: 🌹 رشتہ داروں کے ساتھ حسنِ سلوک:
(صلہ رحمی)


صلہ رحمی سے مراد ہے اپنے قریبی رشتہ داروں کے ساتھ اچھے اور بہتر تعلقات قائم کرنا، آپس میں اتفاق و اتحاد سے رہنا، دکھ درد، خوشی اور غمی میں ایک دوسرے کے شانہ بشانہ چلنا، آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ رابطہ رکھنا، ایک دوسرے کے ہاں آنا جانا۔

✨الغرض اپنے رشتوں کو اچھی طرح سے نبھانا اور ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھنا، ان پر احسان کرنا، ان پر صدقہ و خیرات کرنا، اگر مالی حوالے سے تنگدست اور کمزور ہیں تو ان کی مدد کرنا اور ہر لحاظ سے ان کا خیال رکھنا صلہ رحمی کہلاتا ہے۔

صلہ رحمی میں اپنے والدین، بہن بھائی، بیوی بچے، خالہ پھوپھی، چچا اور ان کی اولادیں وغیرہ یہ سارے رشتہ دار صلہ رحمی میں آتے ہیں۔ اپنے والدین کے دوست احباب جن کے ساتھ ان کے تعلقات ہوں، ان سب کے ساتھ صلہ رحمی کرنی چاہیے۔

✨جب ان رشتہ داروں کا خیال نہیں رکھا جائے گا، ان کے حقوق پورے نہیں کیے جائیں گے، ان کی مدد نہیں کی جائے گی تو یہ قطع رحمی کہلاتی ہے۔
یعنی اپنے رشتہ داروں سے ہر قسم کے تعلقات ختم کرنا۔

صلہ رحمی ہر طرح کی جا سکتی ہے۔ ضروری نہیں کہ انسان مالی مدد ہی کرے، بلکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ جس چیز کی وہ استطاعت رکھتا ہو، اس کے ساتھ صلہ رحمی کرے۔ مثلاً ان کے دکھ درد میں شریک ہو کر ان کی حوصلہ افزائی کرے... ان کے ساتھ اچھی گفتگو کرے... ان کے گھر جا کر حال احوال دریافت کرے۔... ان کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرے... غمی خوشی میں شریک ہو...
یہ ساری باتیں صلہ رحمی میں آتی ہیں۔ اور قیامت کے دن صلہ رحمی کے متعلق پوچھا جائے گا کہ ہم نے ان رشتوں کے تقدس کا کتنا خیال رکھا ہے۔

💫اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

(یہ نافرمان وہ لوگ ہیں) جو اللہ کے عہد کو اس سے پختہ کرنے کے بعد توڑتے ہیں، اور اس (تعلق) کو کاٹتے ہیں جس کو اللہ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے اور زمین میں فساد بپا کرتے ہیں، یہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں۔
َ(البقرة : 27)

اللہ تعالیٰ نے اس آیت مبارکہ میں ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات جوڑنے کا حکم دیا ہے، اگر اس کے خلاف کریں گے تو یقیناً دنیا و آخرت میں نقصان اٹھانے والے ہوں گے۔ اسی طرح بے شمار آیات میں اللہ تعالیٰ نے صلہ رحمی کا حکم دیا ہے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی احادیث مبارکہ میں آپس میں صلہ رحمی کا حکم دیا ہے اور صلہ رحمی کی اہمیت اور فضیلت کو بیان کیا ہے اور قطع رحمی پر وعید سنائی ہے۔

⚡ہمیں چاہیے کہ ہر حال میں صلہ رحمی کا خیال رکھیں، ایسا نہ ہو کہ جو رشتے دار غریب ہوں، غربت کی وجہ سے ان سے تعلقات ختم کر لیں، جیسا کہ آجکل رواج ہے کہ اگر بعض رشتہ دار غریب ہوں اور بعض امیر تو امیر لوگ ان غریب رشتہ داروں سے قطع تعلق کر لیتے ہیں، اور ان کو اپنا رشتہ دار سمجھنا اور کہنا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ اپنے دوست احباب کے سامنے اپنا رشتے دار قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں۔ جیسے اولاد جب جوان ہوتی ہے تو اپنے والدین کو گھر سے نکال دیتی ہے، ان کے حقوق کا خیال نہیں رکھتی، یہ ساری چیزیں گناہِ کبیرہ ہیں اور اس کی سزا قیامت کے دن ملے گی۔

🌹رشتہ داروں سے حسنِ سلوک ازروئے قرآن:

🌻 اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
بیشک اللہ انصاف اور احسان کرنے اور رشتہ داروں کو خرچ سے مدد دینے کا حکم دیتا ہے۔
(سورہ النحل: 90)

🌻 اللہ تعالیٰ حقیقی نیکی کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے۔
اور اللہ کی محبت میں اپنا دل پسند مال رشتے داروں پر خرچ کرو۔
(سورہ البقرۃ: 177)

🌻 جب بات کرو تو عدل و انصاف کرو، اگرچہ وہ شخص قرابت دار ہی کیوں نہ ہو۔
(سورةالانعام: 152)

🌻 اور رشتہ ناطے والے ان میں سے بعض بعض سے زیادہ نزدیک ہیں اللہ کے حکم میں، بیشک اللہ تعالی ہر چیز کا جاننے والا ہے۔
( سورةالانفال: 75)

🌻اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے یہ عہد لیا کہ تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو گے اور والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرنا اور قرابت داریوں کو بحال رکھنا۔
( سورةالبقرہ: 83)

🌻لوگو! اپنے اس رب سے ڈرتے رہو، جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا پھر اسی سے اس کاجو ڑا بنایا، پھر ان دونوں سے (دنیامیں) بہت سے مرد اور عورتیں پھیلا دیں اور اللہ سے ڈروجس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور رشتہ ناطے توڑنے سے بھی بچو، اللہ سے ڈرو بلاشبہ اللہ تم پر نظر رکھے ہوئے ہے۔
(سورة النساء:1)

🌻 لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ کیا خرچ کریں ان سے کہیے کہ جو بھی مال تم خرچ کرو وہ والدین، رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کاحق ہے اور جو بھی بھلائی کا کام تم کرو گے یقینا اللہ تعالیٰ اسے خوب جانتا ہے۔
(سورة البقرہ:215)

🌻 بات یہی ہے کہ (سب) اہلِ ایمان (آپس میں) بھائی ہیں۔ سو تم اپنے بھائیوں کے درمیان صلح کرایا کرو۔
( سورۃ الحجرات: 10)

رشتہ داروں سے حسنِ سلوک ازروئے حدیث:

💐 ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی بعثت کے آغاز میں ہی صلہ رحمی کی طرف دعوت دی تھی۔
چنانچہ حضرت عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ
میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے شروع میں ہی مکہ مکرمہ آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا:
آپ کیا ہیں؟؟؟
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
میں نبی ہوں۔
میں نے پوچھا:
نبی کا کیا معنی ہے؟؟؟
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
مجھے اللہ نے اپنا رسول و پیامبر بنایا ہے۔
میں نےعرض کیا:
اللہ نے آپ کو کیا پیغام دے کر بھیجا ہے؟؟؟
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
صلہ رحمی کرنے، بتوں کو توڑنے اور اللہ کی توحید و یکتائی کا پیغام دے کر بھیجا ہے۔
(مستدرک حاکم)