🌹تعلیم و تدریس کی فضیلت:


💥بہترین ہم نشین:

حضرت عبد اللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ عرض کیا گیا:
یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! ہمارے بہترین ہم نشیں کون ہیں؟ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
جس کا دیکھنا تمہیں اللہ کی یاد دلا دے، جس کا بولنا تمہارے علم میں اضافہ کرے اور جس کا عمل تمہیں آخرت کی یاد دلائے۔
(ابو يعلی، المسند)

حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس حدیث مبارکہ میں اپنے جامع کلمات کے ذریعے مجالسِ علم کی برکات، صحبت صلحاء کے ثمرات اور مجالس کے انعقاد کے مقاصد کو واضح فرمایا ہے۔ ہم کیسی مجالس میں شرکت کریں؟؟؟ ہم نشین کا انتخاب کیسے کریں؟؟؟ ہماری مجالس کے عنوان کیا ہوں۔
آقا علیہ السلام نے تین چیزیں بیان فرما کر ایک پیمانہ عطا کر دیا۔
جس کا دیکھنا تمہیں اللہ کی یاد دلا دے۔ جس کا بولنا تمہارے علم میں اضافہ کرے۔ جس کا عمل تمہیں آخرت کی یاد دلائے۔


💥مردہ دلوں کی زندگی کا ذریعہ:

✨ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو (نصیحت کرتے ہوئے) کہا:
میرے بیٹے! علماء کے پاس لازمی بیٹھنا اور حکماء کی گفتگو غور سے سننا کیونکہ اللہ تعالیٰ مردہ دل کو نورِ حکمت سے زندہ کرتا ہے جس طرح کہ وہ مردہ زمین کو زور دار بارش سے حیات بخشتا ہے۔
(طبرانی، المعجم الکبير، مسند الفردوس، الترغيب والترهيب)

حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علماء، حکماء اور اولیائے عارفین کی مجالس کو مردہ دلوں کے احیاء (زندگی) کا ذریعہ فرمایا ہے۔ ان کی مجالس میں بیٹھنے اور ان کی باتوں کو غور سے سننے سے اللہ تعالی مردہ دلوں کو زندہ فرما دیتا ہے۔ ایک صالح اور مقرب بندے کا قول دلوں کو زندہ کر دیتا ہے جیسے زوردار بارش سے مردہ زمینیں زندہ ہو جاتی ہیں اور ان میں شادابی آ جاتی ہے۔


💥 مجالسِ علم مجالسِ ذکر سے افضل ہیں:

مجالسِ علم مجالسِ ذکر سے افضل ہیں اور مجالسِ علم میں سے وہ مجالس جو فقہی علوم پر مشتمل ہوں۔ جن میں قرآن و حدیث سے مسائل کا حل اخذ کرنے، دین کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کے لئے غور و فکر کیا جائے۔
✨ ایسی مجالس کی فضیلت کے بارے حضرت عبداللہ بن عمرؓ روایت کرتے ہیں۔
ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے حجرے سے باہر تشریف لائے اور مسجد (نبوی) میں داخل ہوئے، وہاں دو حلقے بیٹھے ہوئے تھے، ایک حلقہ قرآن کی تلاوت کر رہا تھا اور اللہ سے دعاء کر رہا تھا، دوسرا تعلیم وتعلم کا کام سرانجام دے رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: دونوں بھلائی پر ہیں۔ یہ حلقہ قرآن پڑھ رہا ہے اور اللہ سے دعاء کر رہا ہے۔ اللہ چاہے تو اس کی دعاء قبول فرمائے، یا نہ فرمائے۔ دوسرا حلقہ تعلیم و تعلم میں مشغول ہے (یہ زیادہ بہتر ہے) اور میں تو معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ پھر یہیں بیٹھ گئے۔
(مشکوٰة شریف)
💥مجلسِ ذکر و دعا پر مجلسِ علم و فقہ کی فضیلت کی وجہ:


💫 ایک طرف اللہ کا ذکر ہے، اس کی عبادت ہے، اللہ کو پکارنا ہے، اس سے مناجات ہیں اور دوسری طرف فقہ کی تعلیم دی جا رہی ہے۔ وضو کے طریقے سمجھائے جا رہے ہیں، نماز پڑھنے کا طریقہ بتایا جا رہا ہے، روزہ، حج، زکوۃ ادا کرنے کی تدریس ہو رہی ہے۔ طہارت عبادات، اخلاق، معاملات، مناکحات (شادی بیاہ کی رسومات) اور معاشرت کے اصول بتائے جا رہے ہیں۔

▪ یہ مجلس بھلا اُس مجلسِ ذکر سے کیسے افضل ہو گئی؟؟؟

آقا علیہ السلام نے خود اس کا جواب عطا فرما دیا تھا کہ تعلیم کی مجلس میں بیٹھنے والے یہ لوگ افضل ہیں کیونکہ اس حلقہ اور مجلس کے لوگ تعلیم اور تعلم کا کام کر رہے ہیں اور میں تعلیم دینے کے لیے مبعوث کیا گیا ہوں۔ یہ ایک پیغمبرانہ کام کر رہے ہیں اور جاہل دنیا کو علم کا نور دے رہے ہیں۔

✨ایک اور حدیث میں بھی یہی فرمایا:
وَإِنَّمَا بُعِثْتُ مُعَلِّمًا
میں خود بطورِ معلم مبعوث ہوا ہوں۔

لہٰذا وہ لوگ جو بعثتِ محمدی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقصد کو آگے بڑھانے کی جدوجہد کر رہے ہیں وہ ذاکرین اور سائلین پر فضیلت رکھتے ہیں۔

💫 دوسرا سبب جس کی وجہ سے مجلسِ علم کو فضیلت ملی وہ یہ کہ بالعموم جب آدمی دعا کرتا ہے تو اپنے لیے کرتا ہے۔ لوگ اپنی پریشانی دور کرنے کے لیے اللہ سے مدد مانگتے ہیں۔ اللہ! مجھے صحت عطا فرما، باری تعالیٰ! مجھے کامیاب کر دے۔ باری تعالیٰ مجھے ہدایت عطا کر دے، اولاد عطا فرما، مجھے جنت عطا کر اور میری بخشش فرما دے۔ خواہ دنیوی امور کی دعا مانگے یا اخروی امور کی، دنیا مانگے یا پھر اللہ رب العزت کی قرب و رضا مانگے جو بھی مانگتا ہے اولاً اپنے لیے مانگتا ہے۔ یہی لوگوں کی عام عادت ہے۔

💫 اس کے برعکس تعلیم و تعلم کا عمل دوسرے کے لیے ہوتا ہے۔ تعلّم (Learning) اپنے لیے تاکہ اپنے اندر سے جہالت نکلے اور تعلیم دوسروں سے جہالت نکالنے کے لئے ہے۔ تعلیم کے کام میں انسانیت کا نفع ہے، جب معلم پڑھاتا ہے تو وہ دوسرے کی خیر مانگتا ہے۔ دوسرے کو صحیح راہ پر چلاتا ہے اور اس عمل سے اسے خود بھی نور اور ہدایت ملتی ہے۔

⚡اس عمل کا درجہ بہت بلند ہے۔ اس عمل کی نسبت جس میں آدمی صرف اپنے لیے خیر چاہے۔ تعلیم ایک ایسا عمل ہے جس میں بندہ دوسروں کے لیے خیر اور نفع بخشی کا ذریعہ بنتا ہے۔ مجالس العلم کا درجہ آقا علیہ السلام کے اس فرمان کے مطابق مجالس العبادۃ سے بڑھ گیا۔


💥جنت کے باغات:

✨ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجالس العلم کو جنت کے باغ قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
حضرت عبد اللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
جب تم جنت کے باغوں کے پاس سے گزرو تو (وہاں) بیٹھ کر فراخی کے ساتھ کھایا پیا کرو۔ عرض کیا گیا: یا رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم! جنت کے باغات کیا ہیں؟ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: علم کی مجالس۔
(طبرانی، المعجم الکبير)

آقا علیہ السلام نے فرمایا کہ مجالس العلم ہی جنت کے باغات ہیں۔ اگرچہ متعدد کتب احادیث میں یہ حدیث مجلس ذکر کے الفاظ کے ساتھ آئی ہے۔ یعنی یہ فضیلت آقا علیہ السلام نے مجالس ذکر کے لئے فرمائی ہے۔

لیکن طبرانی نے معجم الکبیر میں لکھا ہے کہ اس روایت میں آقا علیہ السلام نے یہ فضیلت مجالس العلم کے لیے بیان فرمائی ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ مجالسِ الذکر مجالس العلم ہی ہیں۔ مجالس الذکر بھی جنت کے باغات میں سے ہیں۔ گویا علم میں ذکر کا معنیٰ "علمِ جامع" ہے۔ خالی ذکر میں علم کا پورا معنیٰ نہیں پایا جاتا مگر علم میں ذکر کا معنی پایا جاتا ہے۔


🌹 ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں


انسان جس سے بھی کچھ سیکھے اس کا احترام فرض ہے۔ اگر سیکھنے والا، سکھانے والے کا احترام نہیں کرتا تو وہ علم محض ’’رٹا‘‘ ہے۔ حفظ بے، معرفتِ گفتار ہے، اس میں اعمال کا حسن نہیں، گویا وہ علم جو عمل سے بیگانہ ہو وہ ایک بے معنی لفظ ہے۔ علم کسی بھی نوعیت کا ہو ۔اس کا عطا کرنے والا بہر حال قابلِ عزت ہے اور جب تک ادب و احترام کا جذبہ دل کی گہرائیوں سے نہیں اٹھے گا تب تک نہ علم کا گلزار مہک سکے گا، اور نہ ہی علم طالبِ علم کے قلب و نظر کو نورانی بنا سکے گا۔ باقی تمام چیزیں انسان خود بناتا ہے مگر انسان کو کون بناتا ہے؟؟؟ یہاں مراد انسان کی تخلیق نہیں بلکہ انسان کا بشریت سے آدمیت کی طرف سفر ہے۔ انسان کو بنانے والے فنکار کا نام ’’معلم‘‘ ہے۔ اسی لیے اس کا کام دنیا کے تمام کاموں سے زیادہ مشکل، اہم اور قابلِ قدر ہے۔

▪ استاد اور شاگرد کا رشتہ روحانی رشتہ ہے۔ یہ تعلق دل کے گرد گھومتا ہے اور دل کی دنیا محبت، ارادت کی کہکشاں سے بکھرتی ہے۔

✨ رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود کو معلم کہا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شاگرد یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےصحابہؓ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انتہائی احترام کرتے تھے کہ ایسی مثال دنیا کی تاریخ پیش کرنے سے قاصر ہے۔ احترامِ استاد ایک عظیم جذبہ ہے۔

✨خلیفۂ وقت ہارون الرشید نے معلمِ وقت امام مالک سے درخواست کی کہ وہ انہیں حدیث پڑھا دیا کریں۔ امام مالک نے فرمایا۔
’’علم کے پاس لوگ آتے ہیں۔ علم لوگوں کے پاس نہیں جایا کرتا۔ تم کچھ سیکھنا چاہتے ہو تو میرے حلقۂ درس میں آسکتے ہو۔
خلیفہ آیا اور حلقۂ درس میں دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔ عظیم معلم نے ڈانٹ پلائی اور فرمایا:
خدا کی تعظیم میں یہ بھی داخل ہے کہ بوڑھے مسلمان اور اہلِ علم کا احترام کیا جائے۔
یہ سنتے ہی خلیفہ شاگردانہ انداز میں کھڑا ہو گیا۔

✨ ارشادِ گرامی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے کہ
استاد کی حیثیت روحانی باپ کی سی ہے۔

▪ استاد کا حق اپنے شاگردوں پر اتنا ہی ہے جتنا باپ کا اولاد پر۔ ہر عظیم انسان کے دل میں اپنے اساتذہ کے احترام کے لیے بے پایاں جذبات ہوتے ہیں۔ یہی اس کی عظمت کی دلیل ہے۔ ہمارے سامنے اس سلسلے میں بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ جیسا کہ
✨ سکندرِ اعظم استاد کا بے حد احترام کرتا تھا۔ کسی نے اس سے اس کی وجہ پوچھی تو سکندر نے جواب دیا:

میرا باپ مجھے آسمان سے زمین پر لایا۔ جبکہ میرا استاد ارسطو مجھے زمین سے آسمان پر لے گیا۔ میرا باپ باعثِ حیاتِ فانی ہے اور استاد مؤجبِ حیات جاوداں۔ میرا باپ میرے جسم کی پرورش کرتا ہے اور استاد میری روح کی۔

▪ شمس العلماء میر حسن علامہ اقبال کے استاد تھے۔ علامہ اقبال اپنے استاد کا بے حد احترام کرتے تھے۔ آپ ہی کی سفارش پر حکومت نے مولوی صاحب کو شمس العلماء کا خطاب دیا۔
جب حکومت نے علامہ اقبال سے پوچھا کہ مولوی صاحب نے کون سی کتاب لکھی ہے؟؟؟
تو علامہ اقبال نے جواب دیا کہ ان کی زندہ کتاب مٙیں ہوں۔

▪ ایک دفعہ علامہ اقبال اپنے چند دوستوں کے ہمراہ سیالکوٹ کے ایک بازار میں اس حالت میں بیٹھے تھے کہ ایک پاؤں میں جوتا تھا اور دوسرا پاؤں ننگا تھا۔ اچانک علامہ اقبال نے دور سے مولوی صاحب کو آتے دیکھا وہ اسی حالت میں دوڑ کر ان کے پاس پہنچے۔ ادب سے انہیں سلام کیا اور نہایت مؤدبانہ انداز سے ان کے پیچھے پیچھے چلنے لگے یہاں تک کہ وہ مولوی صاحب کو ان کے گھر پہنچا کر اپنے دوستوں میں واپس آگئے۔

اسی لیے تو کہتے ہیں کہ
باادب بانصیب .....بے ادب بے نصیبب.....
اور یہی زندگی کا ماحصل ہے۔

💫 عربی مقولہ ہے:
الادب شجر والعلم ثمر ثم فکیف یجدون الثمر بدون الشجر
ادب درخت ہے اور علم پھل ہے پھر بغیر درخت کے (پھل) کیسے حاصل ہو سکتا ہے؟؟؟