: 🌹 یتیموں کے ساتھ حسنِ سلوک کے چند واقعات:



💥 آقا علیہ الصلوٰة والسلام کا یتیم بچوں سے پیار:

حضرت اسما بنت عمیسؓ فرماتی ہیں، جس دن حضرت جعفر ؓ شہید ہوئے، رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے گھر تشریف لائے،

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
اسماء جعفر کے بچے کہاں ہیں؟؟؟
میں نے بچوں کو حاضر کر دیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بچوں کو سینے سے لگایا اور ساتھ ہی آپ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور آپ رو پڑے۔
میں نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! شاید آپ کو جعفرؓ کی طرف سے کچھ خبر آئی ہے؟؟؟
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
ہاں، وہ آج شہید ہو گئے۔
یہ سن کر میں چلانے لگی تو عورتیں جمع ہو گئیں۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
اسماء لغو نہ بول اور سینہ نہ پیٹ۔
(طبقات ابن سعد)


💥آقا علیہ الصلوٰة والسلام کی یتیم کے ساتھ شفقت و محبت:


حضرت بشیر بن عقربہ جہنی رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ جنگِ اُحد کے دن میری حضور صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم سے ملاقات ہوئی، میں نے پوچھا میرے والد کا کیا ہوا؟۔
حضور صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
وہ تو شہید ہو گئے، ﷲ تعالیٰ اُن پر رحم فرمائے۔
میں یہ سن کر رونے لگ پڑا۔ حضور صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے پکڑ کر میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور مجھے اپنے ساتھ اپنی سواری پر سوار کر لیا اور فرمایا کہ:
کیا تم اِس پر راضی نہیں ہو کہ میں تمہارا باپ بن جاؤں اور عائشہ ؓ تمہاری ماں؟۔


💥 یتیموں کے والی:


ابوجہل ایک یتیم بچے کا وصی تھا، وہ بچہ ایک روز اس حالت میں اس کے پاس آیا کہ اس کے بدن پر کپڑے تک نہ تھے اور اس نے التجا کی کہ اس کے باپ کے چھوڑے ہوئے مال میں سے وہ اسے کچھ دے دے۔ مگر اس ظالم نے اس کی طرف توجہ تک نہ کی۔ اور وہ کھڑے کھڑے آخرکار مایوس ہو کر لوٹ گیا۔
قریش کے سرداروں نے ازراہِ شرارت اس یتیم بچے سے کہا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جا کر شکایت کرو، وہ ابوجہل سے سفارش کر کے تجھے تیرا مال دلوا دیں گے۔
بچہ تو بے چارہ ناواقف تھا کہ ابوجہل کا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کیا تعلق ہے اور یہ بدبخت کس لئے مشورہ دے رہے ہیں۔ وہ سیدھا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس پہنچا اور اپنا حال بتایا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی وقت اٹھ کھڑے ہوئے اور اسے ساتھ لے کر اپنے بدترین دشمن ابوجہل کے ہاں تشریف لے گئے، آپ کو دیکھتے ہی وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رعب میں آ گیا۔ اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ
اس یتیم کا حق اسے دے دو۔
تو اس نے فوراََ اس کا مال لا کر اسے دیدیا، قریش کے سردار تو تاک میں تھے کہ دیکھیں کیا معاملہ پیش آتا ہے؟؟؟
وہ کسی مزیدار جھڑپ کی امید کر رہے تھے۔ مگر انہوں نے یہ معاملہ دیکھا تو حیران رہ گئے ۔

اس واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ رسول مہربان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یتیموں کے حقوق دلانے کے لئے اپنے بدترین دشمن تک سے ملنے سے گریزاں نہ ہوئے۔


💥حضرت علیؓ کا یتیموں کے ساتھ حسنِ سلوک:


زید بن اسلم سے روایت ہے کہ حضرت علیؓ رات کو کوفہ کی گلیوں میں فقراء اور یتامیٰ کی احوال پرسی کے لئے چل رہے تھے کہ ایک گھر سے بچوں کے رونے کی آواز سنی۔ پس آپ اس گھر کے قریب گئے اور دروازہ کھٹکھٹایا۔ بچوں کی ماں نے دروازہ کھولا۔ آپؓ نے بچوں کے رونے کی وجہ پوچھی۔ عورت نے جواب دیا:
بچھے بھوکے ہیں اور بھوک کے سبب رو رہے ہیں۔
حضرت علیؓ نے فرمایا:
کیوں بھوکے ہیں؟؟؟
عورت نے جواب دیا:
ہمارے پاس کھانے کو کچھ نہیں ہے۔
آپؓ نے حیران ہو کر ان کے خاوند کے بارے میں پوچھا تو جواب ملا کہ وہ کسی معرکہ میں قتل ہو گیا ہے۔
حضرت علیؓ نے دیکھا کہ چولہے پر کچھ ابل رہا ہے۔
سوال کیا، تو عورت نے کہا کہ اس میں پانی ڈال رکھا ہے اور بچوں کو تسلی دے رہی ہوں تاکہ بھوک کو بھول کر سو جائیں۔
حضرت علیؓ نے فرمایا:
اے اللہ کی بندی! انتظار کرو میں ابھی آتا ہوں۔
یہ کہہ کر گھر تشریف لائے اور گھی، آٹا اور کھجوروں کا ایک تھیلا اٹھانے لگے تو قنبر (غلام) نے کہا:
میرے آقا اپنی جگہ مجھے اٹھانے دیں۔
پس حضرت علیؓ نے جواب دیا کہ
میں اس کو اٹھانے کا تم سے زیادہ ذمہ دار ہوں۔
اور اپنی پشت پر وزن کو اٹھایا اور اس گھر کی طرف چل دئے۔ دروازے پر دستک دی تو اس بیوہ نے دروازہ کھولا۔ آپؓ نے اسے فرمایا:
اے عورت! یا تو تم کھانا پکاؤ اور میں بچوں کو تسلی دیتا ہوں یا میں کھانا پکاتا ہوں اور تم بچوں کو تسلی دو۔


💥 یتیم کو پناہ دینے پر جنت کی خوشخبری:


ایک شخص جو اہلِ بیت میں سے تھا اس کا انتقال ہو گیا۔ اس کی ایک نیک سیرت بیوی اور چند بیٹیاں تھیں۔ وہ مفلسی سے تنگ آ کر کسی دوسرے شہر کی طرف سفر کر گئیں۔
والدہ نے بچیوں کو ایک مسجد میں چھوڑا اور خود ان بچیوں کے کھانے کا بندوبست کرنے کے لئے شہر کے رئیس کے پاس گئیں اور اپنا حالِ زار بیان کیا کہ میں ایک سید زادے کی بیوی ہوں اور ساتھ ہی کھانے کے لئے اور اس سے رہائش و ضروریات کا سوال کیا تو اس رئیس و امیر نے کہا کہ اپنے سید ہونے کی گواہی پیش کرو۔
اس سیدہ نے کہا کہ میں اس شہر میں اجنبی ہوں، اس لئے گواہی میرے لئے ممکن نہیں۔

اس رئیس امیر نے مدد دینے سے انکار کر دیا۔ اس پر وہ ایک اور شخص کے پاس تشریف لے گئیں۔ اور اسے بھی اپنا تعارف کروایا کہ میں اہلِ بیت میں سے ہوں وہ شخص مجوسی تھا۔ اس مجوسی نے بلا حیل و حجت انہیں ایک مکان دیا اور کھانے پینے کا سامان مہیا کیا اور اپنے پاس بہت عزت و تکریم کے ساتھ رکھا۔

رات کو اس مسلمان رئیس امیر نے خواب میں دیکھا کہ قیامت کا دن ہے اور حضور نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم تشریف فرما ہیں؛
قریب ہی ایک محل ہے جسے دیکھ کر اس رئیس امیر نے عرض کی:
یا رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم! یہ کس کا محل ہے؟
تو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ
"یہ ایک مسلمان کے لئے ہے۔"
اس پر اس رئیس امیر نے عرض کی:
یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بھی مسلمان ہوں۔مجھے محل میں داخل ہونے کی اجازت ہے؟
اس پر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ
اپنے مسلمان ہونے کی دلیل میں گواہی پیش کرو۔
اس رئیس امیر نے عرض کی:
یا رسول اللہ علیہ وآلہ وسلم! میرے پاس اس وقت گواہ کہاں؟
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تو نے میری اولاد (اہل بیت) سے گواہ مانگا تھا۔ اب تجھے اپنی صداقت پر گواہ پیش کرنا ہو گا۔
اس پر وہ رئیس امیر پریشان و شرمندہ ہوا اور اسی اثناء میں اس کی آنکھ کھل گئی۔ اور وہ صبح اس سید زادی کی تلاش مںں نکلا۔ تو پتہ چلا کہ وہ ایک مجوسی کے ہاں بچیوں سمیت ٹھہری ہوئی ہے۔
اس رئیس امیر نے مجوسی سے کہا کہ ان اہلِ بیت سید زادیوں کو میرے پاس بھیج دو۔ میں ان کی خدمت کی سعادت حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ اور اس مجوسی کو ایک ہزار دینار بھی پیش کیے لیکن وہ شخص نہ مانا۔
اس پر اس رئیس امیر نے کہا کہ تم مجوسی ہو اور میں مسلمان ہوں۔ اس لیے میں ان کی خدمت کا زیادہ حقدار ہوں۔
اس پر اس شخص نے کہا کہ ہم سب اہلِ خانہ اس سیدہ کی برکت سے مسلمان ہو چکے ہیں۔ اور مجھے خواب میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خوشخبری دی ہے کہ وہ محل جو تو نے خواب میں دیکھا تھا وہ میرے اور میرے گھر والوں کیلیے ہے۔



💥 یتیم کی پاس داری:


حضرت معروف کرخیؒ عید کے دن نخلستان میں گری پڑی کھجوریں چُن رہے تھے۔ یہ دیکھ کر ایک شخص نے پوچھا، حضور! یہ کھجُوریں کس لیے چُن رہے ہیں؟؟؟
آپ نے فرمایا: میں نے ایک لڑکے کو روتے ہوئے دیکھا ہے۔ میں نے پوچھا تم کیوں رو رہے ہو؟
لڑکا بولا، میں یتیم ہوں، یہ لڑکے اخروٹوں سے کھیل رہے ہیں اور میر ے پاس اتنے پیسے نہیں کہ اخروٹ خرید کر ان کے ساتھ کھیل سکوں، اس لیے میں کھجوریں چُن رہا ہوں تاکہ انہیں فروخت کر کے اس یتیم بچے کو اخروٹ لے دوں۔
(احیاء العلوم)


💥 یتیم کے ساتھ حسنِ سلوک پر جنت کی بشارت:


حکایت ہے کہ ایک فاسق و فاجر شخص نے ایک یتیم کو ننگا دیکھا تو اسے بہت رحم آیا اور اس نے اسے پہننے کو کپڑا دیا۔ جب وہ فاسق و فاجر شخص سو گیا تو اس نے خواب میں دیکھا کہ قیامت کا دن ہے اور فرشتے اس کے گناہوں کی وجہ سے اسے جہنم کی طرف کھینچتے ہوئے لے جا رہے ہیں۔
اچانک وہی یتیم بچہ جس کو اس نے کپڑے پہنائے تھے، سامنے آ کھڑا ہوا اور فرشتوں سے سفارش کی کہ اسے چھوڑ دو، میں اسے اپنے ربِ کریم کی طرف واپس لے جاتا ہوں۔ جب فرشتوں نے چھوڑنے میں تامل کیا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ندا آئی کہ
اے فرشتو! اسے چھوڑ دو کہ اس نے یتیم پر احسان کیا ہے۔ اور میں نے اس احسان کے بدلے میں اسے بخش دیا ہے۔
پھر اس کی آنکھ کھل گئی اور اس خواب کی وجہ سے اس کے دل میں یتیموں پر رحم اور مہربانی کرنے کا مزید جذبہ پیدا ہو گیا۔



🌹 داستانِ ظلم اور یتیم کی آہ:


زمانہ قدیم سے اکثر غریبوں اور مسکینوں پر ظلم ڈھائے جاتے رہے۔ ظالموں کی ظلم کی داستانیں قیامت تک بیان کی جاتی رہیں گی اس دنیا میں ہلاکوخان، چنگیز خان اور حجاج بن یوسف وغیرہ سرفہرست ہیں۔
سابقہ دور میں فرعون اور شداد وغیرہ بھی کم ظالم نہیں گزرے۔ تاریخ شاہد ہے کہ ظالموں کا حشر عبرتناک ہوا۔
قوم عاد کو اللہ تعالیٰ نے بہت طاقت بخشی تھی، پتھروں کو تراش کر اپنے مضبوط گھر بناتی تھی۔ ان کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ مٹھی میں درخت کو پکڑ کر اکھیڑ لیتے تھے۔ اس قوم کی طاقت کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بھی فرمایا ہے۔
اس قوم میں دو بھائی تھے۔ ایک کا نام شدید اور دوسرے کا نام شداد تھا۔ شدید بڑا تھا اور شداد چھوٹا تھا۔ شداد کے بارے میں مشہور ہے کہ اس کی پیدائش ایک کشتی میں ہوئی۔ دریا میں طغیانی آئی اور اس کی والدہ سمیت تمام سوار غرق ہو گئے۔ تمام سواروں میں یہ صرف اکیلا بچا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے اسے سلامت رکھا اور اس کی پرورش فرمائی۔ اس کا بڑا بھائی شدید سات سو سال کے لگ بھگ حکمرانی کر کے جہنم میں داخل ہوا۔ اس کے مرنے کے بعد اس کا چھوٹا بھائی شداد تخت نشین ہوا۔
بیان کیا جاتا ہے کہ تمام روئے زمین پر اس کی حکومت تھی۔ ہزاروں کے حساب سے ملک تھے۔ نظامِ سلطنت چلانے کیلئے ہر ملک میں اپنے نائب بادشاہ اور وزراء وغیرہ مقرر کر رکھے تھے۔



💫 حضرت ہود علیہ السلام نے شداد کو اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کی دعوت دی۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ تم کو اللہ تعالیٰ نے ایک عظیم سلطنت دی ہے۔ ہر قسم کے خزانوں اور نعمتوں سے مالا مال کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لاؤ اور اس پر ایمان لاؤ۔ اس کے بدلہ میں اللہ تعالیٰ تم کو جنت میں بلاحساب و کتاب داخل فرما دیں گے۔
آپ علیہ السلام نے راہِ نجات کی باتیں سنائیں مگر اس ملعون پر ان کی باتوں کا کوئی اثر نہ ہوا۔

جواباً کہنے لگا کہ بہشت کے بارے میں جو سن رکھا ہے، میں بالکل اس جیسی اس دنیا میں بھی بنا لوں گا۔ چنانچہ شداد نے تمام ماتحت بادشاہوں کو احکامات جاری کیے کہ ہر قسم کا خزانہ سونا، چاندی، قیمتی جواہرات، کستوری اور زعفران وغیرہ اپنے اپنے ملکوں سے اکٹھے کر کے برائے تعمیر بہشت بھیجے جائیں۔ اعلیٰ قسم کے معمار بلائے گئے۔ جنت کے ڈیزائن سے آگاہ کیا گیا۔ حکم دیا کہ چالیس گز نیچے سے زمین کھود کر اس پر سنگِ مر مر کی بنیاد رکھ کر بہشت تعمیر کی جائے۔ حکم کی تعمیل پر کام شروع ہو گیا۔ دودھ، شہد اور شراب کی نہریں جاری کر دی گئیں۔ سونے اور چاندی کے درخت لگا دئیے گئے۔ خوبصورت لڑکے اور لڑکیاں بہشت میں پہنچا دی گئیں۔ ہو بہو اصلی جنت کی طرز کی نقلی جنت تیار ہو گئی۔ شداد نے ایک ایسا ادارہ قائم کیا جو تمام ممالک سے خزانہ جمع کرتا اور لا کر پیش کرتا تھا۔ اس نے حکم دے رکھا تھا کہ کسی انسان کے پاس ایک درہم چاندی تک نہ رہنے دیا جائے۔ سب لا کر بہشت میں جمع کیا جائے۔



✨ ایک شہر میں ایک غریب بڑھیا رہائش پذیر تھی۔ اس کا خاوند فوت ہو گیا تھا۔ صرف ایک ہی یتیم بیٹی تھی۔ بیٹی کے ہار میں ایک درہم چاندی تھی۔ جب شداد کے اہلکاروں کو پتہ چلا تو وہ لینے آ گئے۔ بڑھیا نے بڑی منت سماجت کی اور لڑکی بھی آہ و زاری کرنے لگی۔ لڑکی نے رونا اور چلانا شروع کر دیا اور درخواست کی کہ اس کے پاس صرف یہی ایک درہم کی دولت ہے اور یتیم ہے، معاف کیا جائے۔ مگر شداد کے اہلکاروں کو ترس نہ آیا اور گلوبند جبراً لے لیا۔ لڑکی کے پاس کوئی چارہ نہ تھا۔ خداوند کریم کی درگاہ میں فریاد پیش کر دی۔ اللہ تعالیٰ سے مخاطب ہوئی کہ
💫 اے اللہ! تو بہت طاقت والا ہے، خالق کائنات ہے، تو انصاف کر اور ان ظالموں سے مظلوموں کو نجات دے۔
اس یتیم کی دعا اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائی۔
حدیث شریف میں رسول کریم صلی اللہ علیہ واآہ وسلم نے فرمایا ہے کہ
پرہیز کرو مظلوم کی بددعا سے، بیشک وہ قبول ہوتی ہے۔

علماء کرام سے یہ بھی حدیث مبارکہ سنی ہے کہ
مظلوم کی آہ اور اللہ تعالیٰ کے درمیان پردہ نہیں ہوتا۔ جونہی منہ سے نکلتی ہے، قبولیت اختیار کر لیتی ہے۔


بہشت تو شداد کے حکم پر تعمیر ہو گئی مگر اس بدبخت کو دیکھنے کا موقع نہ مل سکا۔ روزانہ ارادہ کرتا مگر کوئی نہ کوئی کام آڑے آ جاتا۔ اسی طرح دس سال گزر گئے۔ آخر ایک دن اس نے جانے کا مصمم ارادہ کرلیا۔ تقریباً دو سو گھوڑ سواروں کے ہمراہ روانہ ہو گیا جب بہشت کے باہر پہنچا تو دیکھا دروازے پر ایک آدمی کھڑا ہے۔ شداد نے پوچھا:
تو کون ہے؟ اس نے جواب دیا کہ
میں مُلک الموت ہوں۔ پھر سوال کیا یہاں کس لیے آئے ہو؟؟؟
جواب ملا؛
تیری روح قبض کرنے آیا ہوں۔ یہ سن کر شداد کے ہوش و حواس اڑ گئے اور مخاطب ہو کر کہا کہ جنت کا نظارہ کرنے تک مہلت دی جائے مگر ملک الموت نے کہا کہ مہلت کسی صورت میں نہیں مل سکتی۔ شداد گھوڑے سے اترنے لگا۔ ایک پاؤں بہشت کے دروازے پر اور دوسرا رکاب میں تھا کہ ملک الموت نے روح قبض کر لی۔ شداد ملعون جہنم رسید ہوا۔ ایک فرشتے نے آسمان سے چیخ ماری۔ شداد کے سارے ساتھی ڈھیر ہو گئے اور جہنم رسید ہو گئے۔ یہ بدبخت نہ اپنی تیار کردہ جنت سے کسی نعمت کا فائدہ اٹھا سکے اور نہ نظارہ کر سکے۔ شداد ملعون کو نہ سلطنت کام آئی اور نہ مال۔ بددعا کی
قبولیت نے سب کچھ خاک میں ملا دیا۔ بے شک اللہ تعالیٰ ہر چیز پرقادر ہے اور اس کی گرفت سخت ہے۔