🌹 اولیاء کرام کی مہمان نوازی:


💥 حضرت امامِ اعظم ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ:

حضرت امامِ اعظم ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کا معمول تھا کہ اپنے مہمان کے ہاتھ خود دھلاتے، اور فرماتے:
یہ سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔


💥حضرت ابوالحسن خرقانی رحمتہ اللہ علیہ:

حضرت ابوالحسن خرقانی کا قول ہے:
اگر دنیا جہان کی ساری نعمتیں لقمہ بنا کر مہمان کو کھلا دو تب بھی اس کا حق باقی رہے گا۔
جبھی تو انہوں نے اپنا طرزِ عمل یہ بنا لیا تھا کہ خود فرماتے ہیں:
چالیس سال سے میں نے اپنے لیے نہیں بلکہ ہمیشہ مہمانوں کیلیے کھانا طلب کیا اور خود کو ان کا طفیلی بنا لیا ہے۔


💥 حضرت شفیق بلخی رحمتہ اللہ علیہ:

حضرت شفیق بلخی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
مہمان سے زیادہ کوئی پسندیدہ نہیں کیونکہ اس کی روزی اللہ کے ذمہ ہوتی ہے اور میزبان کو خدمت کا صلہ ملتا ہے۔


💥 امام زعفرانیؒ کی مہمان نوازی:

ایک مرتبہ امام شافعیؒ بغداد میں امام زعفرانیؒ کے مہمان بنے۔ امام زعفرانی ؒ روزانہ امام شافعیؒ کی خاطر اپنی ایک باندی کو ایک پرچہ لکھا کرتے تھے، جس میں اس وقت کے کھانے کی تفصیل درج ہوتی تھی۔ امام شافعیؒ نے ایک وقت باندی سے پرچہ لے کر دیکھا اور اس میں اپنے قلم سے ایک چیز کا اضافہ فرما دیا۔
دسترخوان پر جب امام زعفرانیؒ نے وہ چیز دیکھی تو باندی پر اعتراض کیا کہ میں نے اس کے پکانے کو نہیں لکھا تھا۔ وہ پرچہ لے کر آقا کے پاس آئی اور پرچہ دکھا کر کہا کہ
یہ چیز حضرت امام شافعیؒ نے خود اپنے قلم سے اضافہ فرمائی تھی۔
امام زعفرانیؒ نے جب اس کو دیکھا اور حضرت امام شافعیؒ کے قلم سے اس میں اضافہ پر نظر پڑی تو خوشی سے باغ باغ ہو گئے اور اس خوشی میں اس باندی کو ہی آزاد فرما دیا۔
(احیاء العلوم)

(حاصل یہ کہ اگر ایسا کوئی خاص اور قریبی عزیز اور دوست ہو کہ جس کو میزبان بھی دل و جان سے خوب چاہتا ہو تو اُس صورت میں یقینا ایسی فرمائش بھی بڑے لطف کی بات ہے۔)


💥 امام مالکؒ کی اپنے شاگرد کی مہمان نوازی:

امام شافعیؒ جب امام مالکؒ کے یہاں جا کر بطورِ مہمان ٹھہرے تو امام مالکؒ نے نہایت عزت و احترام سے انہیں ایک کمرہ میں سلا دیا۔ سحر کے وقت امام شافعیؒ نے سنا کہ کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا اور بڑی ہی شفقت سے آواز دی۔
آپ پر خدا کی رحمت ہو، نماز کا وقت ہو گیا ہے۔
امام شافعیؒ فوراً اٹھے۔ دیکھا تو امام مالکؒ ہاتھ میں پانی کا بھرا ہوا لوٹا لئے کھڑے ہیں۔ امام شافعیؒ کو کچھ شرم محسوس ہوئی۔ امام مالکؒ نے نہایت محبت کے ساتھ کہا۔
بھائی! تم کوئی خیال نہ کرو۔ مہمان کی خدمت ہر میزبان کے لئے سعادت ہے۔

🌹غیر مسلم مہمانوں کی مہمان نوازی:


💥 ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ایک کافر مہمان آیا۔ اس کے لیے بکری کا دودھ لایا گیا وہ سارے کا سارا پی گیا۔ اس کے بعد دوسری بکری پھر تیسری بکری حتیٰ کہ سات بکریوں کا دودھ پی گیا مگر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کا بُرا نہ منایا، اس نے سیر ہو کر کھانا کھایا اور سو گیا، رات کو بستر پر پاخانہ کر دیا۔ شرم کے مارے صبح اٹھتے ہی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اجازت لئے بغیر نکل گیا۔ راستے میں پہنچا تو اسے خیال آیا کہ میں اپنی تلوار بھول آیا ہوں، جب تلوار لینے کے لئے واپس گھر پہنچا تو کیا دیکھتا ہے کہ امام الانبیاء حبیبِ کبریا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسکی غلاظت کو خود اپنے ہاتھوں سے دھو رہے ہیں۔ اس عادتِ کریمہ کو دیکھ کر اس سے رہا نہ گیا فوراً کلمہ پڑھ کر دائرہ اسلام میں داخل ہو گیا۔
(شعب الایمان)

💥 ایک شخص ابوعزیز بن عمیر جو جنگِ بدر میں قید ہوئے تھے، بیان کرتے ہیں کہ انصار مجھے تو پکی ہوئی روٹی دیتے تھے اور خود کھجوریں وغیرہ کھا کر گزارہ کر لیتے تھے۔ اور کئی دفعہ ایسا ہوتا کہ اگر ان کے پاس روٹی کا کوئی چھوٹا سا ٹکڑا بھی ہوتا تو وہ مجھے دے دیتے اور خود نہ کھاتے تھے اور اگر میں تامل کرتا تو اصرار کے ساتھ کھلاتے تھے۔
(ابنِ ہشام ذکر غزوہ بدر)


💥 جن اسیران جنگ کے پاس کپڑا نہ ہوتا ان کو مسلمان کپڑے بھی مہیا کرتے تھے۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاص ہدایات پر انصار و مہاجرین قیدیوں کے ساتھ بڑی محبت اور مہربانی کا سلوک کیا کرتے تھے۔ چنانچہ بعض قیدیوں کی اپنی شہادت ہے کہ
خدا بھلا کرے مدینہ والوں کا وہ ہم کو سوار کرتے اور خود پیدل چلتے تھے۔ ہم کو گندم کی پکی ہوئی روٹی کھلاتے۔ اور خود کھجوریں وغیرہ کھا کر گزارہ کر لیتے تھے۔
(بخاری)

🌹مہمان نوازی اور انعام و اکرام کے چند واقعات


💥سو بکریوں سے مہمان نوازی

امام ابو الفرج عبد الرحمن بن جوزی علیہ رحمۃ اللّٰہ نقل فرماتے ہیں:
حضرت سیدنا حسن بن محمد علیہ رحمۃ اللّٰہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت سیدنا ابو بکر عیاش علیہ رحمۃ اللّٰہ کو فرماتے سنا کہ ایک شخص نے حاتم طائی سے کہا:
کیا عربوں میں تجھ سے زیادہ بھی کوئی سخاوت کرنے والا ہے؟
اس نے کہا: ہر عربی مجھ سے زیادہ سخی ہے۔
پھر اس نے اپنا ایک واقعہ کچھ اس طرح بیان کیا:
ایک رات میں ایک عربی غلام کے ہاں مہمان بنا۔ اس کے پاس عمدہ قسم کی سو بکریاں تھیں۔ اس نے ایک بکری میرے لیے ذبح کی اور گوشت پکا کر میری ضیافت کی۔ جب اس نے بکری کا مغز میری طرف بڑھایا تو وہ بہت لذیذ تھا۔ میں نے کہا:
کتنا لذیذ ہے!
پھر وہ باہر چلا گیا اور بکریاں ذبح کر کے ان کا مغز پکا پکا کر مجھے کھلاتا رہا یہاں تک کہ میں خوب سیر ہو گیا۔ جب صبح ہوئی تو میں نے دیکھا کہ وہ اپنی سو کی سو بکریاں ذبح کر کے ان کا مغز مجھے کھلا چکا تھا۔ اب اس کے پاس ایک بکری بھی نہ تھی۔
سائل نے حاتم طائی سے کہا: اس کی میزبانی کا تم نے کیا صلہ دیا؟
اس نے کہا: اگر میں اپنی تمام چیزیں بھی اسے دے دیتا تو اس کے احسان کا بدلہ نہ چکا سکتا تھا۔
سائل نے کہا: وہ تو ٹھیک ہے لیکن تم نے اسے کیا دیا تھا؟ حاتم طائی نے کہا: میں اپنی پسندیدہ اونٹنیوں میں سے سو اونٹنیاں اسے دے دیں۔
(عیون الحکایات)


💥حاتم طائی کی مہمان نوازی

حاتم طائی کی سخاوت کا بہت شہرہ تھا، حاتم طائی کی اتنی مقبولیت سن کر عرب کا نوفل بادشاہ سوچ رہا تھا کہ اگر حاتم کی سخاوت اور مقبولیت اسی طرح بڑھتی رہی تو پھر لوگ اُس کی ہی طرف جائیں گے۔ کوئی اُس کی طرف نہ آئے گا۔ اس نے ایک بہادر اور طاقتور سپاہی سے کہا کہ وہ حاتم کو قتل کر دے، اس کے عوض اسے بھاری انعام ملے گا۔
بادشاہ نوفل کا بھیجا ہوا سپاہی ایک مہمان کے روپ میں حاتم کے محل پہنچ گیا۔
ایک رات جب سب لوگ سو رہے تھے۔ وہ سپاہی خاموشی سے حاتم کی خوابگاہ تک پہنچ گیا۔ اس نے دیکھا کہ حاتم گہری نیند سو رہا ہے۔ تو اس نے اپنی کمر سے بندھے خنجر کو نکالا اور پوری طاقت سے اُس پر وار کر دیا۔ عین اُسی وقت حاتم نے کروٹ لی اور سپاہی کا نشانہ چھوٹ گیا۔
اور وہ حاتم کے اوپر گر گیا۔ حاتم اس دوران نیند سے بیدار ہو چکا تھا۔ اس نے اپنے مہمان سپاہی کو قابو کر لیا اور اس سے پوچھا کہ اس نے ایسا کیوں کیا ہے؟؟؟
کیا اس کی مہمان نوازی میں کوئی کمی رہ گئی تھی؟؟؟
سپاہی نے حاتم کو صاف صاف بتا دیا کہ وہ یہاں کس لئے آیا تھا۔
حاتم نے اسے کہا مجھے قتل کر کے اگر تمہیں دولت ملتی ہے تو فورََا قتل کر دے۔ اس سے پہلے کے میرے ملازم آجائیں تم مجھے مار سکتے ہو۔ میں مزاحمت نہیں کروں گا۔
جبکہ سپاہی یہ سمجھ رہا تھا کہ اب اس کی موت آ گئی کیونکہ حاتم کی پکڑ سے اس کا نکل جانا ممکن نہیں تھا۔
حاتم کا یہ رویہ دیکھ کر سپاہی کہنے لگا: حضور مجھے معاف کر دیں، مجھ سے بہت بڑی غلطی ہوئی ہے۔ میں توبہ کرتا ہوں اور آئندہ سے ہمیشہ آپ کا وفادار رہوں گا۔
حاتم نے نہ صرف اسے معاف کر دیا بلکہ اشرفیوں سے بھری تھیلی بھی دی کیونکہ اُسے یہ گوارا نہیں تھا کہ اس کا مہمان اس کے گھر سے خالی ہاتھ جائے۔


💥مہمان نوازی و ایمانداری کا انعام

نوشیرواں عادل اکثر راتوں کو بھیس بدل کر رعایا کا حال دیکھا کرتا تھا۔ ایک رات وہ کسی زمیندار کے گھر پہنچا جو مہمان نوازی میں بہت مشہور تھا۔ نوشیرواں نے سوداگروں کے لباس میں اس کے گھر جا کر دستک دی تو شریف زمیندار خوشی سے دروازہ کھول کر اسے اندر لے گیا اور پورے شوق کے ساتھ مہمان کی خدمت کرنے لگا۔ کھانا کھلایا اور بستر بچھا کر دیا اور بہت دیر تک گپ شپ کرتا رہا۔ صبح بادشاہ نے چلنے کی تیاری کی تو اس نے چائے کے ساتھ ناشتہ لا کر مہمان سے پوچھا۔ کسی اور چیز کی خواہش ہو تو فرما دیجئے تاکہ وہ بھی حاضر ہو جائے۔ بادشاہ دیکھ چکا تھا کہ اس شخص کے مکان کے ساتھ پختہ انگوروں کا ایک عمدہ باغ موجود ہے مگر نہ رات کو اور نہ اب اس نے انگور کھلائے۔ اس لئے فرمایا؛
مجھے انگور بہت پسند ہیں۔ ہو سکے تو وہ بھی کھلا دیجئے۔
یہ سن کر زمیندار نے اپنے لڑکے سے کہا کہ تم فلاں زمیندار کے پاس جاؤ اور میرا سلام دے کر کہو کہ ایک دو سیر پختہ انگور ادھار کے طور پر دے دیجئے۔ بادشاہ نے پوچھا کہ آپ اپنے باغ سے انگور کیوں نہیں منگواتے؟؟؟
زمیندار نے کہا کہ ابھی سرکاری آدمی انہیں دیکھ کر سرکاری حصہ (مالگزاری) نہیں لے گیا اور جب تک وہ اپنا حق نہ لے لے مجھے ایک دانہ بھی کھانا اور کھلانا حرام ہے۔ بادشاہ تو اس کے برتاؤ ہی سے خوش تھا۔ اب یہ ایمانداری اور دیانت داری جو دیکھی تو اور بھی خوش ہو گیا اور ہمیشہ کے لئے باغ کی مالگزاری بالکل معاف کر دی۔

🌹 آدابِ میزبانی و مہمان نوازی:


🍃1. ضیافت میں نیک اور متقی لوگوں کو مدعو کیا جائے۔ فاسق و فاجر لوگوں کو دعوت میں نہیں بلانا چاہیے۔ حدیث پاک میں ہے:
مجلس صرف مومن کی کرو، اور تیرا کھانا صرف متقی کھائیں۔
(ترمذی)

🍃2. ضیافت میں صرف اغنیاء اور امراء ہی کو نہ بلایا جائے بلکہ غرباء و فقراء کو بھی مدعو کیا جائے۔

🍃3. ضیافت سے مقصود فخر نہ ہو بلکہ اس سے مقصود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان سے پہلے آنے والے انبیاء علیہم السلام کی سنت کی اتباع ہو۔

🍃4. جس ضیافت میں دعوت دی جائے اس کی قبولیت میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔ ہاں اگر کوئی عذر ہو تو حرج نہیں۔ کیونکہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمانِ عالیشان ہے:
جس کو دعوت دی جائے اس دعوت کو قبول کرنا چاہیے۔

🍃5. ضیافت خواہ امیر کی ہو یا غریب کی، دونوں کو قبول کرنا چاہیے۔ کیونکہ فقیر و غریب کی دعوت قبول نہ کرنے میں اس کی دل آزاری ہو گی اور اظہارِ تکبر بھی ہو گا۔ اور تکبر اللہ رب العزت کو نہایت ناپسند ہے۔

🍃6. ضیافت کو قبول کرنے میں اپنے مسلمان بھائی کا اکرام اور اس کی دلجوئی کی نیت ہونی چاہیے۔ تاکہ بارگاہِ خداوندی میں مومن کا اکرام کرنے کا ثواب بھی حاصل ہو سکے۔

🍃7. جب دو دعوت دینے والے اکٹھے ہو جائیں تو اس بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد یہ ہے کہ
جس کا دروازہ قریب ہو اس کی دعوت قبول کرو کیونکہ دونوں میں سے جس کا دروازہ قریب ہے وہ دونوں میں سے قریب کا پڑوس ہے اور اگر دونوں میں سے ایک پہلے دعوت دے تو جو سبقت کرے اس کی دعوت قبول کرو۔
(ابو داؤد)

🍃8. مہمان بغیر اجازت کسی اور شخص کو ساتھ نہ لے کر آئے۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب کہیں مدعو ہوتے اور کوئی شخص بغیر بلائے ساتھ ہو جاتا تو آپ اس کو لے لیتے مگر میزبان کے گھر پہنچنے پر میزبان سے اس کیلئے اجازت طلب فرماتے اور اجازت حاصل کرنے پر ہمراہ رکھتے۔

🍃9. میزبان کو چاہیے کہ مہمان کو طویل انتظار میں نہ بٹھائے رکھے اور مہمان کو چاہیے کہ وہ کافی دیر پہلے آ کر نہ بیٹھ جائے کیونکہ اس سے اہلِ خانہ کو اذیت و تکلیف ہو گی۔

🍃10. کھانے کی محفل میں نہایت متواضع طریقے سے آنا چاہیے۔ اور صاحبِ خانہ جہاں بٹھائیں وہاں بیٹھ جانا چاہیے۔

🍃11. دسترخوان پر کھانا داہنی طرف سے شروع کیا جائے۔
اگر پیارے آقائے دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی مجلس میں تشریف فرما ہوتے اور کسی ہمنشیں کو کوئی چیز کھانے یا پینے کی عنایت فرماتے اور داہنی طرف بیٹھنے والے کو اس کا زیادہ حقدار سمجھتے تو اس کو دیتے اور اگر بائیں جانب بیٹھنے والے کو عنایت فرمانا چاہتے تو داہنی طرف والے سے اجازت لے لیتے، یہ ترتیب اور یہ عمل ہمیشہ ملحوظ رہتا۔ گویا بائیں طرف کا آدمی کتنی بڑی شخصیت کا ہوتا۔
(بخاری، مسلم)

🍃12. حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:
جب ضیافت و مہمان نوازی کے لیے سفرہ (دسترخوان) بچھا دیا جائے تو کوئی فرد بھی اس وقت تک اس دسترخوان سے نہ اٹھے جب تک کہ وہ دسترخوان (میزبان کی طرف سے) اٹھا نہ دیا جائے۔ اور نہ ہی (میزبان یا کوئی اور شریکِ طعام) اپنا ہاتھ روکے، چاہے وہ سیر ہی کیوں نہ ہو جائے، حتیٰ کہ مہمان فارغ ہو جائے اور (مزید کھانے سے) معذرت چاہے، کیونکہ (ممکن ہے) آدمی کے ہاتھ روک لینے سے مہما ن بھی ہاتھ روک لے۔ جب کہ ابھی اسے اور کھانے کی احتیاج ہو یا (وہ یہ سوچ ) کر شرمندہ ہو جائے (کہ اسے دوسروں سے زیادہ کھانے والا سمجھا جائے گا)۔
(ابن ماجہ)

🍃13. مہمان کے آنے پر سب سے پہلے اس سے سلام دعا اور خیر و عافیت معلوم کرنی چاہیے۔

🍃14. جب کوئی شخص کسی کے ہاں مہمان ہو کر آئے تو وہ تین دن سے زیادہ نہ رہے۔ کیونکہ حدیث شریف میں ہے کہ
مہمان کی مدت تین دن ہے۔ اس کے بعد مہمان نہیں بلکہ صدقہ ہے۔

🍃15. مہمان کو چاہیے کہ میزبان کے پاس اتنا عرصہ نہ ٹھہرے کہ وہ تنگ آ جائے۔

🍃16. امام جزری رحمتہ اللہ علیہ کا قول ہے۔
ایک دن رات تک مہمان نوازی میں تکلف ہونا چاہے۔ اس کے بعد تکلف کی ضرورت نہیں، جو کچھ تیار ہو وہی مہمان کے آگے رکھا جائے۔

🍃17. مہمان جب واپس آئے تو صاحبِ خانہ سے اجازت لے کر واپس آئے۔

🍃18. میزبان کو چاہیے کہ مہمان کو رخصت کرنے کیلیے اس کے ساتھ گھر کے دروازے تک جائے۔ اس سے مہمان کی عزت افزائی ہوتی ہے.
✨ حدیث پاک میں ہے:
آدمی کا مہمان کے ساتھ گھر کے دروازے تک جانا سنت ہے۔
(ابنِ ماجہ)

🍃19. مہمان کو چاہیے کہ وہ میزبان کے ہاں خوش وخرم جائے اگرچہ مہمان نوازی میں کچھ کمی ہی باقی رہ گئی ہو۔ حسنِ اخلاق کا یہی تقاضا ہے۔

🍃20. مہمان کو میزبان کے ہاں کھانا کھا کر دعا دینی چاہیے۔
✨آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت سعد بن عبادہؓ کے ہاں کھانے کے بعد دعا دیتے ہوئے یوں فرمایا:
تمھارا کھانا نیک لوگ کھائیں۔ فرشتے تم پر رحمتیں بھیجیں اور روزو دار تمھارے ہاں افطار کریں۔

🍃21. مہمان کے آنے پر خوشی اور محبت کا اظہار کرنا چاہیے۔ اور نہایت خوش دلی، وسعتِ قلب اور عزت و اکرام کے ساتھ اس کا استقبال کرنا چاہیے۔

🍃22. مہمان کے کھانے پینے پر مسرت محسوس کرنی چاہیے۔ تنگ دلی اور کوفت محسوس نہیں کرنی چاہیے۔ مہمان زحمت نہیں بلکہ رحمت اور خیر و برکت کا ذریعہ ہوتا ہے اور خدا جس مہمان کو بھیجتا ہے اس کا رزق بھی اتار دیتا ہے، وہ دستر خوان پر میزبان کی قسمت کا نہیں کھاتا بلکہ اپنی قسمت کا کھاتا ہے اور میزبان کے اعزاز و اکرام میں اضافہ کا باعث بنتا ہے۔

🍃23. اگر آنے والے مہمان نے کبھی کسی موقع پر آپ کے ساتھ بے مروتی اور روکھے پن کا سلوک کیا ہو تب بھی آپ اس کے ساتھ نہایت فراخ دلی، اعلیٰ ظرفی اور فیاضی کا سلوک کریں۔

🍃24. مہمان سے اپنے حق میں خیر و برکت کی دعا کے لئے درخواست کرنی چاہیے۔ بالخصوص اگر مہمان نیک، دین دار اور صاحبِ فضل ہو۔

🍃25. کسی کے ہاں مہمان بن کر جائیں تو ہو سکے تو حسبِ حیثیت میزبان یا میزبان کے بچوں کے لیے تحفے تحائف لیتے جائیں۔ تحفوں اور ہدیوں کے تبادلے سے محبت اور تعلق کے جذبات بڑھتے ہیں اور تحفہ دینے والے کے لئے دل میں گنجائش پیدا ہوتی ہے۔