🌹 ہمسایوں کے حقوق:


عمومی طور پر پڑوسی یا ساتھی سے اچھے سلوک سے مراد ان کی خبر گیری کرنا، ان کے دکھ درد میں کام آنا، ان کی ضروریات کا خیال رکھنا، انہیں کسی بھی قسم کی تکلیف پہنچانے سے گریز کرنا وغیرہ شامل ہیں۔
ہمسایہ یا پڑوسی وہ دو آدمی ہیں جو ایک دوسرے کے قریب رہتے اور بستے ہیں، یہ رہنا اور بسنا خواہ وقتی ہے یا دائمی، سکونت کا ہو یا عمل کا، دونوں مسلمان ہوں یا مسلم اور کافر، دوست دوست ہوں یا دوست و دشمن، رشتہ دار ہوں یا غیر رشتہ دار غرض یہ کہ ہر ایک پر پڑوسی و ہمسایہ کا اطلاق ہوتا ہے، شریعت نے ان کے کچھ حقوق و واجبات رکھے ہیں، جن کا ذکر نہایت ضروری ہے۔ بالاختصار پڑوسی کے اہم حقوق درج ذیل ہیں:


☘1. خیال رکھنا:
حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
اے ابوذر! جب تو سالن پکائے تو اس کے شوربہ کو زیادہ کر لے اور اپنے پڑوسی کی خبر گیری کر لے۔
(صحیح مسلم )

چنانچہ حسنِ سلوک کی پہلی صورت یہ ہے کہ محلے داروں کی خبر رکھی جائے، دوستوں کی پریشانیوں میں دلچسپی لی جائے اور نیک نیتی سے ان کی غربت، پریشانی اور بیماری وغیرہ کو دیکھتے ہوئے کسی بھی قسم کی ضرورت پڑنے پر انکی مدد کی جائے۔ بالخصوص صاحبِ استطاعت شخص کو چاہئے کہ اس کا کوئی پڑوسی بھوکا نہ سوئے۔
لیکن اس خبر گیری میں اس بات کا خیال رکھا جائے کہ اس سے ہمسائے کو کوئی شرمندگی، تکلیف یا بدگمانی پیدا نہ ہو۔

☘2.تحفوں کا تبادلہ:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ میں نے عرض کیا:
یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! میرے دو پڑوسی ہیں تو میں کس کو ان میں سے ہدیہ بھیجوں؟؟؟
تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
جس کا دروازہ تجھ سے زیادہ قریب ہو۔
(صحیح بخاری )

چنانچہ ہمسایوں کے ساتھ بہترین سلوک روا رکھنے کا طریقہ یہی ہے کہ اچھے تعلقات قائم کرنے کے لئے پڑوسی کو مناسب مواقع پر تحفے تحائف بھیجے جائیں۔ تحفے بھیجنے میں پڑوسی، ساتھی یا دوست کی پسند اور ذوق کا خیال رکھا جائے۔
آج کل کے دور میں تحفوں کی بے شمار اقسام ہیں جیسے کسی کے بچے کو پیسے دے دینا وغیرہ۔ کچھ اور ممکن نہیں ہو گھر میں پکا ہوا کھانا ہی پڑوس میں بھجوا دیا جائے۔ سب سے آسان تحفہ مسکراہٹ کے ساتھ کیا گیا سلام ہے جو پڑوسی کو آپ کی طرف سے امن اور صلح کی نوید دیتا ہے۔



☘3. تعاون اور مدد کرنا:

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مشک کے منہ سے پانی پینے کی ممانعت فرمائی اور اس سے بھی منع فرمایا کہ اپنے پڑوسی کو اپنی دیوار میں کھونٹی گاڑنے سے منع کرے۔
(صحیح بخاری)

ہمسایے کی مدد کی کئی صورتیں ہیں۔ جیسے
• مالی پریشانی میں ممکنہ مدد کرنا،
• بیمار ی میں خیریت دریافت کرنا،
• معذوری یا لاچاری میں سواری کا بندوبست کر دینا،
• دکھ درد نیک نیتی سے بانٹنا،
• رازوں کی پردہ پوشی کرنا، • بچوں پر شفقت کرنا،
• خواتین کی عزت و احترام کرنا وغیرہ۔

لیکن تعاون اور مدد کرتے وقت حکمت اور نیک نیتی کا ہونا بڑا ضروری ہے۔ اسی طرح اپنی استطاعت کو دیکھنا بھی لازمی ہے یعنی اپنی مالی حالت، وقت اور دیگر وسائل کی دستیابی کے مطابق ہی مدد اور تعاون کیا جا سکتا ہے۔

4☘. خیرخواہی کرنا:
حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
تم میں سے کوئی شخص مومن نہ ہو گا جب تک یہ بات نہ ہو کہ جو بات اپنے لئے پسند کرتا ہو وہی اپنے بھائی کے لئے یا پڑوسی کے لئے پسند کرے۔
(صحیح مسلم)

اس حدیث میں تمام تعلیمات کا خلاصہ کر دیا گیا ہے۔ یعنی ہم میں سے ہر شخص کو چاہئے کہ جب بھی کوئی معاملہ درپیش ہو تو خود کو پڑوسی کی جگہ رکھ کر سوچا جائے کہ یہ بات پسند آئے گی یا ناگوار گزرے گی۔
اگر خود کو بُری لگے تو پڑوسی سے متعلق بھی وہی فیصلہ کرے۔ مثال کے طور پر آپ کے گھر کے سامنے غلاظت پڑی ہے۔اب آپ یہ سوچتے ہیں کہ اسے اپنے دروازے سے ہٹا کر برابر والے کے سامنے ڈال دیا جائے۔ ایک لمحے کے لئے یہ تصور کریں کہ اگر کوئی آپ کے ساتھ یہ کرتا تو آپ کو تکلیف ہوتی۔ چنانچہ ان اقدام سے باز آجانا ہی ایمان کی علامت ہے۔



☘5. ایذا رسانی سے گریز:

⚡ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہو گا جس کی ضرر رسانیوں سے اس کا ہمسایہ محفوظ نہ ہو۔
(صحیح مسلم)

حدیثِ مبارکہ کی روشنی میں سب سے اہم بات یہ کہ ہمارا پڑوسی، ساتھی یا دوست ہماری وجہ سے کسی تکلیف میں مبتلا نہ ہو جائے۔ آج کل سب سے اہم معاملہ یہی ہے کہ لوگ ایک دوسرے سے نالاں ہیں۔
ایذا رسانی کی کچھ صورتیں تو بڑی عام ہیں جیسے اونچی آوازمیں ٹیپ چلا کر گانے سننا یا ڈرامے دیکھنا، شور مچانا یا اونچی آواز میں اس طرح بات چیت کرنا کہ ہمسایوں کا سکون غارت ہو جائے۔ دیگر تکلیف پہنچانے کی صورتوں میں کچرا یا پانی گلی میں پھینک دینا، بلا اجازت ٹینٹ لگا کر راستہ بلاک کر دینا، مکان تعمیر کرتے وقت ریت اور بجری سے بے احیتاطی کی بنا پر گزرنے والا راستہ بند کر کےاذیت پہنچانا وغیرہ شامل ہیں۔
مزید یہ کہ اختلافِ رائے کی صورت میں طنز وتشنیع کرنا، پھبتی کسنا، لڑائی کرنا، گالی دینا اور ہاتھا پائی تک نوبت لے آنا بھی ایک اور ایذا رسانی کی شکل ہے۔ اسی طرح برابر والے کی زمین ہتھیا لینا، پارکنگ پر قبضہ کر لینا، اپنے عہدے یا دبدبے سے کمزور کو دبانا وغیرہ بھی اسی قبیل میں شامل ہیں۔

ان سب اختلافی معاملات کا حل یہ ہے کہ پہلے مرحلے پر برداشت سے کام لیا جائے اور اپنا جائز حق بھی چھوڑتے ہوئے شکایت سے گریز کیا جائے۔
اگر معاملات برداشت سے باہر ہو جائیں تو نرمی سے بات سمجھا دی جائے۔ اور پھر بھی سدھار نہ آئے تو علاقے کے بزرگوں کے ذریعے افہام و تفہیم سے معاملہ حل کر لیا جائے۔ لیکن آپ کا حسنِ سلوک بُرے سے بُرے ہمسائے کو اچھا بناسکتا ہے۔



💥پڑوسیوں کے عام حقوق:


پڑوسیوں کے عام حقوق مندرجہ ذیل ہیں:

پڑوسیوں کے ساتھ
✨ سلام میں پہل کرے۔
✨ ان کے ساتھ طویل گفتگو نہ کرے۔
✨ ان کے حالات کے بارے میں زیادہ سوال نہ کرے۔
✨ جب وہ بیمار ہوں تو انکی عیادت کرے۔
✨ مصیبت کے وقت ان کی غم خواری کرے۔
✨ مشکل وقت میں ان کا ساتھ دے۔
✨ خوشی میں ان کو مبارکباد دے۔
✨ ان کی خوشی میں شریک کرے۔
✨ ان کی لغزشوں کو معاف کرے۔
✨ گھر کی کچن ہمسایوں کی دیوار کے ساتھ نہ بنوائے،کہ اگر خوشبو ان کے گھر جائے، تو ہمسائےکی طبیعت وہ چیز کھانے کی طرف مائل ہو۔
✨ بچوں کو کھانے پینے کی چیزیں دے کر باہر نہ بھیجے، ک پڑوس کے بچوں کا جی للچائے۔
✨ دیوار اتنی اونچی نہ رکھے کہ انہیں ہوا اور روشنی میں تنگی کا سامنا ہو۔
✨ سیڑھی پڑوس کی دیوار کے ساتھ نہ بنوائے۔
✨ اپنی گھر کی چھت سے ان کے گھر میں مت جھانکے۔
✨ پڑوسیوں کی جاسوسی نہ کرے۔
✨ چھت کا پرنالہ ان کی طرف نہ رکھے کہ پانی سے انہیں تکلیف پہنچے۔
✨ ان کے گھر کے راستے کو تنگ نہ کرے۔
✨ جو کچھ وہ اپنے گھر لے جا رہے ہوں اس پر نظر نہ رکھے۔
✨ اگر ان کے عیوب اس پر ظاہر ہوں تو انہیں چھپائے۔
✨ اگر انہیں کوئی حادثہ پیش آئے تو فوراً ان کی مدد کرے۔
✨ پڑوسیوں کے غیر موجودگی میں ان کے گھر کی حفاظت کرنے میں غفلت کا مظاہرہ نہ کرے۔
✨ ان کے گھر کے قریب کوڑا پھینک کر اذیت نہ دے۔
✨ان کے خلاف کوئی بات نہ سنے۔
✨ان کی عورتوں کے سامنے نظریں نیچی رکھے۔
✨ ان کی اولاد کے ساتھ نرمی سے گفتگو کرے۔
✨دین و دنیا کے کسی معاملے میں انہیں رہنمائی کی ضرورت ہو تو اس میں ان کی رہنمائی کرے۔