💥صلہ رحمی اور قطع رحمی کی پہلی مثال:


ہابیل و قابیل کی داستان قرآنِ پاک میں سورہ مائدہ میں بیان ہوئی ہے۔ یہ قصہ حضرت آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں کا ہے۔ ان میں سے ایک کا نام ہابیل اور دوسرے کا قابیل تھا۔ قابیل عمر میں بڑا تھا اور کھیتی باڑی کیا کرتا تھا۔ یہ مزاج کے اعتبار سے تیز اور فطرتاً برائی کی جانب راغب تھا۔ اس کا چھوٹا بھائی ہابیل اس کے برعکس تھا۔ وہ نیک سرشت، متقی اور منکسر المزاج تھا۔ اس کا پیشہ بھیڑ بکریاں چرانا تھا۔
ایک دن اللہ کی جانب سے دونوں کو حکم ہوا کہ وہ اللہ کے حضور قربانی پیش کریں تاکہ علم ہو جائے کہ کون اللہ کے نزدیک زیادہ متقی اور مقبول ہے۔ قدیم زمانے میں قربانی کی قبولیت کی یہ علامت ہوتی تھی کہ جس کی قربانی کو آسمان سے ایک آگ آکر جلا دے اس کی قربانی اللہ کے نزدیک قبول ہو گئی ہے۔ چنانچہ دونوں نے قربانی پیش کی۔ ہابیل یوں بھی نیک سیرت اور اللہ سے ڈرنے والا انسان تھا ۔چنانچہ اس نے نیک نیتی کے ساتھ خالص اللہ کی رضا کے کے لئے اپنے گلے کی بہترین پہلوٹھی کی بھیڑ اللہ کی راہ میں قربان کرنے کے لیے پیش کر دی۔ دوسری جانب قابیل ناقص اور ردی قسم کا اناج لے کر آیا۔ اس کے دل میں یہ بات تھی کہ اگر قربانی مقبول ہو گئی تو اس اناج نے ویسے بھی جل جانا ہے تو اچھی فصل کو برباد کرنے کا کیا فائدہ۔
اب دونوں دور ہٹ کر خدا کے فیصلے کا انتظار کرنے لگے۔ پھر اچانک آسمان سے ایک آگ نازل ہوئی اور اس نے ہابیل کی قربان کی ہوئی بھیڑ کو جلا ڈالا جبکہ قابیل کا اناج جوں کا توں پڑا رہا۔ یوں فیصلہ ہو گیا کہ خدا ہابیل اور اسکی قربانی سے راضی اور قابیل سے ناخوش ہے۔

جب قابیل کی قربانی مردود ہو گئی تو اس کا طیش انتقام میں بدل گیا تو اس نے اپنے بھائی کے ساتھ قطع رحمی کی اور علی الاعلان اپنے بھائی ہابیل کو جان سے مارنے کی دھمکی دے دی۔

✨ نیز آپ ان اہل کتاب کو آدم کے دو بیٹوں کاسچا واقعہ سنائیے جب ان دونوں نے قربانی کی تو ان میں سے ایک کی قربانی قبول ہو گئی اور دوسرے کی نہ ہوئی اور دوسرے نے کہا: میں ضرور تمہیں مار ڈالوں گا پہلے نےجواب دیا اللہ تو صرف متقیوں کی قربانی قبول کرتا ہے۔
(سورہ مائدہ:27)

یہاں ہابیل نے صلہ رحمی کی راہ اپنائی اور بڑی بردباری سے اپنے بھائی کو یہ جواب دیا۔

✨ اگر تو مجھے قتل کرنے کے لیے ہاتھ اٹھائے گا تو میں تجھے قتل کرنے کے لیے ہاتھ نہ اٹھاؤں گا، میں اللہ رب العالمین سے ڈرتا ہوں۔
(سورہ مائدہ:28)

اگر تمہاری قربانی قبول نہیں ہوئی تو اس میں میرا کیا قصور ہے؟ بلکہ تمہیں تو یہ چاہیے تھا کہ پرہیزگاری کی راہ اختیار کرتے۔ اس صورت میں شاید تمہاری قربانی قبول ہو جاتی اور اگر تم مجھے مارنے پر ہی تُلے ہوئے ہو تو میرا ایسا قطعاً کوئی ارادہ نہیں ہے میں بہرحال اس معاملہ میں ہاتھ نہیں اٹھاؤں گا (یعنی پہل نہیں کروں گا) کیونکہ میں اسے بہت بڑا ظلم سمجھتا ہوں۔

✨میں چاہتا ہوں کہ میرا اور اپنا گناہ تو ہی سمیٹ لے اور دوزخی بن کر رہے ظالموں کے ظلم کا یہی ٹھیک بدلہ ہے۔
(سورہ مائدہ:29)

قابیل نے اپنے بھائی کی باتیں سنیں تو کچھ عرصہ ان پر غور کرتا رہا، لیکن بالآخر اس کے نفس اور شیطان نے سبز باغ دکھا کر اس بات پر آمادہ کر ہی لیا کہ وہ اپنے بھائی کا قصہ پاک کر دے اور اپنی حسد کی آگ کو ٹھنڈا کرے۔ پھر ایک دن موقع پا کر قابیل نے اپنے بھائی کو مار ڈالا۔

✨ آخر کار اس کے نفس نے اپنے بھائی کا قتل اس کے لیے آسان کر دیا اور وہ اسے مار کر اُن لوگوں میں شامل ہو گیا جو نقصان اٹھانے والے ہیں۔
(سورہ مائدہ:30)

لیکن اب یہ مسئلہ تھا کہ وہ اس لاش کو کیا کرے اور کہاں چھپائے کیونکہ لاش میں سڑانڈ اور بدبو پیدا ہونے لگی تھی۔ اسی اثنا میں اس نے دیکھا کہ ایک کوا اپنے مردہ بھائی کی لاش کو زمین میں دفن کر رہا ہے۔ اس وقت وہ سوچنے لگا کہ مجھ میں اس کوے جتنی بھی عقل نہیں۔ بہرحال اس نے بھی زمین میں گڑھا کھود کر اپنے بھائی کی لاش کو زمین میں دبا دیا۔ جب وہ لاش دفن کرچکا تو اب اس کا نفس اسے ملامت کرنے لگا کہ اس نے قطع رحمی کی روش کیوں اختیار کی کہ ایک نیک سیرت اور شفیق بھائی اس سے ہمیشہ کے لیے جدا ہو گیا اور اس بات پر بھی اسے ندامت ہوئی کہ اس نے اپنے بھائی کو قتل کر کے انتہائی وحشیانہ حرکت کا ارتکاب کیا ہے۔

✨ پھر اللہ نے ایک کوا بھیجا جو زمین کھودنے لگا تاکہ اُسے بتائے کہ اپنے بھائی کی لاش کیسے چھپائے یہ دیکھ کر وہ بولا افسوس مجھ پر! میں اس کوے جیسا بھی نہ ہو سکا کہ اپنے بھائی کی لاش چھپانے کی تدبیر نکال لیتا اس کے بعد وہ اپنے کیے پر بہت پچھتایا۔
(سورہ مائدہ:31)