🌹شاگردوں کے حقوق:


💥1.شاگردوں پر شفقت اور نرمی کرنا:

استاد کو چاہیے کہ شاگردوں پر شفقت کرے اور ان کو اپنے بیٹوں کے برابر جانے۔
✨ جیسا کہ آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:
میں تمہارے لئے ایسا ہوں جیسا کہ والد اپنے لڑکے کیلئے۔

⚡ ابو ہارون عبدی اور شہرین حوشب کہتے ہیں کہ جب ہم طالب علم حضرت ابو سعید خدری رضی اللّٰہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوتے تو آپ فرماتے:
خوش آمدید وصیتہ رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خوش آمدید۔
▪ سنو! رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا:
عنقریب زمین تمہارے لئے مسخر کر دی جائے گی، اور تمہارے پاس کم عمر آئیں گے جو علم کے بھوکے پیاسے ہوں گے، تفقہ فی الدین کے خواہشمند ہوں گے اور تم سے سیکھنا چاہیں گے، پس جب وہ آئیں تو انہیں تعلیم دینا، مہربانی سے پیش آنا، ان کی آؤ بھگت کرنا اور حدیث بتانا۔
(جامع بیان العلم)

⚡ امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
استاد کو بردبار اور حلیم الطبع ہونا چاہیے۔

⚡ حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا:
جب تک تیرا غصہ باقی ہے، اپنے آپ کو اہل علم میں شمار نہ کر۔

⚡ امام ابو یوسف رحمتہ اللہ علیہ کا قول ہے کہ
اپنے شاگردوں کے ساتھ ایسے خلوص اور محبت سے پیش آؤ کہ دوسرا دیکھے تو سمجھے کہ یہ تمہاری اولاد ہیں۔

⚡ ایک اور جگہ امام ابو یوسف رحمتہ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا کہ
علمی مجالس میں خصوصیت کے ساتھ غصہ سے پرہیز کرو۔

⚡ امام ربانی رحمتہ اللہ علیہ کے حالات میں لکھا ہے کہ
ایک طالب علم فرش (چٹائی) پر بیٹھا قرآن مجید پڑھ رہا تھا، حضرت نے خیال کیا تو اپنے نیچے فرش زیادہ پایا، فی الفور زائد فرش اپنے نیچے سے نکال کر اس طالب علم کے نیچے بچھا دیا۔

⚡ قطب العالم حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی کے حالات میں ہے کہ
ایک مرتبہ صحنِ مسجد میں درس دے رہے تھے، بارش ہونے لگی، طلبہ اپنی اپنی کتابیں لے کر اندر چلے گئے، حضرت نے ان سب طلبہ کے جوتے اٹھائے اور حفاظت کی جگہ پر رکھ دئیے۔

💫 اگر ہمارے اسلاف اس طرح تحمل اور نرمی سے کام نہ کرتے تو علمِ دین ہم تک ہرگز نہیں پہنچ سکتا تھا، اصل بات یہ ہے کہ ان کے اندر علمِ دین کی اشاعت کا جذبہ تھا اس لئے سب کچھ برداشت کرتے تھے، ہمارے دل اس سے خالی ہیں۔
(آداب المتعلمین)


💥 2.غصہ اور طیش میں آ کر بچوں کو سزا نہ دینا:


کوئی بھی ڈاکٹر غصہ میں بھرا ہوا ہو تو مریض کا علاج نہیں کر سکتا، غصہ میں دل قابو نہیں رہتا، اسی طرح جب استاد کا دل ہی قابو میں نہ ہو تو شاگرد کو کیسے اپنے قابو میں لا سکتا ہے؟ اس میں تو اور خرابی کا اندیشہ ہے۔

▪تجربہ سے یہ بات ثابت ہے کہ سخت کلمات کی نسبت نرم کلمات زیادہ مؤثر ہوتے ہیں۔ یہ حماقت ہے کہ جس برتن میں آدمی کچھ ڈالنا چاہے پہلے ہی اس میں سوراخ کر دے، جب شاگرد کے دل کو اپنی سختی اور مار پیٹ سے چھلنی کر دے گا تو اس میں خیر کی بات کس طرح ڈال سکے گا۔
خوف دلانے اور دباؤ ڈالنے سے خواہ وقتی طور سے کام چل جائے گا، مگر یہ کامیابی عارضی ہوتی ہے۔ اور آج کل تو وقتی کامیابی بھی نہیں ہوتی بلکہ ایک فتنہ کھڑا ہو جاتا ہے، اور ناقابلِ تلافی نقصان کا باعث ہوتا ہے۔

✨ حضرت حکیم الامت نور اللہ مرقدہ نے تو سبق یاد نہ ہونے پر بھی استاد کے مارنے کو منع فرمایا ہے، چنانچہ خانقاہ میں سخت تاکید تھی کہ کوئی استاد طالب علم کو نہ مارے۔ اس کی اطلاع تعلیم کے ذمہ دار کو دی جائے۔ وہ مناسب سزا تجویز کرے گا، استاد کی طرف سے طالب علم کے دل میں اگر تکدر(میلاپن) ہو گیا تو پھر اس کو فیض نہیں ہو سکتا، نیز بسا اوقات جو کچھ یاد ہوتا ہے، مارنے کے خوف سے بھول جاتا ہے، بعض اساتذہ تو چہرے پر مارنے سے اجتناب نہیں کرتے حالانکہ حدیث پاک میں اس کی سخت ممانعت آئی ہے۔ یہ مارنے والے اس پر غور کریں کہ ہم اپنے بارے میں کیا چاہتے تھے۔
کیا طالب علمی کے زمانہ میں ہماری بھی خواہش رہی ہے کہ روزانہ بدن پر چھڑیاں لگائی جائیں، اگر ایسا نہیں ہے تو پھر شاگرد کیلئے کیوں پسند کیا جا رہا ہے؟؟؟

✨ حدیث پاک میں آیا ہے:
اس وقت تک کوئی کامل مومن نہیں ہو سکتا جب تک اس کے اندر یہ بات نہ ہو کہ اپنے بھائی کیلئے بھی وہی پسند کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے۔

💫 اگر طالب علم کوتاہی کرتا ہے تو
✨ پہلے اس کو شفقت اور نرمی سے سمجھائے۔
✨ اس کا اثر نہ ہو تو تنبیہہ کرے
✨ اس کا بھی اثر نہ لے تو مدرسہ کے ذمہ دار کو اس کے حالات سے مطلع کرے۔
✨ اگر بار بار سمجھانے اور تنبیہہ کے بعد بھی اس کی حالت درست نہ ہو اس کے سرپرست کو مطلع کر دیا جائے کہ یہاں اس کا رہنا مفید نہیں، دوسری جگہ بھیج دیا جائے۔ ممکن ہے کہ وہاں کچھ حاصل کر لے۔
(آداب المتعلمین)

💥3.طلباء کرام سے فیس نہ لینا:


استاد کو چاہیے کہ تعلیم کے بارے میں صاحبِ شریعت حضور اکرم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی اقتداء کرے یعنی علم سکھانے میں اجرت کا خواہاں نہ ہو، تعلیم سے مقصود دنیا کمانا نہ ہو بلکہ خالص اللّٰہ تعالیٰ کی رضا جوئی اور آخرت کے لئے یہ کام کرے، جو کچھ مل جائے اس پر قناعت کرے۔
▪ اس کی علامت یہ ہے کہ محض دنیاوی راحت اور عیش کے لئے اور تنخواہ کی زیادتی کی وجہ سے ایک درسگاہ کو چھوڑ کر دوسری جگہ نہ چلا جائے، اگر ایسا کیا تو سمجھ لینا چاہیے کہ اس نے علم کو دنیا کی کمائی کا ذریعہ بنایا ہے۔
جس کے بارے میں حضورِ اقدس صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے سخت وعید بیان کی ہے۔ ارشاد فرمایا:
جس نے ایسا علم سیکھا جس سے اللّٰہ تعالیٰ کی رضامندی حاصل کی جا سکتی ہے، لیکن اس کا مقصد دنیا ہے تو ایسے شخص کو جنت کی ہوا تک نہیں پہنچے گی۔

✨ یحییٰ بن معاذ کہتے ہیں کہ
علم و حکمت سے جب دنیا طلب کی جائے تو ان کی رونق چلی جاتی ہے۔

✨ حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ
جس عالم کو دنیا سے محبت رکھنے والا دیکھو اس کو دین کے بارے میں متہم (مشکوک) سمجھو، اس لئے کہ جس کو جس سے محبت ہوتی ہے اس میں گُھسا کرتا ہے۔ عالم کو چاہیے کہ دل میں حرص اور لالچ نہ آنے پائے، بسا اوقات اس عادت کی بنا پر ذلت اٹھانی پڑتی ہے، اگر ذلت کے ساتھ ظاہری عیش کچھ حاصل ہو گیا تو کیا عقل مندی ہوئی۔
وہ کھانے کس قدر بُرے ہیں جن کو ذلت کے ساتھ تو حاصل کر رہا ہے کہ ہانڈی تو چولہے پر چڑھی ہے اور عزت خاک میں مل رہی ہے۔
اگر ممکن ہو تو دین کی خدمت بلا معاوضہ کرے یا پھر کم از کم اتنا کرے کہ جو کچھ مل جائے اس پر قناعت کرے اور صبر و شکر کے ساتھ کام میں لگا رہے۔ اللّٰہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھے کہ جس کا کام کر رہا ہے وہ حالات سے واقف ہے، غیب سے سامان کرے گا۔

✨ زکریا بن عدی صحاح کے راویوں میں ہیں، ان کے حالات میں ذہبی نے لکھا ہے کہ ایک دفعہ ان کی آنکھیں دکھنے آئیں، ایک شخص سرمہ لے کر حاضر ہوا، پوچھا:
کیا تم ان لوگوں میں ہو جو مجھ سے حدیث سنتے ہیں؟؟؟
اس نے کہا: جی ہاں!
فرمایا: پھر میں سرمہ کیسے لے سکتا ہوں؟؟؟کیونکہ حدیث سنانے کا معاوضہ ہو جائے گا۔

⚡ ابراہیم الحربی باوجود یہ کہ ان کی زندگی فقر و فاقہ کی تھی، ان کی خدمت میں متعدد بار خلیفۂ وقت معتضد باللہ نے بڑی رقمیں بھجیں لیکن قبول نہ کیا۔ قاصد سے ایک مرتبہ عاجز ہو کر کہا کہ
خلیفہ سے کہہ دو کہ ہم کو پریشان نہ کریں یا تو رقم بھیجنا بند کر دیں، ورنہ ہم یہاں سے دوسری جگہ چلے جائیں گے۔

⚡ حضرت مولانا قاسم صاحب کی خدمت میں پانچ سو روپے، تنخواہ پیشکش کی گئی جو آج کل کے حساب سے کئی ہزار کی رقم ہوتی ہے، فرمایا:
"مجھے صاحبِ کمال سمجھ کر بلاتے ہیں مگر میں اپنے اندر کوئی کمال نہیں پاتا، یہ کہہ کر انکار کر دیا اور دین کی خدمت میں لگے رہے۔"
(آداب المتعلمین)


💥4.شاگردوں کے ساتھ خیر خواہی کرنا:


استاد کو چاہیے کہ طلبہ کی خیرخواہی میں کوئی دقیقہ (کسر) نہ چھوڑے، اس سلسلہ میں چند باتوں کا خاص طور پر لحاظ رکھیں:

▪1. اگر اس کے پاس اتنی گنجائش نہ ہو کہ علم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے قیام و طعام کا خرچہ برداشت کر سکے تو استاد اس کیلیے جس قدر ممکن ہو، انتظام کرے۔

✨حضرت امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کے حالات میں لکھا ہے کہ جب ان کو اس بات کا علم ہوا کہ امام ابو یوسف بہت غریب ہیں، اور ان کی والدہ چاہتی ہیں کہ محنت مزدوری کر کے کچھ لائیں تاکہ کھانے پینے کا انتظام ہو تو حضرت امام ابوحنیفہ نے ان کیلئے وظیفہ اتنا مقرر کر دیا تھا کہ ان کے علاوہ ان کی والدہ کے لئے بھی کافی ہوتا تھا۔

⚡ امام صاحب کے اس عمل سے معلوم ہوا کہ اگر کسی طالب علم کے گھر کا ایسا حال ہو اور اس کو علم کا شوق ہو تو اس کے گھر والوں کے گزر اوقات کا کوئی انتظام کر دے۔ اس لئے کہ اس ایک سے ہزاروں کی اصلاح ہو گی۔

⚡ اکابر نے تو یہاں تک کیا ہے کہ
شاگرد کے فارغ ہو جانے کے بعد بھی جب پریشانی کا علم ہوا تو خفیہ طور پر امداد کر کے ان کو بے فکر کیا تاکہ دین کی خدمت اطمینان سے کر سکیں۔

✨ امام محمد کے حالات میں ہے کہ
ایک مرتبہ اسد ابنِ فرات کا خرچ ختم ہو گیا، انہوں نے کسی سے ذکر نہ کیا، امام محمد کو جب معلوم ہوا تو اسی (80) دینار ان کے پاس بھجوائے۔
(معالم الایمان)

▪2. سبق کا ناغہ نہ کرے، اگر کسی مجبوری سے ناغہ ہو جائے یا کسی طالب علم سے مجبوراً سبق کا ناغہ ہوا ہو تو اس کی تلافی مختلف اوقات میں کر دے، اگر اس قسم کی بیماری میں طالب علم مبتلا ہے کہ اپنی قیام گاہ سے اس کے پاس نہیں آ سکتا تو اس کے لانے کا کوئی انتظام کر دے، اگر یہ نہیں کر سکا تو خود ہی طالب علم کے پاس جا کر سبق پڑھا دے، معاملہ میں سلف کی زندگی اور ان کی محنت کو سامنے رکھے۔

✨ ربیع بن سلمان کہا کرتے تھے، امام شافعی نے مجھ سے کہا
اگر میں تجھے علم گھول کر پلا سکتا تو ضرور پلا دیتا۔
(آداب المتعلمین)

▪3. پڑھا ہوا سبق جب تک طالب علم نے یاد نہ کر لیا ہو، اگلا سبق نہ پڑھائے اور آسانی کیلئے پڑھے ہوئے سبق کے متعلق سوالات تحریر کر دے اور دوسرے دن زبانی اور ان کا جواب ان سے پوچھے، ہفتہ میں کم از کم ایک دن علمی سوالات ان سے کیا کرے تاکہ ان کی معلومات میں اضافہ ہوتا رہے۔

✨ حضرت معاذ بن جبل سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی سواری پر میں ردیف تھا، آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک سوال کیا اور فرمایا کہ
"معاذ کیا تجھے معلوم ہے کہ لوگوں پر اللّٰہ کا حق ہے؟؟؟ میں نے عرض کیا: اللّٰہ اور اس کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کو بہتر علم ہے۔
فرمایا: لوگوں پر اللّٰہ تعالیٰ کا یہ حق ہے کہ اس کی عبادت کریں اور کسی چیز کو اس کے ساتھ شریک نہ کریں۔
پھر فرمایا: اے معاذ! کیا تو جانتا ہے کہ اللّٰہ پر لوگوں کا کیا حق ہے؟ اگر وہ ایسا کریں۔
میں نے کہا کہ اللّٰہ اور اس کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کو بہتر علم ہے۔
فرمایا: اللّٰہ تعالیٰ پر اس قسم کے لوگوں کا یہ حق ہے کہ انہیں عذاب نہ دے۔
میں نے عرض کیا: یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم! لوگوں کو اس کی بشارت دے دوں؟ فرمایا: نہیں! عمل کرنے دو۔
(مشکوٰۃ)

▪4. اگر معلوم ہو جائے کہ سبق میں کوئی غلطی ہو گئی ہے تو فوراً رجوع کر لے اور طالب علم سے کہہ دے فلاں بات میں نے غلط کہی تھی، صحیح مطلب یہ ہے اور اگر طالب علم عبارت کا مفہوم صحیح بتا رہا ہو تو اس کی بات مان لے۔ اس میں استاد کی بڑائی ہے۔ اس کی توہین نہیں ہوتی بلکہ اس کی دریافت داری اور امانت کا سکہ شاگرد کے دل میں بیٹھ جائے گا۔

✨ محمد ابن کعب قرظی سے مروی ہے کہ ایک شخص نے حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم سے ایک مسئلہ پوچھا۔ آپ نے بتایا: ایک دوسرا شخص جو وہاں موجود تھا، اس نے کہا: اے امیر المومنین! مسئلہ یوں نہیں ہے۔ حضرت امیر المومنین نے فرمایا:
بے شک تم صحیح کہتے ہو، مجھ سے غلطی ہو گئی۔
(جامع بیان العلم)

▪5. اگر کوئی طالب علم ذہین ہو تو اسے کند ذہن طلبہ کے ساتھ جماعت بندی کی قید میں نہ رکھے بلکہ اس کو اس کے ذہن اور استعداد کے مطابق سبق پڑھائے اور اس کے وقت کو ضائع ہونے سے بچائے۔

✨ امام محمد کے حالات میں لکھا ہے کہ دن کے علاوہ رات کے وقت بھی درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھتے تھے لیکن یہ درس عام نہ ہوتا تھا، بلکہ جو طلبہ دور دراز سے خاص ذوق لے کر ان کی خدمت میں آتے اور ان کے پاس وقت کم ہوتا، ان کیلئے یہ وقت رکھا تھا۔

▪6. اگر کوئی مضمون طالب علم کی سمجھ میں نہ آ رہا ہو تو پھر دوسرے وقت اس کو سمجھا دے، اس سلسلہ میں اگر وہ کسی دوسرے استاد سے اس کو حل کرنا چاہے تو اس میں ناگواری نہ ہونی چاہیے بلکہ خود کہہ دینا چاہیے کہ مجھے اتنا معلوم تھا، اگر اب بھی سمجھ میں نہ آیا ہو تو کسی اور سے سمجھ لینا یا میں ہی دریافت کر کے بتا دوں گا اور اگر اس مضمون کو خود استاد نہیں سمجھ رہا تو صاف اقرار کر لے کہ میری سمجھ میں اس وقت نہیں آ رہا، اور پھر کسی وقت سمجھا دوں گا، اس میں توہین کی کیا بات ہے، دنیا میں کون ایسا ہے جس کو ہر بات معلوم ہو۔

✨ حضرت عبداللہ ابنِ مسعود فرماتے ہیں کہ لوگو! جو بات جانتے ہو وہی کہو، جو نہیں جانتے اس پر اٙللّٰٙہُ اٙعلٙمُ کہا کرو، کیونکہ علم کا ایک خاصہ یہ بھی ہے کہ جو بات نہ جانتا ہو اس میں لاعلمی کا اعتراف کر لے۔

✨ حضرت شعبی سے ایک مسئلہ پوچھا گیا۔ فرمایا:
مجھے معلوم نہیں، یہ جواب سن کر ان کے ایک شاگرد نے کہا:
آپ نے اپنی لاعلمی کا اقرار کر کے ہم کو شرمندہ کر دیا۔
فرمایا: لیکن ملائکہ مقربین تو لاعلمی کا اقرار کر کے شرمندہ نہیں ہوئے بلکہ کہا:
جو کچھ آپ نے ہمیں سکھایا ہے اُس کے سوا ہمیں کچھ علم نہیں، یقیناً آپ ہی سب کچھ جاننے والے، کمال حکمت والے ہیں۔
(سورة البقرہ:32)


💥5.شاگردوں کی تربیت کرنا:


استاد کو چاہیے کہ شاگرد کو بداخلاقی سے جہاں تک ہو سکے اشارے اور پیار سے منع کرے، ڈانٹ ڈپٹ کے ساتھ نہ جھڑ کے۔ اس لئے کہ ڈانٹ ڈپٹ کرنا ہیبت کا حجاب دور کر دیتی ہے اور خلاف کرنے پر جرآت کا باعث اور اصرار پر حریص ہونے کا سبب ہوتی ہے۔

✨ چنانچہ آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم جو کُل استادوں کے استاد ہیں، ارشاد فرماتے ہیں:
اگر آدمیوں کو مینگنیاں جمع کرنے سے منع کر دیا جائے تو ضرور جمع کریں گے، اور خیال کریں کہ ہم کو جو اس سے منع کیا گیا ہے تو ضرور اس میں کوئی بات ہے۔

یہ انسانی فطرت ہے جیسا کہ حضرت آدم و حوا علیہما السلام کا قصہ اس پر شاہد ہے۔

✨ مشہور مقولہ ہے:
جس چیز سے انسان کو روکا جائے اس میں وہ اور بھی حرص کرنے لگتا ہے۔

✨ حضور اقدس صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
یعنی دین آسان اور سہل ہے۔

✨ اور ارشاد فرمایا:
یعنی تم لوگ آسانی کرنے والے مبعوث ہوئے ہوئے، سختی اور تنگی کے لئے نہیں مبعوث ہوئے۔

تو جب اللّٰہ تعالیٰ نے خود آسانی کا ارادہ فرمایا اور دین بھی آسان اور سہل بھیجا اور نبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کو رحمۃ اللعالمین بنا کر مبعوث فرمایا۔ چنانچہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے ہر امر میں رفق و سہولت کا لحاظ فرمایا اور امت کو بھی بابِ اصلاح و تربیت میں خصوصیت کے ساتھ یُسر (آسانی) کا امر فرمایا تو اب اس کے بعد کسی کی مجال کیا ہے؟؟؟ جو یُسر اور سہولت کو نہ اختیار کرے لہذا اب جو کوئی بھی دین سکھلانے کا ارادہ کرے اس کو رفق و یُسر (نرمی اور آسانی) کا اختیار کرنا لازم ہے۔
(معرفت حق)

✨ حضرت ثمامہ بن اثال جو اہلِ یمامہ کے سردار تھے، ان کے اسلام کا سبب حضور صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی نرمی ہی تو تھی۔
(مشکوٰۃ باب حکم الاسراء)

✨ خواجہ شمس الملک جو خواجہ نظام الدین اولیاء رحمتہ اللہ علیہ کے استاد ہیں۔
"تاریخ دعوت و عزیمت"میں ان کا واقعہ لکھا ہے کہ
اگر کوئی طالب علم ناغہ کرتا تو فرماتے مجھ سے کیا قصور ہوا کہ آپ نہ آئے؟ یہ جملہ سن کر کون شاگرد ایسا ہو گا جو پانی نہ ہو جائے اور پھر آئندہ اس جرم کا ارتکاب کرے۔ یہی ترتیب و شفقت تھی جس کی وجہ سے پہلے زمانے کے طلبہ اپنے اساتذہ پر قربان ہونے کو تیار ہو جاتے تھے۔
(آداب المتعلمین)



💥6.شاگردوں کے وقت کا لحاظ رکھنا:


استاد کو چاہیے کہ طالب علم سے پہلے معلوم کر لے کہ اس کے پاس کتنا وقت ہے؟؟؟ اس کا لحاظ کرتے ہوئے اس کے اسباق کا انتظام کرے، کم وقت ہو تو نصاب کا اس کو پابند نہ بنائے بلکہ دین کی اس قسم کی کتابیں پڑھا دے جس سے اس کو حلال و حرام، جائز و ناجائز کی تمیز ہو جائے اور اسلامی اخلاق کے ساتھ متصف ہو جائے، اس سلسلہ میں جو کتابیں وہ سمجھ سکے وہ پڑھائے خواہ کسی زبان میں ہو، کوئی ضروری نہیں کہ اس کو عربی زبان ہی میں پڑھایا جائے۔ بزرگانِ دین کی سوانح دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان حضرات نے اس کا بہت زیادہ لحاظ کیا ہے۔ ہر ایک کی استعداد اور وقت کا لحاظ کرتے ہوئے ان کو پڑھایا اور ان کے منصب کے مطابق دین کی خدمت ان کے سپرد کی، جس جگہ گئے روزی کا بار کسی پر نہیں ڈالا۔ توکل کی بنیاد پر کام شروع کیا۔ نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ علاقہ کا علاقہ سیراب ہو جاتا تھا۔


💥7. شاگردوں کے سامنے کسی کی برائی کرنے سے اجتناب کرنا:

استاد کو چاہیے کہ جس طالب علم کو پڑھا رہا ہے اس کا نفع تو اس کے سامنے بیان کرے لیکن غیبت، غمازی، کسی کی پردہ دری، افتراق بین المسلمین تو ہر ایک کے لئے ناجائز اور حرام ہے، تو پھر علماء کرام اور دین کے پیروکاروں لئے یہ کس طرح جائز ہوں گی۔
تعلیمی اداروں میں جب اس قسم کی برائیاں آتی ہیں، اور اساتذہ ایک دوسرے کی برائی میں لگ جاتے ہیں تو اس کا اثر طلبہ اور عوام پر بہت بُرا پڑتا ہے۔ پھر جب وہ درس اور وعظ میں ان عیوب کی برائیاں اور ان پر وعید بیان کرتے ہیں تو اُن کی اِن باتوں کا کسی کے دل پر اثر نہیں ہوتا اور فوراً ان کے کارنامے آئینہ بن کر لوگوں کے سامنے آ جاتے ہیں۔
(آداب المتعلمین)


💥8.سبق پڑھاتے وقت شاگردوں کی سمجھ کے مطابق تقریر کرنا:


استاد کو چاہیے کہ سبق پڑھاتے وقت ایسی تقریر نہ کرے جو طالب علم کی فہم اور استعداد سے بالاتر ہو، اس میں حضور صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی کرے۔

✨ آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ
ہم کو یہ حکم ہے کہ لوگوں کے مراتب کا لحاظ رکھیں اور ان کی عقل اور سمجھ کے مطابق ان سے گفتگو کریں۔

✨ اور فرمایا کہ
جب کوئی کسی قوم کے سامنے ایسی بات کرتا ہے کہ جس کو وہ نہیں سمجھ سکتے تو وہ بات فتنے کا سبب بن جاتی ہے۔

✨ حضرت علیؓ نے اپنے سینے کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ
اس میں بہت سے علوم ہیں بشرطیکہ ان کے سمجھنے والے ہوں یعنی میں اُن کو اس لئے ظاہر نہیں کرتا کہ اِن علوم کا کوئی متحمل نہیں ہے۔

✨امام مالک رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
عالم کیلئے مناسب نہیں ہے کہ کسی شخص کے سامنے ایسی بات کرے جس کا سمجھنا اس کی طاقت سے بالاتر ہو۔
(آداب المتعلمین)


💥9.شاگردوں سے ذاتی خدمت لینے میں احتیاط کرنا:

طالب علم کی سعادت تو اسی میں ہے کہ اپنے استاد کی خدمت میں کوتاہی نہ کرے لیکن خود استاد کو اس سلسلہ میں بہت احتیاط کرنی چاہیے اور بغیر کسی مجبوری کے اپنا ذاتی کام اس سے نہ لے اور اگر مجبوری کی وجہ سے کبھی کوئی خدمت لے تو کسی طرح اس کی تلافی کر دے، نیز اس کا لحاظ رکھے کہ اس قسم کا کام نہ لے جس کو وہ پورا نہ کر سکے یا اس میں اس کے سبق یا تکرار وغیرہ کا نقصان ہوتا ہو اس لئے کہ جس مقصد کیلئے اس نے وطن چھوڑا ہے جب اس میں حرج واقع ہو گا تو بددلی پیدا ہو گی اور اخلاص کے ساتھ وہ ہرگز کام نہ کرے گا۔
(آداب المتعلمین)

💥 10.عمل کا اہتمام کرنا:


استاد کو چاہیے کہ علم کے مطابق عمل کرتا ہو۔ ایسا نہ ہو کہ کہے کچھ اور کرے کچھ۔ اگر عمل کے خلاف ہو گا تو اس کے ذریعہ ہدایت نہ ہو گی۔
ایسے علم سے جس پر عمل نہ ہو، حضور صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے پناہ مانگی ہے۔

✨ ارشاد ہے:
اے اللّٰہ!!! میں ایسے علم سے پناہ مانگتا ہوں جو نفع نہ دے۔

✨ ایک جگہ ارشاد فرمایا:
سب سے بد ترین شخص مرتبہ کے اعتبار سے اللّٰہ پاک کے نزدیک وہ عالم ہے جس کے علم سے نفع نہ ہو۔

✨ایک حدیث میں ہے:
سب سے بدتر علماء بد ہیں اور سب سے بہتر لوگ علماء خیر ہیں۔

✨ حضرت ابو درداءؓ فرماتے ہیں کہ
اس خوف سے لرز رہا ہوں کہ قیامت کے دن حساب دینے کے لئے کھڑا کیا جاؤں اور پو چھا جائے؛ تو نے علم تو حاصل کیا تھا مگر اس سے کام کیا لیا؟؟؟

✨ ایک اور جگہ حضرت ابودرداءؓ ارشاد فرماتے ہیں:
جو نہیں جانتا اس کیلئے ایک ہلاکت ہے اور جو جانتا ہے اور عمل نہیں کرتا اس کیلئے سات ہلاکتیں ہیں۔
(آداب المتعلمین)