🌹 حضرت ابراہیمؑ اور میزبانی:


✨ حضرت ابراہیمؑ کا لقب ابو الضیفان (مہمانوں کا باپ) تھا۔ آپ کے مکان کے چار دروازے تھے۔ ان سے دیکھتے رہتے کہ کب کوئی آنے والا ہے۔
(تنبیہ الغافلین)

✨ حضرت ابراہیمؑ کے بارے میں مشہور ہے کہ آپؑ نے پوری زندگی دن یا رات کا کھانا مہمان کے بغیر نہیں کھایا۔ جب کھانے کا وقت ہوتا اور کوئی ساتھ کھانے والا نہ ہوتا تو آپ بسا اوقات میلوں تک کسی مہمان کی تلاش میں نکل جاتے۔ عربوں میں بالعموم اور قریش میں بالخصوص مہمان نوازی کی روایت حضرت ابراہیمؑ کا فیضان تھا۔


💥 مہمان فرشتوں کی تعظیم:

قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علی نبینا و علی الصلوة والسلام کی مہمان نوازی کا ذکر فرمایا۔
حضرت ابراہیمؑ کے بارہ مہمان تھے۔ انہی میں حضرت جبرائیل و میکائیل اور زفائیل علیہم السلام تھے۔ یہ فرشتے ہیں، انہیں ضیف اس لیے کہا گیا ہے کہ وہ مہمانوں کی وضع میں آئے۔ اس لیے حضرت ابراہیمؑ نے انہیں مہمانی پیش کی یا اسلیے کہ حضرت ابراہیمؑ کے گمان میں وہ مہمان تھے۔
اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی آئی کہ آنے والے مہمانوں کی تعظیم کیجیے اور ان میں سے ہر ایک کیلیے علیحٰدہ علیحٰدہ بھنی ہوئی بکری تیار فرمائیے۔ پھر وحی آئی کہ مہمانوں کی تعظیم کیجیے؛ آپ نے ان کیلیے اونٹ ذبح کیا پھر وحی آئی کہ مہمانوں کی تعظیم کیجیے آپ حیران ہوئے پھر سمجھے کہ مہمانوں کا اکرام کثرتِ طعام سے نہیں بلکہ ان کی تعظیم یہ ہے کہ ان کی خدمت کروں۔ چنانچہ ان کی خدمت کیلیے اٹھ کھڑے ہوئے پھر وحی آئی کہ اب آپ نے مہمانوں کی تعظیم کی ہے۔
(فیوض الرحمٰن)


💥 دلفریب مہمان نوازی:

حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مہمان نوازی کا بڑا شہرہ تھا۔ آپ علیہ السلام اس وقت تک کھانا نہ کھاتے جب تک کوئی مہمان نہ آتا۔
ایک بار ایسا ہوا کہ ایک ہفتہ تک کوئی مہمان نہ آیا۔
آپ گھر سے اس خیال سے نکلے کہ کوئی مسافر مل جائے گا تو اسے مہمان بنا لائیں گے۔ اس تلاش میں انہیں ایک کمزور و ناتواں بوڑھا شخص نظر آیا۔ جس کا بھوک سے بُرا حال تھا۔ حضرت ابراھیمؑ اسے گھر لے آئے اور دسترخوان پر بڑی عزت اور احترام سے بٹھایا۔ کھانا شروع ہوا تو مسلمانوں کے دستور کے مطابق مہمان نے بسم اللہ نہ کہا۔
پیغمبرِ خدا حیران ہوئے اور اس مہمان سے وجہ پوچھی کہ اس نے عمر رسیدہ ہونے کے باوجود بسم اللہ کہہ کر کھانے کا آغاز کیوں نہیں کیا۔ بوڑھے مہمان نے جواب دیا۔
اے ابراہیم! میں نے ایسا اس لیے نہیں کیا کیونکہ میں مسلمان نہیں ہوں، میں تو آتش پرست ہوں۔
حضرت ابراہیمؑ نے سنا تو انہیں دکھ ہوا کہ ایسے شخص کو وہ مہمان بنا کر لائے جو مسلمان نہیں۔ انہوں نے اسے دسترخوان سے اٹھا دیا۔
اسی وقت وحی نازل ہوئی کہ
اے ابراہیم! ہمیں یہ بات خوب معلوم ہے کہ یہ شخص ہماری جگہ آگ کو معبود جانتا ہے۔ اور اسی کی پرسشتش کرتا ہے۔ مگر اس کے باوجود ہم تو اسے پچھلے سو سال سے رزق بھیج رہے ہیں۔ اور ایک تُو ہے کہ اسے ایک وقت کا کھانا نہ دے سکا، اسے ناپاک تصور کیا، دسترخوان سے اٹھا دیا۔
کرم کرتے وقت یہ پوچھا نہیں جاتا کہ یہ کون ہے۔ اس کا اللہ کا بندہ ہونا کافی ہے۔
یہ سنتے ہی ابراہیمؑ اس شخص کے پیچھے دوڑے اور اس کو واپس بلایا۔
اس نے کہا: جب تک آپ اس کی وجہ نہ بتلائیں پہلے مجھے کیوں نکالا گیا؟ اور اب پھر کیوں بلا رہے ہیں؟ میں اس وقت تک آپ کے ساتھ نہ جاؤں گا۔
حضرت ابراہیمؑ نے واقعہ بتلا دیا تو یہی واقعہ اس کے مسلمان ہونے کا سبب بن گیا۔
اس نے کہا کہ
"وہ رب جس نے یہ حکم بھیجا ہے بڑا کریم ہے، میں اس پر ایمان لاتا ہوں پھر حضرت ابراہیمؑ کے ساتھ گیا اور مومن ہو کر باقاعدہ بسم اللہ پڑھ کر کھانے کھایا۔


🌹 آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی ضیافتیں:


💥 پیارے آقائے دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدینہ میں پہلی ضیافت:

حضرت زید بن ثابت رضی اللّٰہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے جب کاشانۂ ابو ایوب کو رونق بخشی تو میں (حضرت زید بن ثابت) سب سے پہلا تحفہ لے کر حضورِ اکرم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ یہ ایک پیالہ تھا، جس میں ثُرید تھی جو گندم کے آٹے، گھی اور دودھ سے تیار کی گئی تھی۔ میں نے پیالہ حضور صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں بھیجا، حضور صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
اللّٰہ تعالیٰ اس میں برکت عطا فرمائے۔
حضور صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اصحابہ کو بلایا، سب نے مل کر اسے کھایا۔

✨ میں ابھی دروازے تک پہنچا ہی تھا کہ سعد بن عبادہ رضی اللّٰہ عنہ کی طرف سے ان کا ایک غلام بھرا ہوا پیالہ سر پر اٹھائے ہوئے آ پہنچا۔ یہ پیالہ کپڑے سے ڈھکا ہوا تھا۔ میں اسے دیکھ کر دروازے پر کھڑا ہو گیا اور کپڑا اٹھا کر دیکھا تو مجھے اس میں ثٗرید نظر آئی۔ جس کے اوپر گوشت والی ہڈیاں رکھی تھیں۔ حضرت سعد رضی اللّٰہ عنہ کا غلام اس پیالہ کو لے کر حضورِ اکرم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پہنچ گیا۔
✨ حضرت زید رضی اللّٰہ عنہ فرماتے ہیں:
ہم بنی مالک بن نجار کے محلے میں تھے۔ ہر رات تین چار آدمی رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی ڈیوڑھی پر کھانا اٹھائے ہوئے حاضر ہو جاتے۔ ان لوگوں نے اپنی باریاں مقرر کی ہوئی تھیں۔ ہر آدمی اپنی باری پر کھانا پکوا کر لے آتا، یہاں تک کہ سید عالم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم سات ماہ بعد نوتعمیر شدہ حجروں میں منتقل ہو گئے۔
(ضیاء النبی)

✨ اس طرح اہلِ مدینہ نے رحمت عالم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کی خوشی میں آپ کی ضیافتیں کیں۔


💥 ابو شعیب کا کھانا بنانا:

حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللّٰہ عنہ بیان کرتے ہیں:
انصار میں ابو شعیب نام کا ایک شخص تھا۔ اس کا ایک لڑکا جو گوشت فروخت کرتا تھا۔ اس نے رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کو دیکھ کر آپ کے چہرے سے بھوک کا اندازہ کیا۔ اس نے اپنے لڑکے کو کہا جاؤ، پانچ آدمیوں کا کھانا تیار کرو۔ میرا اردہ ہے میں پانچ آدمیوں سمیت نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کو دعوت دوں، اس نے کھانا تیار کر لیا۔ پھر وہ نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس گیا اور آپ کو بشمول پانچ آدمیوں کے دعوت دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ایک شخص بھی چل پڑا، جب وہ شخص دروازہ پر پہنچا تو حضور صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
یہ شخص ہمارے ساتھ چل پڑا، اگر تم چاہو تو اس کو اجازت دے دو اور اگر تم چاہو تو یہ شخص لوٹ جائے۔
اس نے کہا:
نہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بلکہ میں اس کو اجازت دیتا ہوں۔
(شرح صحیح مسلم)


💥 ایک فارسی کا شوربا بنانا:

حضرت انس رضی اللّٰہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ
نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے پڑوس میں ایک فارسی رہتا تھا، وہ شوربا بہت اچھا بناتا تھا، اس نے رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کیلیے شوربا بنایا۔ پھر آ کر آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کو دعوت دی۔
(شرح صحیح مسلم)


💥 حضرت ابو طلحہ رضی اللّٰہ عنہ کا دعوت دینا:

حضرت انس بن مالک رضی اللّٰہ عنہ راوی ہیں کہ حضرت ابو طلحہ رضی اللّٰہ عنہ نے نبی پاک صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کو دعوت دی، اس دعوت میں جو کی چند روٹیاں اور گھی کا ایک کُپہ تھا جس میں سے ستر یا اسّی افراد نے سیر ہو کر کھایا۔
(شرح صحیح مسلم)
:

🌹 حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور میزبانی:


حضور رحمتِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جب معزز مہمان آتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ اقدس کی بشاشت قابلِ دید ہوتی، بنفسِ نفیس مہمان کی خاطر داری فرماتے، مہمان کے ہاتھ دھلاتے، ان کے بستر بچھاتے، ان کیلیے خود کھانا لاتے، ان کی چھوٹی چھوٹی ضروریات کاخیال رکھتے۔

✨ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فیاضی میں کافر و مسلمان کا امتیاز روا نہ رکھتے۔ مشرک، کافر اور غیر مسلم بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مہمان ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یکساں ان کی مہمان نوازی فرماتے۔

✨ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مہمان نوازی کا عالم یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قرض لے کر مہمانوں کی ضیافت کرتے حتیٰ کہ وصال کے وقت بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زرہ مبارک ایک یہودی کے پاس قرض کے بدلے رہن تھی اور یہ قرض بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مہمان نوازی کی خاطر لیا تھا۔

💐 جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مہمان کو اپنے دستر خواں سے کھانا کھلاتے تو بار بار فرماتے اور کھائیے اور کھائیے اور جب مہمان خوب آسودہ ہو جاتا اور انکار کرتا تب آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اصرار سے رکتے۔
(ترمذی)

💐ایک دفعہ ایک شخص کو دودھ پلانے کے بعد اسے بار بار فرمایا، اشرب، اشرب اور پیئو اور پیئو۔ یہاں تک کہ اس شخص نے پی کر عرض کیا:
قسم ہے اس خدائے بزرگ و برتر کی، جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، اب اور گنجائش نہیں ہے۔
(بخاری، مدارج النبوة)

💐 کسی مجمع میں کھانا تناول فرمانے کا اگر اتفاق ہوتا تو سب سے آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی اٹھتے، کیونکہ بعض آدمی دیر تک کھاتے رہنے کے عادی ہوتے ہیں اور ایسے لوگ جب دوسروں کو کھانے سے اٹھتا دیکھتے ہیں تو شرم کی وجہ سے خود بھی اٹھ جاتے ہیں۔ لہٰذا ایسے لوگوں کا لحاظ فرماتے ہوئے حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی بہ تکلف تھوڑا تھوڑا کھاتے رہتے۔
(زاد المیعاد، مشکوة)


💐 آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا زرہ گروی رکھوا کر مہمان نوازی:

حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ایک مہمان آیا، آپ نے مجھ سے ارشاد فرمایا کہ
فلاں یہودی کے پاس جاؤ اور اس سے کہو کہ میرے پاس ایک مہمان آیا ہے۔ لہذا مجھے تھوڑا سا آٹا قرض کے طور پر دے دو۔
یہودی نے جواب دیا کہ میں قرض نہیں دوں گا۔ میں نے واپس جا کر سارا ماجرا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
میں زمین وآسمان میں امین ہوں، اگر وہ مجھے قرض دے دیتا تو میں اسے (یقیناً) واپس کر دیتا۔ جاؤ اور میر ی زرہ لے جاؤ اور اس کے پاس گروی رکھ دو اور اس کے عوض کچھ رقم لے آؤ، تاکہ ہم مہمان نوازی سے عہدہ براہ ہو سکیں۔
(احیاء العلوم: امام غزالی)


💐 مہمان نوازی باعثِ برکت:

حضرت امِ سلیمؓ نے آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حیس نامی کھانا تیار کروا کر حضرت انسؓ کے ہاتھ بھجوایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
اس برتن کو یہیں رکھ دو اور کچھ افراد کے نام لیے کہ انہیں بلا لاؤ اور ہر وہ شخص جو تمہیں ملے تو اسے کہنا کہ میں بلا رہا ہوں۔
حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ میں جب واپس آیا تو گھر آدمیوں سے بھرا ہوا تھا۔ پھر میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا دستِ مبارک اس کھانے پر رکھا اور اسے برکت دینے کے لیے کچھ دیر دعا کرتے رہے۔
پھر آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دس دس افراد کو بلوانے لگے جو اس برتن میں سے کھاتے تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان سے فرماتے کہ
بسم اللہ پڑھ کر کھاؤ اور ہر شخص اپنے سامنے سے کھائے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی طرح ان سب کو کھلاتے رہے، یہاں تک کہ ان سب نےخوب سیر ہو کر کھا لیا۔
(صحیح بخاری)