🌹 میاں بیوی کے حسنِ سلوک سے متعلق چند واقعات:


💥 قبولیت نماز کے لیے خاوند کو راضی رکھنے کی تاکید:

اللّٰہ تعالٰے نے عورت کے لیے اس بات کو بالکل ناپسند کیا ہے کہ اس کا خاوند اس کی ناپسندیدہ حرکات سے ناراض ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں اس بات کی بہت تاکید کی گئی ہے کہ جس عورت کا خاوند اس سے ناراض رہتا ہو تو اسے چاہیے کہ نماز پڑھنے کے ساتھ خاوند کو راضی رکھے تاکہ اس کی نماز قبول ہو کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد کے مطابق جس عورت کا خاوند ناراض رہتا ہو اس کی نماز قبول نہیں ہوتی۔

✨ اس کے بارےمیں حدیث پاک یہ ہے:
حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
تین آدمی ہیں جن کی نماز قبول نہیں ہوتی اور نہ کوئی نیکی اوپر اٹھتی ہے۔ فرار ہونے والا غلام یہاں تک کہ اپنے مالکوں کی طرف واپس لوٹے اور اپنا ہاتھ ان کے ہاتھ میں رکھے۔ وہ عورت جس کا خاوند اس سے ناراض ہو۔ نشے والا جب تک ہوش میں نہ آئے۔
( بہقی۔ شعب الایمان )


💥 حضرت ابو بکر صدیقؓ کی مبادک بیٹی:

حضرت ابو بکر صدیقؓ کی صاحبزادی حضرت اسماءؓ فرماتی ہیں کہ جب میری شادی حضرت زبیرؓ سے ہوئی تو ان کے پاس نہ زمین و جائیداد تھی نہ مال ودولت۔ اور نہ باندی نہ غلام، صرف ایک گھوڑا تھا اور ایک اونٹ تھا جو پانی لانے کے کام میں استعمال ہوتا تھا۔ میں خود گھوڑے کو گھاس دانہ دیتی۔ پانی پلاتی۔ اس کا جسم ملتی اور اپنے شوہر کے متعلقہ ہر خدمت سر انجام دیتی۔ اونٹ کیلئے کھجوروں کی گٹھلیاں کوٹتی اور اسے کھلاتی، ڈول سیتی، پانی بھر کر لاتی،
آٹا گوندھتی، روٹی پکاتی، مِیلوں کی مسافت طے کرتی۔
گٹھلیاں سر پر لاد کر لاتی۔میری یہ حالت دیکھ کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
تم بہت مبارک بیٹی ہو اور تمھاری آخرت بہت ہی کامیاب رہے گی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے لئے دعائیں کیں۔
(ابنِ ماجہ)


💥 حضرت عمرؓ کا اپنی اہلیہ کے رویئے پر تحمل:


ایک صحابی اپنی بیوی کی کسی بات کی وجہ سے بڑے تنگ تھے۔ سوچنے لگے کہ کوئی ایسا طریقہ ہو کہ اپنی بیوی کو سبق سکھایا جائے۔
سوچا کہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس چلتا ہوں۔ وہ ذرا جلالی طبیعت کے ہیں، ان سے جا کر میں بات کرتا ہوں کہ وہ ذرا میری بیوی کے مزاج درست کرنے کا کوئی طریقہ بتائیں گے۔
چنانچہ وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے۔ جب وہاں گئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اہلیہ ان سے پردے میں بات کر رہی ہیں۔
مگر بات کرتے ہوئے ان کا لہجہ اونچا ہے اور وہ تیزی سے بات کر رہی ہیں اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ ذرا تسلی کے ساتھ کھڑے ہو کر ان کی بات کو سن رہے ہیں۔
جب اُن صحابی نے دیکھا کہ میں تو اس مقصد کے حل کے لئے یہاں آیا تھا۔ یہاں تو پہلے ہی آگے سے باتیں سنی جا رہی ہیں۔
وہ واپس آنے لگے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ واپس کیوں جا رہے ہو...؟
عرض کیا...!اے امیر المومنین...!
جس کام کے لئے آیا تھا وہی کام یہاں ہوتے دیکھا تو میں نے سوچا میں واپس ہی جاؤں۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بلایا اور کہا کہ دیکھو یہ میری بیوی بھی ہے، میری ہر ضرورت کو پورا کرتی ہے، میرے لیے باعثة سکون ہے،
گھر میں سارا دن میرے لئے کھانے، دانے پکانے میں لگی رہتی ہے،
میرے لئے دھوبن بھی ہے، میرے کپڑوں کو بھی صاف کرتی ہے، میرے گھر کی صفائی کرنے والی بھی ہے۔
جب یہ گھر کی باورچن بھی بن جاتی ہے، دھوبن بھی بن جاتی ہے، اتنی قربانیاں میرے لئے دے رہی ہے تو کیا اس کی بات مٙیں تحمل مزاجی سے سن بھی نہیں سکتا۔
وہ صحابی کہنے لگے آپؓ نے میرے دل کی گرہ کھول دی۔ جب میری بیوی میری خاطر اتنی قربانیاں دے رہی ہے تو میں بھی اس کی بات کو تحمل مزاجی سے سننے کی عادت ڈالوں گا۔

عورتیں عام طور پر زبان کی تیز ہوتی ہیں۔ مردوں کے ہاتھ قابو میں نہیں ہوتے عورتوں کی زبان قابو میں نہیں ہوتی۔
اور یہی چیز جھگڑے کا سبب بنتی ہے۔
کبھی کبھی عورتیں کچھ زبان تیز ہونے کی وجہ سے جلی کٹی سنا بیٹھتی ہیں کہ خاوند کو بڑا غصہ آتا ہے اور بات کا پتنگڑ بن جاتا ہے۔
لیکن عورتوں کے ساتھ تحمل مزاجی اور پیار سے پیش آنے سے معاملات با آسانی حل ہو جاتے ہیں۔


💥 ایک صحابی کی اپنی بیوی کو نصیحت:

سیدنا ابو دردا رضی اللہ عنہ نے پہلی رات اپنی زوجہ کو بتایا۔
دیکھو ہم دونوں انجان ہیں اور ایک دوسرے کی عادات و اطوار کو نہیں جانتے تو میں تمہیں کچھ بتاتا ہوں اور اس پر دونوں نے إن شاءالله عمل پیرا ہونا ہے، جب بھی میں غصہ میں آؤں تو مجھے ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرنی ہے اور میرے ساتھ مقابلہ نہیں کرنا اور جب تم غصہ میں ہو گی تو یہی معاملہ میں تمہارے ساتھ کروں گا إن شاءالله اور جب غصہ دور ہو جائے تو جو غلطی پر ہو وہ معافی مانگ لے اور اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو جلد ہی ہم دونوں میں جدائی پیدا ہو جائے گی، الحمدللہ دونوں نے اس پر عمل کیا اور بہت اچھی زندگی گزاری۔


💥 ایمان کی حلاوت:

ایک خاتون نے شیخ ناصر الدین البانی رحمتہ اللہ سے پوچھا کہ شیخ محترم شادی سے قبل میں نماز اور روزے کی بہت پابند تھی۔ قرآن مجید کی تلاوت کرنے میں لذت محسوس کرتی تھی لیکن اب مجھے ان چیزوں میں ایمان کی وہ حلاوت نہیں مل پاتی۔
شیخ البانی نے پوچھا:
میری مسلمان بہن مجھے یہ بتاؤ اپنے خاوند کے حقوق ادا کرنے اور اس کی بات ماننے کا آپ کس قدر اہتمام کرتی ہیں؟؟؟

وہ سائلہ حیرت سے کہنے لگی:
شیخ محترم! میں آپ سے قرآن کی تلاوت٬ نماز اور روزے کی پابندی اور اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کی حلاوت کے متعلق پوچھ رہی ہوں اور آپ مجھ سے میرے خاوند کے متلعق استفسار کر رہے ہیں۔
شیخ البانی رحمہ اللہ فرمانے لگے:
میری بہن! بعض خواتین اس لئے ایمان کی حلاوت٬ اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کی لذت اور عبادت کا پرلطف اثر محسوس نہیں کر پاتیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
کوئی بھی عورت اس وقت تک ایمان کی حلاوت نہیں پا سکتی جب تک وہ اپنے خاوند کے حقوق کما حقہ ادا نہ کر دے۔
(صحیح الترغیب)



💥 شوہر کی فرمانبردادی کا بہترین ثمر:

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص سفر میں گیا تو چلتے وقت اپنی بیوی کو تاکید کر گیا کہ میری واپسی تک مکان کی بالائی منزل سے نیچے ہرگز نہ آنا۔ اتفاق سے اس عورت کے والدین نیچے والی منزل میں رہتے تھے۔ کچھ عرصہ کے بعد یوں ہوا کہ شوہر کی واپسی سے پہلے اس عورت کا والد بیمار ہو گیا۔ اس عورت نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس کسی کو دریافت کرنے کے لیے بھیجا کہ بیمار باپ کی خبر گیری کے لیے مکان کی بالائی منزل سے نیچے اتروں یا اپنے شوہر کے حکم کی تعمیل پر رہوں۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس عورت کو اپنے خاوند کی اطاعت کا حکم دیا چند دن بعد باپ کی بیماری اس کی جان لیوا ثابت ہوئی مگر عورت شوہر کی ہدایت پر عمل پیرا رہی۔ نیچے نہیں اتری لیکن اس عورت کو بتقاضائے فطرت و بشریت دل میں بہت ملال ہوا۔
ادھر سرکارِ دو عالم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی شخص کی معرفت اسے یہ خوشخبری سنائی کہ
شوہر کی اطاعت کا یہ اجر ملا ہے کہ اس کے مرحوم باپ کی مغفرت ہو گئی ہے۔
( طبرانی اوسط )


💥ایک حسین ترین عورت کی شکر گزاری:

اصمعی کہتے ہیں کہ میں ایک گاؤں میں گیا۔ مجھے یہ دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی کہ ایک حسین ترین عورت ایک ایسے مرد کی شریکِ زندگی تھی جو انتہائی بدصورت اور تنگدست تھا۔ میں نے اس عورت کے سامنے بھی اظہارِ حیرت کیا اور پوچھا کہ کیا تم اس جیسے شخص کی بیوی بننے پر خوش ہو؟؟؟
اس نیک عورت نے مجھے ڈانٹ کر خاموش کر دیا اور کہنے لگی تم غلطی پر ہو۔ میں تو یہ سمجھتی ہوں کہ اس شخص نے کوئی نیک کام کیا تھا جس کے صلے میں مجھے اللّٰہ تعالیٰ نے اس کی بیوی ہونے کی توفیق دی۔ اور اللّٰہ نے مجھ پر یہ بہت بڑا کرم فرمایا اور یہ کہ ہماری رفاقت میں اللّٰہ کی مرضی شامل ہے۔ بھلا جو چیز اللّٰہ نے میرے لیے پسند فرمائی ہے میں اس پر راضی کیوں نہ ہوں۔
(احیاء العلوم)


💥 شوہر باعثِ جنت بھی، باعثِ جہنم بھی:


حسین بن محصن رضی اللہ عنہ کا کہنا ہے کہ اُنکی پھوپھی (چچی یا تائی بھی ہو سکتی ہیں کیونکہ لفظ عمۃ اِن سب رشتوں کے لیے اِستعمال ہوتا ہے) رضی اللہ عنھا نے اُنہیں بتایا کہ ایک دفعہ کِسی کام سے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس گئی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے پوچھا:
اے خاتون! کیا تمہارا خاوند ہے؟؟؟
میں نے عرض کیا: جی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
تُم اُسکے لیے کیسی (بیوی) ہو؟؟؟
میں نے عرض کیا: میں کِسی بھی معاملے میں اُس کی نافرمانی نہیں کرتی، سِوائے اِس کے کہ کوئی کام میری طاقت سے باہر ہو۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
تُم اُس سے کہاں ہو کیونکہ بے شک وہ تمہاری جنّت اور جہنم ہے۔ یعنی یہ خیال رکھنا کہ تم اُسکے حق کی ادائیگی کے معاملے میں کہاں ہو؟؟؟ اگر اُس کا حق ٹھیک سے ادا کرو گی تو وہ تمہارے لیے جنّت میں داخلے کا مقام ہے اور اگر نہیں تو وہ تمہارے لیے جہنم میں داخلے کا مُقام ہے۔
(مُسند احمد)


💥زاہدہ و عابدہ بیوی:


ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ بنی اسرائیل کی ایک عورت بڑی عابدہ تھی اور بادشاہ کی لڑکی تھی۔ ایک شہزادے نے ان سے شادی کی درخواست کی۔ اس نے نکاح کرنے سے انکار کر دیا۔ پھر اپنی ایک لونڈی سے کہا کہ میرے واسطے ایک عابد، زاہد نیک آدمی کی تلاش کر جو فقیر ہو۔ لونڈی عابد اور زاہد آدمی کی تلاش میں نکلی اور ایک عابد و زاہد کو شہزادی کی خدمت میں لے آئی۔
شہزادی نے اس سے پوچھا کہ اگر تم مجھ سے نکاح کرنا چاہو تو میں تمھارے ساتھ قاضی کے پاس چلی چلوں۔ فقیر نے اس بات میں رضامندی کا اظہار کیا اور یہ دونوں قاضی کے پاس پہنچے اور نکاح ہو گیا۔ شہزادی نے فقیر سے کہا کہ مجھے اپنے گھر لے چلو۔
فقیر نے کہا: واللہ! اس کمبل کے سوا کوئی چیز میری مٙلک نہیں ہے۔ اس کو رات کے وقت اوڑھتا ہوں اور یہی دن میں پہنتا ہوں۔اس نے کہا میں تیری اس حالت پر راضی ہوں۔ …
چنانچہ فقیر شہزادی کو اپنے ساتھ لے گیا۔
وہ دن بھر محنت کرتا تھا اور رات کو اتنا کما لاتا تھا جس سے افطار ہو جائے۔ شہزادی دن کو روزہ رکھتی تھی اور شام کو افطار کر کے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتی تھی اور کہتی تھی۔ اب میں عبادت کے واسطے فارغ ہوئی۔
ایک دن فقیر کو کوئی چیز نہ ملی جو شہزادی کے واسطے لے جائے۔ اس سے اسے شاق گزرا اور وہ بہت گھبرایا اور جی کہنے لگے کہ میری بیوی روزہ دار گھر میں بیٹھی انتظار کر رہی ہے کہ میں اس کے لیے کچھ لے آؤں گا۔
یہ سوچ کر وضو اور نماز پڑھ کر دعا مانگی۔
اے اللّٰہ! تُو جانتا ہے کہ میں دنیا کے واسطے کچھ نہیں طلب کرتا۔
صرف اپنی نیک بی بی کی رضامندی کے لیے مانگتا ہوں۔
اے اللّٰہ! تُو مجھے اپنے پاس سے رزق عطا فرما۔تو ہی سب سے اچھا رازق ہے۔ اسی وقت آسمان سے ایک موتی گر پڑا۔ فقیر موتی لے کر اپنی بی بی کے پاس گیا۔ جب بیوی نے اسے دیکھا تو وہ ڈر گئی اور کہا یہ موتی تم کہاں سے لائے ہو۔ ایسا قیمتی موتی تو میں نے اپنے باپ کے پاس بھی نہیں دیکھا۔ درویش نے کہا آج میں نے رزق کے واسطے محنت کی لیکن کہیں سے کچھ نہ ملا تو میں نے سوچا میری نیک بیوی افطار کے لیے گھر میں میرا انتظار کر رہی ہو گی۔ میں خالی ہاتھ کیسے جاؤں؟ میں نے اللّٰہ تعالیٰ سے دعا کی تو حق تعالیٰ نے یہ موتی عنایت فرمایا اور آسمان سے نازل فرمایا۔
شہزادی نے کہا:
اسی جگہ جہاں تم نے اللّٰہ تعالیٰ سے دعا کی تھی اور اس سے گریہ و زاری کے ساتھ دعا کرو اور کہو اے اللّٰہ! اے میرے مالک! اے میرے مولا! اگر یہ موتی تو نے ہمیں دنیا میں روزی کے طور پر عنایت فرمایا ہے تو اس میں ہمیں برکت دے اور اگر ہمارے آخرت کے ذخیرے میں سے عطا فرمایا ہے تو اسے واپس لے لے۔ درویش نے ایسا ہی کیا تو اللہ تعالیٰ نے موتی واپس لے لیا۔ فقیر نے واپس آکر اس کے واپس لینے کی حقیقت سے شہزادی کو آگاہ کر دیا۔تو شہزادی نے اللّٰہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کیا اور کہا اے اللّٰہ! تو بڑا رحیم اور کریم ہے۔
(قصص الاولیاء)



💥خاوند کی تابعداری، جنت کی نوید بنی:

ایک بد صورت شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں آیا۔ اسکی بیوی نہایت خوبصورت تھی۔ اس کے حسن وجمال پر دنیا تعجب کرتی تھی۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا:
تیری عورت تیرے ساتھ کیا برتاؤ کرتی ہے اور تجھے کس نظر سے دیکھتی ہے۔؟؟؟
اس شخص نے عرض کیا کہ میری بہت قدر کرتی ہے اور میری بلا اجازت گھر سے باہر نہیں جاتی اور اسے اپنے حسن وجمال کا کوئی لحاظ نہیں بلکہ میری خدمت کی طرف دھیان ہے۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
جا اس سے کہہ دے کہ وہ جنتی عورتوں میں سے ہے کیونکہ باوجود حسن وجمال کے اپنے شوہر کی تابعداری کرتی ہے اسکی بدصورتی پر نہیں جاتی۔
(طبرانی)


💥 بیوی پر شوہر کے حق کی مثال:

حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں ایک حسین دو شیزہ حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)! میں جوان ہوں، لوگ مجھے شادی کے پیغامات بھیجتے ہیں لیکن مجھے شادی پسند نہیں ہے۔
اب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ بتا دیجیۓ کہ میں شادی کروں یا نہیں؟؟؟
فرمایا:
ضرور کرو۔ شادی کرنے ہی میں تمہاری خیر ہے۔
اسکے بعد اس دو شیزہ نے عرض کیا۔
یارسول اللہ؛
آپ مجھے یہ بتلا دیجئے کہ عورت پر شوہر کا کیا حق ہے؟؟
فرمایا:
شوہر کے حقوق تو بہت سے ہیں۔ اس کے حقوق کا اندازہ تم اس طرح سمجھ لو کہ اگر شوہر کا جسم سر تا بہ قدم پیپ سے سڑ رہا ہو اور بیوی اپنی زبان سے اسے چاٹے تب بھی اس کا حق ادا نہیں ہو سکتا۔
(احیاء علوم)

💥ایک خاوند کی اپنی بیوی کو چند نصیحتیں:


ایک خاوند نے اپنی بیوی کو پہلی ملاقات میں یہ نصیحت کی کہ چار باتوں کا خیال رکھنا۔

✨ پہلی بات یہ کہ مجھے آپ سے بہت محبت ہے۔ اس لئے میں نے آپ کو بیوی کے طور پر پسند کیا۔ اگر آپ مجھے اچھی نہ لگتیں تو میں نکاح کے ذریعے آپ کو گھر ہی نہ لاتا۔ آپ کو بیوی بنا کر گھر لانا اس بات کا ثبوت ہے کہ مجھے آپ سے محبت ہے۔ تاہم میں انسان ہوں فرشتہ نہیں ہوں، اگر کسی وقت میں غلطی کر بیٹھوں تو تم اس سے چشم پوشی کر لینا۔ چھوٹی موٹی کوتاہیوں کو نظر انداز کر دینا۔

✨ دوسری بات یہ کہ مجھے ڈھول کی طرح نہ بجانا۔ بیوی نے کہا، کیا مطلب؟ اس نے کہا جب بالفرض اگر میں غصے میں ہوں تو میرے سامنے اس وقت جواب نہ دینا۔ مرد غصے میں جب کچھ کہہ رہا ہو اور آگے سے عورت کی بھی زبان چل رہی ہو تو یہ چیز بہت خطرناک ہوتی ہے۔ اگر مرد غصے میں ہے۔ تو عورت اوائڈ کر جائے اور بالفرض عورت غصے میں ہے تو مرد اوائڈ کر جائے۔ دونوں طرف سے ایک وقت میں غصہ آ جانا یوں ہے کہ رسی کو دونوں طرف سے کھینچنے والی بات ہے۔ ایک طرف سے رسی کو کھینچیں اور دوسری طرف سے ڈھیلا چھوڑ دیں تو وہ نہیں ٹوٹتی اگر دونوں طرف سے کھینچیں تو پھر کھنچ پڑنے سے وہ رسی ٹوٹ جاتی ہے۔

✨ تیسری نصیحت یہ ہے کہ دیکھنا مجھ سے راز و نیاز کی ہر بات کرنا مگر لوگوں کے شکوے اور شکائیتیں نہ کرنا۔ چونکہ اکثر اوقات میاں بیوی آپس میں تو بہت اچھا وقت گزار لیتے ہیں۔ مگر نند کی باتیں ساس کی باتیں فلاں کی باتیں، یہ زندگی کے اندر زہر گھول دیتی ہیں۔ اس لئے شکوے شکائتوں سے ممکنہ حد تک گریز کرنا۔

✨ چوتھی بات کہ دیکھنا دل ایک ہے یا تو اس میں محبت ہو سکتی ہے یا اس میں نفرت۔ ایک وقت میں دو چیزیں دل میں نہیں رہ سکتیں۔ اگر خلافِ اصول میری کوئی بات بُری لگے تو دل میں نہ رکھنا، مجھ سے جائز طریقے سے بات کرنا، کیونکہ باتیں دل میں رکھنے سے انسان شیطان کے وسوسوں کا شکار ہو کر دل میں نفرتیں گھولتا ہے اور تعلقات خراب کو کر زندگی کا رخ بدل دیتے ہیں۔