🌹پیارے آقائے دو عالم علیہ الصلوٰة والسلام کے غلاموں کے ساتھ حسنِ سلوک کے واقعات:



💥 حضرت انسؓ کے ساتھ حسنِ سلوک:


حضرت انس رضی اللہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نو سال تک مسلسل خدمت کی، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سایہ کی طرح لگے رہے، جن کی وساطت سے امتِ مسلمہ کو ہزاروں حدیثیں ملیں۔ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنے ساتھ حسنِ سلوک اور برتاؤ کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو حضرت ابوطلحہ رضی اللہ تعالی عنہ نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف لے کر چل پڑے اور عرض کرنے لگے:
اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! انس عقلمند لڑکا ہے۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت کرے گا، حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے سفر اور حضر میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت کی۔ اللہ کی قسم! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی کام کے بارے میں جو میں نے کیا ہو کبھی نہیں فرمایا کہ تو نے یہ کام اس طرح کیوں کیا اور نہ ہی اس کام کے بارے میں جس کو میں نے کیا ہو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں فرمایا کہ یہ کام تو نے کیوں نہیں کیا۔
(مسلم)

✨ اور ایک روایت میں ہے:
مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دس سال تک خدمت کا شرف حاصل ہوا۔ اللہ کی قسم! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے کبھی بھی اف تک نہیں فرمایا اور نہ ہی کبھی یہ فرمایا کہ تو نے یہ کام کیوں کیا اور یہ کام کیوں نہیں کیا۔
(مسلم)

✨ اور ایک روایت کے الفاظ ہیں:
مجھے نو سال تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت کا شرف حاصل ہوا ہے میں نہیں جانتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کبھی فرمایا ہو تو نے یہ کام اس طرح کیوں کیا اور نہ ہی کبھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کوئی نکتہ چینی کی۔
(مسلم)

✨ اور ایک روایت میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسنِ اخلاق کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام لوگوں سے زیادہ اچھے اخلاق والے تھے۔ ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے کسی کام کے لئے بھیجا میں نے کہا:
اللہ کی قسم! میں نے نہیں سوچا تھا کہ نہیں جاؤں گا اور میرے جی میں یہ بات تھی کہ جس کام کا اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے حکم فرمایا ہے۔ اس کے لئے میں ضرور جاؤں گا تو میں نکلا، میں کچھ ایسے بچوں کے پاس سے گزرا جو بازار میں کھیل رہے تھے اچانک میں کیا دیکھتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیچھے سے میری گدی پکڑے ہوئے ہیں۔ حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ میں نے آپ صلی اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسکرا رہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
اے انس! کیا تم وہاں گئے تھے؟ جہاں جانے کا میں نے تجھے حکم دیا تھا۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا:
جی ہاں اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! میں اب جا رہا ہوں۔
(مسلم)

✨ یہ حضرت انس رضی اللہ عنہ خادمِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں، یہ اپنی زبانی ارشاد فرماتے ہیں کہ
میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نو سال کی مدت تک خدمت کی۔ کبھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی کام کے تعلق سے لعن طعن کرنا، برا بھلا کہنا تو دور کا رہا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کبھی مجھے اف تک نہیں کہا، نہ کسی میرے کام پر نکتہ چینی یا عیب جوئی فرمائی، ایک مرتبہ تو یوں ہوا کہ کسی کام سے آپ نے انس رضی اللہ عنہ کو بھیجا، وہ کھیل کود میں مصروف ہو گئے، خود تلاش کرتے ہوئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کچھ نکیر نہ فرمائی، خدمت میں کوتاہی پر حرف زنی نہ کی، بلکہ انداز تخاطب میں بھی کچھ تبدیلی نہیں لائی؛ بلکہ رحیمانہ ومشفقانہ انداز میں جس کو عربی میں ’’تصغیر ‘‘ کہا جاتا ہے مخاطب فرمایا: اے انیس چھوٹے بچوں کو بطور محبت کے اس طرح پکارا جاتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بجائے ڈانٹنے اور غصہ کرنے کے محبوبانہ انداز میں صرف استفسار فرمایا کہ وہاں نہیں گئے جہاں میں نے بھیجا تھا، خدام کے ساتھ حسنِ سلوک کے تعلق سے ان واقعات میں بہت کچھ درس عبرت موجود ہے۔

💥حضرت زید بن حارثہؓ کے ساتھ حسنِ سلوک:


حضرت زید بن حارثہؓ بھی ایک آزاد خاندان کے فرد تھے۔ راستے میں سفر کرتے ہوئے کسی نے پکڑا اور بیچ دیا، یہ حضرت خدیجہؓ کی ملکیت میں آئے انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں آزاد کر دیا لیکن وہ آزادی کے بعد بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں رہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں متبنّٰی یعنی منہ بولا بیٹا بنا لیا تھا اور وہ اس وقت تک حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منہ بولے بیٹے رہے جب تک اس کی ممانعت کے احکامات نازل نہیں ہوئے۔ یہ واحد صحابی ہیں جن کا نام قرآن کریم میں ہے۔ حضرت زید بن حارثہؓ کے خاندان کو معلوم ہوا تو وہ لوگ انہیں ڈھونڈتے ہوئے وہاں پہنچ گئے۔

یہ وہ وقت تھا جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زید بن حارثہؓ کو آزاد کر چکے تھے۔ خاندان کے لوگ آئے کہ ہمارا ایک بچہ تھا جسے کچھ لوگوں نے غلام بنا کر بیچ دیا ہے۔ ہم اس کی تلاش میں ہیں، اس طرح وہ زید بن حارثہؓ تک پہنچ گئے۔ خاندان والوں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا کہ ہم اسے واپس لے جانا چاہتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ
میری طرف سے کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔

⚡ خاندان کے لوگ چچا اور بھائی وغیرہ آئے اور کہا کہ ہمارے ساتھ چلو۔ حضرت زید بن حارثہؓ نے کہا یہ ٹھیک ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے خاندان کے لوگ ہیں۔ چچا ہیں، تایا ہیں، بھائی ہیں۔ لیکن جو کچھ میں نے یہاں دیکھا ہے مجھے کائنات میں اور کہیں نہیں ملے گا، میں یہ گھر چھوڑ کر کہیں نہیں جاؤں گا۔

💫ایک غلام کے ساتھ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسنِ سلوک کی یہ ایک بہترین مثال ہے کہ آزاد ہونے کے بعد بھی کہہ رہے ہیں کہ میں تو غلام ہی بہتر ہوں۔ پہلے غلام بنانے سے بنا تھا اب اپنی مرضی سے بن رہا ہوں۔ اس غلامی سے مراد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت تھی کہ انہوں نے اپنے آپ کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خادم بنانے میں سعادت سمجھی۔ یہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حسنِ سلوک تھا کہ ایک اجنبی غلام جسے اس کا خاندان مل جاتا ہے لیکن وہ اپنے خاندان کے ساتھ جانے کے بجائے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں رہنے کو ترجیح دیتا ہے۔

💥قیدی شہزادی کے ساتھ حسنِ سلوک:


ایک غزوہ میں جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فتح حاصل ہوئی اور مخالف قبیلے کے لوگ قیدی ہو کر آگئے جن میں غلام بھی تھے اور لونڈیاں بھی۔

⚡حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حصے میں قبیلے کے سردار کی بیٹی آ گئی، کسی نے کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! اس شہزادی کو اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی بیوی ہونے کا اعزاز دیں تو پورا قبیلہ مسلمان ہو سکتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ٹھیک ہے۔ میں شہزادی کو آزاد کرتا ہوں۔ آزاد کرنے کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شادی کی پیشکش کی تو شہزادی نے اسے اپنے لیے ایک بہت بڑا اعزاز سمجھا اور ہاں کر دی۔

یہ ام المؤمنین حضرت جویریہؓ تھیں۔
جب یہ شادی ہوئی تو صحابہؓ نے سوچا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سسرال والے ہماری غلامی میں رہیں، یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ چنانچہ تمام صحابہؓ نے بالاتفاق یہ فیصلہ کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سسرال کی کوئی بندی یا کوئی بندہ ہماری غلامی میں نہیں رہے گا۔

✨حضرت جویریہؓ سے لوگ کہا کرتے تھے کہ
تم اپنے خاندان کے لیے کتنی خوش قسمت ثابت ہوئی ہو کہ خود ام المؤمنین بن گئی ہو اور تمہارا قبیلہ نہ صرف تمہاری وجہ سے آزاد ہوا بلکہ مسلمان بھی ہو گیا۔

🌹غلاموں سے حسنِ سلوک کے چند واقعات:


💥 حضرت عمرؓ کا لونڈی کو آزاد کرنا:

ایک روایت میں ہے کہ ایک لونڈی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئی۔ اس کو اس کے مالک نے آگ سے جلا کر زخمی کر دیا تھا، حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اس کو آزاد کروا دیا۔
(موطا مام مالک)

💥 حقوق کی پاسداری:

ایک دفعہ حضرت امیر المومنین علیہ السلام کھجوروں کی دکان سے گزرے، اچانک ایک کنیز کو روتے ہوئے دیکھا تو اس سے سوال کیا:
تو کیوں روتی ہے؟؟؟
اس نے کہا:
میرے آقا نے مجھے ایک درہم دیکر کھجور خریدنے کے لئے بھیجا تھا، میں نے اس شخص سے کھجور خریدے اور اپنے آقا کی خدمت میں لے گئی، لیکن اس کو پسند نہیں آئے اور اس نے مجھے واپس کرنے کے لئے بھیجا ہے لیکن یہ شخص واپس نہیں کرتا ہے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے دکان والے سے کہا:
اے بندۂ خدا! یہ ایک خادمہ ھے اور اس کا کوئی اختیار نہیں ہے، اس کا درہم واپس کر دے اور کھجور واپس لے لے، (یہ سن کر) کھجور بیچنے والا اپنی جگہ کھڑا ہوا اور اس نے آپ کو گھونسا مارا۔
(یہ دیکھ کر وہاں موجود) لوگوں نے کہا:
(یہ تو نے کیا کیا) یہ امیر المومنین ہیں؟
یہ سن کر وہ دکان والا لمبے لمبے سانس لینے لگا اور اس کے چہرے کا رنگ زرد پڑ گیا، اور اس نے کنیز سے کھجور واپس لئے اور اس کو درھم لوٹا دیا۔ اس کے بعد اس نے کہا:
یا امیر المومنین! (مجھے معاف کر دیں) اور مجھ سے راضی ھو جائیں، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
اس سے زیادہ اور کون سی چیز مجھے راضی کر سکتی ہے کہ تو نے اپنی اصلاح کرلی ھے؟؟؟

آپ نے ارشاد فرمایا کہ:
میں اس صورت میں تجھ سے راضی ھوتا ھوں کہ تو تمام لوگوں کے حقوق کو مکمل طور پر ادا کر دے۔
(مناقب، بحار الانوار)

💥 ابنِ عمرؓ کا غلام آزاد کرنا:

زادان ابو عمر سے روایت ہے کہ میں ابنِ عمر رضی اللہ عنہ کے پاس گیا، انھوں نے (اس وقت) ایک غلام آزاد کیا تھا۔ (مجھے دیکھا) تو زمین سے کوئی لکڑی یا کوئی چیز اٹھائی اور کہنے لگے اس غلام کو آزاد کرنے میں میرے لیے اس جتنا بھی اجر نہیں ہے۔ میں نے تو اس کو صرف اس لیے آزاد کیا ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ
جس نے اپنے غلام کو تھپڑ مارا یا اُس کی پٹائی کی، اُس کے گناہ کا کفارہ یہ ہے کہ وہ اُسے آزاد کر دے۔
(مسلم)

💥 غلام کا آقا کو قتل کرنا:

ایک غلام کو حضرت علیؓ کے سامنے لایا گیا جس نے اپنے آقا کو قتل کر ڈالا تھا، مولائے کائنات نے غلام سے پوچھا:
کیا تم نے اپنے آقا کو قتل کیا ہے ؟؟؟
غلام نے کہا؛
ہاں میں نے قتل کیا ہے۔
آپ علیہ السلام نے پوچھا کیوں؟؟؟
غلام نےکہا کہ میرے آقا نے میرے ساتھ فعل بد کیا تھا۔
حضرت نے میت کے ورثاء سے پوچھا؛
تم لوگوں نے اسے دفن کر دیا ہے؟؟؟
ان لوگوں نے کہا؛ جی ابھی ابھی دفن کر کے آرہے ہیں۔
یہ مقدمہ خلیفہ ثانی کے دربار میں ہوا تھا تو حضرت نے خلیفہ ثانی سے کہا کہ اس لڑکے کو تین دن تک بغیر کسی سزا کے جیل میں رکھو، اور پھر فرمایا:
تین دن بعد میرے پاس آنا، جب تین دن گزر گئے تو ورثاء خلیفہ ثانی کے ساتھ مولائے کائنات کے پاس گئے تو آپ نے فرمایا:
مقتول کی قبر پر چلو،
جب وہاں پہنچے تو آپ نے فرمایا کہ قبر کو کھولو اور مردہ کو باہر نکالو، لیکن جب قبر کو کھولا گیا تو میں قبر میں میت کا نام و نشان نہ تھا، جب مولائے کائنات کو بتایا کہ قبر خالی ہے تو آپ نے فرمایا:
اللہ اکبر! رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے صحیح فرمایا تھا کہ جو شخص بھی میری امت میں سے قوم لوط والا عمل انجام دے گا اور اس حالت میں مر جائے گا تو وہ قبر میں تین دن سے زیادہ نہ رہے گا زمین اس شخص کو قوم لوط کی طرف پھینک دے گی۔
(حضرت علی کے فیصلے ،مؤلف محمد وصی خان،ص۱۹۳)

💥 عمر بن الحکمؓ کا لونڈی کو مارنا:

عمر بن الحکم رضی اللہ تعالی عنہ اپنا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنی لونڈی کے بارے میں عرض کیا کہ وہ میری بکریاں چراتی ہے۔ ایک دن ایک بکری گم ہو گئی۔ میں نے سبب پوچھا تو اس نے کہا کہ بھیڑیے نے کھا لیا۔مجھے بہت افسوس ہوا، انسان ہی تھا غصہ آ گیا اور لونڈی کے چہرے پر تھپڑ مار دیا۔ کیا اسی آن اس کو آزاد کر دوں؟؟؟
رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو بلا کر پوچھا:
اللہ کہاں ہے؟؟؟
اس نے کہا؛ آسمان پر۔
پھر پوچھا:
میں کون ہوں؟؟؟
اس نے کہا؛ آپ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
اس کو آزاد کر دو۔
(موطا امام مالک)


💥 معاویہ بن سوید کا غلام کو مارنا:

معاویہ بن سوید روایت کرتے ہیں کہ میرے گھر ایک غلام تھا، میں نے اس کو مارا، پھر والد کے خوف سے گھر سے بھاگ گیا، ظہر کے وقت آیا اور والد کے پیچھے نماز پڑھی۔ بعد نماز والد نے مجھ کو اور غلام کو بلایا، غلام کو حکم دیا کہ تم اپنا بدلہ لے لو۔ اس نے مجھ کو معاف کر دیا۔ اس کے بعد والد نے یہ واقعہ بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں ہمارے خاندان بنی مقرن میں صرف ایک غلام تھا، ہم میں سے کسی نے اس کو مار دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معلوم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
اس کو آزاد کر دو۔
لوگوں نے عرض کیا؛
اس کے سوا ہمارے پاس اور کوئی خادم نہیں ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
اچھا، جب تک دوسرے خادم کا انتظام نہ ہو جائے اس سے کام لو، لیکن جیسے ہی انتظام ہو جائے اس کو آزاد کر دو۔
(صحیح مسلم)