🌹 آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کے ازواجِ مطہرات سے
حسنِ سلوک کے چند واقعات


حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اپنے ازواج کے ساتھ کس طرح بے تکلف، پرلطف اور دوستانہ تعلقات تھے، اس کا اندازہ مندرجہ ذیل واقعات سے لگایا جاسکتا ہے۔


💥 آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حضرت خدیجہؓ سے محبت:

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کے وصال کے بعد دوسری ازواج مطہرات کی موجودگی میں بھی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا کے حسنِ سلوک اور نیکیوں کو یاد رکھتے تھے۔

✨ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات میں مجھے کبھی کسی پر رشک نہیں آیا مگر حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا پر ہمیشہ رشک آتا تھا۔ حالانکہ میں نے انہیں دیکھا بھی نہیں تھا۔ میرے آنے سے پہلے ہی مکہ مکرمہ میں ان کا وصال ہو گیا تھا۔ مجھے ان پر ہمیشہ رشک اس لئے آتا تھا کیونکہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ میں اکثر حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کا ذکر کرتے تھے۔

✨ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ یہاں تک عرض کر دیا کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم اب آپ کے رشتہ زوجیت میں ہیں مگر آپ آج تک اس سرخ گالوں والی کو نہیں بھولے۔ کیا ہم آپ کی زوجیت میں نہیں؟
تو آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
عائشہ (رضی اللہ عنہا)! تمہیں کیا پتہ جب اعلانِ نبوت ہوا تو وہ مشکلات کا وقت تھا تب خدیجہ (رضی اللہ عنہا) نے میرا کتنا ساتھ دیا۔ میں اس کو کیسے بھول سکتا ہوں؟
(ترمذی، ابواب المناقب)

یہ بیوی کے حقوق میں سے ہے کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وصال کے بعد بھی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی نیکیاں نہیں بھولے۔

✨ ایک مقام پر اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
خدا کی قسم! جب بھی کوئی بکرا، بکری ہم نے گھر میں ذبح کیا یا صدقہ و قربانی کی اور گوشت کاٹ لیا جاتا تو آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سب سے پہلے گوشت حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی سہیلیوں کے گھر میں بھیجتے تھے۔
(ترمذی، ابواب البروالصلہ)

✨ ایک مقام پر آپ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ
میں کئی بار آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں کہتی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! آپ کا تو یہ عالم ہے جیسے ساری دنیا میں سوائے خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کے کوئی نہیں۔
آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسکراتے رہتے۔

✨ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
ایک روز ہم بیٹھے ہوئے تھے کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی ہمشیرہ ہالہ بنت خویلد آ گئیں ان کی آواز حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا سے ملتی تھی۔ آقا علیہ السلام کو ایسے لگا جیسے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اندر آگئی ہوں۔ آقا علیہ الصلوٰة والسلام نے ان کا احترام کیا۔ ان کے لئے چادر بچھائی اور جب وہ اندر آگئیں تو فرمایا: (خدایا یہ ہالہ ہیں) یعنی خدیجہ کی بہن ھالہ آگئی ہیں۔
(ترمذی، ابواب البروالصلۃ)

💥 حضرت عائشہؓ کی ناراضگی کا علم ہو جانا:

ایک مرتبہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عائشہؓ سے فرمایا کہ
جب تم مجھ سے راضی ہوتی ہو اور جب تم مجھ سے ناراض ہوتی ہو دونوں حالتوں کا علم مجھے ہو جاتا ہے۔
حضرت عائشہؓ نے پوچھا:
یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! کس طرح علم ہو جاتا ہے؟؟؟
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
جب تم مجھ سے راضی ہوتی ہو تو لا وربّ محمد (محمد کے رب کی قسم) کے الفاظ سے قسم کھاتی ہو، اور جب تم مجھ سے ناراض ہوتی ہو تو لا ورب ابراہیم (ابراہیم کے رب کی قسم) کے الفاظ سے قسم کھاتی ہو، اس وقت تم میرا نام نہیں لیتیں؛ بلکہ حضرت ابراہیمؑ کا نام لیتی ہو۔
حضرت عائشہؓ نے فرمایا:
(یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! میں صرف آپ کا نام چھوڑتی ہوں) نام کے علاوہ کچھ نہیں چھوڑتی۔
(بخاری)


💥حضرت عائشہؓ کا حضرت سودہؓ کے منہ پہ حلوہ مٙلنا:

ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت سودہؓ کے گھر میں تھے اور ان کی باری کا دن تھا، حضرت عائشہؓ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے ایک حلوہ پکایا اور حضرت سودہؓ کے گھر پر لائیں اور لا کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے رکھ دیا، اور حضرت سودہؓ بھی سامنے بیٹھی ہوئی تھیں، ان سے کہا کہ تم بھی کھاؤ،
سودہؓ کو یہ بات گراں لگی کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جب میرے یہاں باری کا دن تھا تو پھر یہ حلوہ پکا کر کیوں لائیں؟؟؟
اس لیے انھوں نے کھانے سے انکار کر دیا، حضرت عائشہؓ نے حضرت سودہؓ کے منہ پر مل دیا، حضرت سودہؓ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شکایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تمہارے ساتھ کوئی برائی کرے تو تم بھی بدلے میں اسی کے بقدر برائی کرو۔ لہٰذا بدلہ میں تم بھی ان کے منہ پر حلوہ مل دو۔
چنانچہ حضرت سودہؓ نے تھوڑا سا حلوہ اٹھا کر حضرت عائشہؓ کے چہرے پر مل دیا، اب دونوں کے چہرے پر حلوہ ملا ہوا ہے، یہ سب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے ہو رہا ہے، اس دوران حضرت عمرؓ کی آمد ہوئی تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان دونوں کو منہ دھونے کو کہا۔
(مسند ابی یعلی)


💥حضرت عائشہؓ کا نیزہ بازی کا کھیل دیکھنا:

حضرتِ عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے بیان کرتی ہیں کہ
خدا کی قسم! میں نے یہ منظر دیکھا ہے کہ (ایک روز) حبشی نابالغ لڑکے مسجد میں نیزہ بازی کر رہے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کا کھیل دکھانے کے لیے میرے لیے اپنی چادر کا پردہ کر کے میرے حجرے کے دروازے پر کھڑے ہو گئے، (جو مسجد میں کھلتا تھا) میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کاندھے کے درمیان سے ان کا کھیل دیکھتی رہی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میری وجہ سے مسلسل کھڑے رہے؛ یہاں تک کہ (میرا جی بھر گیا) اور میں خود ہی لوٹ آئی۔
(مسلم)


💥حضرت عائشہؓ کا سہیلیوں کے ساتھ کھیلنا:

حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس نکاح و رخصتی کے بعد آپ کے پاس آجانے کے بعد بھی گڑیوں سے کھیلا کرتی تھی اور میرے ساتھ کھیلنے والی میری سہیلیاں تھیں، جب آپ گھر میں تشریف لاتے تو وہ (آپ کے احترام میں کھیل چھوڑ کر) گھر کے اندر چھپتیں تو آپ ان کو میرے پاس بھجوا دیتے اور میرے ساتھ کھیلنے لگتیں۔
(بخاری)


💥 حضرت صفیہؓ کا آقا علیہ الصلوٰة والسلام کیلیے گوشت بھیجنا:

حضرت صفیہؓ یہود کے سردار کی بیٹی تھیں جو بہت امیر تھا۔ انہیں ہر کھانا پکانے کا ڈھنگ آتا تھا خاص کر وہ گوشت بہت مزیدار پکاتی تھیں جو نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بہت پسند تھا۔

ایک دفعہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی باری حضرت عائشہ صدیقہؓ کے گھر تھی کہ حضرت صفیہؓ نے گوشت پکایا، نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پسندیدگی کو دیکھتے ہوئے انہوں نے گوشت رکابی میں ڈال کر وہیں بھیج دیا، غلام نے جونہی حجرے میں داخل ہو کر اعلان کیا کہ اُم المومنین صفیہؓ نے گوشت بھیجا ہے، حضرت عائشہؓ نے ہاتھ مار کر رکابی گرا دی، رکابی ٹوٹ گئی اور بوٹیاں بکھر گئیں، بقول راوی میں دیکھ رہا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بوٹیاں اکٹھی کر رہے تھے اور فرما رہے تھے "غارت امک" تیری ماں نے غیرت کی ہے، تیری ماں کو غیرت آ گئی ہے، پھر وہ بوٹیاں دھو کر کھائی گئیں اور ٹوٹی رکابی حضرت عائشہؓ کو دی گئی اور ان سے سالم رکابی لے کر غلام کے ہاتھ حضرت صفیہؓ کو بھیجی گئی اور غلام کو منع کیا گیا کہ وہ یہ بات اُم المومنین حضرت صفیہؓ کو نہ بتائے۔


💥 حضرت عائشہؓ کا حضرت صفیہؓ کو اونٹ دینے سے انکار:

سفر کے دوران حضرت صفیہؓ کا اونٹ بیمار پڑ گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عائشہؓ سے فرمایا کہ
تمہارے پاس دو اونٹ ہیں، ایک صفیہؓ کو دے دو۔
انہوں نے پلٹ کر فرمایا:
بھلا میں یہودی کی بچی کو اونٹ دیتی ہوں، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس بات کو بہت محسوس کیا اور آپ حضرت عائشہؓ سے ناراض ہو گئے اور تأدیب کے لئے ان سے کلام کرنا چھوڑ دیا، یہ بات حضرت عائشہؓ کو بہت گراں گزری، انہوں نے سب سے پہلے تو حضرت صفیہؓ سے معافی مانگ کر انہیں راضی کیا، پھر انہیں کہا کہ اگر وہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ان کا راضی نامہ کرا دیں تو وہ اپنی اگلی باری حضرت صفیہؓ کو دے دیں گی، حضرت صفیہؓ نے حضورِ پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بات چلائی کہ عائشہؓ نے مجھ سے معافی مانگ لی ہے اور آپ بھی اس سے راضی ہو جائیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا:
اس سفارش کی کوئی شرط طے ہوئی ہے؟؟؟
حضرت صفیہؓ نے فرمایا کہ جی انہوں نے اگلی باری مجھے دے دی ہے، آپ مسکرا دیئے اور یوں صلح ہو گئی۔


💥 حضرت عائشہؓ کو حبشیوں کا کھیل دکھانا:

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے۔
یہ عید کا دن تھا۔ اس دن حبشی لوگ ڈھالوں اور برچھیوں سے کھیل کرتے تھے تو یا تو میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خواہش کی یا خود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تُو یہ کھیل دیکھنا چاہتی ہے۔ میں نے عرض کیا 'جی'۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ کو اپنے پیچھے کھڑا کر لیا۔ میرا گال آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گال پر تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے تھے،
کھیلو کھیلو اے بنی ارفدہ! جب میں اکتا گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا" 'بس'۔ میں نے کہا؛ ہاں۔ فرمایا؛ اچھا جا۔
(بخاری)


💥 حضرت عائشہؓ سے محبت کا اظہار:

حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ اللہ کے رسول جوتا گانٹھ رہے تھے اور میں چرخہ کات رہی تھی اس دوران میری نظر جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف اٹھی تو کیا دیکھتی ہوں کہ پسینے کے قطرے چہرہ انور پہ جگمگا رہے ہیں، ہر قطرے میں ایک نور کا تارا سا بنتا جو پھیلتا چلا جاتا، میں اس منظر پہ مبہوت ہو کر رہ گئی، اور بس ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم والی کیفیت میں چلی گئی کہ اچانک نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظر مجھ پر پڑی اور میری کیفیت دیکھ کر آپ بھی چونک گئے، پوچھا عائشہؓ یوں کیا گھورے چلی جا رہی ہو؟؟؟
میں نے عرض کیا میرے ماں باپ قربان آپ کا چہرہ تاروں کا مسکن بنا ہوا ہے اک نور آ رہا ہے، اک جا رہا ہے، لگتا ہے بجلیاں کوند رہی ہیں،

بخدا اگر ابو کبیر ہذلی (شاعر) آج آپ کو دیکھ لیتا تو اسے معلوم ہو جاتا کہ اس کے اشعار کا صحیح مصداق تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
ہذلی کے وہ اشعار کونسے ہیں؟؟؟
حضرت عائشہؓ نے وہ اشعار پڑھ دیئے جن کا ترجمہ ہے کہ

میں نے اس کے رخِ تاباں پہ نظر ڈالی تو اس کی شان درخشندگی ایسی تھی

کہ گویا بدلی کا کوئی ٹکڑا ہے کہ جس میں بجلیاں کوند رہی ہیں۔

یہ سننا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سارا سامان ایک طرف رکھ دیا اور حضرت عائشہ صدیقہؓ کی پیشانی کو چوم کر فرمایا
عائشہ، جو سرور مجھے تیرے کلام نے پہنچایا ہے، اس قدر سرور تجھے میرے نظارے سے حاصل نہیں ہوا ہو گا۔