🌹 پڑوسی کی حد:

▪حضرت علیؓ سے مروی ہے کہ جو اذان سن لے وہ پڑوسی ہے۔

▪جو صبح کی نماز مسجد میں آپ کے ہمراہ پڑھے وہ پڑوسی ہے۔

▪حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ پڑوسی کی حد ہر جانب سے چالیس گھر ہیں۔
چالیس گھر دائیں طرف اور بائیں طرف سے چالیس آگے اور پیچھے سے بھی



🌹 پڑوسیوں کی اقسام:


ابو بکر الرازی رحمتہ اللہ علیہ نے احکامِ القرآن میں بیان کیا کہ ایک حدیثِ مبارکہ میں تین قسم کے پڑوسیوں کا بیان آیا ہے۔


💫1. ایک وہ جس کی تین حقوق ہیں۔
▪پڑوسی بھی ہے۔
▪ رشتہ دار بھی ہے۔
▪مسلمان بھی ہے۔

(اس کا حق دیگر پڑوسیوں کے مقابلے میں زیادہ ہے)


💫2. دوسرا وہ جس کے دو حقوق ہیں۔
▪پڑوسی ہو۔
▪ مسلمان ہو۔

(اس کا درجہ پہلی قسم والے پڑوسی سے کم ہے)


💫3. یہ وہ پڑوسی ہے جس کا ایک حق ہے یعنی
▪جو غیر مسلم ہو۔

(اس پڑوسی کا درجہ سب سے کم ہے)


⚡ ان اقسام کے علاوہ ہم نشین یا پہلو کا ساتھی بھی پڑوسی ہے۔
یعنی جس کے ساتھ دن رات کا اٹھنا بیٹھنا ہو۔ اس اصطلاح سے مراد ایک گھر یا عمارت میں رہنے والے مختلف لوگ، دفتر ، فیکٹری یا کسی اور ادارے میں ساتھ کام کرنے والے افراد، تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے ساتھی، دوست اور دیگر ملنے جلنے والے احباب شامل ہیں۔



🌹ہمسایہ کے ساتھ حسنِ سلوک کی اہمیت:


ہمسایہ کے حقوق کی ادائیگی بڑی اہم ہے کیونکہ ہمسایوں کا تعلق رشتہ داروں کے قریب قریب پہنچ جاتا ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس بات کا اظہار یوں فرمایا ہے:
حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
مجھے جبرائیل پڑوسی کے حقوق کے بارے میں تاکید کرتے رہے یہاں تک کہ میں نے گمان کیا وہ اسے وراثت میں شریک کر دیں گے۔
(مسلم، بخاری)


🌟 اللہ کی دوستی کی علامت:
اپنے ہمسایوں سے نیک سلوک کرنا اللہ کی دوستی کی علامت ہے کیونکہ اللہ کے نیک بندے رضائے الہٰی کے پیشِ نظر ہمیشہ ہر ایک سے اچھا سلوک کرتے ہیں۔ لہٰذا اللہ کے بندوں کی پہچان کا ایک نمایاں وصف یہ ہے کہ اللہ کے دوست وہی ہیں جو دوسروں کو اپنا دوست بناتے ہیں۔
ایسے ہی بہترین پڑوسی وہ ہے جس کو تمام ہمسائے اچھا سمجھیں۔

✨ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
بہترین دوست خدا کے نزدیک وہ ہیں جو اپنے دوستوں کے لئے بہترین ہیں اور بہترین پڑوسی خدا کے نزدیک وہ ہیں جو اپنے پڑوسیوں کے حق میں بہترین ہیں۔
(ترمذی)


🌟 ہمسایہ کی رائے کی اہمیت:
اسلام نے اچھائی اور برائی کو پرکھنے کے لئے ہمسایہ کی رائے کو بڑی اہمیت دی ہے کہ جس قدر قریبی ہمسایہ اپنے ہمسائے کے بارے میں علم رکھتا ہے، دوسرا آدمی نہیں رکھ سکتا۔

✨نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو یوں بیان فرمایا ہے۔
”حضرت ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا:
"یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم؟ مجھے کیوں کر معلوم ہو کہ میں نے اب اچھا کام کیا ہے اور اب بُرا؟؟؟
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
"جب تم پڑوسیوں کو کہتے سنو تم نے اچھا کام کیا ہے تو تم سمجھ لو کہ تم نے اچھا کام کیا ہے اور جب تم انہیں کہتے سنو کہ تم نے برا کام کیا ہے تو سمجھ لو کہ تم نے برا کام کیا ہے۔"
(ابن ماجہ)

💫اس حدیث میں ایک عام اصول بیان کیا گیا ہے کہ جب ہم نے کسی کے بارے میں جاننا ہو کہ وہ آدمی کیسا ہے تو اس کے ہمسایوں سے دریافت کرنا چاہیے۔ اگر ہمسایوں کی رائے اس کے حق میں اچھی ہو تو سمجھے کہ وہ آدمی اخلاق اور کردار کے لحاظ سے اچھا ہے۔ اگر ان کی رائے اس سے برعکس ہو تو سمجھ لینا چاہیے کہ آدمی اچھا نہیں۔ اس کو پرکھنے کا معیار ہمسایوں کی رائے پر موقوف کر دیا گیا ہے۔


🌟 ہمسایہ کی ضرورت مقدم جاننا:
ہمسایہ کی ضروریات کو اپنے سے مقدم جاننا چاہیے اور ہر ممکن مدد کی کوشش کرنی چاہیے اگر اپنا معمولی نقصان بھی ہوتا ہو تو پھر بھی جذبہ ایثار کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ہمسایہ کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے۔

ہمسایہ کی ضرورت کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ
اگر تمہارا ہمسایہ تمہارے تنور میں روٹی پکانا چاہے یا تمہارے پاس اپنا سامان ایک دن یا نصف دن کے لئے رکھنا چاہے تو اسے منع نہ کرو۔
(کتب احادیث)



🌟 ہمسایہ کو ستانے کی ممانعت:

اپنے ہمسایوں کو ستانا درست نہیں اس لئے اپنے پڑوسیوں کو بلا وجہ گالیاں دینا یا تنگ کرنا یا آوازیں کسنا یا بلا وجہ نفرت کرنا ناجائز اور خلافِ اسلام ہے۔

✨حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
جو شخص اللہ اور قیامت پر یقین رکھتا ہے وہ اپنے پڑوسی کو نہ ستائے۔
(بخاری و مسلم)

💫 اللہ کے نیک بندوں کا ہمیشہ یہی طرز عمل ہوتا ہے کہ وہ کسی کو ستاتے نہیں بلکہ اگر کوئی انہیں ستائے تو صبر کرتے ہیں اور اپنے آرام کو قربان کر کے دوسروں کو راحت پہنچاتے ہیں۔

🌟 ہمسایوں کو ایذا پہنچانے کی ممانعت:

ہمسایوں کو مارنا یا کسی اور طریقے سے دکھ، تکلیف پہنچانا گناہ ہے۔ کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمسایوں کو ایذارسانی سے منع فرمایا ہے:

”حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
اللہ تعالیٰ کی قسم وہ مومن نہیں۔ اللہ تعالیٰ کی قسم وہ مومن نہیں۔ اللہ تعالیٰ کی قسم وہ مومن نہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: کون؟؟؟؟ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔؟؟؟؟
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
جس کی ایذارسانی سے اس کا پڑوسی محفوظ نہ ہو۔
(بخاری شریف)

💫 اس حدیث میں یہ بتایا گیا ہے کہ ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ کسی ہمسایہ کو ایذا نہ دی جائے بلکہ حقیقت میں اہلِ ایمان وہی ہیں جن کے پڑوسی ان سے راضی ہیں۔
ایک اور حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن درویش ہمسایہ اپنے امیر ہمسایہ سے اُلجھے گا اور اللہ تعالیٰ سے فریاد کرے گا کہ اے پروردگار! اس سے مؤاخذہ کیا جائے کہ یہ میرے ساتھ نیکی کرنے سے کیوں گریز کرتا رہا اور اس کے گھر کا دروازہ مجھ پر ہمیشہ کیوں بند رہا۔
(کتب احادیث)

💫 ایک شخص نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں اپنے ہمسایہ کا شکوہ کیا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے فرمایا صبر کر، تیسری یا چوتھی بار آپ نے فرمایا:
اپنا سامان راستہ میں پھینک دے۔
راوی کہتے ہیں کہ لوگوں نے جب اس کے سامان کو باہر راستہ پر پڑا دیکھا تو پوچھا کیا بات ہے۔اس نے کہا مجھے ہمسایہ ستاتا ہے۔ لوگ وہاں سے گزرتے رہے پوچھتے رہے اور کہتے رہے اللہ تعالیٰ اس ہمسایہ پر لعنت کرے۔ جب اس (کے پڑوسی) نے یہ بات سنی تو آیا اسے کہا۔ اپنا سامان واپس لے آ۔ اللہ کی قسم! میں پھر تمہیں کبھی تکلیف نہیں دوں گا۔
(کتب احادیث)


💫 اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اپنے پڑوسی کو تکلیف پہنچانا حرام ہے اور جو پڑوسی کو تکلیف پہنچاتا ہے تو وہ گویا خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تکلیف پہنچاتا ہے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
جس نے اپنے پڑوسی کو ایذا پہنچائی اس نے مجھے تکلیف دی اور جس نے مجھے تکلیف دی اس نے خدا کو تکلیف دی اور جس نے اپنے پڑوسی سے لڑائی کی اس نے مجھ سے لڑائی کی اور جس نے مجھ سے لڑائی کی ، اس نے اللہ تعالیٰ سے لڑائی کی۔
(ترغیب)

💫 اس سے معلوم ہوا کہ پڑوسی کو ستانا حرام ہے ،پڑوسی کو ستانے والا جنت میں نہیں جائے گا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
وہ بندہ جنت میں داخل نہیں ہو گا۔ جس کا پڑوسی اس کی ایذاﺅں سے امن میں نہ ہو۔ (احمد)


🌟 ہمسایہ کی بیوی کی ناموس کی حفاظت:

اپنے ہمسایوں کی عزت اور ناموس کی حفاظت کرنا فرض ہے اس لئے ہمسایہ کی بیوی کی ناموس کو مقدم سمجھنا چاہیے۔
برائی جس جگہ بھی کی جائے برائی ہو گی لیکن اگر اس جگہ پر گناہ کیا جائے۔جہاں لازمی طور پر نیکی کرنی چاہیے تھی تو ظاہر ہے کہ اس گناہ اور برائی کا درجہ عام گناہوں اور برائیوں سے زیادہ ہو گا۔ بد قسمت انسان اگر کسی پڑوسی کی چوری کرے تو بہت برا کرے گا۔ ایسی حرکات بڑی شرم ناک ہوتی ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی بہت مذمت فرمائی ہے۔ لہٰذا ہمسایہ کی بیوی پر نہ غلط نگاہ ڈالے نہ کسی اور کو ڈالنے دے۔

💫 حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سب سے بڑا گناہ کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ
اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرنا جب کہ اس نے تجھے پیدا کیا ہے۔
اس نے عرض کیا پھر کونسا گناہ ہے۔؟؟؟
فرمایا کہ تو اپنی اولاد کو اس خوف سے قتل کرے کہ وہ تیرے کھانے میں شریک ہو گی۔
اس نے کہا پھر۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے پڑوسی کی بیوی سے بد کاری کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔
(کتب احادیث)

💫 ایسے ہی ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سوال کے جواب میں فرمایا کہ:
زنا حرام ہے ،خدا اور رسول نے اُس کو حرام کیا ہے لیکن دس بدکاریوں سے بڑھ کر بدکاری یہ ہے کہ کوئی اپنے پڑوسی کی بیوی سے بدکاری کرے ۔چوری حرام ہے ،خدا اور رسول نے اس کو حرام کیا ہے لیکن دس گھروں میں چوری کرنے سے بڑھ کر یہ ہے کہ کوئی اپنے پڑوسی کے گھر سے کچھ چرالے۔
(کتب احادیث)

اگر ہمسائیگی کی اہمیت کو جانتے ہوئے اسلامی طریقے کے مطابق خیال رکھا جائے تو ہمارے معاشرے سے 50 فیصد برائیوں کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ اور ایک پرامن اور اعلیٰ معاشرہ تخلیق ہو سکتا ہے۔