🌹 حضرت بلالؓ کا ایمان افروز واقعہ:



حضرت بلالؓ ان اولین لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے شروع میں اسلام قبول کیا اور جن کو دنیا میں ہی جنت کی بشارت دے دی گئی تھی۔
آپؓ مکہ میں پیدا ہوئے جبکہ بنیادی طور پر آپکا تعلق ابی سنیا سے تھا، جسے آجکل ایتھوپیا کے نام سے جانا جاتا ہے۔ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تین برس بعد پیدا ہوئے اور آپ کا پورا نام بلال بن ابی رباح ہے۔ ان کی والدہ کا نام روایات میں حمامہ آیا ہے۔

▪صحابہ اور روایات کے مطابق ان کا رنگ سیاہ تھا، قد اونچا اور کسی قدر دُبلے پتلے تھے لیکن جب صحابہ ان کی خصوصیات بتاتے تو کہتے تھے کہ وہ صادق القلب تھے، ایک ایسے انسان جنہوں نے سب کچھ محنت اور جدوجہد سے حاصل کیا اور یہ سب اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کا نتیجہ تھا۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانب سے حضرت بلال کو دو لقب یا دو خدمات عطا ہوئیں ایک الحازن (خزانچی) اور دوسرا مؤذنِ رسول (صلی للہ علیہ وآلہ وسلم)۔

✨ ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت بلال کو تمام مؤذنوں کا سردار کہا ہے۔

▪حضرت بلال رضی اللہ کا تعلق بنی جہر سے تھا، ان کی والدہ ایک غلام تھیں جن کو امیہ بن خلف نے خریدا تھا۔ امیہ بن خلف اسلام کا سخت دشمن تھا۔ جب حضرت بلالؓ اسلام لائے تو حضرت بلالؓ پر ظلم کرنا امیہ بن خلف کا روز کا معمول بن گیا تھا۔

⚡تپتی ریت پر لٹا کر بھاری سے بھاری چٹانیں ان کے اوپر رکھی جاتیں اور ساتھ ہی ساتھ ان کے جسم پر کوڑے برسائے جاتے کہ وہ ان کے باطل معبودوں کو تسلیم کریں لیکن حضرت بلالؓ کی زبان سے احد احد کے سوا کچھ نہ نکلتا۔

⚡حضرت بلالؓ کو بھوکا رکھا جاتا۔ اور ان کے کپڑے اتروا کر انہیں لوہے کے زرہ پہنا دی جاتی۔ اور شدید تپتی ریت پر لٹا دیے جاتے تو کبھی دہکتے کوئلوں پر۔
جسم پر زخم بن کر خون رسنے لگتا۔

⚡جب دھوپ اور کوڑوں کی سزا بھی کارگر نہ ہوئی تو امیہ بن خلف نے حضرت بلالؓ کے گلے میں رسی باندھ کر بنو جمع کے لڑکوں کے سپرد کر دیا۔ جو حضرت بلالؓ کو پتھریلے راستوں پر اوپر نیچے گھسیٹتے پھرتے۔
حضرت بلالؓ اٹھنے کی کوشش کرتے تو بچے کبھی رسی سے گردن کو جھٹکا دے کر گرا دیتے اور کبھی ٹھوکریں ماری جاتیں۔ نوکیلے کنکروں سنگریزوں پر سارا دن گھسٹتے پھرتے تو جسم لہو لہان ہو جاتا۔

🍂ایک دن امیہ بن خلف نے ظلم کی انتہا کر دی کہ حضرت بلالؓ کو لات و عزیٰ پر ایمان لانے کیلیے مجبور کیا۔
حضرت بلالؓ نے فرمایا:
میں تو لات و عزیٰ سے بیزار ہو گیا ہوں۔ وہ خدا نہیں ہیں، خدا تو صرف وہ ہے جس نے ہم سب کو پیدا کیا، وہی ہمارا رازق ہے۔

⚡یہ سن کر بدبخت امیہ بن خلف غصے سے بے قابو ہو کر حضرت بلالؓ کے سینہ مبارک پر بیٹھ گیا اور آپؓ کا گلا دبانے لگا۔ یہاں تک کہ حضرت بلالؓ بے حس و حرکت ہو گئے۔ صبح سے شام تک آپؓ بے ہوش رہے۔ جب ہوش آیا تو امیہ بن خلف نے پھر لات و عزیٰ پر ایمان لانے کا کہا۔ حضرت بلالؓ کی زبانِ مبارک سے تب بھی احد احد نکل رہا تھا۔

⚡حضرت ابوبکر صدیقؓ کا وہاں سے گزر ہوا تو وہ حضرت بلالؓ کی بدحالی دیکھ کر تڑپ اٹھے اور بھاگتے ہوئے بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے اور ظلم و ستم کی یہ داستان سنا ڈالی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چشمانِ اطہر بھیگ گئیں۔

💫حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم پر حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے اپنے ایک رومی غلام فسطاط اور چالیس اوقیہ چاندی کے عوض حضرت بلالؓ کو امیہ بن خلف سے خرید لیا۔

▪آپؓ ان سات صحابہ میں سے ہیں جنہوں نے اپنے اسلام کا اعلان کیا۔ حضرت بلالؓ ہمیشہ بات کرتے ہوئے یہی کہتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ فرمایا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ فرمایا، ان سے کوئی اور بات کی جاتی تو کچھ دیر وہ بات کرتے مگر پھر یہیں آ جاتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ فرمایا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے تھے:
بلالؓ کوئی بھی بات مجھ سے منسوب کر کے کہیں تو اس کے بارے میں کسی شک میں مت پڑنا۔

▪حضرت بلالؓ ان اصحاب میں سے ہیں جن کو دنیا ہی میں جنت کی بشارت دے دی گئی تھی اور یہ ایک وجہ ہی کافی تھی کہ لوگ ان کی بے پناہ عزت کرتے، ان کی تعریف کرتے اور جب ایسا ہوتا، حضرت بلالؓ اپنے سر کو جھکا لیتے، جاننے والے جانتے تھے کہ ان کی تعریف کی جا رہی ہے لیکن سر جھکا کر حضرت بلالؓ کی آنکھوں سے اشک جاری ہوتے تھے۔ وہ کہتے تھے میں تمہیں بتاؤں میں کیا ہوں؟؟؟
میں ایک حبشی ہوں اور میں ایک غلام تھا اور ایک غلام ہوں، اللہ کا غلام۔



: 💫 ایک بار ایک قبیلے کے کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے اور کہا کہ
اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! میری بیٹی کی شادی کسی سے کر دیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
بلال کے بارے میں کیا خیال ہے؟؟؟
وہ لوگ پھر آئے پھر کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! میری بیٹی کی شادی کسی سے کر دیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
بلال کے بارے میں کیا خیال ہے؟؟؟
وہ لوگ تیسری بار پھر آئے اور پھر یہی کہا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر جواب دیا، بلال کے بارے میں کیا خیال ہے؟؟؟ جو کہ جنتی ہے۔

✨ ایک حدیث میں ہے کہ
جنت، حضرت بلالؓ کا انتظار کرتی ہے۔

ایک مسلمان کی حیثیت سے ہم جنت کا انتظار کرتے ہیں جبکہ جنت خود حضرت بلال کا انتظار کرتی ہے۔

🌷 ایک بار فجر کی نماز کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت بلالؓ سے پوچھا کہ
تم ایسا کیا کرتے ہو کہ کل رات میں نے جنت میں اپنے آگے تمہارے قدموں کی آواز سنی۔
حضرت بلالؓ نے جواب دیا؛
یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! جب بھی میرا وضو ٹوٹتا ہے میں دوبارہ وضو کر کے دو رکعت نفل ادا کرتا ہوں۔

🌷 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ کی چھت پر جا کر اذان دینے کے لئے بُلایا تو کسی اور کو نہیں بلکہ حضرت بلالؓ کو کہا، ورنہ وہاں وہ دس صحابہ موجود تھے جن کو دنیا میں جنت کی بشارت مل گئی تھی، وہ اصحاب موجود تھے جو بدر میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ شریک ہوئے، وہ چار خلفائے راشدین موجود تھے جن میں سے دو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے داماد اور دو کی بیٹیاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج تھیں لیکن یہ مقام اللہ نے حضرت بلالؓ کے لئے رکھا تھا۔


⚡ ایک صحابی نے ایک بار حضرت بلالؓ کو ایک حبشی عورت کا بیٹا کہہ کر بُلایا جو حضرت بلال رضی اللہ کو گراں گزرا، حضرت بلالؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے اور ساری بات بتائی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان صحابی سے فرمایا کہ
تمہارے اندر اب تک زمانہ جاہلیت کی باتیں موجود ہیں؟؟؟
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا،
میں جتنا ایک سفید عورت کا بیٹا ہوں اتنا ہی ایک کالی عورت (حضرت حلیمہ سعدیہ) کا بیٹا بھی ہوں۔

اذان دیتے وقت جب اشہد ان محمد الرسول اللہ پر آتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر سے نکل کر مسجد کی طرف آتے تھے۔ پھر جب علالت کا وقت آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے امامت کے لئے آیا نہ جا سکا تو حضرت بلالؓ خود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بلانے جاتے، کبھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود آتے، کبھی کسی نے سہارا دیا ہوتا۔ یہ دیکھ کر حضرت بلالؓ فرماتے کہ
کیا ہی دکھ اور غم کے دن ہیں، اگر یہ دن ہی دیکھنا تھا تو میری ماں نے مجھے پیدا ہی نہ کیا ہوتا۔ یا اے کاش! میں یہ دن دیکھنے سے پہلے مر گیا ہوتا۔
پھر یوں بھی ہوا کہ حضرت بلال رضی اللہ اذان دیتے ہوئے غم سے بے ہوش ہو گئے۔

⚡ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال پر جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جسمِ مبارک ابھی وہیں تھا حضرت بلالؓ نے اذان دینے کی کوشش کی لیکن جب اشہد ان محمدالرسول اللہ پر پہنچے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر سے نہ نکلے تو یہ منظر اس قدر غمناک تھا کہ اذان دیتے ہوئے حضرت بلالؓ کو ہچکی لگ گئی، وہ اتنا روئے کہ باقی تمام صحابہ کو بھی رُلا دیا۔ اگلے تین روز تک مسلسل آپ نے اذان دینے کی کوشش کی لیکن اشہد ان محمد الرسول اللہ پر پہنچ کر ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ جاتے تھے، اس لئے آپ رضی اللہ نے مدینہ چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔ اور جہاد کے لئے روانہ ہو گئے۔

💫 ایک رات خواب میں دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما رہے تھے کہ بلالؓ! تم نے میرے پاس آنا چھوڑ دیا؟؟؟
حضرت بلال رضی اللہ نے اسی وقت مدینہ کا ارادہ کیا اور مسجدِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہوئے۔ حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہم نے دیکھا تو اذان دینے کی فرمائش کی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسوں کی فرمائش کو نہ ٹال سکے اور اذان دینا شروع کی، مدینہ میں کہرام مچ گیا، کچھ نے کہا کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم واپس آگئے!!! لوگ اتنا روئے کہ داڑھیاں تر ہو گئیں، کہتے ہیں مدینہ کی فضا اس سے زیادہ سوگوار پہلے کبھی نہ ہوئی تھی۔ یہ واقعہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے کافی بعد پیش آیا تھا، حضرت بلالؓ نے دوبارہ کوشش کی کہ مدینہ میں ہی رہیں لیکن وہ مدینہ کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بغیر دیکھنا ہی نہیں چاہتے تھے، اس لئے واپس چلے آئے۔

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹 🌹


🌹حضرت خباب بن الارت رضی اللہ عنہ کشتۂ عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم:


حضرت خباب بن الارت رضی اللہ عنہ کا شمار سابقین اولین میں ہوتا ہے۔ آپ مشرک اور اسلام دشمن عورت اُم انمار بنت سباع الخزعیہ کے غلام تھے۔

حضرت خباب رضی اللہ عنہ بن الارت کے اسلام قبول کرنے کے زمانہ میں اسلام کا اظہار مکہ میں اتنا بڑا جرم تھا کہ اس جرم کے بدلے مال دولت عزت و ناموس سب کُچھ کھونا پڑتا تھا لیکن حضرت خباب بن ارت نے اس کی پروا نہیں کی اور بہادری سے اسلام کا اظہار کیا۔

⚡امِ انمار بنتِ سباع الخزعیہ کو جب اپنے غلام کے بارے میں پتہ چلا کہ شمعِ ایمان آپ کے سینے میں روشن ہوچکی ہے اور آپ چوری چھپے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملتے رہتے ہیں تو اس نے اس نور کو بجھانے کے لئے ظلم وبریریت کی حد کر دی۔ وہ آپ کے سر کو لوہا تپا کر داغتی لیکن اسے کیا خبر تھی کہ جو ایک دفعہ محبوب کی زلفوں کا اسیر ہو جائے وہ ایسی سزاؤں کو خاطر میں نہیں لاتا۔

💫 حضرت خبابؓ چونکہ غلام تھے اور کوئی آدمی ان کی مدد کرنے والا نہیں تھا۔ یہی وجہ تھی کہ جب وہ ایمان لائے تو کفار نے ان کو مشقِ ستم بنایا اور ان کو بڑی درد ناک سزائیں دیتے اور ان کو ننگی پیٹھ کر کے دہکتے انگاروں پہ لیٹا دیتے اور اوپر ایک بھاری پتھر رکھ دیتے۔ اوپر سے ایک آدمی مسلتا رہتا اور اس وقت تک انگاروں پر کباب ہوتے جب تک کہ زخموں کی رطوبت خود آگ کو ٹھنڈا نہ کر دیتی تھی۔

🔥 اس کشتۂ وفا کو دامنِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وابستہ ہونے سے روکنے کے لئے طرح طرح کے حربے آزمائے جاتے رہے لیکن ان کے پائے استقلال میں ذرا بھی لغزش نہ آئی۔ انہیں شدت کی گرمی میں لوہے کی ذرہ پہنا کر دھوپ میں پھینک دیا جاتا اورکبھی برہنہ بدن جھلستی ہوئی ریت پر چت لٹا دیا جاتا، جس سے ان کی کمر کا گوشت تمازتِ آفتاب سے جھلس کر رہ جاتا مگر ایمان کی قندیل جو حضرت خباب رضی اللہ عنہ کے دل میں فروزاں تھی اس کی لَو ذرا مدھم نہ ہوئی۔

⚡ کسی نے حضرت خباب رضی اللہ عنہ کی حالتِ زار کی خبر حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کر دی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ رب العزت کی بارگاہ میں ان کے حق میں دعا کرتے ہوئے فرمایا :

✨ اللھم! انصرخباباً
اے اللہ! خباب کی مدد فرما!
(حلبی، السيرة الحلبيه، 1 : 482)

💫 نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس دعا کا فوری اثر یہ ہوا کہ حضرت خباب رضی اللہ عنہ کی مالکہ اُم انمار کو سر میں شدید درد کے دورے پڑنے شروع ہو گئے اور اس کی یہ حالت ہو گئی کہ وہ شدت درد سے کتے کی طرح بھونکتی تھی۔ کسی نے اسے مشورہ دیا کہ اس درد میں کمی کے لیے سر کو داغنا کارگر ہو گا۔
اور اس مشورہ پر عمل کرنے کے لئے حضرت خباب رضی اللہ عنہ کو اس کام پر مامور کیا گیا اور وہ اس کو لوہے کی گرم سلاخ سے داغتے رہے۔

⚡ حضرت خباب رضی اللہ عنہ پیشہ کے اعتبار سے لوہار تھے۔ ایک دفعہ عاص بن وائل نامی مشرک نے ان سے لوہے کا کام عاریتاً کرایا لیکن جب انہوں نے طے شدہ رقم ادا کرنے کا مطالبہ کیا تو عاص بن وائل نے نہایت ڈھٹائی سے یہ کہہ کر رقم دینے سے انکار کر دیا کہ میں اس وقت تک واجب الادا رقم نہیں دوں گا جب تک تم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے سے انکار نہیں کر دیتے۔ اگر تم منحرف ہو گئے تو تمہیں تمہارا واجب الادا قرض لوٹا دوں گا ورنہ نہیں۔

✨ اس پر اس پیکرِ وفا نے یہ کہہ کر اس کافر کا منہ بند کر دیا:
میں ہرگز ہرگز حبیبِ خدا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انکار نہیں کروں گا حتیٰ کہ تو مر کر دوبارہ زندہ کیا جائے ۔
(بخاری٬ مسلم)

⚡ اس پر وہ لعین بولا کہ جب میں دوبارہ اپنے مال و اولاد کے ساتھ زندہ ہو کر آؤں گا تو تجھے تیرا ادھار ادا کر دوں گا۔

✨ اس کی کفر آمیز گفتگو کی مذمت میں قرآن مجید کی مندرجہ ذیل آیات نازل ہوئیں:
کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا ہے جس نے ہماری آیتوں سے کفر کیا اور کہنے لگا کہ مجھے (قیامت کے روز بھی اسی طرح) مال و اولاد ضرور دیئے جائیں گےo وہ غیب پر مطلع ہے یا اُس نے (خدائے) رحمٰن سے (کوئی) عہد لے رکھا ہےo ہرگز ہرگز نہیں! اب ہم وہ سب کچھ لکھتے رہیں گے جو وہ کہتا ہے اور اس کے لئے عذاب (پر عذاب) خوب بڑھاتے چلے جائیں گےo اور (مرنے کے بعد) جو یہ کہہ رہا ہے اس کے ہم ہی وارث ہوں گے اور وہ ہمارے پاس تنہا آئے گا (اس کے مال و اولاد ساتھ نہ ہوں گے)o
(سورة مريم،: 77 - 80)


حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ حضرت خباب رضی اللہ عنہ کی اس وفاداری کے باعث ان سے بہ دل و جاں محبت کرتے تھے۔ ایک دفعہ انہوں نے آپ کو اپنی مسند پر بٹھانے کا اعزاز بخشا۔

⚡ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے کفار کے ہاتھوں پہنچنے والی اذیت کی تفصیل دریافت کی تو حضرت خباب بن ارت نے اپنی کمر سے قمیض ہٹا کر امیرالمؤمنین حضرت عمر فاروق رضّی اللہ عنہ کو دکھائی تو تپائے ہوئے سونے کی طرح سنگ دل قریش کے ظلم وستم کا سکہ آپ کی پیٹھ پر چمک رہا تھا۔

✨ خلیفۃ المسلمین نے ان کی کمر دیکھ کر فرمایا :
میں نے تو آج تک کسی کی ایسی کمر نہیں دیکھی۔

✨ اس کے جواب میں حضرت خباب رضی اللہ عنہ نے یہ تفصیل آپ رضی اللہ عنہ کے گوش گذار کی:
مجھے آگ کے انگاروں پر ڈال کر گھسیٹا جاتا تھا حتی کہ میری کمر کی چربی (اور خون) سے وہ آگ بجھتی تھی۔
(ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، 3 : 164، 2165)

🔥 یہ حسنِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کشش اور دلآویزی تھی کہ جو ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زلفِ گرہ گیر کا اسیر ہو جاتا پھر خواہ اس کا جسم پرزے پرزے کیوں نہ کر دیا جاتا تو اسے کوئی پروا نہ ہوتی، عشق کا نشہ ایسا نہیں تھا کہ جسے کوئی ترشی اتار سکتی۔

⚡ حضرت خباب رضی اللہ عنہ نے 37ھ میں وفات پائی اور کوفہ میں دفن ہوئے۔

💫 ایک دفعہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا ان کی قبر سے گزر ہوا تو انہوں نے اس عاشقِ زار کی شان میں ارشاد فرمایا:
اللہ تعالیٰ حضرت خباب پر رحم فرمائے، اپنی خوشی سے اسلام لائے اور خوشی سے ہجرت کی اور جہاد میں زندگی گزار دی اور (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانے پر کفار و مشرکین کی طرف سے) جسمانی اذیتیں برداشت کیں۔
(هيثمي، مجمع الزوائد، 9: 299)