🌹 محبوب پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بے مثل مہمان نوازی:


اعلانِ نبوت کے دسویں سال اور مدینہ ہجرت سے ایک سال پہلے اللہ تعالیٰ نے واقعہ معراج میں اپنے محبوب پیغمبر حضرت محمدِ مصطفی احمدِ مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوب مہمان نوازی فرمائی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی قدرتِ کاملہ کا مشاہدہ کرایا۔

✨ ماہ رجب کی ستائیسویں رات ہے...
💞اللہ تعالیٰ فرشتوں سے ارشاد فرماتا ہے:
اے فرشتو! آج کی رات میری تسبیح بیان مت کرو... میری حمدو تقدیس کرنا بند کردو... آج کی رات میری اطاعت و بندگی چھوڑ دو... اور آج کی رات جنت الفردوس کو لباس اور زیور سے آراستہ کرو... میری فرمانبرداری کا کُلاہ اپنے سر پر باندھ لو...
اے جبرائیل!!! میرا یہ پیغام میکائیل کو سنا دو کہ رزق کا پیمانہ ہاتھ سے علیحدہ کر دے... اسرافیل سے کہہ دو کہ وہ صور کو کچھ عرصہ کے لئے موقوف کردے... عزرائیل سے کہہ دو کہ کچھ دیر کے لئے روحوں کو قبض کرنے سے ہاتھ اٹھا لے... رضوان سے کہہ دو کہ وہ جنت الفردوس کی درجہ بندی کرے... مالک سے کہہ دو کہ دوزخ کو تالہ لگادے... خلدِ بریں کی روحوں سے کہہ دو کہ آراستہ و پیراستہ ہو جائیں اور جنت کے محلوں کی چھتوں پر صف بستہ کھڑی ہو جائیں... مشرق سے مغرب تک جس قدر قبریں ہیں ان سے عذاب ختم کر دیا جائے... آج کی رات (شب معراج) میرے محبوب حضرت محمد مصطفی احمدِ مجتبیٰ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے استقبال کے لئے تیار ہوجاؤ...
(معارج النبوۃ)

کیا مہمان نوازیاں ہیں!!!
چشمِ زدن (پلک چھپکتے ہی) میں عالمِ بالا کا نقشہ بدل گیا۔

💞حکم ربی ہوا :
اے جبرائیل!!! اپنے ساتھ ستر ہزار فرشتے لے جاؤ۔

حکمِ الہٰی سن کر جبریل امین علیہ السلام سواری لینے جنت میں جاتے ہیں اور آپ نے ایسی سواری کا انتخاب کیا۔ جو آج تک کسی شہنشاہ کو بھی میسر نہ آئی ہو گی۔ میسر ہونا تو دور کی بات ہے دیکھی تک نہ ہو گی۔ اس سواری کا نام براق ہے۔

✨ تفسیر روح البیان میں ہے کہ نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم (کے سوار ہونے) سے پہلے براق پر کوئی سوار نہیں ہوا۔

✨ ماہِ رجب کی ستائیسویں شب کس قدر پرکیف رات ہے... مطلع بالکل صاف ہے... فضاؤں میں عجیب سی کیفیت طاری ہے... رات آہستہ آہستہ کیف و نشاط کی مستی میں مست ہوتی جا رہی ہے... ستارے پوری آب و تاب کے ساتھ جھلملا رہے ہیں... پوری دنیا پر سکوت و خاموشی کا عالم طاری ہے... نصف شب گزرنے کو ہے کہ یکایک آسمانی دنیا کا دروازہ کھلتا ہے... انوار و تجلیات کے جلوے سمیٹے حضرت جبرائیل علیہ السلام نورانی مخلوق کے جھرمٹ میں جنتی براق لئے آسمان کی بلندیوں سے اتر کر حضرت امِ ہانی رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لاتے ہیں... جہاں ماہِ نبوت کے چاند حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم محوِ خواب ہیں... آنکھیں بند کئے، دل بیدار لئے آرام فرما رہے ہیں...

حضرت جبرائیل امین ہاتھ باندھ کر کھڑے ہیں اور سوچ رہے ہیں کہ اگر آواز دے کر جگایا گیا تو بے ادبی ہو جائے گی... فکر مند ہیں کہ معراج کے دولہا، اور مہمانِ عرش کو کیسے بیدار کیا جائے؟؟؟
اسی وقت حکم ربی ہوتا ہے:
یاجبریل قبل قدمیہ" اے جبریل!!! میرے محبوب کے قدموں کو چوم لے تاکہ تیرے لبوں کی ٹھنڈک سے میرے محبوب کی آنکھ کھل جائے... اسی دن کے واسطے میں نے تجھے کافور سے پیدا کیا تھا...
حکم سنتے ہی جبرائیل امین علیہ السلام آگے بڑھے اور اپنے کافوری ہونٹ محبوبِ دو عالم حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پائے ناز سے مس کر دیئے...

: حضرت جبرائیل امینؑ کے ہونٹوں کی ٹھنڈک پا کر پیارے آقائے دوعالم علیہ الصلوة والسلام بیدار ہوتے ہیں اور دریافت کرتے ہیں:
اے جبرائیلؑ!!! کیسے آنا ہوا؟؟؟
عرض کرتے ہیں: یا رسول اللہ!!! (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خدائے بزرگ و برتر کی طرف سے بلاوے کا پروانہ لیکر حاضر ہوا ہوں۔

✨ ان الله اشتاق الی لقائک يارسول الله
یارسول اللہ (صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم!) اللہ تعالیٰ آپ کی ملاقات کا مشتاق ہے...

(اللہ کے مہمان) حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لے چلیے۔ زمین سے لے کر آسمانوں تک ساری گزر گاہوں پر مشتاقِ دید کا ہجوم ہاتھ باندھے کھڑا ہے۔
(معراج النبوۃ)

اس موقع پر حضرت جبرائیل امین علیہ السلام نے آپ کا سینہ مبارک چاک کیا اور دل کو دھویا۔

💞حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ
میرے پاس ایک آنے والا آیا اور اس نے میرا سینہ چاک کیا... سینہ چاک کرنے کے بعد میرا دل نکالا... پھر میرے پاس سونے کا ایک طشت لایا گیا... جو ایمان و حکمت سے لبریز تھا... اس کے بعد میرے دل کو دھویا گیا... پھر وہ ایمان و حکمت سے لبریز ہو گیا... اس قلب کو سینۂ اقدس میں اس کی جگہ پر رکھ دیا گیا...
(بخاری شريف، جلد اول صفحة: 568)

مسلم شریف میں ہے کہ
حضرت جبرائیل علیہ السلام نے سینہ چاک کرنے کے بعد قلب مبارک کو زم زم کے پانی سے دھویا اور سینہ مبارک میں رکھ کر سینہ بند کر دیا...
(مسلم شربف، جلد اول صفحة: 92)

حضرت جبرائیل علیہ السلام فرماتے ہیں کہ
قلب ہر قسم کی کجی سے پاک اور بے عیب ہے اور اس میں دو آنکھیں ہیں جو دیکھتی ہیں اور دو کان ہیں جو سنتے ہیں..
(فتح الباری جلد: 13: صفحة: 610)

سینۂ اقدس کے شق کیے جانے میں کئی حکمتیں ہیں۔ ان میں ایک حکمت یہ ہے کہ قلبِ اطہر میں ایسی قوتِ قدسیہ شامل ہو جائے جس سے آسمانوں پر تشریف لے جانے اور عالمِ سماوات کا مشاہدہ کرنے بالخصوص دیدارِ الہٰی کرنے میں کوئی دقت اور دشواری پیش نہ آئے... پھر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سرِ انور پر عمامہ باندھا گیا...
✨ علامہ کاشفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
شب معراج حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جو عمامہ شریف پہنایا گیا وہ عمامہ مبارک حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش سے سات ہزار سال پہلے کا تیار کیا ہوا تھا... چالیس ہزار ملائکہ اس کی تعظیم و تکریم کے لئے اس کے اردگرد کھڑے تھے...

✨ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے سرورِ کونین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نور کی ایک چادر پہنائی... زمرد کی نعلین مبارک پاؤں میں زیب تن فرمائی... یاقوت کا کمر بند باندھا...
(معارج النبوة، صفحة: 601)

✨ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے براق کا حلیہ بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
(براق کا)سینہ سرخ یاقوت کی مانند چمک رہا تھا... اس کی پشت پر بجلی کوندتی تھی... ٹانگیں سبز زمرد... دُم مرجان... سر اور اس کی گردن یاقوت سے بنائی گئی تھی... بہشتی زین اس پر کسی ہوئی تھی جس کے ساتھ سرخ یاقوت کے دو رکاب آویزاں تھے... اس کی پیشانی پر لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ لکھا ہوا تھا...

چند لمحوں کے بعد وہ وقت بھی آ گیا کہ عرش کے مہمان سرورِ کونین حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم براق پر تشریف فرما ہو گئے... حضرت جبرائیل علیہ السلام نے رکاب تھام لی... حضرت میکائیل علیہ السلام نے لگام پکڑی... حضرت اسرافیل علیہ السلام نے زین کو سنبھالا...

✨ حضرت امام کاشفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
معراج کی رات اسی ہزار فرشتے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دائیں طرف اور اسی ہزار بائیں طرف تھے...
(معارج النبوة: ص606)

فضا فرشتوں کی درود و سلام کی صداؤں سے گونج اٹھی اور آقائے نامدار حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم درود و سلام کی گونج میں سفرِ معراج کا آغاز فرماتے ہیں...

✨ اس واقعہ کو قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اس طرح بیان فرمایا ہے:
وہ ذات (ہر نقص اور کمزوری سے) پاک ہے جو رات کے تھوڑے سے حصہ میں اپنے (محبوب اور مقرّب) بندے کو مسجدِ حرام سے (اس) مسجدِ اقصیٰ تک لے گئی جس کے گرد و نواح کو ہم نے بابرکت بنا دیا ہے تاکہ ہم اس (بندہِ کامل) کو اپنی نشانیاں دکھائیں...
(سورہ بنی اسرائيل: 1)

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہایت شان و شوکت سے ملائکہ کے جلوس میں مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ کی طرف روانہ ہوتے ہیں۔ یہ گھڑی کس قدر دلنواز تھی کہ جب مکاں سے لامکاں تک نور ہی نور پھیلا ہوا تھا... سواری بھی نور تو سوار بھی نور... باراتی بھی نور تو دولہا بھی نور... میزبان بھی نور تو مہمان بھی نور... نوریوں کی یہ نوری بارات فلک بوس پہاڑیوں... بے آب و گیاہ ریگستانوں... گھنے جنگلوں... چٹیل میدانوں... سرسبز و شاداب وادیوں... پرخطر ویرانوں پر سے سفر کرتی ہوئی وادئ بطحا میں پہنچی... جہاں کھجور کے بیشمار درخت ہیں۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام عرض کرتے ہیں کہ حضور یہاں اتر کر دو رکعت نفل ادا کیجئے۔ یہ آپ کی ہجرت گاہ مدینہ طیبہ ہے... نفل کی ادائیگی کے بعد پھر سفر شروع ہوتا ہے۔ راستے میں ایک سرخ ٹیلا آتا ہے جہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قبر ہے۔ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:
معراج کی رات میں سرخ ٹیلے سے گزرا تو میں نے دیکھا کہ وہاں موسیٰ علیہ السلام کی قبر ہے اور وہ اپنی قبر میں کھڑے ہو کر نماز پڑھ رہے ہیں... پھر دیکھتے ہی دیکھتے بیت المقدس بھی آ گیا جہاں قدسیوں کا جمِ غفیر سلامی کے لئے موجود ہے... حورو غلماں خوش آمدید کہنے کے لئے اور تقریباً ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء و مرسلین استقبال کے لئے بے چین و بے قرار کھڑے تھے... حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس مقام پر تشریف فرما ہوئے جسے بابِ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہا جاتا ہے۔ حضرت جبریل علیہ السلام ایک پتھر کے پاس آئے جو اس جگہ موجود تھا... حضرت جبرائیل علیہ السلام نے اس پتھر میں اپنی انگلی مار کر اس میں سوراخ کر دیا اور براق کو اس میں باندھ دیا...
(تفسير ابن کثير جلد3، ص7)

آفتابِ نبوت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجدِ اقصیٰ میں داخل ہوتے ہیں... صحن حرم سے فلک تک نور ہی نور چھایا ہوا ہے... ستارے ماند پڑچکے ہیں... قدسی سلامی دے رہے ہیں... حضرت جبرائیل علیہ السلام اذان دے رہے ہیں... تمام انبیاء و رسل صف در صف کھڑے ہو رہے ہیں... جب صفیں بن چکیں تو امام الانبیاء فخرِ دوجہاں حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم امامت فرمانے تشریف لاتے ہیں... تمام انبیاء و رسل امام الانبیاء کی اقتداء میں دو رکعت نماز ادا کر کے اپنی نیاز مندی کا اعلان کرتے ہیں... ملائکہ اور انبیاء کرام سب کے سب سرتسلیمِ خم کئے ہوئے کھڑے ہیں… بیت المقدس نے آج تک ایسا دلنواز منظر اور روح پرور سماں نہیں دیکھا ہو گا… وہاں سے فارغ ہوتے ہی عظمت و رفعت کے پرچم پھر بلند ہونے شروع ہوتے ہیں… درود و سلام سے فضا ایک مرتبہ پھر گونج اٹھتی ہے… سرورِ کونین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نوری مخلوق کے جھرمٹ میں آسمان کی طرف روانہ ہوتے ہیں…
حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں: ثم عرج بی پھر مجھے اوپر لے جایا گیا... براق کی رفتار کا عالم یہ تھا کہ جہاں نگاہ کی انتہاء ہوتی وہاں براق پہلا قدم رکھتا... فوراً ہی پہلا آسمان آگیا... حضرت جبرائیل علیہ السلام نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ دربان نے پوچھا کون ہے؟؟؟ جواب دیا جبرائیل!!! دربان نے پوچھا، من معک تمہارے ساتھ کون ہے؟؟؟ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے کہا حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!) دربان نے کہا: مرحبا دروازے انہی کے لئے کھولے جائیں گے... چنانچہ دروازہ کھول دیا گیا...

پہلے آسمان پر سیدنا آدم ؑ سے ملاقات ہوئی… دوسرے آسمان پر یحییٰ ؑ و عیسیٰ ؑ نے مرحبا کہا… تیسرے آسمان پر حسنِ یوسف ؑ نے آنکھیں بچھا رکھی تھیں… چوتھے آسمان پر حضرت ادریسؑؑ موجود تھے… پانچویں آسمان پر حضرت ہارون ؑ سے تعارف ہوا… چھٹے آسمان پر سیدنا موسیٰ ؑ کا جاہ و جلال سراپاء استقبال تھا اور ساتویں آسمان پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جدِ امجد سیدنا ابراہیم خلیل اﷲ ؑ اپنی دعا کو مکمل و مجسم صورت میں ملاحظہ فرما رہے تھے…
پھر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جنت کی سیر کرائی گئی… پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس مقام پر پہنچے جہاں قلمِ قدرت کے چلنے کی آواز سنائی دیتی تھی… اس کے بعد پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سدرۃ المنتہٰی تک پہنچے… سدرہ وہ مقام ہے جہاں مخلوق کے علوم کی انتہاء ہے۔ فرشتوں نے اِذن طلب کیا کہ اے اللہ! تیرے محبوب تشریف لا رہے ہیں… ان کے دیدار کی ہمیں اجازت عطا فرما… اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ تمام فرشتے سدرۃ المنتہٰی پر جمع ہو جائیں اور جب میرے محبوب کی سواری آئے تو سب زیارت کر لیں۔ چنانچہ ملائکہ سدرہ پر جمع ہو گئے اور جمالِ محمد (صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھنے کے لئے سدرہ کو ڈھانک لیا…
(درمنشور، جلد6، ص126)

اس مقام پر حضرت جبرائیل علیہ السلام رک گئے اور عرض کرنے لگے: یارسول اللہ (صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم)!!! ہم سب کے لئے ایک جگہ مقرر ہے… اب اگر میں ایک بال بھی آگے بڑھوں گا تو اللہ تعالیٰ کے انوار و تجلیات میرے پروں کو جلا کر رکھ دیں گے… یہ میرے مقام کی انتہاء ہے… سبحان اللہ!!! حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رفعت و عظمت کا اندازہ لگایئے کہ جہاں شہبازِ سدرہ کے بازو تھک جائیں اور روح الامین کی حد ختم ہو جائے… وہاں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پرواز شروع ہوتی ہے… اس موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:
اے جبرائیل!!! کوئی حاجت ہو تو بتاؤ…
حضرت جبرائیل علیہ السلام نے عرض کی حضور (صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ مانگتا ہوں کہ قیامت کے دن پل صراط پر آپ کی امت کے لئے بازو پھیلا سکوں تاکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک ایک غلام آسانی کے ساتھ پل صراط سے گزر جائے...
(روح البيان، جلد خامس، صفحة: 221)

حضور تاجدار انبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جبرائیل امین کو چھوڑ کر تنہا انوار و تجلیات کی منازل طے کرتے گئے…
✨ مواہب الدنیہ میں ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عرش کے قریب پہنچے تو آگے حجابات ہی حجابات تھے… تمام پردے اٹھا دیئے گئے…
✨ اس واقعہ کو قرآن مجید اس طرح بیان فرماتا ہے:
پھر اُس (جلوہِ حُسن) نے (اپنے) ظہور کا ارادہ فرمایا… اور وہ (محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم شبِ معراج عالمِ مکاں کے) سب سے اونچے کنارے پر تھے (یعنی عالَمِ خلق کی انتہاء پر تھے)…
(سورة النجم: 6، 7 عرفان القرآن)

پھر وہ مبارک گھڑی بھی آگئی کہ پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حریمِ الہٰی میں پہنچے اور اپنے سر کی آنکھوں سے عین عالم بیداری میں اللہ تعالیٰ کی زیارت کی…

💞 قرآن مجید محبوب و محب کی اس ملاقات کا منظر ان دلکش الفاظ میں یوں بیان کرتا ہے:
پھر وہ (ربّ العزّت اپنے حبیب محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے) قریب ہوا پھر اور زیادہ قریب ہو گیا… پھر (جلوۂِ حق اور حبیبِ مکرّم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں صِرف) دو کمانوں کی مقدار فاصلہ رہ گیا یا (انتہائے قرب میں) اس سے بھی کم (ہو گیا)…
(سورة النجم:8، 9، عرفان القرآن)

✨ جب حضور سرور کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بارگاہِ الہٰی میں پہنچے تو ارشاد فرمایا:
پس (اُس خاص مقامِ قُرب و وصال پر) اُس (ﷲ) نے اپنے عبد (محبوب) کی طرف وحی فرمائی جو (بھی) وحی فرمائی…
(سورة النجم: 10، عرفان القرآن)

حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ وحی اللہ تعالیٰ نے براہِ راست اپنے محبوب کو ارشاد فرمائی درمیان میں کوئی وسیلہ نہ تھا… پھر راز و نیاز کی گفتگو ہوئی… اسرار و رموز سے آگاہی فرمائی… جسے اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوق سے پوشیدہ رکھا… اس گفتگو کا علم اللہ تعالیٰ اور حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کو ہے…


✨ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
(اُن کے) دل نے اُس کے خلاف نہیں جانا جو (اُن کی) آنکھوں نے دیکھا…
(سورة النجم: 11)

✨ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں اپنے محبوب کی آنکھوں کا ذکر فرماتا ہے:
اُن کی آنکھ نہ کسی اور طرف مائل ہوئی اور نہ حد سے بڑھی (جس کو تکنا تھا اسی پر جمی رہی)…
(سورة النجم:17)

✨ واقعہ معراج کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں مزید ارشاد فرماتا ہے:
بے شک انہوں نے (معراج کی شب) اپنے رب کی بڑی نشانیاں دیکھیں…
(سورة النجم: 18)

✨ اس آیتِ مقدسہ میں بتایا گیا ہے کہ معراج کی رات حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وآلہ وسلم کی مقدس آنکھوں نے اللہ تعالیٰ کی بڑی بڑی نشانیاں ملک و ملکوت کے عجائب کو ملاحظہ فرمایا اور تمام معلومات غیبیہ کا آپ کو علم حاصل ہو گیا…
(روح البيان)

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
میں نے اپنے رب کو حسین صورت میں دیکھا… پھر اس نے میرے دونوں کندھوں کے درمیان اپنا یدِ قدرت رکھا… اس سے میں نے اپنے سینہ میں ٹھنڈک پائی اور زمین و آسمان کی ہر چیز کو جان لیا…
(مشکوٰة شريف صفحة: 28)

✨ ایک موقع پر مزید ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہوتا ہے:
میں نے اپنے رب کو اپنی آنکھ اور اپنے دل سے دیکھا…
(مسلم شريف)

✨ دیدار الہٰی کا ذکر ایک اور حدیث میں اس طرح فرمایا:
میرے رب نے مجھ سے کلام فرمایا اور میں نے اپنے پروردگار کو اپنے سر کی آنکھوں سے دیکھا اور اس نے میری طرف وحی فرمائی…
(صاوی صفحة: 328)

✨ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ
اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خلیل، موسیٰ علیہ السلام کو کلام اور حضرت سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے دیدار کا اعزاز بخشا…

✨ فخر دو عالم حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شب معراج اللہ تعالیٰ نے تین تحفے عطا فرمائے…
پہلا سورہ بقرہ کی آخری تین آیتیں، جن میں اسلامی عقائد ایمان کی تکمیل اور مصیبتوں کے ختم ہونے کی خوشخبری دی گئی ہے…
دوسرا تحفہ یہ دیا گیا کہ امتِ محمدیہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں جو شرک نہ کرے گا وہ ضرور بخشا جائے گا…
تیسرا تحفہ یہ کہ امت پر پچاس نمازیں فرض ہوں گی…
اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان تینوں انعامات و تحائف کو لے کر اور جلوہ الہیٰ سے سرفراز ہو کر عرش و کرسی… لوح و قلم… جنت و دوزخ… عجائب و غرائب… اسرار و رموز کی بڑی بڑی نشانیوں کا مشاہدہ فرمانے کے بعد جب پیارے نبی حضرت محمدِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کی خاص میزبانی کے بعد واپسی کے لئے روانہ ہوئے تو چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دریافت کیا… کیا عطا ہوا؟؟؟ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امت پر پچاس نمازوں کی فرضیت کا ذکر فرمایا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مشوروں سے بار بار مہمانِ عرش نے بارگاہِ رب العرش میں نماز میں کمی کی التجا کی… کم ہوتے ہوتے پانچ وقت کی نماز رہ گئی…
✨ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
اے محبوب!!! ہم اپنی بات بدلتے نہیں اگرچہ نمازیں تعداد میں پانچ وقت کی ہیں مگر ان کا ثواب دس گنا دیا جائے گا… میں آپ کی امت کو پانچ وقت کی نماز پر پچاس وقت کی نمازوں کا ثواب دوں گا…

✨ تفسیر ابن کثیر میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم براق پر سوار ہوئے اور رات کی تاریکی میں مکہ معظمہ واپس تشریف لائے…
(تفسير ابن کثير، جلد سوئم صفحه: 32)

✨ جب سرکارِ دو عالم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم راتوں رات ایک طویل سفر کر کے زمین پر تشریف لائے تو کارخانہ عالم جو بحکمِ الٰہی بند ہو گیا تھا، پھر سے چلنے لگا... ہر شے از سر نو مراحل کو طے کرنے لگی... چاند سورج اپنی منازل طے کرنے لگے… حرارت و ٹھنڈک اپنے درجات طے کرنے لگی… غرض یہ کہ جو جو چیزیں سکون میں آگئی تھیں، حرکت کرنے لگ گئیں… بستر مبارک کی حرارت اپنے درجات طے کرنے لگی… حجرہ مبارک کی زنجیر ہلتے ہوئے جس جگہ پہنچ کے رک گئی تھی، وہیں سے ہلنے لگی… کائنات میں نہ کوئی تغیر آیا اور نہ ہی کسی کو احساس تک ہوا…
(روح البيان، جلد5، صفحه، 125)