🌹 رشتہ داروں سے حسنِ سلوک کے متعلق چند واقعات:


💥 صلہ رحمی مصائب و مشکلات کو دور کرتی ہے:


صلہ رحمی اللہ کے حکم سے مصائب و مشکلات کو دور کرتی ہے اور اللہ کے فضل کے ساتھ بندے سے بلائیں دور کرتی ہے۔ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پہلی وحی اقرا باسم ربک الذی خلق نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (غار حراء، جبل نور) سے کانپتے ہوۓ واپس آئے اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس گھر پہنچتے ہی فرمانے لگے: زمّلونی (مجھے کمبل اوڑھا دیجیۓ )
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معاملہ کی خبر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو دی اور فرمایا کہ
میں ڈر گیا ہوں اور مجھے جان کا خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔" حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:
اللہ کی قسم! آپ کو ایسا کوئی خطرہ نہیں ہو سکتا، اللہ آپ کو کبھی غمناک و پریشان نہیں کرے گا کیونکہ آپ صلہ رحمی کرتے ہیں۔ کمزوروں کی دست گیری فرماتے ہیں، ناداروں کو کپڑا پہناتے ہیں اور مہانوں کی میزبانی کرتے ہیں۔
(صحیح بخاری)


💥 آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنے رشتہ داروں سے حسنِ سلوک:

جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے رشتہ داروں اور میل جول والوں کے ساتھ حسنِ سلوک فرمایا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے خاندان کے ساتھ میل جول کا سلسلہ قائم رکھتے تھے اور معاشرتی حوالے سے عزت و احترام کا معاملہ فرمایا کرتے تھے۔ اسلام کے اعلان کے بعد جن رشتہ داروں کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معاملہ تھا ان میں ایک حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا حضرت حمزہؓ تھے جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا بھی تھے اور رضاعی بھائی بھی تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی ثویبہؓ کا دودھ پیا تھا اور حضرت حمزہؓ نے بھی۔
حضرت حمزہؓ احد میں شہید ہو گئے تھے۔ فتح مکہ کے بعد حضرت حمزہؓ کا خاندان جب مدینہ منورہ آیا تو حضرت حمزہؓ کی بیٹی جوان تھیں۔ کسی نے نبی کریمؐ سے ذکر کیا کہ
یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! یہ آپ کی چچازاد ہے۔ آپ اسے اپنے نکاح میں لے لیں۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا خدا کے بندو! حمزہ میرے چچا بھی تھے اور میرے رضاعی بھائی بھی، اس حساب سے یہ میری بھتیجی لگتی ہے۔ یعنی نسب کے حوالے سے چچازاد جبکہ رضاعت کے حوالے سے بھتیجی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میرے لیے اس کے ساتھ شادی کرنا جائز نہیں ہے۔ اسی طرح حضرت علیؓ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچازاد بھی تھے اور داماد بھی تھے۔
:

💥 آقا علیہ الصلوٰة والسلام کا حضرت عثمانؓ پر پیار اور اعتماد کا اظہار:


حضرت عثمانؓ بدر کی لڑائی میں شریک نہیں ہو سکے۔ اس وجہ سے کہ حضرت عثمانؓ کے نکاح میں جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دوسری بیٹی حضرت رقیہؓ تھیں۔ حضرت رقیہؓ سخت بیماری کی حالت میں گھر پر تھیں اور حضرت عثمانؓ کے علاوہ کوئی ان کی تیمار داری کرنے والا نہیں تھا۔ بدر کے معرکے میں جانے لگے تو حضرت عثمانؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بھی جنگ میں شریک ہونا چاہتا ہوں، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں منع کرتے ہوئے فرمایا:
تم گھر میں رہو اس لیے کہ رقیہؓ بیمار ہے اور کوئی اسے پانی دینے والا بھی نہیں ہے۔

حضرت عثمانؓ نے اصرار کیا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ
جو ثواب وہاں جنگ میں شریک ہونے والوں کو ملے گا تمہیں یہاں گھر میں رہ کر ملے گا۔
جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سخت ترین جنگی حالات میں بھی اپنی بیٹی کی ضروریات کا خیال کرتے ہوئے اپنے داماد حضرت عثمانؓ کو جنگ میں جانے سے روک دیا۔ چنانچہ اسی بیماری کے دوران حضرت رقیہؓ کا انتقال ہو گیا۔

اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی تیسری بیٹی اُمِ کلثوم حضرت عثمانؓ کے نکاح میں دے دی، حضرت ام کلثومؓ کا بھی بعد میں انتقال ہو گیا۔ اس پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس پر ایک ایسا جملہ فرمایا جو کوئی سسر کم ہی اپنے داماد کے متعلق کہتا ہے۔ فرمایا،
عثمانؓ میری اور کوئی بیٹی تمہارے لیے دستیاب نہیں ہے، اگر میری سو بیٹیاں بھی ہوتیں تو ایک ایک کر کے تمہارے نکاح میں دے دیتا۔
یہ ایک سسر کا اپنے داماد پر بے انتہا اعتماد کا اظہار تھا۔ تو جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کا اور عزت و احترام کا معاملہ فرماتے تھے۔

💥 صلہ رحمی کا ایک عجیب واقعہ::

ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عورتوں کو خیرات کرنے کا حکم دیا۔ اور فرمایا کہ اور کچھ نہ ہو تو زیور ہی خیرات کر دیں۔ حضرت زینبؓ نے یہ حکم سن کر اپنے خاوند حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے کہا کہ تم جا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھو، اگر کوئی حرج نہ ہو تو جو کچھ مجھے خیرات کرنا ہے وہ میں تمہیں سے دوں۔ تم بھی محتاج ہو۔
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے کہا:
خود تم جا کر پوچھو لو، حضرت زینبؓ مسجد نبوی کے دروازے پر حاضر ہوئیں۔ وہاں جا کر دیکھا کہ ایک اور بی بی کھڑی تھیں اور وہ بھی اسی ضرورت سے آئیں تھیں۔ ہیبت کے مارے ان دونوں کی جرات نہ پڑتی تھی کہ اندر جا کر خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھتیں۔
حضرت بلالؓ نکلے تو ان دونوں نے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جا کر کہہ دو کہ دو عورتیں کھڑی پوچھتی ہیں کہ ہم لوگ اپنے خاوندوں اور یتیم بچوں پر جو ہماری گود میں ہوں صدقہ کر سکتے ہیں یا نہیں۔؟؟؟
بلالؓ سے چلتے چلتے یہ بھی کہہ دیا کہ تم نہ کہنا کہ ہم کون ہیں۔
حضرت بلالؓ نے عرض کیا:
تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
کون پوچھتا ہے؟؟؟
حضرت بلالؓ نے کہا:
ایک قبیلہ انصار کی بی بی ہے اور ایک زینبؓ۔
انہوں نے کہا:
کہ عبداللہ بن مسعودؓ کی بیوی۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
کہہ دو کہ ان کو دوہرا ثواب ملے گا۔ قرابت کی پاسداری کا علیحدہ اور صدقہ کرنے کا علیحدہ۔
(بخاری و مسلم)


💥 کسی کا مذاق اڑانا سخت گناہ:

ابنِ ماجہ میں ایک حدیث ہے کہ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیت اللہ شریف کا طواف فرما رہے تھے۔ طواف کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیت اللہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:

اے بیت اللہ! تو کتنا عظیم ہے، تیری قدرو منزلت کتنی عظیم ہے کہ اس روئے زمین پر اللہ تعالیٰ نے تجھے اپنا گھر قرار دیا ہے۔ تیری حرمت کتنی عظیم ہے۔ لیکن اے بیت اللہ! ایک ایسی چیز ہے جس کی حرمت تیری حرمت سے بھی زیادہ ہے۔ وہ مسلمان کی جان، اس کا مال اور اس کی آبرو ہے۔
اگر کوئی شخص ایسا سنگدل اور شقی القلب ہو کہ بیت اللہ کو ڈھا دے العیاذباللہ تو ساری دنیا اس کو برا کہے گی۔ کہ اس نے اللہ کے گھر کی کتنی بے حرمتی کی ہے. مگر سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما رہے ہیں کہ اگر کسی نے کسی مسلمان کی جان، مال، آبرو پر حملہ کر دیا یا اس کا دل دکھایا تو بیت اللہ کو ڈھانے سے زیادہ سنگین جرم ہے۔ لیکن تم نے اس کو معمولی سمجھا ہوا ہے۔ اور تم ایک دوسرے کا مذاق اڑا رہے ہو اور اس کی وجہ سے اس کا دل دکھا رہے ہو اور تم مزے لے رہے ہو؟؟؟
ارے یہ تم بیت اللہ کو ڈھا رہے ہو اس کی حرمت کو پامال کر رہے ہو۔ لہٰذا کسی کو مذاق کا نشانہ بنا لینا اور اس کا ستہزا کرنا حرام ہے۔


💥 آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنے خاندان والوں کا خیال رکھنا:


حضرت حسان بن ثابتؓ نے کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! میں یہ جنگ ایسی لڑوں گا اور ان قریشیوں کی ایسی مذمت کروں گا کہ دنیا یاد کرے گی۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک جملہ فرمایا:
اگر تم ان کی مذمت کرو گے تو اس میں میرے خاندان اور میرے نسب کے لوگ بھی آئیں گے جو قابلِ احترام ہیں، ان کے ساتھ تم کیا معاملہ کرو گے؟

حضرت حسانؓ نے کہا کہ
یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! میں مذمت کرتے ہوئے آپ کے نسب کو ایسے درمیان سے نکال دوں گا جیسے آٹے میں سے بال نکالا جاتا ہے۔ یعنی میں آپ کے نسب کا لحاظ رکھوں گا اور اس پر کوئی زد نہیں آنے دوں گا۔
پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت حسانؓ سے کہا کہ
ہمارے جو نسب نامے ہیں ان کا ابوبکرؓ کو سب معلوم ہے ان سے جا کر یہ معلوم کر لو کہ کس کے ساتھ میرا کیا رشتہ ہے۔
چنانچہ حضرت حسان بن ثابتؓ حضرت صدیق اکبرؓ کے پاس گئے اور ساری تفصیل معلوم کی۔ پھر آ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بتایا کہ میں نے آپ کا نسب سیکھ لیا ہے، اب آپ تسلی رکھیں میں ہجو بھی کروں گا اور آپ کے نسب کو بھی بچاؤں گا۔
چنانچہ محدثین کرام فرماتے ہیں کہ اپنے خاندان والوں کی عزت کا لحاظ رکھنا بھی سنت ہے۔ خاندان کے حوالے سے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنا طرزِ عمل بھی یہی تھا اور دوسروں کیلیے تلقین بھی یہی تھی۔


💥 حضرت صدیقؓ کا اللہ کے حکم پہ صلہ رحمی کرنے کا واقعہ:

واقعۂ افک میں جن حضرات نے حضرت عائشہؓ کے تعلق سے بہتان تراشی میں حصہ لیا تھا، ان میں حضرت ابو بکرصدیقؓ کے ایک عزیز حضرت مسطح ؓ بن اثاثہ بھی تھے۔ واقعۂ افک کے تعلق سے جب اللہ تعالیٰ نے آیات نازل فرمائیں جن میں حضرت عائشہؓ کی برأت ظاہر کی گئی، اس موقع پر حضرت ابوبکر صدیقؓ نے قسم کھائی کہ وہ اب حضرت مسطح ؓ بن اثاثہ کی کچھ مدد نہ کیا کریں گے۔حضرت ابوبکرؓ بہت غمزدہ تھے کہ انہوں (حضرت مسطح ؓ ) نے نہ رشتہ داری کا کوئی لحاظ کیا اور نہ ان احسانات ہی کی کچھ شرم کی جو وہ ساری عمر اُن پر اور ان کے خاندان پر کرتے رہے تھے۔ تو اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی:

تم میں سے جو لوگ صاحبِ فضل اور صاحبِ مقدرت ہیں وہ اس بات کی قسم نہ کھا بیٹھیں کہ اپنے رشتہ دار، مسکین اور مہاجر فی سبیل اللہ لوگوں کی مدد نہ کریں گے۔ انھیں معاف کر دینا چاہیے اور درگزر کرنا چاہیے۔ کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تمہیں معاف کرے؟ اور اللہ کی صفت یہ ہے کہ وہ غفور اور رحیم ہے۔
( سورہ النور:22)

اس پرحضرت ابو بکر صدیقؓ نے فوراً کہا:
کیوں نہیں، بخدا یقیناً ہم چاہتے ہیں کہ اے ہمارے رب! تو ہماری خطائیں معاف فرمائے۔

چنانچہ آپؓ نے پھر مسطحؓ کی پھر سے مدد شروع کر دی اور پہلے سے زیادہ ان پر احسان کرنے لگے ۔
(تفہیم القرآن)

یہ واقعہ ان لوگوں کے لیے درسِ عبرت ہے جو ذرا ذرا سی بات پر اپنے رشتہ داروں سے قطع تعلقی کر لیتے ہیں، اور ہمیشہ کے لیے ان سے رشتے ناتے توڑ لیتے ہیں۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ نے اتنی بڑی بات ہونے کے باوجود اپنے عزیز کو صرف اللہ سے اپنی مغفرت کی طلب میں معاف کر دیا۔


💥 حضرت نوح علیہ السلام کی بیٹے کیلیے صلہ رحمی:

یہ صلہ رحمی ہی تھی جس نے حضرت نوح علیہ السلام کی زبان سے اپنے پانی میں غرق ہوتے بیٹے کیلیے یہ جملہ نکلوایا:

اے اللہ میرے پروردگار! میرا بیٹا تو میرے گھر والوں میں سے ہے اور تیرا وعدہ بھی بالکل سچا ہے اور تو ہر حاکم کے اوپر حاکم ہے۔
(سورة ہود:45)


💥حضرت ابراہیمؑ کی اپنے باپ کیلیے دعا:

یہ صلہ رحمی ہی تھی کہ آگ کے ہولناک عذاب سے بچانے کیلیے اللہ تعالیٰ نے ہر قوم میں انہی میں سے نبی اور رسول بھیجے۔

یہ صلہ رحمی ہی تھی کہ جو باپ جان کا دشمن تھا اور آگ کے الاؤ میں اپنے بیٹے کو پھینکنے پر راضی ہو گیا۔ اس کے بدترین رویے کے جواب میں حلیم و بردبار بیٹے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا:
ابا جان! تم پر سلام ہو، میں اپنے رب سے آپ کے لئے بخشش مانگوں گا بلاشبہ میرا رب مجھ پر مہربان ہے ۔
(سورہ مریم:47)


💥حضرت ہارونؑ کا اپنے بھائی کو رشتہ داری کا حوالہ دینا:

یہ صلہ رحمی ہی تھی کہ جب موسیٰؑ تورات کے نزول سے مستفیض ہو کر کوہِ طور سے لوٹے، قوم کو بچھڑے کی محبت میں گرفتار پایا، اپنے بڑے بھائی ہارونؑ کا سر پکڑ کر اپنی طرف کھینچا تو انہوں نے رشتہ داری کا ہی حوالہ پیش کرتے ہوئے کہا:

اے میری ماں کے بیٹے! ان لوگوں نے مجھے کمزور سمجھا اور قریب تھ. کہ مجھے مارہی ڈالتے لہٰذا دشمنوں کو مجھ پر ہنسنے کا موقع نہ دے اور مجھے ان ظالموں کے ساتھ شامل نہ کرو۔
(سورہ الاعراف:150)


💥حضرت یوسفؑ کی اپنے بھائیوں کے ساتھ صلہ رحمی:

یہ صلہ رحمی ہی تھی کہ جن نوجوان بھائیوں کی جماعت نے حسد کے تحت شیطان کے جھانسے میں آ کر اپنے کم عمر، معصوم اور تنہا بھائی کو گہرے اندھے کنوئیں میں پھینک دیا تھا۔ اسی بھائی کے پاس جب اپنی قحط سالی کی حالت زار لے کر پہنچے تو اس معصوم، صالح، صدیق بھائی نے غلہ بھی دے دیا۔ خاطر و مدارت بھی کی۔ اور حقیقتِ حال ظاہر ہو جانے پر کہا:۔

ج تم پر کوئی مواخذہ نہیں اللہ تمہیں معاف کرے اور وہ سب سے بڑھ کررحم کرنے والا ہے۔
(سورة یوسف:92)

💥 مسکین قرابت دار کا پہلا حق:

صدقہ سب سے پہلے جسے دیا جائیگا وہ ایسے قرابت دار ہیں جو مسکین بھی ھوں، حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہا نے اپنا باغ صدقہ کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
میں سمجھتا ھوں کہ اس باغ کو تم اپنے قرابت داروں پر صدقہ کر دو۔
تو حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے وہ باغ اپنے رشتہ داروں اور چچا زادوں پر صدقہ کر دیا۔
(متفق علیہ)

✨ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
میں اپنے بھائیوں میں سے کسی بھائی کے ساتھ صلہ رحمی کروں، یہ چیز مجھے بیس درھم صدقہ کرنے سے بھی زیادہ محبوب ہے۔

✨ قرابت داروں پر خرچ کرنے والا شخص سخی اور صاحبِ جود و کرم ہے۔
امام شعبی فرماتے ہیں:
میرے قرابت داروں میں سے جو بھی فوت ھو اور اس پر کسی کا کوئی قرض ھو، اس کا قرض میں ادا کروں گا۔


💥 حکیم بن حزام کا اپنی پھوپھی کیلیے کھانا بھیجنا:

حکیم بن حزام رضی اللّٰہ عنہ کی نیکیوں میں صلہ رحمی بھی شامل تھی، ان کا عہد جاہلیت میں صلہ رحمی کا ثبوت وہ واقعہ ہے، جب بنو ہاشم سے قریش نے قطع تعلق کیا اور انہیں تین سال تک شعب ابی طالب میں محصور ہونا پڑا، کافروں نے مسلمانوں تک اشیائے خوردونوش کی رسد بھی روک دی۔ اور زبردستی ہر اک کو اس معاہدے کی پابندی کرنے کا حکم جاری کیا۔ حکیم بن خزام اس دور میں چھپ چھپا کر اشیائے خوردونوش مسلمانوں تک پہنچاتے رہے۔
ایک بار انہوں نے کچھ اناج اپنے غلام کے ہاتھ بھیجا تو ابو جہل نے دیکھا لیا اور چھیننے کی کوشش کی۔ اتنے میں ابو الجنتری بھی وہاں آ پہنچا، وہ اگرچہ کافر تھا لیکن اسے رحم آ گیا اور ابو جہل سے کہا:
"اگر ایک شخص اپنی پھوپھی (خدیجہ رضی اللّٰہ عنہا) کو کچھ کھانے کے لیے بھیجتا ہے تو تُو کیوں روکتا ہے؟
( سیرت ابن ہشام:جلد1 )