🌹یتیموں کے حقوق:



💥 یتیموں سے حسنِ سلوک :

یتیموں کے ساتھ حسنِ سلوک کے معنی یہ ہیں کہ ان بچّوں کے ساتھ بھی ویسا ہی سلوک کیا جائے، جیسا اپنے سگے بچّوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ ان کی تعلیم، لباس، رہن سہن، کھانے پینے سمیت دیگر تمام سہولتوں کا خصوصی خیال رکھا جائے۔ ان کے ساتھ محبت، پیار و شفقت کا برتاؤ کیاجائے، تاکہ وہ کسی بھی طرح کے احساسِ محرومی کا شکار نہ ہوں۔ شفقتِ پدری سے محروم ان بچّوں کے ساتھ حسنِ سلوک، جنّت کے حصول کا ذریعہ ہے۔ امام الانبیاء، خاتم النبییّن، سیّدالمرسلین، شاہِ عرب و عجم، سرکارِ دوعالم، رحمتِ دوجہاں، محسنِ انسانیت، سرورِ کائنات، حضور رسالت مآب حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حالتِ یتیمی میں دُنیا میں جلوہ افروز ہوئے۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دنیا میں آمد سے قریباً چھے ماہ قبل ان کے والد ماجد، حضرت عبداللہ انتقال فرما گئے تھے اور ابھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چھ برس ہی کے تھے کہ والدہ ماجدہ بھی مدینے سے مکّہ واپسی کے سفر کے دوران رحلت فرما گئیں۔ پھر ’’درّیتیم‘‘ کی حیثیت سے اپنے دادا، حضرت عبدالمطلب کی زیرِنگرانی پرورش پا رہے تھے کہ وہ بھی رحلت فرما گئے۔

✨ قرآنِ کریم میں اللہ اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے:

بھلا اس (اللہ) نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یتیم پا کر جگہ نہیں دی (بے شک دی) اور رستے سے ناواقف دیکھا، تو سیدھا راستہ دکھایا اور تنگ دست پایا، تو غنی کر دیا۔
(سورۃ الضحی:6 تا 8ٰ )

اسی آیت میں اللہ فرماتا ہے کہ اے میرے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یتیمی کے باوجود کفالت و سرپرستی کا انتظام کیا۔ قناعت و تونگری عطا کی، رسالت و نبوت کے عظیم منصب پر فائز کیا۔

✨ اور آگے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
(اب آپ بھی دُنیا کو پیغام دے دیجیے کہ) تو تم بھی یتیم پر سختی نہ کرنا اور مانگنے والے کو جھڑکی نہ دینا اور اپنے رب کی نعمتوں کو بیان کرتے رہنا۔
(سورۃ الضحی:9 تا 11ٰ)

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یتیموں کے لیے سراپا لطف و عطا، مشعلِ راہ اور مینارۂ نور تھے۔

✨ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
اللہ روزِ قیامت اس شخص کو عذاب نہیں دے گا، جس نے یتیم کے ساتھ حسنِ سلوک کیا۔ شفقت سے پیش آیا اور اس کے ساتھ ہمیشہ نرمی و محبت سے بات کی۔

قرآنِ کریم اور احادیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں یتیموں کے ساتھ حسنِ سلوک کی بار بار تلقین کی گئی ہے۔

✨ اللہ کا ارشاد ہے کہ
جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرنا اور والدین اور رشتے داروں اور یتیموں اور محتاجوں سے احسان کرتے رہنا، لوگوں سے اچھی باتیں کہنا، نماز پڑھنا اور زکوٰۃ دیتے رہنا، تو چند لوگوں کے سوا، تم سب (اس عہد سے) منہ پھیر بیٹھے۔
(سورۃ البقرہ:83)


💥 یتیموں کی پرورش و تربیت:

اسلام نے یتیموں کی بہتر طریقے سے پرورش اور تربیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اپنی سگی اولاد کی طرح یتیم بچّوں کے بھی تعلیمی اخراجات اپنی استطاعت کے مطابق برداشت کریں اور ان کی بہترین تعلیم و تربیت کریں۔ یتیم کی کفالت اور پرورش کرنا، انہیں تحفظ دینا، ان کی نگرانی کرنا اور ان کے ساتھ بہترین سلوک کرنا ایسا صدقۂ جاریہ ہے کہ جس کے اَجر و ثواب کا اللہ نے خود وعدہ کر رکھا ہے۔

✨ قرآنِ کریم میں ارشاد ِ ربّانی ہے۔
اور وہ اللہ کی محبت میں مسکینوں، یتیموں اور قیدیوں کو کھانا کھلاتے ہیں، ان کے نزدیک کھانا کھلانے کا مقصد صرف رضائے الٰہی ہوتا ہے اور اس کے عوض نہ کسی بدلے کے طلب گار ہیں اور نہ (کسی سے) شکرگزاری چاہتے ہیں۔
(سورۃ الدھر:8 تا 9)

✨ حضرت ابنِ عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
جو شخص کسی مسلمان یتیم کی کفالت کرے گا، اللہ اسے ضرور جنّت میں داخل کرے گا۔ (ترمذی)

✨ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنے سخت دل ہونے پر ندامت کا اظہار کرتے ہوئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دعا کی درخواست کی، تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ
’’تم یتیم کے سر پر (شفقت و محبّت سے) ہاتھ پھیرا کرو اور مساکین کو کھانا کھلایا کرو۔
(مسندِاحمد)

💥 یتیموں کے مال کی حفاظت:

وراثت میں ملنے والے یتیم کے مال کی حفاظت اس کے کفیل کی ذمّے داری ہے، جس کے بارے میں روزِ قیامت سخت ترین پوچھ گچھ ہو گی۔

✨ یتیموں کے مال کی حفاظت کے بارے میں اللہ قرآنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے۔
اور یتیموں کی پرورش کرتے رہو، حتیٰ کہ وہ بالغ ہو جائیں۔ پس اگر تم ان میں عقل مندی دیکھو، تو ان کے مال ان کے سپرد کر دو اور اسے فضول خرچی کے ذریعے نہ کھاؤ اور نہ ہی جلدبازی میں اُڑا لے جاؤ کہ وہ بڑے ہو کر اپنا مال تم سے واپس لے لیں گے اور جو غنی ہو، وہ اس سے بچے، اور جو ضرورت مند ہو، اسے چاہیے مناسب طریقے سے ان کے مال کو مصرف میں لائے۔ پھر جب ان کا مال ان کے حوالے کرنے لگو، تو اس پر گواہ بنا لو اور اللہ حساب لینے والا کافی ہے۔
(سورۃ النساء: 6)

✨ سورۃ النساء ہی میں ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے۔
یتیموں کا مال ان کو واپس دو، اچھے مال کو بُرے مال سے نہ بدلو، اور ان کا مال اپنے مال کے ساتھ ملا کر نہ کھاؤ، یہ بہت بڑا گناہ ہے۔
(سورہ النساء:2)

✨ سورۃ انعام میں اللہ حکم دیتا ہے:
اور یتیموں کے مال کے قریب نہ جاؤ، مگر ایسے طریقے سے، جو احسن ہو، یہاں تک کہ وہ جوان ہو جائیں۔
(سورہ الانعام:152)


💥 یتیموں کے ساتھ بدسلوکی کی ممانعت:


یتیموں کے ساتھ بدسلوکی کرنے والوں کوسخت ترین عذاب کا مستحق قرار دیا گیا ہے۔

✨ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔
نہیں، بلکہ تم لوگ یتیموں کی عزت نہیں کرتے۔(یعنی ان کے ساتھ وہ حسن ِسلوک نہیں کرتے، جس کے وہ مستحق ہیں۔)
(سورہ الفجر:17)

✨ سورۃ الماعون میں اللہ فرماتا ہے:
یہ وہی (بدبخت) ہے، جو یتیم کو دھکے دیتا ہے۔
(سورۃ الماعون:2)

✨ سورۃ الضحیٰ میں اللہ تنبیہہ فرماتا ہے:
تو تم بھی یتیم پر سختی نہ کیا کرو۔
(سورۃ الضحی:9ٰ)

بلکہ اس کے ساتھ نرمی اور احسان کا معاملہ کیا کرو۔


💥 یتیم کا مال کھانے کی ممانعت:

✨ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے۔
جو لوگ ناحق ظلم سے یتیموں کا مال کھا جاتے ہیں، وہ اپنے پیٹ میں آگ ہی بھر رہے ہیں اور عنقریب وہ دوزخ میں جائیں گے۔
(سورة النساء:10)

✨ اسی حوالے سے سورہ بنی اسرائیل میں اللہ رب العزت حکم فرماتا ہے:
اور یتیم کے مال کے قریب بھی نہ جائو، بجز اس طریقے کے، جو بہت ہی بہتر ہو۔ یہاں تک کہ وہ اپنی بلوغت کو پہنچ جائے، اور وعدے پورے کرو، کیونکہ قول و قرار کی بازپرس ہونے والی ہے۔
(سورہ بنی اسرائیل: 34)

▪ جب یتیموں کا مال ظلماً کھانے والوں کے لیے وعید نازل ہوئی، تو صحابہ کرامؓ اس بات پر خوف زدہ ہو کر کہ کہیں وہ بھی اس وعید کے مستحق قرار نہ دے دیئے جائیں، یتیموں کی ہر چیز الگ کر دی، حتیٰ کہ کھانے پینے کی کوئی چیز بچ جاتی، تو اسے بھی استعمال نہ کرتے اور وہ خراب ہو جاتی۔

✨ اس پر مندرجہ ذیل آیت نازل ہوئی۔ (ابنِ کثیر)
اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یتیموں کے بارے میں بھی سوال کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہہ دیجیے کہ ان کی خیرخواہی بہتر ہے، تم اگر ان کا مال اپنے مال میں ملا بھی لو، تو وہ تمہارے بھائی ہیں۔ بدنیّت اور نیک نیّت ہر ایک کو اللہ خوب جانتا ہے اور اگر اللہ چاہتا تو تمہیں مشقّت میں ڈال دیتا۔ یقیناً اللہ تعالیٰ غلبے والا اور حکمت والا ہے۔
(سورۃ البقرہ:220)


💥 یتیموں کی مالی معاونت:

اسلام نے ہر صاحبِ حیثیت فرد پر لازم قرار دیا ہے کہ اپنے جائز مال میں سے یتیموں کی مالی امداد کرتے رہیں۔

✨ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
اور مال سے محبت کے باوجود قرابت داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں، سائلوں اور غلام آزاد کرنے میں خرچ کرو۔
(سورۃ البقرہ:177)

✨ جب کہ سورہ انفال میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ
اور جان لو کہ جو کچھ مالِ غنیمت سے حاصل ہو، تو اس میں سے پانچواں حصّہ اللہ کا، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا، قریبی رشتے داروں کا، یتیموں کا، مسکینوں کا ،اور مسافروں کا ہے۔
(سورہ الانفال:41)

✨ سورۃ الحشر میں اللہ فرماتا ہے
جو مال اللہ نے اپنے پیغمبر کو بستیوں والوں سے دلوایا ہے، وہ اللہ کے، اور پیغمبر کے، اور رشتے داروں کے، اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے، تاکہ وہ مال تمہارے دولت مندوں کے درمیان گردش نہ کرتا رہے۔
(سورہ الحشر:7)


▪ یتیم بچوں کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آنے کے حوالے سے قرآن و سنت میں بہت زیادہ زور دیا گیا ہے لہٰذا یتیم بچّے، بچیّوں کے سرپرستوں کی ذمّے داری ہے کہ وہ پرورش و کفالت کے بعد ان کی بہتر اور مناسب جگہ شادی کا اہتمام کریں، خصوصاً یتیم بچیّوں کی شادی کرنا یا ان کی شادی کے سلسلے میں کسی بھی قسم کی مدد فراہم کرنا بڑے اَجر و ثواب کا کام ہے۔ خوش قسمت ہیں وہ لوگ، جو یتیموں کے ساتھ پیار و محبت اور بہترین سلوک کر کے اس عمل کو اپنے لیے جنّت کے حصول کا ذریعہ بناتے ہیں۔یاد رہے کہ یتیم کی آہیں اور بددُعائیں عرش بھی ہلا دیتی ہیں۔ روزِ قیامت ڈھائے گئے ظلم و جبر کا اللہ کے حضور حساب دینا ہو گا۔
وہ کیسا بھیانک منظر ہو گا، جب ایک یتیم بچّہ روزِ محشر اللہ کے دربار میں اپنی مظلومیت و بربادی کی داستان سنا رہا ہو گا۔ اس وقت وہاں مجرم کی حیثیت سے سر جھکائے ایسے غاصب وارث بھی ہوں گے اور اس پر ڈھائے جانے والے مظالم کو دیکھنے اور سننے کے بعد آنکھیں بند کر لینے والے اس کے پڑوسی اور دیگر رشتے دار بھی ۔اور سب قہرِالٰہی کے منتظر ہوں گے، جو دوزخ کی آگ کا ایندھن بننے کے سوا کچھ نہ ہوں گے۔



💥 حقوقِ لقیط:

لقیط اس بچہ کو کہا جاتا ہے جو راستہ میں پڑا ہوا ملے اور جس کے والدین کا پتہ نہ ہو.

✨ فقہی اصطلاح میں لقیط اس بچہ کو کہا جاتا ہے جس کا نسب معلوم نہ ہو۔ کیونکہ اس کے گھر والوں نے کسی مجبوری، تنگدستی یا کسی بھی خاص وجہ سے اُسے کہیں راستے میں ڈال دیا ہو۔ لہٰذا جب راستہ میں یا کسی public place پر گرا پڑا بچہ ملے تو اُسے زمین سے اٹھانا، اس کے ساتھ شفقت برتنا اور اس کی حفاظت کرنا اللہ تعالیٰ کے اس قول کی روشنی میں واجب ہو جاتا ہے:
(المعجم الوسیط)

✨ اور جس نے اسے (ناحق مرنے سے بچا کر) زندہ رکھا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو زندہ رکھا۔
(سورةالمائده: 32)

کیونکہ بچہ کو زمین یا راستہ سے اٹھانا ہی اُسے زندگی دینا ہے۔ اور یہ اسی طرح واجب ہے جس طرح حالتِ اِضطرار میں صرف زندگی بچانے کی حد تک حرام کھانے کی اجازت مل جاتی ہے۔

✨ ثانیاً لقیط کا یہ بھی حق ہے کہ وہ آزاد ہوتا ہے۔
حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ نے ایسا ہی حکم دیا ہے۔
اگر ملتقط (بچہ کو اُٹھانے والا) یا کوئی اور شخص یہ دعویٰ کرے کہ بچہ اس کا غلام ہے تو بغیر گواہوں کے اس کا دعویٰ نہ سنا جائے گا کیونکہ اس کی حریت و آزادی اس کے ظاہر حال سے ثابت ہے اس لیے بغیر دلیل کے اس کے ظاہر کو جھٹلایا نہیں جا سکتا۔
(کاسانی، بدائع الصنائع)

ثالثاً لقیط کا یہ بھی حق ہے کہ اس کا خرچہ بیت المال سے کیا جائے۔ اگر اُس کے ساتھ کچھ مال بندھا ہوا پایا گیا تو وہ اسی کا متصور ہو گا مثلا اس کے جسم پر موجود کپڑے یا اگر وہ جانور پر بندھا ہوا پایا گیا تو وہ جانور اس کا ہو گا۔
اس صورت میں خرچہ اس کے اپنے مال میں سے کیا جائے گا کیونکہ بیت المال میں سے خرچہ ضرورت کی بناء پر ہوتا ہے اور جب اس کے پاس مال ہو تو ضرورت ثابت نہیں ہوتی۔
(کاسانی، بدائع الصنائع)