🌹 استادوں کے حقوق


💥1.استادوں کے سامنے عاجزی برتنا:

✨ حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
علم حاصل کرو، علم کے لیے متانت اور وقار پیدا کرو جس سے تعلیم حاصل کرو، اس سے خاکساری برتو۔

✨ ایک جگہ ارشاد فرمایا کہ
بوڑھے مسلمان اور عالم حافظِ قرآن، بادشاہ عادل اور استادوں کی عزت کرنا تعظیمِ خداوندی میں داخل ہے۔

✨ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں کہ
میں اس کا غلام ہوں جس نے مجھے ایک حرف سکھا دیا اگر وہ مجھے چاہے تو بیچ دے اور اگر چاہے تو آزاد کر دے یا غلام رکھے۔

✨ ایک شاعر کہتا ہے؛
سب سے بڑا حق تو معلم کا ہے جس کی رعایت (طرف داری) تمام مسلمانوں پر فرض ہے۔ واقعی وہ شخص جس نے تم کو ایک لفظ سکھا دیا، اس کا مستحق ہے کہ ہزار درہم اس کے لئے ہدیہ کیے جائیں بلکہ اس کے احسان کے مقابلہ میں تو ہزار درہم کی بھی کوئی حیثیت نہیں۔
(آداب المتعلمین)

💥2.استادوں کا ادب کرنا:


ابنِ وہاب رحمتہ اللہ علیہ کہا کرتے تھے:
امام مالک کے ادب سے مجھے جو کچھ ملا، علم سے اتنا نہیں ملا۔

✨حضرت عبداللہ ابنِ عباسؓ کا بیان ہے کہ
میں لگاتار دو برس تک ارادہ کرتا رہا کہ امیر المومنین عمر فاروقؓ سے ایک حدیث کے بارے میں سوال کروں گا مگر ادب اور رعب کی وجہ سے ہمت نہ پڑتی تھی۔ ایک مرتبہ حج کے موقع پر مرالظہر ان میں جب وہ قضائے حاجت سے فارغ ہو کر واپس ہونے لگے تو میں نے ہمت کر کے عرض کیا کہ
امیر المومنین ایک حدیث کے بارے میں دو برس سے سوال کرنا چاہتا ہوں مگر آپ کا رعب بولنے نہیں دیتا۔
فرمایا؛ یہ نہ کیا کرو، جب کچھ پوچھنا ہو تو پوچھ لیا کرو۔ علم ہو گا تو بتا دوں گا ورنہ کہہ دوں گا کہ میں نہیں جانتا کسی اور سے پوچھ لو۔

✨ اسی طرح سے سعید ابنِ مسب نے فرمایا کہ میں نے سعید ابن مالک سے کہا:
آپ سے کچھ دریافت کرنا ہے۔ مگر ہیبت کی وجہ سے زبان نہیں کھلتی، فرمایا کہ بھائی! مجھ سے ہرگز مرعوب نہ ہو جو کچھ پوچھنا ہو بے کھٹکے پوچھ لیا کرو؛
عرض کیا؛ پوچھنا یہ ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غزوہ تبوک میں تشریف لے جاتے وقت حضرت علیؓ سے کیا فرمایا تھا؟؟؟
جواب دیا، یہ فرمایا تھا کہ
اے علیؓ! تم کیا پسند نہیں کرتے کہ مجھ سے تمہاری وہی نسبت ہو جو موسی سے ان کے بھائی ہارون کو تھی۔

✨ ایک مرتبہ امام احمد رحمتہ اللہ علیہ کسی مرض کی وجہ سے ٹیک لگا کر بیٹھے تھے۔ اثنائے گفتگو ابراہیم بن طحمان کا ذکر نکل آیا! ان کا نام سنتے ہی امام احمد سیدھے بیٹھ گئے اور فرمایا کہ
یہ نازیبا بات ہو گی کہ بڑوں کا نام لیا جائے اور ہم ٹیک لگا کر بیٹھے رہیں۔

✨ امام ربیع رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اپنے استاد امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کی نظر کے سامنے مجھ کو کبھی پانی (پینے) کی جرات نہ ہوئی۔

✨ امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
امام مالک کے سامنے میں ورق بھی آہستہ الٹتا تھا کہ اس کی آواز آپ کو سنائی نہ دے۔

✨ شاگرد کو چاہیے کہ
بغیر اجازت استاد سے بات نہ کرے اور اس کے سامنے بلند آواز سے نہ بولے۔ اس کے آگے نہ چلے، اس کے بیٹھنے کی جگہ پر نہ بیٹھے، اس کی منشا معلوم کرنے کی کوشش کرتا رہے اور اس کے مطابق عمل کرے اور کسی وقت استاد کی طبیعت مکدر (ناساز) ہو اس وقت اس سے کوئی بات نہ پوچھے۔ کسی اور وقت دریافت کر لے۔ استاد کو دستک دے کر نہ بلائے بلکہ اس کے نکلنے کا انتظار کرے۔
(تعلیم المتعلم)

✨حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا کہ
اصحابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں انصار کے پاس سے مجھے زیادہ علم ملا، میں ان کے دروازے پر دوپہر کی گرمی میں پڑا رہتا تھا حالانکہ اگر میں چاہتا تو وہ مطلع ہونے پر نکل آتے مگر مجھے ان کے آرام کا خیال رہتا تھا جب وہ باہر آتے تو اس وقت میں ان سے دریافت کرتا۔

✨ حضرت شیخ الادب مولانا اعزاز علی صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے بارے میں متعدد حضرات نے بیان کیا کہ
کوئی بات دریافت کرنی ہوتی یا کتاب کا مفہوم سمجھنا ہوتا تو حضرت علامہ انور شاہ کشمیری رحمتہ اللہ علیہ کے مکان کے دروازے پر جا کر بیٹھ جاتے، جب حضرت گھر سے باہر نکلتے تو اس وقت دریافت کرتے اور یہ تقریبا روزانہ کا ہی معمول تھا۔
(آداب المتعلمین)


💥3.اساتذہ کے سامنے کم بولنا:


اساتذہ کے سامنے زیادہ بولنے کی بجائے اس کی بات کو توجہ سے سنیں۔ اس کے سامنے زیادہ بولنا بے ادبی ہے۔ کوئی بات سمجھ میں نہ آئے تو ادب کے ساتھ دریافت کریں۔
حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے صاحبزادے کو نصیحت کی؛
استاد کی صحبت میں خود بولنے سے زیادہ سیکھنے کی کوشش کرنا۔
(آداب المتعلمین)


💥4.اساتذہ کا نام نہ لینا:

امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ ادب کی وجہ سے اپنے استاد کا نام نہ لیتے تھے بلکہ ان کا ذکر ان کی کنیت کے ساتھ کرتے تھے۔
(تہذیب)

خطاب کے وقت حضرت یا استاد جی کہہ کر بات کرنا اور غائبانہ اولاً کوشش کرنا کہ کنیت وغیرہ سے تذکرہ کیا جائے۔


💥5.استاد کی صحبت کو غنیمت سمجھنا:


امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ سے ایک بار کسی نے پوچھا کہ
آپ کے دل میں کوئی خواہش ہے۔ فرمایا؛ خواہش یہ ہے کہ میرے استاد علی بن مدینی رحمتہ اللہ علیہ حیات ہوتے اور میں جاکر ان کی صحبت اختیار کرتا۔
(آداب المتعلمین)


💥6.استاد کی سختی کو برداشت کرنا بلکہ نعمت سمجھنا:

امام ابو یوسف رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا:
"انسان پر اپنے استاد کی مدارات واجب ہے۔ اس کی تندی، سختی کو برداشت کرے۔ استاد کوئی اچھی بات بتائے یا کسی بری بات پر تنبیہہ کرے تو اس کی شکرگزاری ضروری ہے جب وہ کوئی نکتہ بتائے تو تمہیں اگر وہ پہلے سے معلوم ہو جب بھی یہ ظاہر نہ کرو کہ مجھے پہلے سے معلوم ہے۔

✨ حضرت مولانا سید ابو الحسن دامت برکاتہم کو ان کے شامی استاد نے معمولی سی بات پر جو غلط فہمی پر مبنی تھی، بہت زیادہ مارا تھا لیکن اس وقت اور اس کے بعد مولانا کے دل میں ذرا بھی تکدر (میل) نہ ہوا پھر عرب اور عجم میں حضرت مولانا ابو الحسن کا جو مقام ہوا اور اللہ پاک نے دین کی خدمت جو ان سے لی، دنیا نے اس کو دیکھا ہے۔
(آداب المتعلمین)


💥7.استاد کے برابر نہ بیٹھنا:

بزرگوں نے فرمایا کہ
استاد کے سامنے ادب سے بیٹھو، اس کے برابر نہ بیٹھو۔ وہ کہے تب بھی نہ بیٹھو، جب نہ بیٹھنے پر اس کو صدمہ ہو تب مضائقہ نہیں۔


💥8.فراغت کے بعد استادوں سے تعلق رکھنا:


استاد کا یہ بھی حق ہے کہ فراغت کے بعد بھی اس سے ملاقات کرتا رہے۔ شرح الطریق المحمدیہ میں واقعہ لکھا ہے کہ
جس وقت امام حلوانی بخارا دوسری جگہ تشریف لے گئے تو امام زرنوجی کے علاوہ اس علاقے کے تمام شاگرد سفر کر کے ان کی زیارت کو گئے۔ مدت کے بعد امام حلوانی کی امام زرنوجی سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے غیر حاضری پر افسوس ظاہر کرتے ہوئے معذرت پیش کی کہ ماں کی خدمت کی وجہ سے نہیں آ سکا۔
اس وقت امام حلوانی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ عمر تو ضرور نصیب ہو گی مگر درس نصیب نہیں ہو گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔

✨ حضرت مولانا شاہ عبدالرحمٰن صاحب محدث صدر المدرسین مظاہر العلوم کا ایک واقعہ نقل کیا گیا ہے، فرماتے ہیں کہ
میں اپنے وطن سے جب سہارنپور پڑھنے کے لیے آیا تو ہر استاد سے مل کر آیا تھا۔ ایک استاد جن سے ابتدائی کتابیں پڑھی تھیں، ان سے ملاقات نہ ہو سکی۔ جب سہارنپور آ کر پڑھنا شروع کیا تو کتاب بالکل سمجھ میں نہ آئی حالانکہ میں اپنی جماعت میں سمجھدار سمجھا جاتا تھا۔ اس کے اسباب پر غور کیا، اللہ نے رہنمائی فرمائی اور استاد کی خدمت میں خط لکھ کر معافی مانگی اور ملاقات نہ ہو سکنے کی وجہ لکھی۔ انہوں نے جواب میں فرمایا:
میرے دل میں خیال ہوا تھا کہ مجھے چھوٹا سمجھ کر شاید تم نہیں ملے لیکن تمہارے خط سے یہ معلوم ہوا کہ ایسی بات نہیں تھی۔
اس کے بعد دعائیہ الفاظ لکھے۔
حضرت مولانا شاہ عبدالرحمٰن نے فرمایا کہ
استاد کے احترام کا ہی نتیجہ ہے کہ تم لوگوں کے سامنے ترمذی پڑھا رہا ہوں۔
درس کا یہ عالم تھا کہ سب کا اس پر اتفاق تھا کہ ان سے بہتر اس وقت ترمذی پڑھانے والا پورے ملک میں کوئی نہیں تھا۔
(آداب المتعلمین)

💥9. غلطی ہونے پر استاد سے معافی مانگ لینا:


استاد کو کبھی ناراض نہیں کرنا چاہیے۔ اگر اس کی شان میں خدانخواستہ کوئی بے ادبی اور گستاخی ہو جائے تو فوراً انتہائی عاجزی کے ساتھ معافی مانگ لے۔ اگر استاد کا دل مکدر (تنگ) ہو گیا تو اس سے فیض حاصل نہیں کر سکتا۔
ایک بزرگ نے فرمایا:
اپنے اساتذہ کو برا نہ کہو ورنہ تمہارے تلامذہ تمہیں برا کہیں گے۔
(آداب المتعلمین)


💥10.استاد کی اولاد اور متعلقین کی تعظیم کرنا:

طالب علم کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ استاد کی اولاد اور اس کے متعلقین کی بھی تعظیم کرے۔
تعلیم المتعلم میں لکھا ہے کہ صاحبِ ہدایہ نے ائمہ بخارا میں سے ایک بڑے عالم کا یہ واقعہ بیان کیا کہ ایک دن ایسا ہوا کہ یہ عالم درس میں بیٹھے ہوئے تھے۔ یکایک کھڑے ہو گئے۔ دریافت کرنے پر فرمایا کہ میرے استاد کا لڑکا بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا۔ جب کھیلتے ہوئے مسجد کی طرف آیا تو یہ اس کی تعظیم کے لئے کھڑے ہو گئے۔

✨ حضرت مفتی محمود صاحب دامت برکاتہم نے ایک مرتبہ اپنی مجلس میں بیان فرمایا کہ
حضرت شیخ الہند رحمتہ اللہ علیہ نے حجِ بیت اللہ کا ارادہ فرمایا تو روانگی سے قبل مولانا قاسم صاحب کی اہلیہ محترمہ کی خدمت میں حاضر ہو کر دہلیز کے پاس کھڑے ہو کر عرض کیا کہ
اماں جی! اپنی جوتیاں مجھے عنایت فرما دیں۔ چنانچہ ان کی جوتیاں لے کر سر پر رکھ کر دیر تک روتے رہے اور فرمایا کہ میں اپنے استاد کا حق کماحقہ ادا نہ کر سکا شاید میرا یہ عمل اس کوتاہی کی تلافی کر سکے۔
(آداب المتعلمین)


💥11.استاد کو کبھی تکلیف نہ دینا:

جو شخص اپنی استاد کی تکلیف کا باعث ہو وہ علم کی برکت سے محروم رہے گا اور برابر کوششوں کے باوجود علم کی دولت سے متنفع نہیں ہو سکتا۔
ایک شعر کا ترجمہ ہے کہ
معلم اور طبیب کی جب تک توقیر اور تعظیم نہ کی جائے تو وہ خیرخواہی نہیں کرتے۔ بیمار نے اگر طبیب کے ساتھ بدعنوانی کی ہے تو اس کو ہمیشہ بیماری پر ہی قائم رہنا پڑے گا اور شاگرد نے اگر اپنے استاد کے ساتھ بد تمیزی کی ہے تو ہمیشہ وہ جاہل رہے گا۔


💥12.استاد کی بات غور سے سننا:


استاد اگر بار بار کسی بات کو کہے تب بھی غور سے سنتا رہے اکتائے نہیں۔ یہ تعلیم المتعلم میں لکھا ہے کہ
جو ایک ہزار مرتبہ سننے کے بعد بھی علم کی وہی عظمت نہ کرے جیسا کہ پہلی بار کی تھی وہ شخص اہل علم میں سے نہیں ہے۔


💥13. پڑھائی سے متعلق ہر بات کا استاد سے مشورہ کرے:

حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں کہ کوئی شخص بھی مشورہ کرنے کے بعد ہلاک نہیں ہوا۔

یہ مقولہ مشہور ہے کہ انسان تین قسم کے ہوتے ہیں۔
ایک انسان کامل، دوسرا نصف مرد اور تیسرا جو لاشے کے درجے میں ہو۔
✨ مرد کامل وہ ہے جو صاحب الرائے ہونے کے باوجود مشورہ کرتا ہے۔
✨ نصف مرد وہ ہے جس کی رائے تو درست ہے لیکن مشورہ نہیں کرتا۔
✨ تیسرا مرد جو بالکل لاشے کے درجے میں ہے، وہ ہے جو نہ درست رائے رکھتا ہے اور نہ بالکل مشورہ کرتا ہے۔

▪حضرت جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت سفیان ثوری کو نصیحت کی تھی کہ
اپنے معاملات میں ان لوگوں سے مشورہ لیتے رہا کرو جن کے قلوب اللہ کے خوف سے لبریز ہیں۔ جب تمام معاملات میں مشورے کی ضرورت ہے تو علم جو ایک بلند ترین مقصد ہے اس میں مشورہ کرنا تو زیادہ ضروری ہے اور استاد سے بڑھ کر اس معاملہ میں کوئی صحیح رائے نہیں دے سکتا۔
(آداب المتعلمین)

💥14. استاد کی رضا کے بغیر دوسرے استاد کو اختیار نہ کرے:


استاد اور مدرسے کے انتخاب میں خواہ کچھ دیر لگ جائے لیکن جب کسی کا انتخاب کر لیا تو جب تک استاد کی مرضی نہ ہو دوسرے مدرسہ سے اور دوسرے استاد کے پاس نہ جائے البتہ استاد کی دیانت کا تقاضا یہ ہے کہ اگر دوسرے کے پاس بھیجنے میں طالب علم کا فائدہ ہے تو اس میں خیانت نہ کرے اور اسکو بخوشی اجازت دے دے۔

✨ حضرت حکیم الامت ایک جگہ تحریر فرماتے ہیں کہ
میرے والد صاحب کی رائے ہوئی کہ دوسرے استاد کے پاس پڑھنے کے لیے بھیجا جائے۔ جب مجھے معلوم ہوا تو رات بھر نیند نہیں آئی، کھانا نہیں کھایا گیا۔ گھر کی مستورات نے یہ حال والد کو بتایا تو والد صاحب نے اپنی رائے بدل دی اور میں بدستور اپنے سابق استاد کی ہی خدمت میں رہا۔
پھر دنیا نے دیکھا کہ استاد کی عظمت و محبت نے کیا رنگ پیدا کیا اور پھر حضرت سے اصلاحِ امت کا کتنا بڑا کام ہوا۔
(آداب المتعلمین)

: 💥15.اساتذہ کی خدمت کرنا:


طالب علم کو چاہیے کہ استاد کی خدمت کو اپنے لئے فلاحِ دارین کا ذریعہ سمجھے اور استاد کے کہنے کا انتظار نہ کرے۔ خود ہی اس کا کام کر دیا کرے۔ اور اس میں اپنی سعادت سمجھے، جو طالبعلم اپنے استاد کی خدمت کرتا ہے اللہ پاک اس کو دینی و دنیاوی ترقی عطا فرماتا ہے۔ ایسے طلباء بعد میں دین کی اشاعت کرتے ہیں، جس سے ہزاروں بندگانِ خدا کو ہدایت نصیب ہوتی ہے۔ وہ زمین پر ستاروں کی مانند ہوتے ہیں ان کی صحبت میں ایسی تاثیر ہوتی ہے کہ برسہا برس کا پاپی (گنہ گار) گناہوں سے توبہ کر کے اللہ تعالی کی معرفت کا نور قلب کے اندر پیدا کرتا ہے۔ انکی فراست و ذکاوت سے بڑے بڑے پیچیدہ مسائل حل ہوتے ہیں۔ وہ اساطین امت (بڑے، عتمد لوگ) ہیں جن پر زمین و آسمان فخر کرتے ہیں، وہ جس سر زمین پر قدم رکھتے ہیں گمراہی دور ہو جاتی ہے اور ہدایت کی راہیں کھل جاتی ہے۔
ہر ایک کو …



اس کا اچھی طرح تجربہ ہے کہ جس کو جو کچھ ملا استاد کی خدمت اور اس کی عنایت و مہربانی سے ملا، دین و دنیا کی عزت ان ہی کی دعاؤں کا ثمرہ ہے۔
(آداب المتعلمین)

✨ حماد بن سلمہ کی ہمشیرہ عاتکہ فرماتی ہیں کہ امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ ہمارے گھر کی روئی دھنتے تھے اور ہمارا دودھ ترکاری خرید کر لاتے تھے اور اس طرح کے بہت سے کام کیا کرتے تھے۔ حماد امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کے استاد ہیں، اس وقت کیا کوئی سمجھ سکتا تھا کہ حماد کے گھر کا یہ خادم تمام عالم کا مخدوم ہو گا۔
(آداب المتعلمین)

✨ تعلیم المتعلم میں ہے کہ امام فخرالدین کو میں نے مرو میں بادشاہ کے پاس دیکھا کہ بادشاہ ان کی بہت تعظیم کرتا تھا اور یہ بات بار بار کہا کرتا تھا کہ میں نے یہ سلطنت اور عزت محض استاد کی خدمت کے سلسلہ میں پائی۔ کیونکہ میں اپنے استاد قاضی امام ابوزید و بوسی کی بہت خدمت کیا کرتا تھا، یہاں تک کہ میں نے تیس سال تک متواتر ان کا کھانا پکایا اور اس میں سے کچھ کھاتا نہ تھا۔

✨ ایک واقعہ اسی کتاب میں اور بیان کیا ہے کہ خلیفہ ہارون الرشید نے اپنے بیٹے کو حضرت اصمعی رحمتہ اللہ علیہ کے پاس علم حاصل کرنے کیلئے بھیجا، ایک مرتبہ ہارون رشید گئے، دیکھا کہ شہزادہ اپنے استاد کو وضو کرا رہا ہے۔ وہ پانی ڈالتا ہے اور حضرت اصمعی رحمتہ اللہ علیہ اعضاء دھو رہے ہیں۔
ہارون رشید نے اصمعی رحمتہ اللہ علیہ سے کہا کہ میں نے آپ کے پاس اپنے بیٹے کو علم و ادب کیلئے بھیجا تھا، آپ کیا ادب سکھا رہے ہیں؟؟؟
اس کو یوں نہیں حکم دیتے کہ ایک ہاتھ سے پانی ڈالتا اور دوسرے ہاتھ سے آپ کا پیر دھوتا۔

✨ شیخ الاسلام سید حسین احمد مدنی صاحب کے حالات میں ہے کہ ان کے استاد حضرت شیخ الہند مولانا محمود الحسن صاحب کے یہاں مہمان زیادہ آ گئے، بیت الخلا ایک ہی تھا، مہمانوں کا قیام کئی روز رہا، حضرت مدنی رحمتہ اللہ علیہ روزانہ رات آ کر بیت الخلا صاف کر جاتے اور صبح کو بیت الخلا صاف ملتا۔

✨ حضرت معن بن عیسیٰ امام مالک رحمتہ اللہ علیہ کے شاگردوں میں ہیں، اپنے زمانے کے بڑے محقق اور مفتی تھے۔ یہ مقام ان کو اپنے استاد کی خدمت کی بدولت ملا۔
حضرت امام مالک ضعیف ہو گئے تھے، عصا رکھنے کی ضرورت ہوئی تو بجائے عصا کے معن بن عیسیٰ ہوتے تھے۔ امام مالک ان کے کندھے پر سہارا دیکر چلا کرتے تھے۔
(آداب المتعلمین)


💥16. اساتذہ کے انتقال کے بعد ان کی مغفرت کیلئے دعا کرنا:

امام ابو یوسف ہمیشہ اساتذہ کیلئے دعائے مغفرت کیا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ میں نے جب بھی کوئی نفل نماز یا فرض نماز پڑھی تو اساتذہ کیلئے دعا ضرور کی۔
(آداب المتعلمین)