🌹جانوروں کے ساتھ حسنِ سلوک:



اسلام دین فطرت ہے، اس کا پیغام امن و آشتی اور محبت کا پیغام ہے، اور رحمتِ کریمی صرف انسانوں تک محدود نہیں، ہر ذی روح تک محیط ہے۔ اس کے فیوض و برکات نے جہاں عالمِ انسانیت کو سیراب کیا، وہیں بے زبان جانوروں کو بھی اپنی رحمتِ بے کراں سے مالامال کیا۔ زمانہ ٔ جاہلیت میں اہلِ عرب جانوروں کے ساتھ نہایت وحشیانہ سلوک کرتے تھے۔ نزولِ اسلام کے بعد گویا ان بے زبان جانوروں کو بھی جائے اماں ملی۔

⚡ اسلام نے جانوروں کے حقوق متعیّن کرکے رہتی دنیا تک انہیں تحفظ فرما دیا اور ان سے بدسلوکی کرنے والوں کو دوزخ کے عذاب کی وعید سنائی۔

🔅جانوروں کی اہمیت اور ان کی خصوصیات بیان کرنے کے لیے یہی کافی ہے کہ قرآن کریم میں اللہ نے دو سو آیات میں جانوروں کا ذکر فرمایا ہے۔
🔅جب کہ کچھ سورتوں کے تو نام ہی جانوروں کے نام پر ہیں۔ جیسے سورۃ البقرہ (گائے)، سورہ نحل (شہد کی مکھی)، سورہ نمل (چیونٹی)، سورہ عنکبوت (مکڑی)، سورہ فیل (ہاتھی)۔

💫 قرآن کریم میں 35 جانوروں کا ذکر آیا ہے:
✨پرندوں میں بٹیر، ہدہد، ابابیل اور کوّےکا۔
✨آبی جانوروں میں وہیل مچھلی، مینڈک کا۔
✨پالتو جانوروں میں گائے، بکرے، بھیڑ، اونٹ، گدھے، خچر، کتّے اور گئوسالہ (بچھڑے)کا۔
✨جنگلی جانوروں میں شیر، ہاتھی، بندر، سوّر، اژدھے کا۔
✨اور حشرات میں مچھر، مکّھی، مکڑی، تتلی، ٹڈی، چیونٹی، شہد کی مکّھی وغیرہ۔

▪قرآنِ کریم میں حقیر جانوروں کا ذکر کرنے پر کچھ کفار نے اعتراض بھی کیا۔ جس پر اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا:

بے شک اللہ اس بات سے نہیں شرماتا کہ (سمجھانے کے لیے) کوئی بھی مثال بیان فرمائے، (خواہ) مچھر کی ہو یا (ایسی چیز کی جو حقارت میں) اس سے بھی بڑھ کر ہو، تو جو لوگ ایمان لائے، وہ خوب جانتے ہیں کہ یہ مثال ان کے رب کی طرف سے حق (کی نشان دہی) ہے۔(سورۃ البقرہ)

▪اللہ رب العزت نے دنیا میں کوئی بھی شے بلامقصد پیدا نہیں کی۔ اسی طرح جانوروں سے حاصل ہونے والے فوائد و خصائص کو قرآن کریم میں یوں بیان فرمایا گیا۔

اسی نے چوپائے پیدا کیے، جن میں تمہارے لیے گرمی کے لباس ہیں اور بھی بہت سے منافع ہیں اور بعض تمہارے کھانے کے کام آتے ہیں اور ان میں تمہاری رونق بھی ہے۔ جب چَرا کر لائو، تب بھی اور جب چَرانے لے جائو، تب بھی اور وہ تمہارے بوجھ ان شہروں تک اٹھالے جاتے ہیں، جہاں تم زحمتِ شاقہ کے بغیر پہنچ ہی نہیں سکتے۔ کچھ شک نہیں کہ تمہارا رب بڑا ہی شفیق اور نہایت مہربان ہے اور اسی نے گھوڑے، خچّر اور گدھے پیدا کیے تاکہ تم ان پر سوار ہو اور (وہ تمہارے لیے) رونق و زینت (بھی ہیں)۔
(سورۃ النحل)

✨حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بعض جانوروں کی مخصوص صفات اور منفرد خوبیوں کی وجہ سے ان کے ساتھ بہتر سلوک کا حکم فرمایا۔ گھوڑے کے متعلق فرمایا: گھوڑے کے ساتھ قیامت کے دن تک خیر وابستہ ہے۔
(مسلم)

✨ مرغ کے بارے میں فرمایامرغ کو گالی نہ دو، کیوںکہ وہ نماز کے لیے اٹھاتا ہے۔
(ابوداؤد)

🌹جانوروں کے حقوق ازروئے قرآن:


💐 ارشادِ الٰہی ہے کہ
زمین کے جانور اور ہوا کی چڑیاں بھی تمہاری ہی طرح ایک امت ہیں۔
(سورہ الانعام: 38)

💐 چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ہم انسانوں کو سورہ طہٰ میں صاف صاف حکم دیا ہے کہ
ان مختلف قسم کی پیداوار میں سے) تم خود بھی کھاؤ اور اپنے چوپایوں کو بھی چراؤ۔
(سورة طہٰ:54)

💐 اور مویشیوں میں سے کچھ بوجھ اُٹھانے والے ہیں اور کچھ زمین سے لگے ہوئے ہیں۔ کھاؤ اس میں سے جو ﷲ تعالیٰ نے تمہیں رزق دیا ہے اور شیطان کے قدموں کے پیچھے نہ چلو، یقیناوہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔
(سورةالانعام:142)

💐 اس نے تمہیں جانوروں اور بیٹوں سے مدد دی ہے۔
(سورةالشعراء:133)

💐 اور ﷲ تعالیٰ نے تمہارے گھروں کو تمہارے لیے رہنے کی جگہ بنا دی اور اُس نے چوپایوں کی کھالوں سے تمہارے لیے ایسے گھر بنائے جنہیں تم اپنے سفر کے دن اور اپنے قیام کے دن ہلکا پاتے ہو اور ان کی اون سے اور ان کے پشم سے اور ان کے بالوں سے گھر کا سامان اور ایک وقت تک فائدے کی چیزیں بنائیں۔
(سورہ نحل:80)

💐 یہ اور جو کوئی ﷲ تعالیٰ کی حرمتوں کی تعظیم کرے تو وہ اس کے رب کے نزدیک خود اسی کے لیے بہتر ہے۔ اور مویشی جانور تمہارے لیے حلال کر دیے گئے ہیں سوائے ان کے جو تمہیں پڑھ کر سنائے جاتے ہیں پس تم بتوں کی گندگی سے اجتناب کرو اور جھوٹی بات سے پرہیز کرو۔
(سورة حج:30)

💐 اور بلاشبہ تمہارے لیے مویشیوں میں یقیناً بڑی عبرت ہے، جو ان کے پیٹ میں ہے ہم اس میں سے تمہیں پلاتے ہیں اور تمہارے لیے ان میں بہت سے دوسرے فائدے بھی ہیں اور انہی میں سے کچھ کو تم کھاتے بھی ہو۔
(سورة المومنون:21)

💐 اور وہ جس نے سب کو جوڑا جوڑا پیدا کیا اور تمہارے لیے کشتیاں اور چوپائے بنائے جن پر تم سوار ہوتے ہو۔
(سورة الزخرف:12)

💐 لوگوں کے لیے نفسانی خواہشات کی محبت خوش نما بنا دی گئی، جو عورتیں اور بیٹے اور سونا چاندی کے جمع کئے ہوئے خزانے اور نشان زدہ گھوڑے اور مویشی اور کھیتی ہیں۔ یہ سب دنیا کی زندگی کا سامان ہیں اور اللہ تعالیٰ کے پاس بہت اچھا ٹھکانہ ہے۔
(سورة آل عمران:14)

🌹جانوروں کے حقوق ازروئے احادیث:


🌷 چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چار جانوروں (چیونٹی، شہد کی مکھی، ہدہد اور صرد) کے مارنے سے منع فرمایا ہے۔
(ابو داؤد)

🌷 اسی طرح اسلام میں بلاضرورت کسی جانور کے قتل کرنے کو بہت بڑا گناہ قرار دیا ہے۔
(حاکم)

🌷 ایک اور حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی یہ ہے کہ
اللہ عزوجل نے ہر مخلوق کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے کو فرض قرار دیا ہے۔
(مسلم)

🌷 ایک حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی یہ ہے کہ
ہر زندہ جانور کے کھلانے پلانے میں اجر و ثواب ہے۔
(بخاری و مسلم )

🌷 نیز ایک حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جانور کو بھوکا رکھنے پر سخت وعید سنائی اور بڑی تنبیہ کی ہے، روایت میں ہے کہ
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک (نحیف و لاغر) اونٹ کے پاس سے گزرے، جس کا پیٹ (بھوک کی وجہ سے) اس کی کمر سے لگ گیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
لوگو! ان بے زبان جانوروں کے معاملہ میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو (ان کو اس طرح بھوکا نہ مارو) ان پر سوار ہو تو ایسی حالت میں جبکہ یہ ٹھیک ہوں (ان کا پیٹ بھرا ہو) اور ان کو (اسی طرح کھلا پلا کر) اچھی حالت میں چھوڑو۔
(ابو داؤد)

🌷نیز ایک حدیث میں انسانوں کے ساتھ ساتھ جانوروں اور پرندوں کے کھلانے پلانے کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہایت مؤثر و بلیغ انداز میں بڑے ثواب کا کام بتا کر ہم انسانوں کو اس کی بڑی ترغیب دی ہے۔
ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے کہ
جو کوئی مسلمان کسی درخت کا پودا لگائے یا کھیتی کرے، پھر کوئی انسان یا کوئی پرندہ یا چوپایہ اس درخت یا کھیتی میں کھائے تو یہ اس مسلمان کیلئے بڑے صدقہ (ثواب) کا کام ہے۔
(بخاری و مسلم)

🌷 آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جانوروں کو باندھ کر اس پر نشانہ لگانے کی سخت ممانعت فرمائی۔
(مسلم، ابنِ ماجہ)

🌷 اور ایک روایت میں فرمایا:
اونٹ اپنے مالک کے لیے عزت کا باعث ہوتا ہے اور بکری میں خیر و برکت ہے۔
(ابنِ ماجة)


💥اسلام سے پہلے جانوروں کے ساتھ برتاؤ:


زمانۂ جاہلیت انسانیت کا تاریک ترین اور گمراہ کن دور تھا، جس کی عمارت کی ہر اینٹ اپنی جگہ سے متزلزل اور بے بنیاد تھی۔ ظلم و جور کی چادر ہر جان و بے جان پر تنی ہوئی تھی۔ رحمت و مودت اور اخوت و بھائی چارگی نے دم توڑ دیا تھا۔ قدم قدم پر جنونیت و دیوانگی کے مدفن نے؛ فطرتِ انسانی کو اپنے آپ میں دفن کر لیا تھا۔ خدا تعالیٰ کی نت نئی مخلوقات پر مشتمل اس دنیا جکی ہر ذی روح؛ گھٹن اور بے کسی کا شکار تھی۔ جانور و حیوانات رفق و نرمی سے مکمل طور پر محروم تھے؛ بلکہ بسااوقات ان کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے اور ان کے آرام و آرائش کا خیال رکھنے کو حیرت بھری نگاہ سے دیکھتے اور اسے بے جا شوق پورا کر نے، ایک دوسرے پر اپنے آپ کی فضیلت ثابت کر نے کا ذریعہ سجھتے تھے۔

▪ دیوانِ جاہلی میں ایسے بہت سے قصوں کا ثبوت ملتا ہے؛ جنہیں پڑھ کر انسانی طبیعت بے ساختہ مچل اٹھتی ہے اور طبیعتِ انسانی کے مسخ ہونے پر شاہد ہوتی ہے۔

ان کی قساوت و سنگدلی کا عالم یہ تھا کہ

⚡ فیاضی کی آڑ میں جانوروں کو مار گراتے تھے اور لوگوں سے کہتے: تم انہیں کھا جاؤ!، تو وہیں دو آدمی شرط لگا کر کھڑے ہو جاتے تھے اور باری باری سے اپنا اونٹ ذبح کرتے جاتے تھے؛ جو رک جاتا وہ ہار جاتا تھا، اور مذبوحہ جانوروں کو احباب کی ضیافت کا ساماں کر دیتے تھے۔

⚡ حتیٰ کہ ایک دستور کے مطابق جب کوئی مر جاتا تو اسکی سواری کے جانور کو اسکی قبر پر باندھتے اور اس کا غلہ، پانی اور گھاس بند کر دیتے تھے؛ یہاں تک کہ وہ بھوکے پیاسے سوکھ کر اسی حالت میں مر جاتا، ایسے جانوروں کو ’’بلیہ‘‘ کہتے تھے۔

⚡ حد تو یہ تھی کہ ان پر سواری کرتے، نقل مکانی اور باربرداری کا کام لیتے، جنگ و جدل میں بے دریغ استعمال کرتے لیکن ان کے کھانے پینے کی بالکل پرواہ نہ کرتے تھے۔

⚡ مزید یہ کہ اگر اس جانور کا کوئی عضو اچھا لگتا تو اسے یوں ہی کاٹ لیتے اور کھا جاتے۔

⚡ جنگلوں میں شب و روز نکل جانا اور بیجا و لغو شکار کرنا بہادری کا معیار مانا جاتا تھا۔

⚡ انہیں ذبح کرنے اور کاٹنے کے معاملہ میں تو پتھر اور ناخن کا بھی استعمال کر لیتے تھے۔ جن سے جانور ذبح کم اور گھٹن سے زیادہ جان سونپ دیتا تھا۔

⚡اگر کوئی جانور ان کے قابو و گرفت سے باہر ہو جاتا خواہ اس کی پیر سالی و ضعف کی وجہ سے کیوں نہ ہو۔ اسے لعنت و ملامت کا نشانہ بناتے تھے۔

⚡کبھی کبھی کسی خاص جانور کو باندھ کر تیر اندازی کرتے اور اپنا نشانہ درست کرتے تھے یا انہیں آپس میں لڑوا کر ان کی خوں ریزی کا لطف اٹھاتے تھے۔

💫 ایک دفعہ ابن عمر رضی الله عنه قریش کے چند نوجوانوں کے پاس سے گزرے؟ جو ایک زندہ پرندہ کو لٹکا کر نشانہ بازی کررہے تھے، وہ ابن عمر رضی الله عنه کو دیکھ کر ادھر ادھر ہو گئے، ابن عمر رضی الله عنه نے ان سے دریافت کیا یہ کس نے کیا ہے؟؟؟ اس فعل کے مرتکب پر اللہ کی لعنت ہے۔ پھر ابن عمر رضي الله عنه نے آپ صلى الله عليه وآلہ۔وسلم کا قول نقل کیا:
اللہ کی لعنت اس شخص پر ہے جس نے نشانہ بازی کے لیے ذی روح کو استعمال کیا۔
(مسلم)

💫 ایک دفعہ ابن عمر رضی الله عنه یحیی بن سعید رضی الله عنه کے پاس آئے تو بنی یحیی کا ایک غلام مرغی کو باندھ کر نشانہ بازی کر رہا تھا، ابن عمر رضی الله عنه نے اس مرغی کو کھول دیا، پھر لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمانے لگے، اس بچے کو ڈراؤ اوراس طرح پرندہ کو قید کرکے قتل کرنے سے روکو، اس لیے کہ آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے جانوروں کو قید کرکے قتل کرنے سے منع فرمایا ہے۔"
(بخاری)



🌹 مثلہ کی ممانعت:


✨ جانوروں کو زندہ رکھ کر اگر اس کے اعضاء و جوارح کو کاٹا جائے تو اسے کتنی تکلیف ہو گی؟ اس کا اندازہ کرنا دشوار ہے، جانوروں کو جن ذرائع سے تکلیف دی جاتی اسی میں ایک طریقہ زمانہ جاہلیت میں مثلہ کا بھی رائج تھا، آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے اس طریقہ کار کی مذمت کی اور اس کے مرتکب پر آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے لعنت فرمائی۔
"جس شخص نے جانور کا مثلہ کیا اس پر آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے لعنت فرمائی۔'
(بخاری)

✨ ایک دفعہ مثلہ زدہ گدھا آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے قریب سے گزرا تو آپ علیہ الصلاة والسلام نے اس کے مرتکب پر لعنت فرمائی۔
(مسلم)

اسی طرح ایک ظالمانہ طریقہ و عمل (زندہ اونٹ کی کوہان اور دُنبہ کی دم چکی کو کاٹنے) کی ممانعت بہت ہی شدت کے ساتھ فرمائی کہ
اس طریقہ سے زندہ جانور کا گوشت کاٹ کر کھایا جاتا ہے، وہ مردہ ہے۔
(ترمذی)