🌹 پڑوسیوں کے ساتھ حسنِ سلوک کے چند واقعات:


💥 موچی کو مقبول حج کا ثواب ملنا:

حضرت عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ ایک مرتبہ فراغت حج کے بعد بیت اللہ میں سو گئے اور خواب دیکھا کہ دو فرشتے باہم باتیں کر رہے ہیں۔
ایک نے دوسرے سے سوال کیا،
اس سال کتنے لوگ حج میں شریک ہوئے اور کتنے لوگوں کا حج قبول ہوا۔
دوسرے نے جواب دیا۔
چھ لاکھ لوگوں نے فریضہ حج ادا کیا لیکن ایک فرد کا بھی حج قبول نہیں ہوا لیکن دمشق کا ایک موچی جو حج میں تو شریک نہیں ہوا لیکن خدا نے اسکا حج قبول فرما کے اس کے طفیل سب کا حج قبول کر لیا۔

حضرت عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ یہ خواب دیکھ کر بیداری کے بعد موچی سے ملاقات کرنے کیلئے دمشق پہنچے۔ موچی نے اپنا واقعہ کچھ اسطرح بیان کیا۔

بہت عرصے سے میرے قلب میں حج کی تمنا تھی اور میں نے اس نیت سے تین سو درہم بھی جمع کر لئے تھے۔ ایک دن پڑوسی کے ہاں سے کھانا پکنے کی خوشبو آئی تو میری بیوی نے کہا کہ اس کے ہاں سے تم بھی مانگ لاؤ تاکہ ہم بھی کھا لیں۔

چنانچہ میں نے اس سے جا کر کہا کہ آج آپ نے جو کچھ پکایا ہے ہمیں عنایت کریں۔

لیکن اس نے کہا کہ وہ کھانا آپ کے کھانے کا نہیں ہے کیونکہ سات روز سے میں اور میرے اہل و عیال فاقہ کشی میں مبتلا تھے تو میں نے مردہ گدھے کا گوشت پکا لیا ہے۔

یہ سن کر میں خوفِ خداوندی سے لرز گیا اور اپنی تمام جمع شدہ رقم اس کے حوالے کر کے یہ تصور کر لیا کہ ایک مسلمان کی امداد میرے حج کے برابر ہے۔

حضرت عبداللہ نے یہ واقعہ سن کر فرمایا:
فرشتوں نے خواب میں واقعی سچی بات کہی تھی اور خدا تعالیٰ حقیقتاً قضا و قدر کا مالک ہے۔
(حضرت شیخ فرید الدین عطار رحمۃ اللہ علیہ... تذکرہ الاولیاء)



💥 عبداللہ بن مبارک رحمة اللہ علیہ کا یہودی پڑوسی:


پڑوسیوں کے حقوق ان کے اکرام و احترام، ان کی رعایت اور ان کے ساتھ حسنِ سلوک کی جو تاکید قرآن وحدیث میں مذکور ہے ان میں غیرمسلم بھی داخل ہے۔

عبداللہ بن مبارک رحمة اللہ علیہ کے پڑوس میں ایک یہودی رہتا تھا۔ یہودی نے اپنا مکان فروخت کرنا چاہا۔ ایک آدمی نے پوچھا:
کتنے میں فروخت کرو گے۔
کہنے لگا کہ میں دو ہزار دینار میں فروخت کروں گا۔
اس خریدار نے کہا کہ
اس علاقے میں اس قسم کے مکان کی قیمت زیادہ سے زیادہ ایک ہزار دینار ہوتی ہے۔
یہودی کہنے لگا کہ ہاں ٹھیک ہے ایک ہزار دینار تو میرے مکان کی قیمت ہے اور ایک ہزار دینار عبداللہ بن مبارک کے پڑوس کی قیمت ہے۔


💥 امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ سے نقل شدہ پڑوسی کا ایک واقعہ:


امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ نے ایک عجیب و غریب واقعہ ذکر کیا ہے کہ کسی کے گھر میں چوہوں کی کثرت ہو گئی تو کسی نے بلی پالنے کا مشورہ دیا کہ اس طرح چوہے تمہارے گھر سے فرار ہو جائیں گے تو گھر والے نے کہا کہ
مجھے اس بات کا خطرہ ہے کہ بلی کی آواز سن کر چوہے میرے گھر سے نکل کر میرے پڑوس کے گھر میں چلے جائیں گے اور میں جو چیز اپنے لیے پسند نہیں کرتا وہی چیز اپنے پڑوسی کے لیے پسند کرنے لگوں؟؟؟
یہ مومن کی شان کے خلاف ہے۔
(احیاء العلوم)

💥 حضرت ابو حمزہ سکری رحمتہ اللہ علیہ کا واقعہ:


جتنے بھی بزرگ ہیں ان کا اپنے پڑوسیوں سے اتنا عمدہ معاملہ ہوتا تھا کہ لوگ ان کے پڑوسی ہونے پر فخر محسوس کرتے تھے۔ایک بہت مشہور محدث ابو حمزہ سکری کے نام سے گزرے ہیں۔ انکا نام سکری یوں مشہور ہوا کہ عربی میں سکر نشے کو کہتے ہیں۔
انھیں اس لیے سکری کہتے تھے کہ ان کی باتیں سن کر سننے والے پر ایک قسم کا نشہ طاری ہو جاتا تھا۔
ایک مرتبہ کسی ضرورت کیوجہ سے اپنا مکان بیچنے کا ارادہ کیا اور خریدار سے بات چیت بھی ہو گئی، اہلِ محلہ کو معلوم ہوا تو سارے محلے والوں کا وفد حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا اور درخواست کی کہ ہمیں اپنے پڑوس سے محروم نہ کریں اور مکان فروخت کرنے کی وجہ بتائیں؟؟؟
تو حضرت ابو حمزہ سکری نے فرمایا کہ بھائی کچھ ضرورت ہے جس کیوجہ سے مکان بیچنے کی ضرورت پیش آئی ہے۔ تو تمام اہلِ محلہ نے کہا کہ
حضرت!جتنی رقم می…
مکان فروخت کرنا چاہتے ہیں ہم اتنی رقم بطور ہدیہ آپ کی خدمت میں پیش کرنے کو تیار ہیں لیکن آپ ہمیں اپنے پڑوس سے محروم نہ کریں۔
یہ صرف اس لیے تھا کہ حضرت ابو حمزہ سکری رحمتہ اللہ علیہ اپنے پڑوسیوں کا خاص خیال رکھتے تھے۔


💥 امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا اپنے پڑوسی سے حسنِ سلوک:

امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے پڑوس میں ایک شخص رہتا تھا وہ موچی تھا۔ سارا دن جو مزدوری کرتا اس سے شراب لاتا پھر دوستوں کو اکٹھا کرتا، گانا بجاتا، شور شرابہ کرتا۔ سالہا سال یہ سلسلہ چلتا رہا۔ ایک رات امام اعظم نے سنا کہ آج رات آواز نہیں آئی۔ صبح پتہ چلا اس شخص کو پولیس پکڑ کر لے گئی ہے۔
آپ نے فوراً اپنا لباس بدلا اپنی سواری میں وقت کے گورنر کے دربار میں پہنچے۔ گورنر نے آپ کا ادب و احترام کیا اور حکم فرمایا کہ آپ کیسے تشریف لائے؟؟؟
آپ نے اس پڑوسی کی رہائی کیلئے درخواست کی۔ انہوں نے فوراً قبول کی۔ خود جیل میں گئے اور رہائی کا پروانہ ساتھ لیا اور اس کو ساتھ لے کر آئے۔ اور آخر کار وہ شخص ان کے حسنِ سلوک سے بہت متاثر ہوا اور اس نے ان سب کاموں سے توبہ کر لی

💥 دکاندار پڑوسی کا واقعہ:

ایک اللہ والے نے اپنے دوست کے ساتھ بیتا ایک واقعہ ذکر کیا ہے۔ ایک مرتبہ وہ سعودی عرب کے ایک بازار میں خریداری کر رہے تھے۔
وہ فرماتے ہیں:
میں کپڑے کی دکان پر آیا۔ دکاندار نہایت خوش اخلاقی سے پیش آیا۔ وہ تھان کے تھان پیش کرتا رہا اور میں انہیں دیکھتا رہا۔ بالآخر مجھے ایک کپڑا پسند آ گیا۔ میں نے ریٹ کی بات کی۔ ہمارے درمیان نہایت خوشگوار ماحول میں ریٹ طے ہو گیا۔ میں نے اسے کپڑا کاٹنے کا کہا۔ مگر اس لمحے اچانک اس کا لہجہ تبدیل ہو گیا۔ اس نے نہایت معذرت خواہانہ انداز میں کہا: دوست! میں یہ کپڑا نہیں کاٹ سکتا۔ بعینہ یہی چیز میرے ساتھ والی دکان میں موجود ہے۔ بالکل اسی ریٹ پر آپ کو وہاں سے مل جائے گی۔ آپ براہِ کرم وہاں تشریف لے جائیے۔

ظاہر ہے یہ بات میری سمجھ سے بالاتر تھی۔ میں نے اسے اس کی وجہ بتانے کا کہا۔ اس نے اپنی بات پر اصرار جاری رکھا اور کہا: بس آپ اس کی وجہ کو چھوڑیے اور جا کر وہاں سے خرید فرمائیے۔ جب میں نے یہ دیکھا تو میں بھی اپنی بات پر اڑ گیا۔ یا تو آپ وجہ بتائیں یا پھر میں یہیں سے خریدوں گا۔ بالآخر اس نے اس کی وجہ بتا دی اور میں سن کر حیرت میں ڈوبتا چلا گیا۔ دکان دار نے کہا:
بس اتنی سی بات ہے کہ یہ دکان دار میرا پڑوسی ہے اور میں کافی دیر سے دیکھ رہا ہوں کہ اس کے پاس کوئی گاہک نہیں آیا، جبکہ میرے پاس اتنے گاہک آ چکے ہیں کہ میرا گزارا چل جائے۔ میں نے سوچا: آپ کو وہاں بھیج دوں، تاکہ وہ پریشان بھی نہ ہو اور مایوسی سے بھی بچا رہے گا۔ اگر آپ وہاں سے جا کر خرید لیں تو اسی معیار، اسی قیمت کے ساتھ آپ کو کپڑا مل جائے گا۔ جس میں میرے اس بھائی کا فائدہ ہے اور آپ کو کچھ نقصان نہیں۔



💥 غیرمسلم پڑوسی کا اکرام:

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہٗ کے بارے میں مروی ہے انہوں نے بکری ذبح کرائی اور پڑوسیوں کو بھیجنے کی ہدایت فرمائی۔ واپسی پر دریافت فرمایا:
"کیا یہودی ہمسائے کو بھی اس میں سے گوشت بھیجا؟؟؟
جواب ملا، نہیں بھیجا ۔
تو آپ رضی اللہ عنہٗ نے خاص طور پر بکرے کا گوشت یہودی ہمسائے کو بھجوایا۔

💥 جنگِ بدر کے غیر مسلم قیدیوں کیساتھ شفقت و محبت:

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ قیدی جو جنگِ بدر میں قید ہوئے تھے۔ ان کے ساتھ محبت، درگزر، شفقت اور عطا کا اتنا اعلیٰ نظام بنایا کہ حتیٰ کہ ان کو نئے جوڑے پہنا کر رخصت فرمایا۔

💥ایک پڑوسی کی شکایت:

ایک آدمی حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے پاس آیا اور کہنے لگا:
میرا ایک پڑوسی ہے جو مجھے تکلیف پہنچاتا ہے، بُرا بھلا کہتا اور تنگی دیتا ہے تو حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا کہ جاؤ اگر اس نے تیرے معاملے میں اللہ کی نافرمانی کی ہے تو تم اس کے معاملے میں اللہ کی اطاعت کرو۔
حضرت حسن بصری ؒ کہتے ہیں اچھا پڑوسی ہونا صرف یہ نہیں کہ تکلیف نہ پہنچائے بلکہ اچھا پڑوسی ہونا یہ ہے کہ تکلیف برداشت کرے۔



: 🌹 پڑوسی کا حق شفعہ:


شفعہ فقہاء کی اصطلاح میں اس حق کو کہتے ہیں جو پڑوسی کو بطور پڑوسی کے حاصل ہوتا ہے کہ اگر کوئی اپنا مکان، زمین جائیداد بیچنا چاہتاہے تواس کو خریدنے کا پہلا حق پڑوسی کا ہے۔ اگر وہ کسی وجہ سے عذر کر دیتا ہے تو پھردوسرے کو بیچاجا سکتا ہے۔


⚡ حضرت جابر سے مرفوعاً منقول ہے۔
پڑوسی اپنے قرب کی وجہ سے زیادہ حقدار ہے۔
(بخاری، ابوداؤد، سنن النسائی)

⚡ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
جب تم میں سے کوئی جائیداد بیچنے کا ارادہ کرے تواس کو تب تک نہ بیچے جب تک کہ اپنے پڑوسی سے اس کی اجازت نہ لے لے۔
(ابن ماجہ )

⚡ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
پڑوسی اپنے پڑوسی کے شفع کا زیادہ حقدار ہے۔ وہ اس کا انتظار کرے اگر وہ غائب ہو جب کہ دونوں کاراستہ ایک ہو۔
(ابوداؤد،ترمذی، ابن ماجہ کتاب)

⚡عمرو بن شرید سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ ابورافع نے سعد بن مالکؓ کے ہاتھ ایک گھر چار سو مثقال کے عوض فروخت کیا اور کہا کہ اگر میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے نہ سنتا کہ پڑوسی شفعہ کا زیادہ مستحق ہے تو میں تم کو مکان نہ دیتا۔
(صحیح بخاری)

⚡ عمرو بن شرید، ابورافع سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ
پڑوسی بالکل ملے ہوئے مکان کا زیادہ حقدار ہے۔
(سنن ابوداؤد)



🌹 بُرا پڑوس قیامت کی نشانیوں میں سے ہے:


⚡حضرت ابوہریرہ مرفوعاً (یعنی ارشاد رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیثت سے) روایت کرتے ہیں کہ
قیامت کی علامتوں میں سے برا پڑوس اور قطع رحمی (رشتہ داروں کے حقوق کا ادا نہ کرنا) بھی ہے۔

⚡جب کہ ایک دوسری روایت جو حضرت ابوہریرہ سے ہی منقول ہے اس میں قرب قیامت کی علامتوں مین سے ایک ترک جہاد بھی ہے۔
(الادب المفرد ص41،اس میں من اشراط الساعۃ کی جگہ لاتقوم الساعۃ ہے کہ قیامت قائم نہ ہوگی جب تک یہ باتیں ظہور پذیر نہ ہو جائیں۔)


🌹 پڑوسی کو تکلیف دینا جہنم میں دخول کا باعث:

⚡ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا:
یارسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! فلانی عورت کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ وہ کثرت سے نماز، روزہ اور صدقہ خیرات کرنے والی ہے ( لیکن ) اپنے پڑوسیوں کو اپنی زبان سے تکلیف دیتی ہے( یعنی برا بھلا کہتی ہے)۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فر مایا:
وہ دوزخ میں ہے۔
پھر اس شخص نے عرض کیا؛
یا رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! فلانی عورت کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ وہ نفلی روزہ، صدقہ خیرات اور نماز تو کم کرتی ہے بلکہ اس کا صدقہ و خیرات پنیر کے چند ٹکڑوں سے آگے نہیں بڑھتا لیکن اپنے پڑوسیوں کو اپنی زبان سے کوئی تکلیف نہیں دیتی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
وہ جنت میں ہے۔
(مسند احمد )