🌹 صحابہ کرامؓ اور اہلِ بیت اطہارؑ کی مہمان نوازی:


💥 حضرت عمر فاروقؓ کی مہمان نوازی:

✨ حضرت عمر فاروقؓ کی عادتِ مبارکہ تھی کہ جب کوئی مہمان آتا تو استقبال کیلیے کھڑے ہو جاتے۔

✨ ایک مرتبہ ایک قاصد دربارِ خلافت میں آیا تو اس نے دیکھا کہ امیر المومنین ہاتھ میں عصا لے کر لوگوں کو خود کھانا کھلا رہے ہیں۔
(تاریخ طبری)

✨ حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللّٰہ عنہ نماز عشاء کے بعد پھر پھر کر مسجد میں ہر شخص کا چہرہ دیکھتے اور پوچھتے کہ کھانا کھایا یا نہیں؟ اگر کوئی شخص بھوکا ہوتا تو اس کو گھر لا کر کھانا کھلاتے۔
(طبقاتِ ابن سعد)


💐 حضرت عمرِ فاروق کی مہمان نوازی اور خدا ترسی:

سن اٹھارہ ہجری، حضرت فاروق اعظم عمر بن خطاب رضی اللّٰہ عنہ کے عہد میں شدید قحط پڑا، سیدنا فاروق اعظم رضی اللّٰہ عنہ نے مدینہ منورہ میں سرکاری طور پر کھانا پکوا کر تمام ضرورت مند لوگوں کو کھلانے کا اہتمام کیا اور اس انتظام کی نگرانی بنفسِ نفیس فرماتے،
اسی دوران آپ کا گزر ایک ایسے آدمی کے پاس سے ہوا جو بائیں ہاتھ سے کھانا کھا رہا تھا۔ آپ نے اس کو فرمایا:
بندۂ خدا! دائیں ہاتھ سے کھا۔
اس نے جواب دیا:
بندۂ خدا! وہ مشغول ہے۔
آپ آگ چلے گئے، جب دوبارہ وہاں سے گزرے تو پھر دیکھا کہ وہ بائیں ہاتھ سے کھانا کھا رہا ہے۔ آپ نے پھر اس کو فرمایا، دائیں ہاتھ سے کھا۔
بندۂ خدا مشغول ہے۔
اس نے تین مرتبہ یہی جواب دیا۔
آپ نے پوچھا کہ کس کام میں مشغول ہے۔؟؟؟
اس نے جواب دیا (داہنا ہاتھ) موتہ کی لڑائی میں کام آ گیا، راوی کہتے ہیں کہ یہ سن کر حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ اس کے پاس بیٹھ گئے اور رونے لگے اس سے پوچھنے لگے تمہیں وضو کون کراتا ہے۔؟؟؟
تمہارا سر کون دھوتا ہے۔؟؟؟
کپڑے کون دھوتا ہے۔؟؟؟
فلاں اور فلاں کام کون کرتا ہے۔؟؟؟
پھر آپ نے اس کے لئے ملازم منگوایا اور اسے ایک سواری دلوائی، اور دوسرے سامانِ ضرورت دلوائے۔ یہاں تک کہ اس آدمی کے ساتھ آپ کا انتہائی مشفقانہ سلوک اور مسلمانوں کی بہبود کے لئے حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ کا یہ اہتمام دیکھ کر صحابہ بلند آواز سے حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ کیلئے اللّٰہ تعالیٰ سے دعائیں کرنے لگے۔
(کتاب الآثار )


💐 رعایا کی خبر گیری:

حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ کے غلام حضرت اسلم بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللّٰہ عنہ کے ساتھ ایک سنگلاخ زمین کی طرف گیا، جب ہم اونچے مقامات کی طرف پہنچے تو ہم نے دیکھا کہ ایک جگہ آگ جل رہی تھی۔ آپ نے فرمایا:
اے اسلم! میں سمجھتا ہوں کہ یہ مسافر سوار ہیں جو رات اور سردی کی وجہ سے یہاں ٹھہر گئے ہیں۔ آؤ ہم وہاں جائیں۔
چنانچہ ہم تیز قدم چل کر وہاں پہنچے تو دیکھا کہ ایک عورت کے ساتھ کچھ بچے ہیں اور ایک ہانڈی آگ پر چڑھی ہوئی ہے اور اس کے بچے بلک رہے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ نے انہیں دیکھ کر فرمایا:
اے روشنی والو! السلام علیکم۔
آپ نے اصحاب النار کہنا پسند نہیں کیا۔ وہ بولی:
وعلیکم السلام،
آپ نے فرمایا:
کیا ہم قریب آسکتے ہیں؟؟؟
اس پر وہ بولی:
اگر شرافت کے ساتھ آنا چاہتے ہو تو آ جاؤ۔
اس پر قریب آ کر آپ نے دریافت کیا، تمہارا کیا حال ہے؟؟؟ وہ بولی:
رات اور سردی نے ہمیں یہاں روک لیا ہے۔
آپ نے پوچھا:
یہ بچے کیوں بلک رہے ہیں؟؟؟
وہ بولی، بھوک سے پریشان ہیں؛
آپ نے پوچھا:
ہنڈیا میں کیا چیز ہے۔؟؟؟
وہ بولی پانی ہے، جس کے ذریعے میں انہیں خاموش کر رہی ہوں تاکہ وہ سو جائیں، بہرحال اللّٰہ تعالیٰ ہی ہمارے اور عمر کے درمیان فیصلہ کرے گا۔
آپ نے فرمایا۔
اللّٰہ تم پر رحم کرے، عمر کو تمہاری حالت کیسے معلوم ہو سکتی ہے؟؟؟
وہ بولی:
وہ ہم پر حکومت کرتا ہے اور ہمارے حال سے غافل ہے۔

اس کے بعد آپ اپنے غلام کے ہمراہ واپس تشریف لائے اور آٹے کے گودام سے ایک آٹے کی بوری اور ایک چربی کا کُپہ بہ نفسِ نفیس اپنی پیٹھ پر لاد کر ان کے پاس لائے، اور اپنے ہاتھوں سے کھانا تیار کر کے انہیں کھلایا، بچوں کے سونے تک وہیں تشریف فرما رہے۔ جب وہ سو گئے تو آپ اپنے غلام حضرت اسلم رضی اللّٰہ عنہ کے ہمراہ واپس تشریف لائے۔
(تاریخِ طبری)

✨حضرت عمر فاروقؓ نے اکثر شہروں میں مہمان خانے تعمیر کرائے، جہاں مسافروں کو بیت المال کی طرف سے کھانا ملتا تھا۔

✨حضرت عمر فاروقؓ نے ایک سٹور یا لنگر خانہ بنوایا جس میں آٹا، جو، کھجور، پنیر اور دیگر ضروریات کی چیزیں رکھوائیں۔ جس سے آپ مسافروں اور بھٹکے ہوؤں کی امداد فرمایا کرتے تھے۔ علاوہ ازیں مکہ مکرمہ و مدینہ منورہ کے درمیانے رستے میں سرائیں بنوائیں، جہاں مسافر آ کر آرام کرتے تھے۔

✨دارالخلافہ کا لنگر خانہ عام تھا، حضرت عمر فاروقؓ وہاں جاتے تھے اور لوگوں کو خود اپنے ہاتھوں سے کھلایا کرتے تھے۔


💥 حضرت ابوبکر صدیقؓ اور مہمان نوازی:

سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ کی نمایاں خوبیوں میں ایک خوبی مہمان نوازی بھی ہے۔ وہ بے حد مہمان نواز تھے۔ اپنے اہلِ خانہ کی تربیت اس انداز میں کی تھی کہ اگر گھر میں مہمان آ جائیں تو ان کی مہمان نوازی میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا جائے۔ اگر مہمان نوازی میں کوئی کمی رہ جاتی تو اس پر اپنے اہلِ خانہ کا محاسبہ کرتے۔

✨ سیدنا عبدالرحمن بن ابو بکر رضی اللّٰہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اصحابِ صُفہ نادار اور تنگدست لوگ تھے۔ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا:
جس شخص کے پاس دو آدمیوں کا کھانا ہو وہ (اصحابِ صُفہ میں سے ایک) تیسرا آدمی لے جائے اور جس کے پاس چار آدمیوں کا کھانا ہو وہ (اصحاب صفہ میں سے ایک یا دو) پانچواں یا چھٹا (آدمی) لے جائے۔
سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ اپنے ساتھ تین آدمی لے آئے۔ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ انہیں گھر چھوڑ کر پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس واپس آ گئے اور رات کا کھانا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاں تناول کیا اور پھر اتنی رات گئے آئے جتنی اللّٰہ تعالیٰ کو منظور تھی۔
آپ رضی اللہ عنہ کی بیوی نے آپ سے پوچھا:
آپ کو اپنے مہمانوں (کی مہمان نوازی) سے کس چیز نے روک دیا؟؟؟ یعنی آپ گھر سے غیر حاضر رہے اور مہمان کھانا نہ کھا سکے۔
آپ نے جواباً سوال کیا:
کیا تم نے انہیں کھانا نہیں کھلایا؟؟؟
آپ رضی اللہ عنہ کی بیوی نے جواب دیا:
ہم نے انہیں کھانا پیش کیا تھا مگر انہوں نے آپ کی آمد تک کھانا کھانے سے انکار کیا تھا۔
عبد الرحمن بن ابو بکر رضی اللّٰہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں والد محترم کی ناراضگی اور ڈانٹ سے بچنے کے لیے چھپ گیا، مگر انہوں نے مجھے بلوا لیا اور سرزنش کی، پھر مہمانوں سے کہنے لگے:
اب سکون اور اطمینان سے کھاؤ۔
ایک مہمان نے قسم کھا لی کہ وہ بھی اس وقت تک کھانا نہیں کھائے گا جب تک سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ کھانا تناول نہیں کرتے۔
سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ نے فرمایا:
یہ قسم شیطانی ہے۔
پھر آپ نے کھانا منگوایا اور ان کے ساتھ تناول کیا۔
سیدنا عبدالرحمن رضی اللّٰہ عنہ فرماتے ہیں:
اللّٰہ کی قسم! ہم لقمہ اٹھاتے تو نیچے پلیٹ میں پہلے سے بھی زیادہ کھانا بڑھ جاتا حتیٰ کہ جب سب سیر ہو گئے تو کھانے کی حالت یہ تھی کہ وہ پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ چکا تھا۔ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ نے دیکھا کہ کھانا جوں کا توں پڑا ہے بلکہ کچھ زیادہ ہی ہو گیا ہے تو آپ رضی اللّٰہ عنہ نے اپنی بیوی سے پوچھا:
بنو فراس کی بہن! یہ کیا ماجرا ہے؟؟؟
وہ کہنے لگیں:
یہ کھانا تو پہلے کی نسبت تین گنا زیادہ ہو گیا ہے۔
آپ نے اس کھانے سے کھایا، پھر نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں لے گئے۔ وہ کھانا صبح تک آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس رہا۔ہمارے اور (کفار کی) قوم کے مابین معاہدہ تھا۔ اس معاہدے کی مدت ختم ہو چکی تھی۔ ہم نے ان سے نبرد آزما ہونے کے لیے اپنے لشکر کو بارہ کمانڈروں کی قیادت میں تقسیم کیا تھا اور ان بارہ میں سے ہر کمانڈر کے ماتحت لوگ تھے یہ اللّٰہ ہی بہتر جانتا ہے۔ اس لشکر نے صبح کا ناشتہ اس کھانے سے کیا۔
(صحیح بخاری، صحیح مسلم)

💥 حضرت عثمان غنیؓ کی مہمان نوازی:

اﯾﮏ ﺩﻥ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺜﻤﺎﻥ ﻏﻨﯽ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠّﮧ عنہ ﻧﮯ ﻧﺒﯽ ﮐﺮﯾﻢ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ﮐﯽ ﺩﻋﻮﺕ ﮐﯽ۔ ﺟﺐ ﻧﺒﯽ ﮐﺮﯾﻢ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺜﻤﺎﻥ ﻏﻨﯽ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠّﮧ عنہ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺗﺸﺮﯾﻒ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺟﺎ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ﺗﻮ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺜﻤﺎﻥ ﻏﻨﯽ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠّﮧ عنہ ﺁﭖ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ﮐﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﭼﻞ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺁﭖ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ﮐﮯ ﻗﺪﻣﻮﮞ ﮐﯽ ﺗﻌﺪﺍﺩ ﮔِﻦ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺳﺮﮐﺎﺭِ ﺩﻭ ﻋﺎﻟﻢ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ﻧﮯ ﺟﺐ پیچھے مُڑ ﮐﺮ ﯾﮧ ﻣﻌﺎﻣﻠﮧ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﻮ ﻣﺴﮑﺮﺍ ﮐﺮ ﭘﻮﭼﮭﺎ:
ﺍﮮ ﻋﺜﻤﺎﻥ (ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠّﮧ ﻋﻨﮧُ) ﮐﯿﺎ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﮨﻮ؟؟؟
ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺜﻤﺎﻥ ﻏﻨﯽ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠّﮧ ﻋﻨﮧُ ﻧﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ:
ﯾﺎﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠّﮧ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! ﻣﯿﮟ ﺁﭖ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ﮐﮯ ﻗﺪﻡ ﮔِﻦ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ ﺗﺎﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺍﺗﻨﮯ ﻏﻼﻡ ﺁﺯﺍﺩ ﮐﺮﻭﮞ۔
ﺩﻋﻮﺕ ﺧﺘﻢ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺜﻤﺎﻥ ﻏﻨﯽ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠّﮧ عنہ ﻧﮯ ﺍﯾﺴﺎ ﮨﯽ ﮐِﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺗﻨﮯ ﮨﯽ ﻏﻼﻡ ﺁﺯﺍﺩ ﮐﯿﮯ۔


💥 مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی مہمان نوازی:

ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻠﯽ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠّﮧ عنہ (حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی) ﺍِﺱ ﺩﻋﻮﺕ ﺳﮯ ﻣﺘﺎﺛﺮ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﮔﮭﺮ ﺁ ﮐﺮ ﺣﻀﺮﺕ فاطمۃ ﺍﻟﺰﮨﺮﺍﺀ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠّﮧ ﻋﻨﮩﺎ ﺳﮯ ﺍﺱ ﺩﻋﻮﺕ ﮐﺎ ﺫِﮐﺮ ﮐِﯿﺎ۔ ﺣﻀﺮﺕ فاطمۃ ﺍﻟﺰﮨﺮﺍﺀ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ:
ﻋﻠﯽ (ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠّﮧ ﻋﻨﮧ) ﺍﮔﺮ ﺗﻢ ﭼﺎﮨﺘﮯ ﮨﻮ ﺗﻮ ﭨﮭﯿﮏ ﮨﮯ۔ ﺗﻢ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠّﮧ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ﺍﻭﺭ ﺁﭖ ﮐﮯ ﺍﺻﺤﺎﺏ ﮐﻮ ﺑُﻼﺅ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺩﻋﻮﺕ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮐﭽﮫ ﭘﮑﺎ ﻟﻮﮞ۔
ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻠﯽ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠّﮧ ﻋﻨﮧُ ﮐﮯ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺣﻀﺮﺕ ﻓﺎﻃﻤۃ ﺍﻟﺰﮨﺮﺍﺀ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠّﮧ ﻋﻨﮩﺎ ﻧﮯ ﻭﺿﻮ ﮐِﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﻟﻠّﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮐﮯ ﺣﻀﻮﺭ ﺳﺮ ﺑﺴﺠﻮﺩ ﮨﻮ ﮔﺌﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺩﻋﺎ ﻣﺎﻧﮕﻨﮯ ﻟﮕﯿﮟ:
اﮮ ﺍﻟﻠّﮧ! ﺗﯿﺮﯼ ﺑﻨﺪّﯼ ﻓﺎﻃﻤﮧ (ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠّﮧ ﻋﻨﮩﺎ) ﻧﮯ ﺗﯿﺮﮮ ﺣﺒﯿﺐ ﻣﺤﻤّﺪ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺍﺻﺤﺎﺏ ﮐﯽ ﺩﻋﻮﺕ ﮐﯽ ﮨﮯ۔ ﺗﯿﺮﯼ ﺑﻨﺪّﯼ ﮐﺎ ﺻﺮﻑ ﺍﻭﺭ ﺻﺮﻑ ﺗﺠﮫ ﭘﺮ ﺑﮭﺮﻭﺳﮧ ﮨﮯ۔ ﻟﮩٰﺬﺍ ﺍﮮ ﻣﯿﺮﮮ ﻣﺎﻟﮏ ﻭ ﺧﺎﻟﻖ! ﺁﺝ ﺗُﻮ ﻓﺎﻃﻤﮧ (ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠّﮧ ﻋﻨﮩﺎ) ﮐﯽ ﻻﺝ ﺭﮐﮫ ﻟﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﺩﻋﻮﺕ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮐﮭﺎﻧﻮﮞ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﻈﺎﻡ ﻋﺎﻟﻢِ ﻏﯿﺐ ﺳﮯ ﻓﺮﻣﺎ۔
ﺳﯿّﺪﮦ فاطمہ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠّﮧ ﻋﻨﮩﺎ ﻧﮯ ﯾﮧ ﺩﻋﺎ ﻣﺎﻧﮓ ﮐﮯ ﮨﺎﻧﮉﯾﻮﮞ ﮐﻮ ﭼﻮﻟﮩﻮﮞ ﭘﺮ ﺭﮐﮫ ﺩﯾﺎ۔ ﺍﻟﻠّﮧ ﮐﮯ ﻓﻀﻞ ﻭ ﮐﺮﻡ ﺳﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﮨﺎﻧﮉﯾﺎﮞ ﺭﻧﮓ ﺑﺮﻧﮓ ﮐﮯ ﮐﮭﺎﻧﻮﮞ ﺳﮯ ﺑﮭﺮﯼ ﭘﮍﯼ ﺗﮭﯿﮟ۔
ﺟﺐ ﺳﺮﮐﺎﺭِ ﺩﻭ ﻋﺎﻟﻢ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ﺍﭘﻨﮯ ﺍﺻﺤﺎﺏ ﺭﺿﻮﺍﻥ ﺍﻟﻠّﮧ ﻋﻠﯿﮩﻢ ﺍﺟﻤﻌﯿﻦ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺗﺸﺮﯾﻒ ﻟﮯ ﺁﺋﮯ ﺗﻮ ﺣﻀﺮﺕ ﻓﺎﻃﻤۃ ﺍﻟﺰﮨﺮﺍﺀ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠّﮧ ﻋﻨﮩﺎ ﻧﮯ ﮨﺎﻧﮉﯾﻮﮞ ﺳﮯ ﮈﮬﮑﻦ ﺍُﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﮈﺍﻟﻨﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐِﯿﺎ۔
ﺍﺻﺤﺎﺏِ ﺭﺳﻮﻝ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﺧﻮﺷﺒﻮ ﺳﮯ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﺭﮦ ﮔﺌﮯ۔ ﺟﺐ ﺻﺤﺎﺑﮧ ﮐﺮﺍﻡ ﺭﺿﻮﺍﻥ ﺍﻟﻠّﮧ ﻋﻠﯿﮩﻢ ﺍﺟﻤﻌﯿﻦ ﻧﮯ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﮐﮭﺎﯾﺎ ﺗﻮ ﮐﮭﺎﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﻟﺬّﺕ ﻧﮯ ﻣﺰﯾﺪ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ۔ ﻧﺒﯽ ﮐﺮﯾﻢ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ﻧﮯ ﺻﺤﺎﺑﮧ ﮐﺮﺍﻡ ﺭﺿﻮﺍﻥ ﺍﻟﻠّﮧ ﻋﻠﯿﮩﻢ ﺍﺟﻤﻌﯿﻦ ﮐﻮ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ:
ﺣﯿﺮﺍﻥ ﮨﻮ ﺭﮨﮯ ﮨﻮ! ﺗﻤﮩﯿﮟ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﮯ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﮐﮩﺎﮞ ﺳﮯ ﺁﯾﺎ ﮨﮯ؟؟؟
ﺗﻤﺎﻡ ﺻﺤﺎﺑﮧ ﮐﺮﺍﻡ ﺭﺿﻮﺍﻥ ﺍﻟﻠّﮧ ﻋﻠﯿﮩﻢ ﺍﺟﻤﻌﯿﻦ ﻧﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ:
اﻟﻠّﮧ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺭﺳﻮﻝ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ﺑﮩﺘﺮ ﺟﺎﻧﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔
ﺳﺮﮐﺎﺭِ ﺩﻭ ﻋﺎﻟﻢ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ:
ﺣﻀﺮﺕ ﻓﺎﻃﻤﮧ (ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠّﮧ ﻋﻨﮩﺎ) ﻧﮯ ﯾﮧ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﮨﻢ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺟﻨّﺖ ﺳﮯ ﻣﻨﮕﻮﺍ ﮐﺮ ﺩﻋﻮﺕ ﮐﯽ ﮨﮯ۔
ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺣﻀﺮﺕ ﻓﺎﻃﻤۃ ﺍﻟﺰﮨﺮﺍﺀ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠّﮧ ﻋﻨﮩﺎ ﭘﮭﺮ ﺳﺮﺑﺴﺠﻮﺩ ﮨﻮ ﮔﺌﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﺩﻋﺎ ﻣﺎﻧﮕﻨﮯ ﻟﮕﯿﮟ:
ﺍﮮ ﻣﯿﺮﮮ ﻣﺎﻟﮏ! ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺜﻤﺎﻥ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠّﮧ ﻋﻨﮧُ ﻧﮯ ﺗﯿﺮﮮ ﻣﺤﺒﻮﺏ ﮐﮯ ﮨﺮ ﮨﺮ ﻗﺪﻡ ﮐﮯ ﺑﺪﻟﮯ ﺍﯾﮏ ﻏﻼﻡ ﺁﺯﺍﺩ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮨﮯ، ﻓﺎﻃﻤﮧ (ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠّﮧ ﻋﻨﮩﺎ) ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺍﺗﻨﯽ ﺍﺳﺘﻄﺎﻋﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮧ ﻭﮦ ﻏﻼﻡ ﺁﺯﺍﺩ ﮐﺮﮮ۔ ﺍﮮ ﻣﯿﺮﮮ ﺭﺏ!ّ ﺗُﻮ ﻧﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺑﮭﯽ ﻣﯿﺮﯼ ﻻﺝ ﺭﮐﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺟﻨّﺖ ﺳﮯ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﺑﮭﯿﺞ ﺩﯾﺎ۔ ﺍﺏ ﺗﯿﺮﮮ ﻣﺤﺒﻮﺏ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ﺟﺘﻨﮯ ﻗﺪﻡ ﭼﻞ ﮐﺮ ﻣﯿﺮﮮ ﮔﮭﺮ ﺁﺋﮯ، ﺍﺗﻨﮯ ﮨﯽ ﺳﺮﮐﺎﺭِ ﺩﻭ ﻋﺎﻟﻢ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ﮐﮯ ﺍُﻣّﺘﯽ ﺟﮩﻨّﻢ ﮐﯽ ﺁﮒ ﺳﮯ ﺁﺯﺍﺩ ﻓﺮﻣﺎ ﺩﮮ۔
ﺍِﺩﮬﺮ ﺳﯿّﺪﮦ ﻓﺎﻃﻤۃ ﺍﻟﺰﮨﺮﺍﺀ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠّﮧ ﻋﻨﮩﺎ ﺍِﺱ ﺩﻋﺎ ﺳﮯ ﻓﺎﺭﻍ ﮨﻮﺋﯿﮟ ﺍُﺩﮬﺮ ﺟﺒﺮﺍﺋﯿﻞ ﺍﻣﯿﻦ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴّﻼﻡ ﻭﺣﯽ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺑﺎﺭﮔﺎﮦِ ﺧﯿﺮ ﺍﻻﻧﺎﻡ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ﻣﯿﮟ ﺣﺎﺿﺮ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﺑﺸﺎﺭﺕ ﺳُﻨﺎﻧﮯ ﻟﮕﮯ:
ﯾﺎﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠّﮧ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! ﺍﻟﻠّﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻧﮯ ﺁﭖ ﮐﮯ ﮨﺮ ﻗﺪﻡ ﮐﮯ ﺑﺪﻟﮯ ﺍﯾﮏ ﮨﺰﺍﺭ ﮔﻨﮩﮕﺎﺭ ﺍُﻣّﺘﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﺨﺶ ﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺟﮩﻨّﻢ ﺳﮯ ﺁﺯﺍﺩﯼ ﻋﻄﺎ ﮐﺮ ﺩﯼ ﮨﮯ۔

💥مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم

ایک دفعہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ سے پوچھا:
اے علیؓ! تمہیں کونسے عمل پسند ہیں۔
آپ رضی اللّٰہ عنہ نے جواب دیا؛
گرمیوں کے روزے رکھنا اور مہمانوں کی ضیافت کرنا۔
(شعب الایمان)


💥 حضرت امام حسنؓ:

حضرت امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ ﺳﮯ ﮐﺴﯽ ﻧﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﮧ ﺁﭖ ﺗﻮ ﻓﺎﻗﮧ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﻟﯿﮑﻦ ﺳﺎﺋﻞ ﮐﻮ ﻣﺤﺮﻭﻡ ﻭﺍﭘﺲ ﻧﮩﯿﮟ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ؟؟؟
امام حسنؓ نے ﺍﺭﺷﺎﺩ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ
ﻣﯿﮟ ﺧﺪﺍ ﺳﮯ ﻣﺎﻧﮕﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﮨﻮﮞ- ﺍﺱ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﺩﯾﻨﮯ ﮐﯽ ﻋﺎﺩﺕ ﮈﺍﻝ ﺭﮐﮭﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﺩﯾﻨﮯ ﮐﯽ ﻋﺎﺩﺕ ﮈﺍﻟﯽ ﺭﮐﮭﯽ ﮨﮯ۔ ﻣﯿﮟ ﮈﺭﺗﺎ ﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﺍﮔﺮ ﺍﭘﻨﯽ ﻋﺎﺩﺕ ﺑﺪﻝ ﺩﻭﮞ، ﺗﻮ ﮐﮩﯿﮟ ﺧﺪﺍ ﺑﮭﯽ ﻧﮧ ﺍﭘﻨﯽ ﻋﺎﺩﺕ ﺑﺪﻝ ﺩﮮ ﺍﻭﺭ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﮭﯽ ﻣﺤﺮﻭﻡ ﮐﺮ ﺩﮮ۔
(ﻧﻮﺭﺍﻻﺑﺼﺎر)


💥 حضرت عبداللہ بن مسعودؓ:

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ مہمانوں کی خدمت سے حظ (لطف و سرور) محسوس کرتے تھے اور آپ نے کوفہ میں ایک عالی شان مکان مہمانوں کے لیے مخصوص کر رکھا تھا۔
(تاریخ طبری)


💥 حضرت سیدنا ابو ذر غفاریؓ بے مثال مہمان نواز:

حضرت سیدنا ابو ذر غفاری رضی اللّٰہ عنہ کا شمار درویش و مجذوب صحابہ میں ہوتا ہے۔ پیارے آقائے دو عالم علیہ الصلوٰة والسلام کے وصال کے بعد دیارِ حبیب سے کوچ کر گئے کیونکہ حضور صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے متعلق ارشاد فرمایا تھا:
اللّٰہ تعالیٰ ابو ذر پر رحم فرمائے، اکیلا چلتا ہے، اکیلا ہی رہے گا اور اکیلا ہی اٹھایا جائے گا۔

آپ رضی اللّٰہ عنہ نے مدینہ منورہ سے کوچ کے بعد ربذہ (ذات عروق سے جو سڑک مکہ معظمہ کو گئی تھی، ٹھیک اس کے کنارے میں ایک مختصر گاؤں آباد تھا) میں خیمہ زن ہو گئے، اور وہیں بقیہ لمحاتِ زندگی گزارے۔ جب آپ کا وقتِ وصال قریب آیا اور آپ بسترِ مرگ پر تھے تو آپ نے اپنی صاحبزادی کو پکارا اور فرمایا:
بیٹی ایک بکری ذبح کر لو اور اس کے گوشت کو آگ پر چڑھا دو۔ گھر میں مہمان آ رہے ہیں جب وہ مجھے دفن کر لیں تو تم ان سے کہنا کہ ابوذر نے آپ لوگوں کو خدا کی قسم دی کہ جب تک کھا نہ لیں، روانہ نہ ہوں۔
اس کے بعد فرمایا:
مہمانوں کی ایک اور جماعت آنے والی ہے جو کھاتی پیتی نہیں، لیکن خوشبو سونگھتی ہے۔ ایک نافہ مشک کا پڑا ہوا ہے، اسی کو گِھسا کر پانی میں ملاؤ اور تمام خیمہ پر چھڑک دو عنقریب وہ آنے والے ہیں۔
(تاریخ طبری)

سبحان اللہ! روح جسم کو چھوڑ رہی ہے۔ سکرات کی حالتیں طاری ہیں۔ خلیل ابو ذر علیہ الصلوۃ والسلام نے بتایا تھا کہ مہمانوں کا اکرام کیا کرو۔ گو جان نکل رہی ہے۔


💥 قبیلہ عبدالقیس کے مسلمانوں کے وفد کی مہمان نوازی:

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں جو وفود آتے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی مہمان نوازی کا فرض صحابہ کے سپرد کر دیتے تھے۔
ایک مرتبہ قبیلہ عبدالقیس کے مسلمانوں کا وفد حاضر ہوا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انصار کو ان کی مہمان نوازی کا ارشاد فرمایا۔
چنانچہ انصار ان لوگوں کو لے گئے۔ صبح کے وقت وہ لوگ حاضر ہوئے تو آپ نے دریافت فرمایا کہ
تمہارے میزبانوں نے تمہاری مدارت کیسی کی۔
انہوں نے کہا:
یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! بڑے اچھے لوگ ہیں۔ ہمارے لیے نرم بستر بچھائے، عمدہ کھانے کھلائے اور پھر رات بھر کتاب و سنت کی تعلیم دیتے رہے۔
(مسند احمد)


💥بنی عذرہ کے تین مہمان:

ایک دفعہ بنی عذرہ کے تین مہمان مدینہ میں آئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ کون ان کی کفالت کا ذمہ لیتا ہے۔ حضرت طلحہؓ کھڑے ہوئے اور عرض کیا:
یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! میں؛
چنانچہ ان تینوں کو اپنے گھر لے گئے اور پھر وہ جب تک زندہ رہے انہی کے ہاں رہے لیکن انہوں نے کبھی ان کو اپنے لیے بار تصور کر کے ان سے گلو خلاصی (لڑائی جھگڑا) کی کوشش نہیں کی اور ایسے اخلاق سے ان کے ساتھ پیش آتے رہے کہ ان کو یہ احساس تک نہیں ہونے دیا کہ وہ کسی اجنبی جگہ میں ہیں۔
(مسند احمد)

💥حضرت ابو طلحہؓ کی مہمان نوازی:

ایک رنگ تو مہمان نوازی کا ایسا بھی ہے جو صحابئ رسول حضرت ابو طلحہؓ اور ان کی بیوی کے ایثار کا لازوال مرقع بن کے چودہ سو سال سے قرآن کے صفحات میں جگمگا رہا ہے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں آ کر کہا کہ
میں فاقہ سے ہوں (یعنی کئی دن سے صحیح سے کھانا نہیں ملا ہے)۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی کسی زوجہ کی طرف پیغام بھیجا، انہوں نے کہا:
اس ذات کی قسم! جس نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، میرے پاس پانی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دوسری زوجہ کے پاس پیغام بھیجا۔ انہوں نے بھی اسی طرح کہا حتیٰ کہ سب نے یہی کہا کہ
اس ذات کی قسم! جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، میرے پاس پانی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔
آخر کار آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فر مایا:
جو شخص آج رات اس کو مہمان بنائے گا، اللہ تعالیٰ اس پر رحم فر مائے گا۔
انصار میں سے ایک شخص(حصرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ) نے کھڑے ہو کر کہا کہ:
یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! اس کو میں مہمان بناؤں گا۔
وہ صحابی اس مہمان کو اپنے گھر لے گئے اور انہوں نے بیوی سے پوچھا کہ تمہارے پاس کھانے کی کوئی چیز ہے؟؟؟
بیوی نے کہا:
صرف بچوں کا کھانا ہے۔
انہوں نے کہا:
بچوں کو کسی چیز سے بہلا دو، جب ہمارا مہمان آئے تو چراغ بجھا دینا اور اس پر یہ ظاہر کرنا کہ ہم بھی کھا رہے ہیں (نہیں تو، وہ ہماری غربت دیکھ کر پیٹ بھر کر نہیں کھا سکے گا اور ہمیں بھی اس کھانے میں شریک کرنے کی کوشش کرے گا) جب وہ کھانا کھانے لگے تو تم چراغ کے پاس جا کر اس کو بجھا دینا۔
پھر وہ سب بیٹھ گئے اور مہمان نے (اس طر ح سے پیٹ بھر کر) کھانا کھا لیا۔
جب صبح کو وہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
تم نے مہمان کے ساتھ جو حسنِ سلوک کیا اللہ تعالیٰ اس پر بہت خوش ہوا۔
(مسلم، کتاب الاشربہ)

کیا خوب مہمان نوازی ہے کہ مہمان کو تو کھانا کھلایا اور خود سارا گھر فاقہ سے رہا۔ رات کی یہ ضیافت نہ جانے اللہ کو کس قدر پسند آئی ہو گی کہ صبح ہونے سے پہلے ہی ان کا ایثار قرآن کی آیت بن کر اتر چکا تھا۔ اور دن چڑھے مدینہ منورہ کی ہر زبان پر اس کا چرچا تھا۔
درحقیقت مہمان خود نہیں آتا اسے اللہ تعالیٰ بھیجتا ہے۔ اس لیے جتنی بھی اس کی خدمت و تعظیم کی جائے مہمان کا حق ادا نہیں ہوتا۔


💥 حضرت سلمان ؒ کی مہمان نوازی:

حضرت اعمشؒ نے ابو وائلؓ سے روایت کیا، فرمایا:
میں اپنے ایک ساتھی کے ہمراہ حضرت سلمانؓ کی ملاقات کے لیے گیا، انہوں نے ہمارے سامنے جو کی روٹی اور پسا ہوا نمک رکھا، میرے ساتھی نے کہا کہ اگر نمک کے ساتھ پودینہ بھی ہوتا تو خوب ہوتا، حضرت سلمانؓ باہر تشریف لائے اور لوٹا رہن رکھ کر پودینہ خرید لائے۔۔

جب ہم کھا چکے تو میرے ساتھی نے کہا:
اللہ تعالیٰ کی حمد ہے کہ جس نے ہمیں جو روزی دی اس پر قناعت عطا کی۔
حضرت سلمانؓ نے فرمایا:
اگر تو دی ہوئی روزی پر قناعت کرتا تو مجھے لوٹا گروی نہ رکھنا پڑتا۔

💥 امام زین العابدین کی مہمان نوازی:

مالک اُشتر کی قیادت میں مختار ثقفی کی فوج ابنِ زیاد کی فوجوں کے مقابلے میں فرات کے کنارے لڑ رہی تھی۔ اللہ تعالی نے مختار ثقفی کو فتح دی۔ اس کی فوج کے قابو میں جو بھی آتا، اسے قتل کر دیا جاتا۔ ابنِ زیاد نے اپنی شکست دیکھی تو گھوڑے کو ایڑ لگائی اور میدان چھوڑ کے بھاگ گیا۔
اور بہت دور نکل گیا اس کا جی گھبرا رہا تھا۔ پیاس کی شدت تھی۔ گھوڑا بھی ہانک رہا تھا۔ صحرا میں دور اسے ایک خیمہ نظر آیا۔ وہ وہاں پہنچا۔ خیمے کا پردہ اٹھایا تو اندر امام زین العابدینؑ قرآن پاک کی تلاوت فرما رہے تھے۔ امام زین العابدینؑ کو دیکھ کر ابنِ زیاد شرم سے پانی پانی ہو گیا۔ لیکن پیاس تھی کہ جان کو آ رہی تھی۔ یک لخت بولا کہ حضرت پانی دیجیئے۔ امام زین العابدین نے اسے دیکھا تو اٹھ کر گھڑے سے پانی کا کٹورا بھرا اور اسے پکڑا دیا۔ وہ پانی غٹا غٹ پی گیا۔ پھر پانی مانگا۔
امام زین العابدین نے پھر کٹورا بھر کر پانی دیا۔
تیسری دفعہ پھر مانگا تو آپؑ نے پھر پانی دیا۔
جب ابنِ زیاد پانی پی چکا تو بولا کہ شاید آپؑ نے مجھے پہچانا نہیں۔ امام زین العابدینؑ جو ضبط کیے ہوئے تھے آنکھوں سے موٹے موٹے آنسو جاری ہو گئے اور فرمایا:
بدبخت تجھے نہیں جانتا! جس نے خاندانِ نبوت اجاڑ ڈالا۔
ابنِ زیاد نے کہا؛
اگر آپ مجھے پہچانتے ہیں تو میرا ساتھ ایسا سلوک کیوں؟؟؟
آپؑ نے فرمایا کہ
ایک دن ہم تمھارے پاس مہمان بن کر آ ئے تھے جو تم نے کیا وہ تمھارے خاندان کی ریت تھی۔ آج مہمان بن کر تم ہمارے دروازے پر کھڑے ہو یہ نبئ مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاندان کی ریت ہے۔