🌹غلاموں کے ساتھ حسنِ سلوک کی اہمیت


خادم یا غلام اپنے آقا کی خدمت کیلیے اپنے آپ کو وقف کیے رکھتا ہے۔ اس کے ہر حکم کو بجا لانے اور اس کی تکمیل کی ہر ممکن حد تک کوشش کرتا ہے۔ اس لیے آقا کے ذمہ بھی غلام کے تئیں کچھ حقوق لازم ہوتے ہیں۔ ایسا ہر گز نہیں کہ آقا تو اپنے غلام سے ہر طرح کی خدمت لے اور خود غلام کے حقوق کی ادائیگی سے خود کو بری الذمہ سمجھے۔ اکثر دیکھنے میں یہی آتا ہے کہ غلام سے تو خدمت لی جاتی ہے لیکن غلام کے حقوق ادا کرنے میں آقا کی طرف سے بہت کمی اور کوتاہی رہ جاتی ہے۔

▪حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خادموں اور غلاموں کی حقوق کی اہمیت پر اس قدر زور دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی زندگی کے آخری لمحات میں بھی نماز جیسے اہم اسلامی رکن کے ساتھ ساتھ غلاموں اور خادموں کے حقوق کی ادائیگی کی تلقین اور وصیت فرمائی۔

✨ حضرت امِ سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے مرضِ وفات میں فرماتے رہے؛
نماز کا اہتمام کرنا اور غلاموں کا خیال رکھنا اور مسلسل یہی فرماتے رہے حتیٰ کہ آپ(صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کی زبان مبارک رکنے لگی۔
(ابن ماجہ)

🌹 غلاموں سے عفو و درگزر:


غلاموں اور ماتحتوں سے بے جا سختی سے گریز کیا جائے نہ یہ کہ انہیں ہدفِ تنقید بنایا جائے اور ان کو کھری کھری سنائی جائیں۔ ذرا ذرا سی، معمولی معمولی سی غلطی پر گرفت نہ کی جائے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عمل اس حوالے سے ہمارے لئے اسوہ اور نمونہ ہے۔

✨ اسی لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
برتنوں کے ٹوٹنے پر اپنے خادموں کو نہ مارو، کیوں کہ تمہاری عمر کی طرح برتنوں کی بھی عمر ہوتی ہے۔
(کنزالعمال)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہاں خادموں سے کسی غلطی کے سرزد ہونے پر ان کو مارنے پیٹنے پر تنبیہ فرمائی اور خود مخدوم کی تسلی کا سامان یوں فرمایا کہ اس سے کہا:
تم کو افسوس اس برتن کے ٹوٹنے پر نہیں کرنا چاہئے کہ یہ برتن اپنے مدت عمر کے ختم پر ٹوٹ گیا ہے۔

✨ حضرت ابنِ عمر رضی اللہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! اپنے خادم کی غلطیاں کس حد تک ہمیں معاف کرنا چاہئے، اس نے دو مرتبہ پوچھا؛
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خاموشی اختیار کی، پھر جب اس نے تیسری دفعہ عرض کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
ہر روز ستر مرتبہ
(ابوداؤد)

✨ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا معمول تھا کہ ہر ہفتہ عوالی مدینہ تشریف لے جاتے، وہاں کسی غلام کو مشقت انگیز کام میں مشغول پاتے تو اس کے کام میں ہاتھ بٹاتے۔
(موطامالک)

✨ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے ایک شخص کو دیکھا وہ سواری پر سوار ہے اور اس کا غلام پیچھے دوڑا جا رہا ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اس سے فرمایا:
اس کو اپنے پیچھے سوار کر لو چونکہ یہ تمہارا بھائی ہے، اس کی روح اور جان بھی تمہارے مثل ہے، اس نے اس کو سوار کر لیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
جس قدر آدمی کے پیچھے آدمی چلتے ہیں اسی قدر بندہ اللہ سے دور ہوتا جاتا ہے۔
(احیا علوم الدین للغزالی)

🌹 غلاموں کی تنبیہ میں اعتدال:


غلاموں سے اگر غلطی سرزد ہو جائے تو غلطی پر ان کو تنبیہ کی جا سکتی ہے، لیکن تنبیہ کا انداز یوں ہو کہ اس کی اصلاح بھی ہو جائے اور اسے تکلیف بھی نہ ہو۔ چہرے یا نازک جگہوں پر نہ مارے۔
✨ چنانچہ اسی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
معاف کر دو، اگر انہیں سزا بھی دو تو ان کی غلطی کے بقدر، چہرہ پر مارنے سے اجتناب کرنا۔
(کنزالعمال)

✨ اور ابنِ عساکر کی روایت میں ہے کہ
دو ضعیفوں کے سلسلے میں اللہ سے ڈرنا، ایک غلام اور دوسرے عورت۔
(کنز العمال)

✨ حضرت عائشہؓ اس تعلق سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عمل کا ذکر کرتے ہوئے فرماتی ہیں:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کبھی اپنے ہاتھ سے کسی عورت یا خادم کو نہیں مارا۔
(مسلم)

جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کبھی خدام کو نہیں مارا اسی طرح حضراتِ صحابہ کو بھی ان کے مارنے سے منع فرمایا۔

✨ حضرت ابومسعود انصاری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ
میں اپنے غلام کو مار رہا تھا تو میں نے اپنے پیچھے سے آواز سنی ابومسعود! جان لے کہ اللہ تجھ پر تیری اس پر قدرت سے زیادہ قادر ہے، میں متوجہ ہوا تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے۔
میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! وہ اللہ کی رضا کے لیے آزاد ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، اگر تو ایسا نہ کرتا تو جہنم کی آگ تجھے جلا دیتی یا تجھے چھو لیتی۔
(مسلم)

اس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غلام کو مارنے کا کفارہ اس کی آزادی قرار دیا، اسی رحمت و شفقت کا نتیجہ تھا کہ غلامی کا سلسلہ ہی ختم ہو گیا۔

✨ حضرت زاذان سے روایت ہے کہ
ابنِ عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے غلام کو بلوایا اور اس کی پیٹھ پر نشان دیکھے تو اس سے کہا کہ میں نے تجھے تکلیف پہنچائی ہے؟؟؟
اس نے کہا؛ نہیں۔
تو ابنِ عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا؛ تو آزاد ہے۔ پھر ابنِ عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے زمین سے کوئی چیز اٹھائی اور فرمایا:
میرے لیے اس کے آزاد کرنے سے اس کے وزن کے برابر بھی اجر و ثواب نہیں؛ کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا؛ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے تھے کہ جس نے اپنے غلام کو بغیر قصور کے مارا یا اسے تھپڑ رسید کیا تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ اسے آزاد کر دے۔
(مسلم)

🌹 کام کی مقدار کا تعیین ہو:


خادم کے کام کی مقدار بھی متعین ہونی چاہئے، نہ کہ خادم اور مزدور سے اس کی وسعت اور طاقت سے زیادہ کام لے کر اس کو گراں بار اور بوجھل کر دیا جائے۔

✨ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
غلام سے ایسا کام نہ لو جو ان کی طاقت اور قوت سے باہر ہو۔
( موطا امام مالک)

⚡مثلا اصولِ صحت کے اعتبار سے جن کاموں کو چھ گھنٹے کیا جا سکتا ہے ان کے چھ گھنٹے، اور جن کاموں کو آٹھ گھنٹے کیا جا سکتا ہے ان ملازمین کی آٹھ گھنٹے کی ڈیوٹی ہو گی۔
⚡بعض لوگ کم عمر بچوں اور بوڑھوں سے ان کی طاقت اور قوت سے زیادہ کام لیتے ہیں۔ یہ قانوناً جرم ہے۔
⚡مستقل ملازمین کے لئے ہفتہ میں ایک دن تعطیل اور رشتہ داروں سے ملاقات کے لئے بھی رخصت ہونا چاہئے۔
(رد المحتار:3,80)

💫 کام میں اس کا ہا تھ بٹانا
💫 پورے کام کا بوجھ اسی پر نہ ڈالنا
مثلًا وہ کسی بوجھ کو اٹھا رہا ہے اور اس کے اٹھانے میں اس کو کافی مشقت ہو رہی ہے تو تھوڑا ہاتھ خود بھی لگائے۔

✨ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خادم کے کام میں ہاتھ بٹانے پر اجر وثواب کا وعدہ فرمایا ہے۔

🌹 تنخواہ یا اجرت وقت پر ادا کریں:


خادم چونکہ انسان ہی ہیں، ان کے بھی اہل و عیال ہیں، ان کی اپنی ذاتی ضروریات ہیں، اس لئے ان کی اُجرت اور محنتانہ کو وقت مقررہ پر ادا کریں، ٹال مٹول نہ کریں۔

✨ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُجرت اور محنتانہ کی ادائیگی بعُجلت ادا کرنے کو یوں فرمایا:
مزدور کو اس کی اجرت اس کے پسینہ خشک سے پہلے ادا کرے۔
(سنن ابنِ ماجہ)

یعنی کام کی تکمیل پر یا وقتِ مقررہ پر اجرت کی ادائیگی کا اہتمام کیا جائے۔


▪اجرت کی ادائیگی میں ٹال مٹول پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سخت وعیدیں ارشاد فرمائی ہیں۔

✨ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
تین شخص ایسے ہیں قیامت کے دن میں ان کا دشمن ہوں گا، ان میں سے ایک وہ شخص ہے جو کسی مزدور کو اجرت پر رکھے، اس سے پورا کام لے اور اسے اُجرت نہ دے۔
(بخاری)


🌹 عدل و مساوات:


نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خادموں اور غلاموں کے طبقہ کو جو اس وقت بالکل حقیر اور کمتر سمجھا جاتا تھا، ان کے مقام کو بلند کر کے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھائیوں کے درجے تک پہنچایا ، یعنی ایک انسان جس طرح اپنے بھائی کے ساتھ مساوات اور برابری کا برتاؤ کرتا ہے، غلاموں کے ساتھ اسی طرح کا سلوک کرنے کی تاکید فرمائی۔

✨ چنانچہ اس حوالہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
تمہارے خدمت گزار تمہارے بھائی ہیں جنہیں اللہ تعالی نے تمہارے ہاتھوں (قبضہ) میں دے دیا ہے، اس لیے جس کا بھائی اس کے قبضہ میں ہو تو اسے وہی کھلائے جو خود کھاتا ہے اور اسے ویسا ہی پہنائے جیسا خود پہنتا ہے، ان کو ایسے کام کی تکلیف نہ دو جو ان سے نہ ہو سکے اور اگر انہیں تکلیف دو تو ان کی مدد کرو۔
(بخاری)

▪ حضرت ابو ذر غفار رضی اللہ عنہ جو مقام ربذہ میں رہتے تھے۔

✨ حضرت معرور رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میری حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مقام ربذہ میں ملاقات ہوئی۔ وہ اور ان کا غلام ایک ہی قسم کا لباس پہنے ہوئے تھے۔ میں نے ان سے اس بارے میں پوچھا (کہ کیا بات ہے آپ کے اور غلام کے کپڑوں میں کوئی فرق نہیں ہے)۔ اس پر انہوں نے یہ واقعہ بیان کیا کہ ایک مرتبہ میں نے اپنے غلام کو بُرا بھلا کہا اور اسی سلسلے میں اس کو ماں کی غیرت دلائی۔ (یہ خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پہنچی) تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
ابوذر! کیا تم نے اس کو ماں کی غیرت دلائی ہے؟؟؟ تم میں ابھی جاہلیت کا اثر باقی ہے۔ تمہارے ماتحت (لوگ) تمہارے بھائی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو تمہارا ماتحت بنایا ہے۔ لہٰذا جس کے ماتحت اس کا بھائی ہو، اس کو وہی کھلائے جو خود کھائے اور وہی پہنائے جو خود پہنے۔ ماتحتوں سے وہ کام نہ لو جو ان پر بوجھ بن جائے اور اگر کوئی ایسا کام لو تو ان کا ہاتھ بٹاؤ۔
(بخاری)

▪یہ صحابئ رسول حضرت ابو ذر ہیں۔ جنہوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان کی اتباع میں کہ غلاموں اور ماتحتوں اور خادموں کو وہی پہناؤ جو تم پہنتے ہو، اپنا ہی جیسا کپڑا خادم کے لئے بنوایا، یہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تربیت کا نتیجہ تھا، ہم اس وقت اس قدر برابری نہیں کر سکتے تو کم از کم اتنا تو کر ہی سکتے ہیں کہ ان کی خدمت کا جو اجر ہے۔ وہ تو برابر دیں۔ ان کے ذمہ مشکل کام ڈال کر محض کھڑے دیکھتے نہ رہیں؛ بلکہ اس مشکل کام میں اس کی کچھ معاونت کریں، کیوں کہ مشکل کام کے انجام دینے میں اس کو بھی ایسی ہی مشقت ہوتی ہے جیسی ہمیں مشقت ہوتی ہے۔


🌹 جو خود کھائے، غلام کو بھی کھلائے:


دوسری قوموں کے لوگ اپنے غلاموں کو کھانے کے لیے بس اتنا ہی دیتے جس سے ان کی سانس برقرار رہے اور ان سے مشقت کے کام اتنے لیے جاتے کہ وہ بے دم ہو کر رہ جاتے۔ لیکن یہ اسلام کا کارنامہ ہے کہ اس نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ تم اپنے غلاموں کو وہی کھلاؤ اور پہناؤ جو تم خود کھاتے اور پہنتے ہو۔

✨ ایک حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
تمہارے بھائی تمہارے خدمت گار ہیں، اللہ نے انہیں تمہارے ماتحت کر دیا ہے، پس جس شخص کا بھائی اس کے ماتحت ہو، اسے چاہیے کہ جو چیز خود کھائے، اسی میں سے اسے بھی کھلائے اور جو پوشاک خود پہنے ویسا ہی اسے بھی پہنائے اور ان پر کوئی ایسا بوجھ نہ ڈالے جو ان کی طاقت سے زیادہ ہو اور اگر ان کی طاقت سے زیادہ کام لیا جائے تو پھر ان کی مدد کر دیا کرو۔
(صحیح بخاری)

▪ ہر انسان الگ الگ خصوصیت اور صلاحیت کا حامل ہے۔ کوئی اپنی خوبیوں سے بہت جلد اپنے مالک کا محبوب بن جاتا ہے اور کوئی ایسا کرنے میں ناکام ہوتا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس سے نفرت کی جائے اور اس کے ساتھ زیادتی کی جائے۔ غلاموں کے اندر بھی ایسا ہو سکتا ہے، اس کی بنا پر انہیں مارنا، پیٹنا نہیں چاہیے اور نہ ان کے ساتھ امتیازی سلوک کرنا چاہیے۔

✨ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
اور جو غلام تمہارے منشاء کے مطابق ہو اس کو تم وہی کھلاؤ اور پہناؤ جو تم خود کھاتے اور پہنتے ہو اور جو غلام منشاء کے برعکس ہو اس کو بیچ دو اور اللہ کے بندوں کو عذاب نہ دو۔
(سنن ابو داؤد)

▪شارح مسلم علامہ نووی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:
اس حدیث میں جو حکم دیا گیا ہے کہ مالک جو کھائے اور پہنے وہی غلام کو کھلائے اور پہنائے، یہ واجب نہیں بلکہ مستحب ہے، اس پر علماء کا اجماع ہے۔ واجب یہ ہے کہ رائج دستور کے مطابق اسے کھلائے اور پہنائے اور اس کی دیگر ضروریات کی تکمیل کی جائے اور اگر مالک اپنے تقویٰ یا بخل کی بنا پر رائج دستور یا معیار سے ہٹ کر زندگی گزار رہا ہے تو غلاموں کو اسے قبول کر لینے کے لیے مالک مجبور نہیں کر سکتا اور علماء کا اس بات پر بھی اجماع ہے کہ غلام کی طاقت سے زیادہ کام نہ لیا جائے اور اگر اس طرح کا بوجھ ڈالا جائے تو الگ سے اس کی مدد کر دی جائے۔
(یحی بن شرف نووی شرح صحیح مسلم)

▪جو خود کھائیے اس سے ان کو بھی کھلایئے
بہت سارے گھروں میں خادم اور خادمائیں کام کرتی ہیں، محنت و جستجو سے، گرمی کو سہہ کر، آگ کی تپیش کو برداشت کر کے وہ اپنے مالک اور اس کے اہل وعیال کے لئے لذیذ اور مزیدار اور مرغن غذائیں تیار کرتے ہیں، ان کو بھی اس میں کچھ ضرور کھلایئے، یہ نہیں کہ وہ تو نوکر اور خادم ہیں ، وہ کھانے پکانے اور خدمت کی تنخواہ پاتے ہیں، بلکہ جس کھانے کو ہم بڑے مزے سے کھا رہے ہیں۔ انہوں نے اس کے لئے اپنے آپ کو لگایا ہے، کھپایا ہے، تب کہیں جا کر یہ کھانا تیار ہوا ہے۔ پکانے کی بعد ان کو بھی اشتہاء ہوتی ہی ہو گی، وہ بھی انسان ہیں۔ اس لئے ان کو بھی شریکِ طعام کرلیا جائے۔ ورنہ کچھ نہ کچھ اس میں سے ان کو ضرور دیں۔

✨ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
”جب تم لوگوں میں سے کسی کا خادم اس کے لیے کھانا تیار کر کے لائے تو چونکہ اس نے کھانے کی تیاری میں آگ کی گرمی اور دھوئیں کی تکلیف اٹھائی ہے، اس لیے اس کو اپنے ساتھ بٹھا کر کھلانا چاہیے اور اگر کھانا کم ہو تو تب بھی اس کے ہاتھ پر ایک دو لقمے رکھ دینا چاہیے۔
(صحیح البخاری)

🌹 غلام کو غلام کہہ کر نہ پکارا جائے:


اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غلاموں کو غلام کہہ کر پکارنے سے بھی منع کیا ہے۔ اس میں حقارت کا جو پہلو مضمر ہے وہ واضح ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غلاموں کے لیے بڑے ہی خوب صورت القاب وضع کیے اور لوگوں کو اس پر عمل کرنے کی ہدایت فرمائی۔

✨ تم میں سے کوئی میرا غلام یا میری باندی نہ کہے اور نہ غلام میرارب کہے۔
مالک کو میرے بچے، میری بچی کہنا چاہیے اور غلام کو چاہیے کہ میراسردار یا سردارنی کہے۔ کیوں کہ تم سب مملوک ہو اور رب تو سب کا اللہ تعالیٰ ہے۔
(سن ابوداؤد)

▪ غلامی انسان کی فطرت میں داخل نہیں، یہ ایک اتفاقی حادثہ ہے۔ اسلام نے اس کی وجہ سے غلاموں کو دل برداشتہ ہونے سے روکا ہے اور ان کے لیے حوصلہ افزا الفاظ استعمال کیے ہیں۔ آج کی نام نہاد مہذب قوم غلامی کی لعنت ختم کرنے کے باوجود اپنے ماتحت لوگوں کے ساتھ بڑا ہی اذیت ناک رویہ اختیار کرتی ہے اور انہیں کسی خاطر میں نہیں لاتی اور ان کے ساتھ جس زیادتی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے اس کے ذکر سے بھی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ جب کہ اسلام اپنے خادموں کو بھی گھر کا ایک فرد شمار کراتا ہے۔

⚡یہی وجہ ہے کہ اسلام کے ابتدائی دنوں میں غلام اپنے لیے آزادی کی بجائے غلامی کو ہی پسند کرتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ آزادی کے بعد انہیں وہ حمایت نہیں مل سکے گی اور اس استحسان کی نظر سے محروم ہو جائیں گے جو انہیں غلامی کی حالت میں حاصل ہے۔ آزادی کے بعد وہ خود ذمہ دار ہوں گے، جب کہ غلامی کی صورت میں معاشرہ ان کا محافظ ہے۔

🌹 غلاموں کے لیے دعا کرنا:


کوئی انسان کسی کی خدمت کرتا ہے، اس کے راحت و آرام کا سامان کرتا ہے تو مخدوم تو حقیقت میں خادم کا صلہ اور بدلہ نہیں دے سکتا، تھوڑا سا معاوضہ و خرچ یہ خدمت کا صلہ نہیں ہو سکتا، اس لئے خادموں کو کم از کم دعاؤں سے نوازتے رہنا چاہئے۔

✨ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت انس رضی اللہ کو جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خادمِ خاص تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو تین دعاؤں سے سرفراز فرمایا:
عمر میں برکت کی، مال میں برکت کی، اولاد میں برکت کی۔

▪ اس دعا کا اثر یہ ہوا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:
میں نے طویل عمر فرمائی، ۱۱۰ ھ میں انتقال فرمائے، مال میں برکت کا اثر یوں ظاہر ہوا کہ سب کے باغ مدینہ میں سال میں ایک دفعہ پھل دیتے تو میرے باغ دو دفعہ دیا کرتے، اولاد میں یوں برکت ہوئی کہ آپ رضی اللہ عنہ کی صلبی اولاد کی تعداد علامہ شمس الدین ذہبی کی صراحت کے مطابق 106تک پہنچ گئی تھی۔
(سیرأعلام النبلائ: ۳؍۳۹۹، بیروت)

✨ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچازاد بھائی ہیں، ایک موقع پر انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کی خدمت کی تو انہیں یوں دعا مرحمت فرمائی:
حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں تھے، میں نے رات کے وقت ان کے لئے وضو کا پانی رکھا، حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا نے بتایا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! یہ پانی آپ کے لئے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے رکھا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اے اللہ! اسے دین کی سمجھ عطا فرما اور کتاب کی تاویل و تفسیر سمجھا۔
(مسند احمد)

▪ نتیجہ یہ ہوا کہ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ بڑے محقق اور فقیہ کہلائے، اور تفسیر اور علمِ قرآن میں آپ رضی اللہ عنہ کو جو درجہ اور مقام حاصل ہے وہ ظاہر و طباہر ہے، آپ رضی اللہ عنہ امام المفسرین کے نام سے جانے جاتے ہیں۔

💫 اس لئے مخدوم کو چاہئے کہ وہ خادموں کو اس طرح خدمت پر دعاؤں سے نوازتے رہے، کبھی طبیعت کے خلاف خادم کی جانب سے کوئی امر درپیش ہو جائے تو صبر و ضبط سے کام لے۔ ایسا نہیں کہ اس کے حق میں بددعا کے الفاظ استعمال کئے جائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خادموں کے حق میں بددعا کرنے سے منع فرمایا ہے کہ کبھی قبولیت کی گھڑی ہو سکتی ہے۔ جس سے اس کی دنیا اور عقبیٰ خراب ہو سکتی ہے۔

✨ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
بددعا نہ کرو اپنے اوپر، نہ اپنی اولاد پر، نہ اپنے خادموں پر، اور نہ اپنے مالوں پر کیونکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ گھڑی ایسی ہو جس میں دعا قبول ہوتی ہے۔
(ابوداؤد)

🌹 غلاموں کی آزادی پر اجر و ثواب:


اسلام کے ابتدائی عہد میں غلاموں کو بیک وقت آزاد بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ لیکن انفرادی طور پر مسلمانوں کو ترغیب دی گئی کہ وہ اپنے غلاموں کو ازخود آزاد کر دیں تو عنداللہ وہ اجر و ثواب کے مستحق ہوں گے۔

غلام اور لونڈیاں خدمت گاری اور منافع حاصل کرنے کے اہم ذرائع تھے۔ اس لیے مالک انہیں آسانی سے الگ کرنے کو تیار نہیں ہو سکتے تھے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بڑے ہی حکیمانہ انداز میں انہیں غلاموں کی آزادی پر آمادہ کیا۔

✨ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
جو شخص کسی مسلمان غلام کو آزاد کر دے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے ہر عضو کے بدلہ میں اس آزاد کرنے والے کے ہر عضو کو آتش دوزخ سے بچائے گا۔
(صحیح البخاری)

💫 اسی جذبہ کے تحت صحابہ کرامؓ نے بڑی تعداد میں غلاموں کو آزاد کرنا شروع کر دیا۔
بلکہ صحابہ کرامؓ آخرت میں بلند مقام حاصل کرنے کے لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کرتے کہ غلام تو بہت سارے ہیں اور ان میں ہر قسم کے غلام ہیں، کس طرح کے غلام کو آزاد کرنے پر زیادہ ثواب ملے گا۔

✨صحابہ کرامؓ کے اس جوش آزادی کو دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے:
جو غلام تم کو سب سے زیادہ محبوب ہو اور جو غلاموں میں سب سے اچھا ہو۔
(صحیح البخاری)