🌹یتیم کی تعریف:


وہ نابالغ بچہ یا بچی جس کا باپ فوت ہو گیا ہو وہ یتیم ہے۔ بچہ یا بچی اس وقت تک یتیم رہتے ہیں جب تک بالغ نہ ہوں، جوں ہی بالغ ہوئے یتیم نہ رہے۔

⚡ لڑکا 12 سے 15 سال کی عمر کے دوران بالغ ہوتا ہے۔

⚡ لڑکی 9 سے 15 سال کی عمر کے دوران دورِ بلوغت میں قدم رکھتی ہے۔

✨ حضرت مفتی احمد یار خان رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
بالغ ہو کر بچہ یتیم نہیں رہتا۔ انسان کا وہ بچہ یتیم ہے جس کا باپ فوت ہو گیا ہو، جانور کا وہ بچہ یتیم ہے جس کی ماں مر جائے، موتی وہ یتیم ہے جو سیپ میں اکیلا ہو اسے درِّ یتیم کہتے ہیں جو بڑا قیمتی ہوتا ہے۔




🌹 یتیموں سے حسنِ سلوک


ایک سنجیدہ اور باشعور معاشرہ یتیم کی فلاح و بہبود کے لئے خصوصی اقدامات کرتا ہے۔ اس کمزور طبقے کے لئے سب سے پہلے کسی نظامِ حیات نے اگر کوئی مثبت اور ٹھوس اقدامات کئے ہیں تو وہ دینِ اسلام ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اس کے خاص حقوق قائم کر رکھے ہیں تاکہ اس کی زندگی میں جو محرومی آ گئی ہے اس کی تلافی ہو سکے۔

💫 عموماً یتیم بچّہ، شفقتِ پدری سے محروم ہو کر رشتے داروں اور معاشرے کے رحم و کرم کا محتاج ہو جاتا ہے۔ باپ کی موجودگی بچّوں کے لیے تحفظ، اَمان، محبّت، شفقت اور رحمت کا باعث ہوتی ہے۔ کسی گھرانے کا سربراہ، ایک باپ اپنے خاندان کے لیے سایہ دار شجر کی مانند، مضبوط محافظ، بہترین نگران، محفوظ ڈھال کی حیثیت رکھتا ہے، تو اہل و عیال کی کفالت، حفاظت اور تربیت کے لیے اپنا تن، من، دھن بھی قربان کرنے سے دریغ نہیں کرتا۔
لیکن جونہی اس کی آنکھیں بند ہوتی ہیں بچّوں کے سر سے تحفّظ کا سایہ چھن جاتا ہے۔ پورا گھر بے سہارا و بے آسرا ہو جاتا ہے۔ سگے، اجنبی بن جاتے ہیں۔ قرابت دار، نگاہیں بدل لیتے ہیں۔ پڑوسی، حقیر سمجھنے لگتے ہیں۔ شقی القلب رشتے دار بھوکے گِدھ کی طرح ان کے اَثاثوں اور جائیداد کو ہتھیانے کے لیے ٹوٹ پڑتے ہیں اور پھر ان معصوم یتیموں پر ظلم و ستم کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ زمانے کے بے رحم تھپیڑے ان بے آسرا بچّوں کو خزاں رسیدہ درخت کے ٹوٹے، سوکھے پتّوں کی طرح سماج کے سفّاک قدموں میں روندنے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔

💫 ہمارے معاشرے میں بہت سے ایسے گھرانے نظر آتے ہیں کہ جہاں ناز و نعم میں پلنے والے بچّے، شفقتِ پدری سے محرومی کے بعداپنے رشتے داروں کی سرپرستی میں غلاموں سے بھی بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ حتیٰ کہ گھروں سے بھاگ کر خانقاہوں، مزاروں اور یتیم خانوں میں پلنے والے بچّوں کی اکثریت ایسے ہی یتیم بچّوں پر مشتمل ہے۔

💫 بلاشبہ اسلام کا معاشرتی نظام، نسلِ انسانی کی بقاء اور عزّت وقار کا محافظ ہے کہ جس کے تحت تمام لوگوں کی طرح، یتیموں کے حقوق کا بھی خصوصی تعیّن کر دیا گیا ہے۔

یتیموں سے محبت و شفقت اور بہترین حسنِ سلوک کرنے کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ رَبُّ العزت نے قرآنِ کریم میں تیس مختلف مقامات پر یتیموں کی پرورش کے بارے میں احکامات نازل فرمائے ہیں۔ اسی طرح بے شمار احادیثِ مبارکہ بھی ہیں، جن میں یتیموں کی کفالت و تربیت پر بے پناہ اَجر اور عظیم انعام و اکرام کی بشارت دی گئی ہے۔

✨ حضرت عبداﷲ بن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ
جس نے مسلمانوں میں سے کسی یتیم کو لے لیا اوراسے اپنے کھانے اور پینے میں شریک کرلیا، ﷲ تعالیٰ ضرور بالضرور اسے جنت میں داخل کرے گا، سوائے اس کے کہ اس نے کوئی ایسا جرم کیا ہو جو ناقابل معافی ہو۔

✨ جنت میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ساتھ حاصل ہونا حددرجہ اعزاز کی بات ہو گی اور یہ اعزاز اس شخص کو بھی حاصل ہو جائے گا جس نے زندگی میں کسی یتیم کی کفالت کی ہو گی۔

✨ یتیموں سے بہترین حسنِ سلوک کے حوالے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات نے عرب کی فطرت بدل کر رکھ دی۔ وہی دل جو بے کس اور ناتواں یتیموں کے لئے پتھر سے زیادہ سخت تھے، موم سے زیادہ نرم ہو گئے۔
✨حضرت عبداﷲ بن عمر ؓ کا حال یہ تھا کہ وہ کسی یتیم بچے کو ساتھ لئے بغیر کھانا نہیں کھاتے تھے۔
✨حضرت عائشہ ؓ صدیقہ اپنے خاندان اور انصار کی یتیم لڑکیوں کو اپنے گھر لے جا کر دل وجان سے پالتی تھیں۔
گویا ہر صحابی کا گھر ایک یتیم خانہ بن گیا، ایک ایک یتیم کے لطف و شفقت کے لئے کئی کئی ہاتھ آگے بڑھنے لگے اور ہر ایک اس کی پرورش و کفالت کے لئے اپنے آغوشِ محبت کو پیش کرنے لگا۔



🌹ازروئے قرآن یتیم کے ساتھ حسنِ سلوک


اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:
🍃 نہ ہی تم مسکینوں (یعنی غریبوں اور محتاجوں) کو کھانا کھلانے کی (معاشرے میں) ایک دوسرے کو ترغیب دیتے ہو اور وراثت کا مال سمیٹ کر خود ہی کھا جاتے ہو (اس میں سے اَفلاس زدہ لوگوں کا حق نہیں نکالتے) اور تم مال و دولت سے حد درجہ محبت رکھتے ہو۔
(سورة الفجر: 18 - 20)

🍃 کیا آپ نے اُس شخص کو دیکھا جو دین کو جھٹلاتا ہے۔ تو یہ وہ شخص ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے (یعنی یتیموں کی حاجات کو ردّ کرتا اور اُنہیں حق سے محروم رکھتا ہے) اور محتاج کو کھانا کھلانے کی ترغیب نہیں دیتا (یعنی معاشرے سے غریبوں اور محتاجوں کے معاشی اِستحصال کے خاتمے کی کوشش نہیں کرتا)۔
(سورةالماعون: 1 - 3)

🌿اور اگر تقسیم میراث کے وقت رشہ دار، یتیم اور مسکین موجود ہوں تو انہیں بھی اس میں سے کچھ نہ کچھ دے دو اور ان سے اچھے طریقے سے بات کرو۔
(سورہ النساء:8)

🍃 اللہ فرماتا ہے۔
اور ماں باپ، قرابت داروں، یتیموں، محتاجوں، ہمسایوں، رشتے داروں، اَجنبی رشتے داروں، مسافروں اور جو تمہارے قبضے میں ہوں (غلام نوکر) ان سب کے ساتھ احسان کرو۔
(سورۃ النساء:36 )

🍃 اسی سورة میں اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے۔
یتیموں کے بارے میں انصاف پر قائم رہو۔
(سورة النساء:127)



🌹 یتیم کے ساتھ حسنِ سلوک ازروئے حدیث:


🍃 حضرت ابو ہریرہ رضی اللّٰہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا:
یتیموں اور بیواؤں کی خدمت کرنے والا اللّٰہ کے راستے میں جہاد کرنے والے کی طرح یا رات میں عبادت گزار، دن میں روزہ دار کی مانند ہے۔
( مکارم طبرانی )

🍃 حضرت ابو موسیٰ رضی اللّٰہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی پاک صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
جس برتن پر یتیم کے ساتھ کھا رہے ہوں اس برتن کے قریب شیطان نہیں آتا۔
( کتاب البر ابن جوزی، طبرانی فی الاوسط )

🍃 حضرت ابن عباس رضی اللّٰہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
جو شخص مسلمانوں کے کسی یتیم کی پرورش کرے۔ اس کے کھانے پینے کا انتظام کرے تو وہ ضرور جنت میں داخل ہو گا۔ ہاں مگر یہ کہ وہ کوئی ایسا گناہ کرے جو قابلِ مغفرت نہ ہو اسی طرح جس کی دو آنکھیں لے لی جائیں اور وہ صبر کر لے اور ثواب کی امید رکھے۔ تو اس کا ثواب میرے نزدیک جنت کے سوا اور کچھ نہیں اور جس شخص نے تین لڑکیوں کی پرورش کی ان پر خرچ کیا ان پر شفقت کی۔اور ان کو ادب سکھایا تو اس کو اللّٰہ تعالیٰ جنت میں داخل کرے گا۔
( کنزالعمال )

🍃 حضرت ابوہریرہ رضی اللّٰہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
قسم اس کی جس نے مجھے حق کے ساتھ بھیجا ہے۔ قیامت کے دن خدا اسے عذاب نہ دے گا جو یتیم پر مہربانی کرتا ہو۔ اس کے ساتھ اکرام کے ساتھ کلام کرتا ہو۔ اس کی یتیمی اور کمزوری پر رحم کرنے والا ہو اور جو ( مال) خدا نے اسے بخشا ہو اس کی وجہ سے اپنے پڑوسی پر بڑھ چڑھ کر رہنے والا نہ ہو۔
( مکارم طبرانی )

🍃 حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

قسم ہے اُس ذات کی جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث فرمایا! ﷲ تعالیٰ روزِ قیامت اُس شخص کو عذاب نہیں دے گا جس نے یتیم پر شفقت کی، اس کے ساتھ نرمی سے گفتگو کی، اور معاشرے کے محتاجوں و کمزوروں پر رحم کیا، اور جس نے ﷲ تعالیٰ کے طرف سے ہونے والی عطا کے وجہ سے اپنے پڑوسی پر ظلم نہ کیا۔ پھر فرمایا :
اے اُمتِ محمدی! قسم ہے اُس ذات کی جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث فرمایا! ﷲ تعالیٰ روزِ قیامت اُس شخص کی طرف سے صدقہ قبول نہیں کرے گا جس نے غیروں پر صدقہ کیا حالانکہ اُس کے اپنے رشتہ دار اُس کے صدقہ کے محتاج تھے۔ قسم ہے اُس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! ﷲ تبارک و تعالیٰ روزِ قیامت اُس شخص کی طرف نظرِ رحمت نہیں فرمائے گا۔
(طبراني، المعجم الاوسط، الترغيب و الترهيب،)

🍃 حضرت ابو شریح خویلد بن عمروالخزاعی رضی اللّٰہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
میں کمزور، یتیم اور عورت کی حق تلفی کو سخت گناہ سمجھتا ہوں۔
(ریاض الصالحین)

🍃 حضرت ابو سعید خدری رضی اللّٰہ عنہ سے روایت فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
شب معراج میں نے دیکھا کہ کچھ لوگوں کے ہونٹ اونٹ کے ہونٹوں کی طرح ہیں اور ان کو ایسے لوگوں کے سپرد کیا گیا جو ان کے ہونٹوں کو پکڑ رہے تھے۔ پھر ان کے منہ میں سے ایسے آگ کے پتھر ڈال رہے ہیں جو ان کے دھڑ کے نچلے حصے سے نکل رہے ہیں۔
میں نے پوچھا:
اے جبرائیل! یہ کون لوگ ہیں؟؟؟ عرض کی:
یہ وہ لوگ ہیں جو یتیموں کا مال ظلماً کھاتے تھے اور وہ در حقیقت اپنے بیٹوں میں آگ کھا رہے تھے۔
(جامع البیان)



🌹 یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرنے کی فضیلت:


▪ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
مسلمان میں خیر و برکت والا وہ گھر ہے جس میں یتیم ہو، اس کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا جاتا ہو۔ اور بُرا اور بے برکت گھر وہ ہے جس میں کوئی یتیم ہو، مگر اس کے ساتھ برا سلوک کیا جاتا ہے۔
(ابنِ ماجہ)

یتیم کے سر پر شفقت سے اللّٰہ تعالیٰ کی رضا کے لئے ہاتھ پھیرنا بہت بڑے ثواب کا کام ہے۔

▪ حضور نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ
جو شخص یتیم کے سر پر محض رضائے الٰہی کے لئے صرف ہاتھ پھیرے گا تو جتنے بال اس کے ہاتھ کے نیچے آئیں گے تو اتنی نیکیاں اسے عطا کی جائیں گی۔
(مشکوٰۃ شریف)

یتیم بچے کے سر پر شفقت و محبت سے اللّٰہ تعالیٰ کی رضا کے لئے ہاتھ پھیرنے کا اتنا بڑا اجر و ثواب ہے تو یتیم کے ساتھ محبت و شفقت کرنا، اس کی غم خواری کرنا، بیماری میں تیمارداری کرنا، اسے کھلانے پلانے اور پہنانے کا اجر کتنا زیادہ ہو گا!

▪ حضرت ابوہریرہ رضی اللّٰہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ حضرت ابو درداء رضی اللّٰہ عنہ نے حضور نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں عرض کی:
یا رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم میرا دل بہت سخت ہے، میں کیا کروں؟
رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
یتیموں پر شفقت کر اور ان کے سر پر ہاتھ پھیرا کر، اس سے تیرے دل کا مرض دور ہو جائے گا۔
(مسند احمد)

دل کی سختی بہت بُری چیز ہے۔ جس کی وجہ سے حق اور نیک بات کے قبول کرنے کی صلاحیت کم ہو جاتی ہے یا قبول کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے پناہ مانگی۔ فاسق جو اہل جہنم ہیں ان کے دل عموماً ایسے ہوتے ہیں۔ دل کی سختی کو دور کرنے کا علاج غرباء و مساکین کی خدمت اور یتیموں کی کفالت بتایا گیا ہے۔ اس سے دل نرم ہوتا ہے۔ اور دل کی نرمی صلاح کی علامت ہے۔ اور حاجتیں بھی پوری ہوتی ہیں۔

▪حضرت ابودرداہؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاخر ہو کر دل کی سختی کی شکایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
کیا تو چاہتا ہے کہ تیرا دل نرم ہو جائے اور تیری حاجتیں پوری ہوں تو یتیم پر رحم کیا کر اور اس کے سر پر ہاتھ پھیرا کر۔ اور اپنے کھانے میں سے اس کو کھلایا کر۔ ایسا کرنے سے تیرا دل نرم ہو گا اور تیری حاجتیں پوری ہوں گی۔
(مجمع الزوائد)



🌹 یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرنے کا طریقہ:


جب بھی کسی یتیم بچے کے سر پر ہاتھ پھیرنا ہو تو سر کے پیچھے سے ہاتھ پھیرتے ہوئے آگے کی طرف لایا جائے۔ اور جو بچہ یتیم نہ ہو تو ہاتھ آگے سے پیچھے کیطرف پھیرا جائے۔

✨ حدیثِ پاک میں ہے۔
لڑکا یتیم ہو تو اس کے سر پر ہاتھ پھیرنے میں آگے کو لائے اور جب اس کا باپ ہو (یعنی بچہ یتیم نہ ہو) تو ہاتھ پھیرنے میں گردن کی طرف لے جائے۔
(معجم اوسط)


🌹 مال ہبہ یا صدقہ کرنا:
(ہبہ کرنا: اپنا مال کسی کی ملکیت میں دے دینا)


یتیم کسی کو اپنی کوئی چیز ہبہ نہیں کر سکتا کیونکہ
ہبہ صحیح ہونے کی شرائط میں سے ایک شرط ہبہ کرنے والے کا بالغ ہونا بھی ہے۔
(بہارِ شریعت)
(جبکہ یتیم نابالغ ہوتا ہے۔ اسی طرح کوئی دوسرا بھی نابالغ کا مال ہبہ نہیں کر سکتا۔)

✨ یہی حکم صدقہ کا ہے کہ نابالغ اپنا مال نہ خود صدقہ کر سکتا ہے نہ اس کا باپ۔ اگر والدین بچے کو اسلیے چیز دیں کہ یہ لوگوں کو ہبہ کر دے یا فقیروں کو صدقہ کر دے تاکہ دینے اور صدقہ کرنے کی عادت ہو اور مال و دنیا کی محبت کم ہو تو یہ ہبہ و صدقہ جائز ہے۔ کہ یہاں نابالغ کے مال کا ہبہ و صدقہ نہیں بلکہ باپ کا مال ہے اور بچہ دینے کیلیے وکیل ہے جسطرح عموماً دروازوں پر سائل جب سوال کرتے ہیں تو بچوں ہی سے بھیک دلواتے ہیں۔
(بہارِ شریعت، معجم اوسط)



🌹 یتیم کے مال کا محتاط استعمال:


▪1. میت کے ورثاء میں سے اگر کوئی یتیم ہو تو جب تک ترکہ تقسیم کر کے یتیم کا حصہ الگ نہ کیا جائے تب تک اس میں سے میت کے ایصال ثواب کیلیے صدقہ و خیرات وغیرہ بھی نہیں کر سکتے۔

✨ اللہ کا فرمان ہے:
جو لوگ ظلم سے یتیموں کا مال ہڑپ کر جاتے ہیں وہ درحقیقت اپنے پیٹ میں آگ بھرتے ہیں عنقریب وہ جہنم میں داخل ہوں گے۔
(سورة النساء:10)

▪2. جب یتیم کا مال اپنے مال سے ملا کر کھانا (متعدد صورتوں میں) حرام ہے تو علیٰحدہ طور پر کھانا بھی ضرور حرام ہے۔

▪3. یتیم کو ہبہ دے سکتے ہیں۔ مگر اس کا ہبہ لے نہیں سکتے۔

▪4. وارثوں میں جس کے یتیم بھی ہوں اس کے ترکہ سے صدقہ خیرات کرنا جائز نہیں ہے۔

▪5. وارثوں میں جس کے یتیم بھی ہوں اس کے ترکہ سے صدقہ و خیرات کرنا جائز نہیں۔
اور اس کو کھانے کا استعمال بھی جائز نہیں ہے۔ سب سے پہلے مال تقسیم کیا جائے پھر بالغ وارث اپنے مال سے خیرات کرے۔

✨ حدیث پاک میں ہے کہ
یتیم کا مال ظلماً کھانے والے قیامت میں اسطرح اٹھیں گے کہ ان کے منہ، کان اور ناک سے بلکہ ان کی قبروں سے دھواں اٹھتا ہو گا جس سے وہ پہچانے جائیں گے کہ یہ یتیموں کا مال ناحق کھانے والے ہیں۔
(درِ منثور)

بعض علماء کا کہنا ہے کہ اگر کہیں معلوم ہو کہ میت کے گھر والوں نے ابھی ترکہ تقسیم نہیں کیا اور میت کے ورثاء میں نابالغ (یتیم) بھی ہیں تو وہاں کھانے پینے وغیرہ سے اجتناب کیا جائے۔


🌹 یتیم مال معاف نہیں کر سکتا:


اگر نابالغ (یتیم) کے مال میں سے کسی نے کھا لیا تو اگر وہ ابھی نابالغ ہے تو کھایا ہوا مال معاف نہیں کر سکتا جنہوں نے کھایا۔یا انہیں شرعی علم نہیں تھا۔ انہیں چاہیے مال کا اندازہ کر کے اس کی قیمت ادا کریں۔ جب بچہ بالغ ہو کر خود معاف کر دے تو پیسے دینے کی ضرورت نہیں۔ لیکن بہتر یہ ہے اس کو مال واپس کرے۔





🌹یتیم کی تعریف:
وہ نابالغ بچہ یا بچی جس کا باپ فوت ہو گیا ہو وہ یتیم ہے۔ بچہ یا بچی اس وقت تک یتیم رہتے ہیں جب تک بالغ نہ ہوں، جوں ہی بالغ ہوئے یتیم نہ رہے۔
⚡ لڑکا 12 سے 15 سال کی عمر کے دوران بالغ ہوتا ہے۔
⚡ لڑکی 9 سے 15 سال کی عمر کے دوران دورِ بلوغت میں قدم رکھتی ہے۔
✨ حضرت مفتی احمد یار خان رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
بالغ ہو کر بچہ یتیم نہیں رہتا۔ انسان کا وہ بچہ یتیم ہے جس کا باپ فوت ہو گیا ہو، جانور کا وہ بچہ یتیم ہے جس کی ماں مر جائے، موتی وہ یتیم ہے جو سیپ میں اکیلا ہو اسے درِّ یتیم کہتے ہیں جو بڑا قیمتی ہوتا ہے۔