🌹رشتہ داروں کے حقوق:

صلہ رحمی بہت سے معروف اور احسن رویوں سے ظہور میں آتی ہے جن میں چند ایک کا ذکر درج ذیل ہے:


💥1.ادائے حق:

✨ اللّٰہ تعالیٰ نے رشتہ داروں کے بارے میں فرمایا:
سو قرابت دار کو اس کا حق ادا کر دیا کرو اور مسکین اور کافر کا بھی، یہ ان لوگوں کے حق میں بہتر ہے جو اللّٰہ کی رضا کے طالب رہتے ہیں اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔
(سورہ الروم:38 )

✨ نیز اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا:
اور تُو قرابت دار کو اس کا حق ادا کر اور محتاج اور مسافر کا بھی اور فضولیات میں مال نہ اڑا۔
(سورہ بنی اسرائیل: 26)

مندرجہ ذیل آیات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ:
▪رشتے دار کا حق ادا کرنا تاکیدی حکم ہے۔
▪ صلہ رحمی (رشتہ دار کا حق ادا کرنا) اپنے ہی حق میں بہتر ہے۔
▪رشتہ داروں کا حق اللّٰہ کی رضا طلب کرنے کے لیے ادا کیا جائے۔
▪جو رشتہ داروں کا حق ادا کرے گا وہ روزِ قیامت فلاح پائے گا۔
▪ رشتہ داروں پر خرچ کرنے کے ساتھ ساتھ حرام جگہوں پر خرچ کرنے سے بچنا ضروری ہے۔


💥2. کفالت:

حق قرابت میں سے چھوٹے، بے سہارا، معذور یتیم افراد اور خواتین کا یہ حق ہے کہ ان کا سب سے اقرب رشتہ دار مرد ان کی کفالت کا ذمہ اٹھائے۔
چنانچہ خاوند پر بیوی کی۔۔۔۔ جوان بیٹے پر والدین کی۔۔۔ باپ پر اولاد کی کفالت فرض ہے۔ اگر باپ نہ ہو تو بڑا بھائی اگر بالغ ہو تو، ورنہ دادا، چچا اور اس کے بعد درجہ بدرجہ قریبی رشتہ دار مردوں پر کفالت فرض ہے۔ خاوند یا بیٹا نہ ہونے کی صورت میں عورت کی کفالت اس کے باپ، بھائی یا قریبی مرد رشتہ دار پر ہے جو صاحبِ حیثیت ہو۔ اگر کوئی عورت صاحبِ حیثیت یعنی صاحبِ مال ہو تو اس پر بھی اپنے خاندان کے مالی لحاظ سے کمزور لوگوں کی معاشی ضروریات کو پورا کرنا صلہ رحمی کا تقاضا ہے۔

💥3. ولایت:
بچیوں کی کفالت کے علاوہ ان کی تعلیم و تربیت، ان کے ہر قسم کے اخراجات بشمول نکاح ان کے تمام امور کا ذمہ دار باپ ہے، باپ نہ ہو تو دادا یا بھائی، یا چچا وغیرہ درجہ بدرجہ قریبی رشتہ دار مرد ہیں۔

💥 4. یتیم کی سر پرستی:
یتیم اور بے سہارا بچوں کو کفالت ان کے قریبی رشتہ دار مرد پر فرض ہے۔ اگر یتیم صاحبِ مال ہے تو اس کے مال کی نگرانی اور دیگر جملہ امور کی ذمہ داری بھی قریبی رشتہ دار پر فرض ہے۔ جب یتیم لڑکا بالغ ہو جائے یا یتیم بچی کی بلوغت کے بعد شادی کر دی جائے تو گواہوں کی موجودگی میں یتیم کا سرپرست اس کا مال اسے واپس کرنے کا ذمہ دار ہے۔ یتیم کی سرپرستی کرنے والے کو چاہیے کہ وہ یتیم پر اس کے مال میں سے بقدرِضرورت خرچ کرے۔ اگر وہ خود مالی استطاعت نہ رکھتا ہو۔ اگر سرپرست مالی وسعت رکھتا ہے تو اسے چاہیے کہ یتیم پر اٹھنے والے اخراجات میں سے کچھ نہ لے۔ یتیم کا مال کھانا یا اس کا بہتر حصہ خود رکھ کر خراب حصہ اس کے لیے رکھنا، بدترین کبیرہ گناہ ہے اور یہ پیٹ میں آگ بھرنے کے مترادف ہے۔

💥5. میراث کی تقسیم:

جب ایک شخص مرد یا عورت فوت ہو جائے تو اس کے رشتہ داروں کا فرض ہے کہ وہ فوری طور پر میت کی تمام جائیداد زمین، مکان، دکان، فیکٹری، زیور ،سامان ضرورت، جمع شدہ رقم وغیرہ کی تقسیم اس طریقے سے کریں جس کا حکم شریعت نے دیا ہے۔
جب تک میت کے مال کے حصے کر کے حصہ داروں کو نہ دے دیے جائیں تب تک اس میں سے ایک سوئی کو بھی کسی کی تحویل میں دینا درست نہیں۔

تقسیمِ وراثت کے حوالے سے ہمارے معاشرے میں بہت سی کوتاہیاں پائی جاتی ہیں جنہیں دور کرنا بہت ضروری ہے اسی حوالے سے مندرجہ ذیل امور ذہن نشین رکھنا ضروری ہیں۔

✨ مال کا اصل مالک اللہ ہے اور وہی یہ فیصلہ کرنے کا حق رکھتا ہے کہ فوت ہونے والے کا ترکہ کس رشتہ دار کو کتنا دیا جائے۔ لہذا اس نے خود فیصلہ کر دیا ہے۔
✨ میت مرد ہو یا عورت اور اس کا ترکہ گھر کا سامان ہو یا زمین، جائیداد وغیرہ سب کچھ تقسیم کرنا ضروری ہے۔

✨ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔
مردوں کے لئے اس مال میں حصہ ہے جو والدین اور قریبی رشتے دارچھوڑ جائیں (اسی طرح) عورتوں کے لئے بھی اس مال میں حصہ ہے جو والدین اور قریبی رشتے دار چھوڑ جائیں خواہ یہ ترکہ تھوڑا ہو یا زیادہ ہو ہر ایک کا طے شدہ حصہ ہے۔
(سورہ النساء: 7)

✨ جو مسلمان اللہ کے طے کردہ اصولوں کے مطابق میت کا ترکہ تقسیم نہیں کرتا اس کیلیے مندرجہ ذیل دعید ہے۔

اور جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نافرمانی کرے اور اللہ کی حدود سے آگے نکل جائے اللہ اسے جہنم میں داخل کرے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اسے رسوا کرنیوالا عذاب ہو گا۔
(سورہ النساء: 14)

✨ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
اگر کسی شخص نے دوسرے کی زمین غصب کر لی تو ساتویں زمین تک اس شخص کو زمین میں دھنسا دیا جائے گا۔
(صحیح بخاری)


💥6. ہدیہ دینا:

قرابت کے حقوق اور ان سے صلہ رحمی کے اظہار کا ایک خوبصورت اور محبت آ فرین ذریعہ باہم تحائف کا تبادلہ بھی ہے اور یہ سلسلہ ہمیشہ برقرار رہنا چاہیے۔
مثلاً کسی تقریب پر، کسی کامیابی پر، باہم ملاقات کے وقت وغیرہ۔

خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی اپنے ذی رحم لوگوں کو ہدیہ بھیجا کرتے تھے، اور خود بھی ہدیہ خوشی سے وصول کرتے تھے۔

✨ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
تحفہ لو اور دو اور آپس میں محبت بڑھاؤ۔
(الادب المفرد)

✨ ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں کسی نے کچھ چیزیں ہدیہ بھیجیں جن میں ایک زریں ہار بھی تھا، امامہ بنت زینبؓ ایک گوشے میں کھیل رہی تھیں۔ (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نواسی)۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
میں یہ ہار اس کو دوں گا جو شخص مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے۔
ازواج مطہرات نے سمجھا یہ شرف حضرت عائشہؓ کو حاصل ہو گا لیکن آ پ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ ہار امامہؓ کو بلا کر ان کے گلے میں ڈال دیا۔
(بعض روایات میں ہار کے بجائے انگوٹھی کا ذکر ہے اور یہ چیزیں بھیجنے والا حبشہ نجاشی تھا۔)
(صحیح مسلم)

اپنی استطاعت سے بڑھ کر قیمتی ہدیے دینا سراسر تکلف اور نمود و نمائش کا حصہ ہے۔ اپنی مالی حیثیت کے مطابق جو کچھ بھی میسر ہو جائے، وہ خلوص اور محبت کیساتھ اپنے رشتہ داروں کو پیش کر دینا چاہیے نیز کسی کے معمولی سے ہدیے کو بھی بہت بڑا تحفہ سمجھیں کیونکہ یہ ہدیہ خالصتاً اُلفت کا مظہر اور اُخوت کا پیغام رساں ہوتا ہے۔ ہدیہ دیتے وقت ایسی چیز نہ دیں جو کسی کے کسی کام نہ آ سکے بلکہ استعمال میں آنے والی چیز دیں اور اگر کبھی خاص طور پر کوئی چیز نہ دینا چاہیں تو سامنے والے کو کوئی ایسی چیز دیں جو اس کی ضرورت کی ہو اس کے ہاں موجود بھی نہ ہوتاکہ وہ چیز اسکی ضرورت پورا کر سکے۔

💥7. ہبہ کرنا:

صلہ رحمی کے عملی رویوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اپنے اقارب کی ضرورت کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے کوئی منافع بخش چیز بغیر کسی معاوضے کے اس کی ملکیت میں دے دی جائے۔ مثلاً مکان، غلام، دودھ دینے والا جانور، سواری کا ذریعہ، کوئی ضرورت والی مشین جیسے سلائی مشین استری، گھڑی وغیرہ۔

💥8. دعوت کرنا:

باہم دعوتِ طعام کرنا بھی محبت کو بڑھانے کا اہم ذریعہ ہے اور اس سے رشتہ داری کو استحکام ملتا ہے۔ خصوصا ولیمہ یا کسی خوشی کے موقع پر۔ خود رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کی دعوت کیا کرتے تھے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نبوت سے سرفراز کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اہلِ خاندان کو دعوتِ توحید دینے کے لیے ان کو کھانا کھلانے کا اہتمام کیا اور کھانا کھلانے کے بعد ان پر دعوتِ توحید پیش کی۔

✨ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
مسلمانوں کے پانچ حقوق ہیں:
۱. سلام کا جواب دینا۔
۲. مریض کی عیادت کرنا۔
۳. جنازوں کے ساتھ جانا۔
۴. دعوت قبول کرنا۔
۵. چھینک کا جواب دینا۔
(بخاری، مسلم )

💫 اور ابو ایوب رضی اللّٰہ عنہ کی روایت کردہ حدیث میں یہ الفاظ ہیں:
چھ خصلتیں ہیں جو ان میں سے ایک بھی ترک کر دے اس نے گویا ایک واجب حق کو ترک کر دیا۔
اور اس میں یہ اضافہ بھی ہے:
جب وہ اس سے خیر خواہی چاہے تو اس کی خیر خواہی کرے۔
(مسلم)

✨ نیز رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی فرمایا:

کسی کو کھانے کی دعوت دی جائے تو اس کو قبول کرنا چاہیے خواہ کھائے یا نہ کھائے۔
( سنن ترمذی، مسلم )


💥9. عیادت کرنا:

اوپر جو حدیث دی گئی ہے کہ مسلمان کے پانچ حق ہیں، ان میں سے رشتہ دار بدرجہ اولٰی شامل ہیں۔ لہٰذا عیادت کرنا بھی ان کے حق میں سے ایک حق ہے۔
نیز عیادت کرنا ان امور میں سے ہے جو اجر کا باعث ہیں۔
چنانچہ حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
جب کوئی مسلمان اپنے بھائی کی عیادت کیلیے آتا ہے تو پہنچنے تک مسلسل جنت کے راستے پر چلتا رہتا ہے پھر جب بیٹھتا ہے تو رحمت اسے ڈھانپ لیتی ہے۔ اگر (عیادت کا وقت) صبح کا ہو تو شام تک ستر ہزار فرشتے اس کیلیے دعا کرتے ہیں۔ اگر شام کا وقت ہو تو صبح تک ستر ہزار فرشتے اس کیلیے دعا کرتے ہیں۔
(سنن ابنِ ماجہ)

▪ عیادت کرتے ہوئے اس کے آداب کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔
مثلاً:

⚡مریض کو تسلی دینا کہ وہ ان شاءاللہ ٹھیک ہو جائے گا۔

⚡اسکی شفاء کیلئے دعا کرنا۔

⚡ اس کے پاس بیٹھ کر دل بہلانا اور امید بندھانے والی بات کرنا، مایوس اور غمگین کرنے والی باتوں کا ذکر نہ کیا جائے۔

⚡ مریض کے پاس عیادت کے وقت تھوڑی دیر بیٹھنا چاہیے کیونکہ مریض سے زیادہ باتیں کرنا اس کی صحت کیلئے نقصان دہ ہوتا ہے۔ نیز مریض دوسروں کے سامنے تکلیف کے باوجود اپنی جسمانی حرکات اور چہرے کے تاثرات کو صحت مند شخص کیطرح رکھنا چاہتا ہے جب کہ بیماری کی وجہ سے اس کے لئے ایسا کرنا ممکن نہیں ہوتا اس سے اسے نفسیاتی اور جسمانی دونوں طرح کی تکلیف ہوتی ہے۔

💥10. جنازہ میں شرکت:

مسلمان کے پانچ حقوق میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ فوت ہو جائے تو اس کے جنازے میں شرکت کی جائے۔ رشتہ دار کا یہ حق بہ نسبت عام مسلمان سے بھی کہیں زیادہ ہے۔

✨حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا:
جو شخص مسلمان کے جنازے کے ساتھ حالتِ ایمان میں حصولِ ثواب کے لئیے جاتا ہے اور نمازِ جنازہ کے بعد دفن تک ساتھ رہتا ہے تو وہ دو قیراط لے کر واپس ہوتا ہے اور ہر قیراط کا اجر کوہِ احد کے برابر ہے۔ جو شخص نمازِ جنازہ کے بعد دفن سے پہلے واپس آجاتا ہے تو وہ ایک قیراط لے کر واپس ہوتا ہے
(بخاری شریف)

چنانچہ صحابہ کرامؓ کی یہ کوشش ہوتی تھی کہ وہ ہر واقف اور ناواقف فوت ہونے والے مسلمان کے جنازہ میں شرکت کریں جبکہ انہیں ان کا پتہ چل جاتا۔

💥11. تعزیت:

ایک مسلمان کو اگر جانی، مالی یا کسی اور قسم کا کوئی تکلیف دہ حادثہ پہنچے تو اہلِ قرابت کا فرض ہے کہ وہ اپنے بہن بھائی کی تعزیت کریں اور اس کے دکھ پر دکھ کا اظہار کریں، اس کو تسلی دیں، اس کیلئے رب العزت کے حضور دعا کریں۔ جب کوئی وفات پا جائے تو لواحقین کو صبر کی تلقین کرنا بھی ضروری امور میں سے ہے۔

✨ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
جس نے اپنے مومن بھائی کی مصیبت میں تعزیت کی اللہ اسے قیامت کے دن سبز حلہ پہنائے گا، جس پر قیامت کے دن رشک کیا جائیگا۔
(ابنِ عساکر)

▪فوت ہونے والے کے لیے مغفرت کی دعا بھی رشتہ داری کے حقوق میں شامل ہے۔ جبکہ یہ ہر مسلمان میت کا حق ہے لیکن رشتہ دار پر یہ حق عام مومنوں کی نسبت کہیں زیادہ ہے۔

▪ جس گھر میں میت ہو جائے اس کا مسلمان رشتہ داروں اور پڑوسیوں پر یہ حق ہے کہ وہ کم از کم تین دن ان کے اہلِ خانہ کیلیے کھانا بھجوائیں۔
چنانچہ جب حضرت جعفرؓ کی شہادت کی خبر ملی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
آلِ جعفر کیلیے کھانا بھیجو کیونکہ وہ غمگین ہیں۔
(ترمذی، ابوداؤد)

💥12. باہم محبت، اخلاص اور ہمدردی:


اہلِ قرابت کے درمیان چونکہ نسبی و رحمی تعلق ہوتا ہے، اس لیے ان میں باہم اخلاص اور ہم دردی کا پایا جانا ایک فطری امر ہے۔ اللہ تعالیٰ بھی یہی چاہتا ہے کہ ان کی باہمی ہمدردی میں کوئی کمی نہ آنے پائے۔

اسلام تاکید کرتا ہے کہ
▪باہم بد گمانی نہ کی جائے۔
▪کسی کو برا بھلا نہ کہا جائے۔
▪ غیبت سے بچا جائے۔
▪ چغلی، طنز، اور تمسخر سے گریز کیا جائے۔
▪ادب اور احترام کو ملحوظ رکھا جائے۔
▪ احسان نہ جتایا جائے اور احسان کر کے احسان کی توقع بھی نہ رکھی جائے۔
▪ قطع تعلق نہ کیا جائے۔

✨ ان میں سے اکثر امور کا ذکر مندرجہ ذیل آیات میں کیا گیا ہے :
اے ایمان والو (تمہارا) کوئی گروہ دوسرے گروہ کامذاق نہ اڑائے، ہو سکتا ہے کہ جن کا مذاق اڑایا جا رہا ہے وہ مذاق اڑانے والوں سے بہتر ہوں، اور نہ ہی عورتیں دوسری عورتوں کامذاق اڑائیں، ہو سکتا ہے کہ جن کا مذاق اڑایا جا رہا ہے، مذاق اڑانے والیوں سے بہتر ہوں اور ایک دوسرے پر طعنہ زنی نہ کرو اور نہ ہی ایک دوسرے کے برے نام رکھو، ایمان لانے کے بعد کسی کو بُرا نام دینا بہت بری بات ہے اورجو لوگ ان سے توبہ نہ کریں وہی ظالم ہیں۔
(سورہ الحجرات:11تا 12)

💥13. رشتہ داروں میں نکاح کرنا:


نکاح کا تعلق رشتہ داری کو باہم مضبوط کرتا ہے۔ نیز یہ بھی صلہ رحمی کے حقوق میں سے ہے۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے خاندان میں نکاح کیے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی سب سے بڑی بیٹی کا نکاح ان کے خالہ زاد ابوالعاص سے کیا جو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بھانجے تھے۔ حضرت رقیہ اور حضرت امِ کلثوم رضی اللہ عنہما کے نکاح حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے یکے بعد دیگرے کیے۔ جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریبی چچازاد خاندان بنو امیہ میں سے تھے۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا نکاح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے چچا زاد بھائی حضرت علی بن ابو طالب رضی اللہ سے کیا۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اپنی وفات کے وقت حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ کو وصیت کی کہ وہ ان کے بعد ان کی بھانجی حضرت امامہ بنت زینب رضی اللّٰہ عنہا سے نکاح کر لیں چنانچہ حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ نے بعد میں ان سے نکاح کر لیا جب حضرت علی رضی اللہ فوت ہوئے تو آپ نے حضرت امامہ کو کہا کہ تم میرے بعد مغیرہ بن نوفل سے نکاح کر لینا۔ حضرت مغیرہ بن نوفل عبد المطلب کے پڑپوتے تھے یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے چچا زاد بھائی کے بیٹے تھے۔
( سیرالصحابیات )

رشتہ داوں میں نکاح کرنے سے باہم محبت بڑھتی ہے۔ ایک دوسرے کی عادات کا پہلے سے علم ہوتا ہے۔ رشتہ داری کیوجہ سے کفو (برابری) ہوتا ہے۔ زوجین کے رشتہ دار بھی باہم رشتہ دار ہوتے ہیں۔ لہٰذا ایک دوسرے کے احترام کیوجہ سے کوئی جھگڑا ہونے سے پہلے ہی دب جاتا ہے۔ اور اگر ایسا ہو بھی جائے تو اہلِ خاندان مصالحت کروا دیتے ہیں۔



💥14. صلہ رحمی کا سب سے بڑا حق سب کی راہِ نجات آسان کرنے کی کوشش کرنا:

اہل قرابت رشتہ داروں کی سب سے بڑی خیر خواہی اور ان کا سب سے بڑا حق یہ ہے کہ ان کو پورے اخلاص اور ہم دردی سے نارِ جہنم سے بچانے کی کوشش کی جائے۔ تمام انبیاء ورسل نے اپنے ابنائے قوم، اپنے نسبی و نسلی بھائیوں کو اللّٰہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانے میں ہر قسم کی خیر خواہی اور حکمتِ تبلیغ کو بروئے کار لانے کی پوری کوشش کی۔ اپنے بھائیوں کے متکبرانہ اور ظالمانہ رویے کے جواب میں انہوں نے کہا:

میں تمہیں اپنے پروردگار کے پیغامات پہنچاتا ہوں اور تمہاری خیر خواہی کرتا ہوں اور میں اللہ کی طرف سے وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔
(سورہ الاعراف:62)

✨ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس معاملے میں اپنی ذمہ داری پوری دیانت کے ساتھ نبھائی۔
جب یہ آیت نازل ہوئی:
اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیے۔
(سورہ الشعرا:214)

✨ اللہ تعالیٰ نے روزِ قیامت انسان کی بے بسی، بے چارگی، گھبراہٹ اور نفانفسی کا ذکر یوں کیا ہے۔

اس دن آدمی اپنے بھائی سے دور بھاگے گا، اور اپنی ماں، اور اپنے باپ سے، اور اپنی بیوی اور اپنے بیٹے سے، ہر شخص اس روز ایک فکر میں ہو گا جو اسے دوسروں سے بے خبر کر دے گا۔
(سورہ عبس:34 تا 37)

💥15. اہل قرابت سے میل ملاقات رکھنا:

اہل قرابت سے میل ملاقات رکھنا بھی باہمی محبت کو بڑھانے کا باعث بنتا ہے۔ بشرطیکہ ملاقات صرف اللہ کے لئے کی جائے اور اسے اللہ کے عطا کردہ نظامِ معاشرت ہی کا ایک حصہ سمجھ کر ملاقات کی جائے۔ ملاقات کا مقصد کسی رشتہ دار پر فخر جتانا یا احسان جتانا نہ ہو۔
رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے رشتہ داروں سے ملاقات کے لیے اکثر تشریف لے جایا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب کسی لمبے سفر سے واپس آتے تو پہلے مسجد میں دو رکعت نماز ادا فرماتے۔ پھر اپنی بیٹی حضرت فاطمہؓ کے ہاں تشریف لے جاتے، ان کی خیر و عافیت دریافت کرتے۔ پھر اپنے گھر تشریف لاتے۔ امِ سلیم رضی اللہ عنہا جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دادی سلمیٰ زوجہ ہاشم کی نسبت سے رضاعی خالہ تھیں، ان سے ملاقات کے لیے اکثر تشریف لے جاتے اور ان کے ہاں استراحت بھی فرماتے۔
ام سلیم رضی اللہ عنہا کی دوسری بہن ام حرام بنت ملحان کے ہاں بھی ملاقات کے لیے آپ اکثر جایا کرتے تھے۔

💥16. عاقلہ:

ایک شرعی اصطلاح ہے جس سے مراد قتل کا جرم کرنے والے کے وہ رشتہ دار ہیں جن کا نسب باپ کی جہت سے ہو۔ یہ رشتہ دار قتل کا جرم کرنے والے پر عائد دیت کا بوجھ برداشت کرتے ہیں۔ اس کی مدد کرنے کے ذمہ دار ہیں۔
یہ صرف اس صورت میں ہے جب کہ قتل کرنے والے کو اس نے جان بوجھ کر قتل نہ کیا ہو۔ عاقلہ پر اسکی قسطیں کر دی جائیں گی تاکہ وہ تین سال کے اندر اندر اسکی ادائیگی دیں۔

اگر کسی شخص پر کوئی اور مالی پریشانی آ جائے تو بھی رشتہ داروں کا فرض ہے کہ وہ اس شخص کی مالی مدد کریں۔
اگر کوئی شخص بے جا مال اڑاتا ہے۔ اسے گناہوں کے کاموں میں صرف کرتا ہے یا اس نے جان بوجھ کر قتل کیا ہے تو ایسے معاملات میں رشتہ دار اس کی مدد نہیں کریں گے۔ بلکہ اس پر ہر طرح کا دباؤ ڈال کر اسے بے جا مال اڑانے اور گناہ کے کاموں میں مال صرف کرنے سے روکنے کی ہر ممکنہ کوشش کریں گے۔