🌹استاد شاگرد کے حقوق:



معلّمِ کائنات نے انسانیت کی راہنمائی اور تعلیم کے لیے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام کو معلّم و مربّی بنا کر بھیجا۔ ہر نبی شریعت کا معلّم ہونے کے ساتھ ساتھ کسی ایک فن کا ماہر اور معلّم بھی ہوتا تھا۔ جیسے

✨ حضرت آدمؑ دنیا میں زراعت، صنعت و حرفت کے معلّمِ اوّل تھے۔
✨ کلام کو ضبط تحریر میں لانے کا علم سب سے پہلے حضرت ادریسؑ نے ایجاد کیا۔
✨حضرت نوحؑ نے لکڑی سے چیزیں بنانے کا علم متعارف کروایا۔
✨ حضرت ابراہیمؑ نے علم مناظرہ اور
✨ حضرت یوسفؑ نے علم تعبیر الرؤیا کی بنیاد ڈالی۔

▪خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معلّم کو انسانوں میں بہترین شخصیت قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے۔
(بخاری)

معلّم کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بشارت حضرت ابو ہریرہؓ نے ان الفاظ میں روایت کی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا؛
غور سے سنو، دنیا اور دنیا میں جو کچھ ہے وہ اللہ کی رحمت سے دُور ہے البتہ اللہ کا ذکر اور وہ چیزیں جو اللہ تعالی سے قریب کریں یعنی نیک اعمال، عالم اور طالبِ علم (یہ سب چیزیں اللہ کی رحمت سے دور نہیں ہیں)۔
(ترمذی)

▪استاد ہونا ایک بہت بڑی نعمت اور عظیم سعادت ہے۔ معلّم کو اللہ اور اس کی مخلوقات کی محبوبیت نصیب ہوتی ہے، مخبر صادق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے استاد کی محبوبیت کو ان الفاظ میں بیان فرمایا کہ
لوگوں کو بھلائی سکھانے والے پر اللہ، اس کے فرشتے، آسمان اور زمین کی تمام مخلوقات یہاں تک کہ چیونٹیاں اپنے بِلوں میں اور مچھلیاں پانی میں رحمت بھیجتی اور دعائیں کرتی ہیں۔
(ترمذی)

▪اساتذہ کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی کہ
اللہ تعالیٰ اس شخص کو خوش و خرم رکھے، جس نے میری کوئی بات سنی اور اسے یاد رکھا اور اس کو جیسا سنا اسی طرح لوگوں تک پہنچایا۔
(ابو داؤد)

💫 استاد افراد کی تربیت کر کے ایک مہذب معاشرہ تشکیل دیتا ہے گویا بادشاہ لوگوں پر حکومت کرتے ہیں جب کہ بادشاہوں پر معلّمین کی حکومت ہوتی ہے۔

✨ پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشادِ مبارک منصبِ تدریس کی اہمیت کو مزید واضح کر دیتا ہے کہ
جس شخص نے لوگوں کو خیر کی طرف بلایا، لوگوں کے اجر کے برابر اس کو بھی اجر ملے گا اور لوگوں کے اجر میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی۔
(مسلم)

▪ معلّم کا فرض سب سے اہم اور اس کی ذمہ داری سب سے مشکل ہے۔ مصورِ پاکستان، شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال ؒ نے معلّم کی حیثیت، عظمت اور اہمیت کو بہت احسن انداز میں بیان کیا ہے کہ استاد دراصل قوم کا محافظ ہوتا ہے کیونکہ آئندہ آنے والی نسلوں کو سنوارنا اور ان کو ملک و ملت کی خدمت کے قابل بنانا ان ہی کے سپرد ہے۔ سب محنتوں میں اعلٰی درجے کی محنت اور کارگزاریوں میں سب سے بیش قیمت کارگزاری معلّموں کی ہے۔ معلّم کا فرض سب سے زیادہ مشکل اور اہم ہے کیونکہ تمام قسم کی اخلاقی، تمدنی اور مذہبی نیکیوں کی کلید اس کے ہاتھ میں ہے اور ہر قسم کی ترقی کا سرچشمہ اس کی محنت ہے۔

▪ معلّم کی یہ عظمت، مقام و مرتبہ اس بات کا متقاضی ہے کہ وہ صفاتِ حسنہ اور اخلاقِ حمیدہ کا جامع، صبر و اخلاص کا پیکر، علم و تحقیق کے خمیر میں گوندا ہوا ہو۔ استاد کا مطمعِ نظر رضائے خداوندی، انسانیت کی تربیت اور نونہالانِ قوم کو علم و معرفت سے روشناس کرانے کا جذبہ ہونا چاہیے۔ معلّم کے قول و عمل میں یکسانیت، صداقت، شجاعت، قوتِ برداشت، معاملہ فہمی، تحمل مزاجی اور استقامت جیسے اوصاف نمایاں ہونے چاہیں۔ کیونکہ شاگرد استاد کا عکس ہوا کرتے ہیں۔

💐 بزرگوں کا قول ہے کہ
اساتذہ نیک تو طلبہ بھی نیک، اساتذہ خود اپنے بڑوں کے قدردان تو طلبہ خود ان اساتذہ کے قدر دان ہوں گے۔

💫 الغرض اساتذہ کرام شریعت اور سنت کے پابند، اپنے منصب کے قدر دان، طلبہ پر مشفق اور جذبۂ خیر سگالی سے سرشارہوں تو ان کے ہاتھوں تربیت پانے والی نسلیں بھی ان ہی صفاتِ حمیدہ کی حامل ہوں گی۔

▪ معلّم کا جذبہ یہ ہونا چاہیے کہ
✨ میرے ذریعے امت کے ایسے نونہال تیار ہو جائیں جو امتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نشاۃ ثانیہ کا فریضہ سرانجام دے سکیں۔

✨ وہ ایسے تناور درخت کی مانند ہوں جو سب کو چھاؤں اور پھل دیں۔

✨ جو تحقیق و جستجو کے میدانوں کے شاہ سوار اور علم کے شناور ہوں۔

✨ جو دنیا کو امن و سلامتی کا درس اور محبت کا پیغام دینے والے ہوں۔

✨ ایک معلّم کی یہ آرزو ہونی چاہیے کہ میری ساری زندگی کی محنت اور جگر سوزی اس لیے ہے کہ قیامت کے دن میرا حشر معلّمین، امت کے معماروں، نگرانوں، قائدین اور رہبروں کے ساتھ ہو۔



🌹 استاد شاگرد کے حقوق ازروئے قرآن


☘ بلاشبہ ﷲ تعالیٰ نے ایمان والوں پر یقیناً احسان فرمایا کہ جب اُن ہی میں سے ایک رسول ان میں مبعوث فرمایا جو اُنہیں ﷲ تعالیٰ کی آیات پڑھ کر سناتا ہے اور اُنہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے حالانکہ بلاشبہ اس سے پہلے وہ یقینا کھلی گمراہی میں تھے۔
(سورة آل عمران:164)

☘ یا جو شخص مطیع فرمان ہے، رات کی گھڑیوں میں سجدے کرنے والا اور قیام کرنے والا ہے، آخرت سے ڈرتا ہے اور اپنے رب کی رحمت کی اُمید رکھتا ہے؟؟؟ آپ کہہ دیں کہ کیا وہ لوگ جو جانتے ہیں اور جو نہیں جانتے، برابر ہوتے ہیں؟یقیناً نصیحت توعقل والے ہی قبول کرتے ہیں۔
(سورہ زمر:09)

☘ آپ تو ایک خبردار کر دینے والے ہیں۔ یقیناً ہم نے آپ کو حق کے ساتھ خوش خبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا ک. بھیجا ہے اور کوئی اُمت نہیں مگر اس میں ایک خبردارکرنے والا گزرا ہے۔
(سورہ فاطر: 23،24)

☘ وہ ایک رسول ہے جو تمہیں ﷲ تعالیٰ کی واضح بیان کرنے والی آیات پڑھ کر سناتا ہے تاکہ وہ ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کیے، ان کو تاریکیوں سے روشنی کی جانب نکال لائے اور جو کوئی ﷲ تعالیٰ پر ایمان لائے اور نیک عمل کرے وہ اُسے جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں۔ ان میں وہ ہمیشہ رہنے والے ہیں۔ ہمیشہ ہمیشہ، بلاشبہ اﷲ تعالیٰ نے اُس کے لیے بہترین رزق بنایا ہے۔
(سورة الطلاق: 11)

☘ میں تمہیں اپنے رب کے پیغامات پہنچاتا ہوں اور میں تمہارے لیے خیر خواہی کرتا ہوں اور میں اﷲ تعالیٰ کی طرف سے وہ کچھ جانتاہوں جو تم نہیں جانتے ہو۔
(سورة الاعراف:62)

☘اور یہ ممکن نہیں ہے کہ سارے کے سارے اہلِ ایمان ہی نکل جائیں، سو ان کے ہر گروہ میں سے کچھ لوگ کیوں نہیں نکلے تاکہ وہ دین کی سمجھ حاصل کریں اور تاکہ وہ اپنی قوم کو ڈرائیں جب وہ ان کی طرف واپس جائیں تاکہ وہ بچ جائیں۔
(سورہ التوبہ:122)

☘واضح دلائل اور کتابوں کے ساتھ اور ہم نے آپ پر ذکر اُتارا ہے تاکہ آپ لوگوں کے لیے اس کی وضاحت کر دیں جو ان کی جانب نازل کیا گیا ہے اور تاکہ وہ غور و فکر کریں۔
(سورة النحل: 44)

☘ اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے:
کہہ دیجیے، کیا برابر ہو سکتے ہیں اندھا (جاہل) اور دیکھنے والا (عالم) یا کہیں برابر ہو سکتا ہے اندھیرا اور اجالا۔؟؟؟
(سورةالفاطر:19،20)

☘ اور اللہ نے آدم (علیہ السلام) کو تمام (اَشیاء کے) نام سکھا دیئے پھر انہیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا، اور فرمایا: مجھے ان اشیاء کے نام بتا دو اگر تم (اپنے خیال میں) سچے ہو۔ فرشتوں نے عرض کیا: تیری ذات (ہر نقص سے) پاک ہے ہمیں کچھ علم نہیں مگر اسی قدر جو تو نے ہمیں سکھایا ہے، بیشک تو ہی (سب کچھ) جاننے والا حکمت والا ہے۔ اللہ نے فرمایا: اے آدم! (اب تم) انہیں ان اشیاء کے ناموں سے آگاہ کرو، پس جب آدم( علیہ السلام ) نے انہیں ان اشیاء کے ناموں سے آگاہ کیا تو (اللہ نے) فرمایا: کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ میں آسمانوں اور زمین کی (سب) مخفی حقیقتوں کو جانتا ہوں، اور وہ بھی جانتا ہوں جو تم ظاہر کرتے ہو اور جو تم چھپاتے ہو۔
(سورة البقرہ:31-33)

☘ وہی ہے جس نے اَن پڑھوں میں ایک رسول اُن ہی میں سے بھیجا جو اُنہیں اُس کی آیات پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور اُن کو کتاب وحکمت کی تعلیم دیتا ہے حالانکہ بلاشبہ اس سے پہلے یقیناً وہ کھلی گمراہی میں تھے۔
(سورة الجمعہ:2)

🍀 اے پیغمبر! کہو اے میرے رب میرے علم میں اضافہ کر دے۔
(سورة طہ:114)



🌹 استاد شاگرد کے حقوق ازروئے حدیث


🌲 آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
وہ ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹوں پر شفقت نہ کرے اور ہمارے بڑوں کی توقیر و احترام نہ کرے۔
(جامع ترمذى)

🌲 آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
میں تمہارے لیے بمنزلۂ والد ہوں، تمہیں تعلیم دیتا ہوں۔
(سنن ابوداؤد)

🌲 اگر سبق سمجھ میں نہ آئے تو اُستاد سے پوچھ لینا طالبِ علم کی ذمہ داری ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
یقیناً (علم کی) محتاجی کا علاج سوال کرنے میں ہے۔
(سنن ابو داؤد)

🌲 غلطی پر استاد کا خفا ہونا ایک فطری چیز ہے، لہٰذا طالب علم اُستاد کے غصے کو محسوس نہ کرے۔ بلکہ یہ سمجھے کہ اُستادکا میری غلطی پر ناراض ہونا خود میرے ہی لیے مفید ہے۔
ایک دفعہ معلّم انسانیت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں کو لمبی لمبی نماز یں پڑھانے کے باعث معاذ بن جبل پر شدید ناراض ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا:
اے معاذ! کیا تو لوگوں کو فتنے میں ڈالنے والا ہے؟
(سنن نسائى)

🌲 بے شک علماء، انبیاء کرام کے وارث ہیں۔ انہوں نے میراثِ علم چھوڑی ہے۔ پس جس نے اس (میراثِ علم) کو حاصل کیا، اس نے بہت بڑا حصہ پا لیا۔ جو آدمی علم کی تلاش میں کسی راہ پر چلتا ہے، اللہ تعاليٰ اس کے لئے جنت کا راستہ آسان فرما دیتا ہے۔
(بخاری)

🌲 حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
روزِ قیامت علماء کے قلم کی سیاہی اور شہداء کے خون کو تولا جائے گا تو علماء کے قلم کی سیاہی شہداء کے خون سے زیادہ وزنی ہو جائے گی۔
(دیلمی)

🌲 حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
میری بات لوگوں تک پہنچا دو خواہ وہ ایک آیت ہی کیوں نہ ہو۔
(بخاری)

🌲 حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
جس سے کوئی ایسی بات پوچھی گئی جس کا اسے علم تھا اور اس نے اسے چھپا لیا تو قیامت کے دن اسے آگ کی لگام پہنائی جائے گی۔
(ابو داؤد، ترمذی)

🌲 ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
جس نے کوئی ایسا علم حاصل کیا جس سے اللہ کی خوشنودی حاصل کی جاتی ہے لیکن اس نے اسکو دنیا کا مال کمانے کے لیے حاصل کیا تو قیامت کے دن وہ جنت کی خوشبو بھی نہ پائے گا۔
(ابو داؤد، ابن ماجہ)

🌲 حضرت کعب بن مالکؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
جس نے علم اس لیے حاصل کیا تاکہ علماء سے مقابلہ کرے یا احمقوں سے جھگڑے یا اس کے ذریعے لوگوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرے تو اللہ تعالی اس کو جہنم میں داخل کرے گا۔
(ترمذی، ابن ماجہ)