورت میں شوہر کو ½ ملے گا۔

▪2. بیوی کے انتقال پر اولاد موجود ہونے کی صورت میں شوہر کو ¼ ملے گا۔

▪3. شوہر کے انتقال پر اولاد موجود نہ ہونے کی صورت میں بیوی کو ¼ ملے گا۔

▪4. شوہر کے انتقال پر اولاد موجود ہونے کی صورت میں بیوی کو ⅛ ملے گا۔
(سورہ النساء:12)