🌹جانوروں کے حقوق


💥1. جانوروں کا حقِ خوراک:

جانوروں کا سب سے پہلا حق یہ ہے کہ ان کے چارے، دانے، غذا اور پانی کا خیال رکھیں۔ انسان کچھ جانور اور پرندے شوق کی خاطر پالتا ہے، تو کچھ دودھ، گوشت وغیرہ کے لیے اور کچھ آمدورفت کے لیے۔ ہر جانور کو ویسا ہی چارہ یا دانہ دیا جائے، جیسا وہ کھاتا ہے۔ جانور کو بھوکا رکھنے کا مطلب خدا کے غضب کو دعوت دینا ہے۔

✨ حضرت عبداللہ بن جعفرؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک انصاری کے باغ میں تشریف لے گئے، جہاں ایک اونٹ بندھا ہوا تھا۔ اونٹ نے جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا، تو اس نے بلبلا کر غم ناک آواز نکالی اور اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے پاس تشریف لے گئے اور شفقت سے اس کی دونوں کنپٹیوں اور کوہان پر ہاتھ پھیرا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت کیا کہ یہ اونٹ کس کا ہے؟ ایک انصاری آگے آیا اور بولا۔ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! یہ میرا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
اس بے زبان جانور کے بارے میں اللہ سے ڈر، جسے اللہ نے تیرے اختیار میں دے رکھا ہے، یہ اونٹ اپنے آنسوئوں اور اپنی آواز کے ذریعے مجھ سے تیری شکایت کر رہا ہے۔
(ابوداؤد)

💥2.جانوروں پر رحم کرنا:

جانوروں کا ایک حق یہ ہے کہ ان پر رحم کیا جائے، ان کے گھونسلوں کو نہ توڑا جائے، پرندوں کو بلاضرورت نہ پکڑا جائے، پرندوں کے گھونسلوں سے ان کے انڈوں اور بچّوں کو نہ نکالا جائے، پرندوں پر رحم نہ کھانا، ظلم، زیادتی اور گناہ ہے، جس پر عذاب کی وعید ہے۔

✨ حضرت عامرؓ بیان کرتے ہیں کہ ’ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے کہ ایک کمبل پوش شخص آیا، اس کے ہاتھ میں کوئی چیز تھی، جو کمبل میں چھپی ہوئی تھی۔ اس نے کہا۔ ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! میں گھنے جنگل سے گزر رہا تھا، وہاں میں نے پرندوں کی آوازیں سنیں، تو ان کے گھونسلوں سے ان کے بچّوں کو پکڑ کر اپنے کمبل میں چھپا لیا، ان بچّوں کی ماں میرے سر پر منڈلانے لگی، میں نے کمبل کھولا، تو وہ بھی کمبل کے اندر اپنے بچّوں کے پاس آ گئی، لہٰذا میں نے اسے بھی چھپا لیا۔ اب وہ بھی میرے کمبل میں موجود ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی بات سن کر فرمایا۔
ان سب کو نیچے رکھو۔
اس نے سب کو کمبل سے نکال کر سامنے رکھ دیا، تو ان بچّوں کی ماں بے قراری کے ساتھ بچّوں کے گرد طواف کرنے لگی اور فرطِ محبت سے انہیں چمٹانے لگی۔
یہ دیکھ کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔
تم لوگ ماں کی اپنے بچّوں کے ساتھ محبت پر حیران ہو رہے ہو، اس ربِ کائنات کی قسم، جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے، وہ رب اپنے بندوں کے ساتھ اس ماں سے کہیں زیادہ مہربان ہے۔
پھر اس شخص سے فرمایا۔ جاؤ، ان بچّوں کو ان کی ماں کے ساتھ وہیں چھوڑ آؤ، جہاں سے لائے ہو۔
(ابو داؤد)

✨ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ بیان فرماتے ہیں کہ ایک سفر کے دوران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک جگہ مختصر قیام فرمایا۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جماعت کے ایک شخص نے قریبی گھونسلے سے ایک چڑیا کا انڈا اٹھا لیا۔ چڑیا آئی اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سر پر پھڑپھڑانے لگی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
تم میں سے کس نے اس کے انڈوں کے بارے میں اسے دکھ پہنچایا ہے۔
ایک شخص نے عرض کیا۔ ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! میں نے اس کے انڈے کو اٹھا لیا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔
اس پر رحم کرتے ہوئے اس کے انڈے کو واپس رکھ دو۔
(الادب المفرد)

عموماً لوگ باربرداری کے جانوروں، خاص طور پر گدھوں اور خچّروں پر بے تحاشا بوجھ لاد دیتے ہیں، جو ان کی سکت سے کہیں زیادہ ہوتا ہے، پھر جب وہ جانور بوجھ اٹھا نہیں پاتا تو اسے بے دردی سے پِیٹتے ہیں۔ جانوروں کو مارنا پِیٹنا، ان پر ہمّت سے زیادہ بوجھ ڈالنا ظلم ہے۔ بے زبان جانور، ظالم مالک سے تو کچھ نہیں کہہ سکتا، لیکن اللہ سے اس کے لیے بددعا ضرور کرتا ہے۔ لہٰذا جانوروں کے ساتھ رحم کا برتاؤ کر کے ان کی بددعاؤں سے بچنا چاہیے۔


💥3. جانوروں کے آرام کا خیال رکھنا:

جانوروں کا ایک حق یہ بھی ہے کہ ان کے آرام کا خیال رکھا جائے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جانوروں کے آرام کا خیال رکھنے کی بڑی تلقین فرمائی ہے۔ جانوروں کو تنگ کرنا، بلاضرورت دوڑانا، پریشان کرنا سخت ناپسندیدہ فعل ہے۔ قربانی کے جانور اللہ کے مہمان ہوتے ہیں، عموماً دیکھا گیا ہے کہ دن رات کا خیال کیے بغیر انہیں گلی، محلّوں میں دوڑایا جاتا ہے، ان کی نمائش کر کے تماشا بنایا جاتا ہے، گھروں کے بچّے انہیں کھیل اور تفریح سمجھ کر گھسیٹتے پھرتے ہیں، جب کہ گھر کے بڑے جانوروں کے ساتھ ہونے والے اس ظلم پر خوش ہوتے ہیں۔ یہ سب ناپسندیدہ اور گناہ کے کام ہیں۔

✨ حضرت ابنِ عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ عرفات سے واپسی پر دورانِ سفر عقب سے اونٹوں کو مارنے اور انہیں تیز ہانکنے کی آواز سنیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
لوگو! آرام سے چلو، اونٹوں کو دوڑانا اجر کا سبب نہیں۔
(صحیح بخاری)

✨ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
جب تم سبزے والی زمین پر سفر کرو، تو اونٹوں کو ان کا حصّہ دو۔
(صحیح مسلم)

صحابہ کرامؓ کا معمول تھا کہ جب سفر پر ہوتے اور راستے میں سبزے والی جگہ نظر آتی، تو اپنے سفر کو تھوڑی دیر کے لیے موقوف کر کے اونٹوں کو چَرنے کے لیے چھوڑ دیتے۔

✨حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ جب ہم کسی منزل پر اترتے ،تو نماز اس وقت تک نہیں پڑھتے، جب تک کہ اونٹوں کے کجاوے کو کھول نہیں دیتے تھے۔

💥4. ذبح کرتے وقت احتیاطی تدابیر:

جانور کو ہمیشہ تیز دھار آلے سے ذبح کیا جائے، تاکہ اسے تکلیف نہ ہو، ذبح کرنے سے قبل جانور کو دانہ پانی دیں۔ خیال رکھیں کہ وہ بھوکا نہ ہو۔ چھری کو پہلے سے تیز کر لیں۔ جانور کو قبلہ رخ لٹائیں۔ تکبیر کہہ کر تیز دھار آلے سے ذبح کریں۔ کھال اتارنے میں جلدی نہ کریں۔ جانور کے ٹھنڈا ہونے کا انتظار کریں۔ ایک جانور کو دوسرے کے سامنے ذبح نہ کریں۔ عیدِ قرباں میں ایسے مناظر دیکھنے میں آتے ہیں کہ قصائی وقت کی بچت کی خاطر ان باتوں کا خیال نہیں رکھتے، لہٰذا اہلِ خانہ پر لازم ہے کہ وہ قصائیوں سے ان پر عمل کروائیں۔

✨ حضرت ابو امامہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
جس شخص نے رحم کیا، اگرچہ ذبح کیے جانے والے جانور ہی پر ہو، تو اللہ قیامت کے دن اس پر رحم فرمائے گا۔
(طبرانی)

✨ حضرت ابنِ عباسؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص بکری کو لٹا کر اس کے سامنے چھری تیز کرنے لگا، تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
کیا تم اسے دو موت مارنا چاہتے ہو۔ تم نے اپنی چھری اسے لِٹانے سے قبل تیز کیوں نہیں کرلی۔
(مستدرک حاکم)

جن جانوروں کا گوشت کھانا حرام ہے، وہ بھی جب تک ایذا نہ دیں، انہیں بلاوجہ جان سے مار ڈالنا درست نہیں۔ اسی طرح صرف تفریحِ طبع کی خاطر کسی حلال جانور کی جان لے لینا بھی درست عمل نہیں۔ حضرت شداد بن اوسؓ سے روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایااللہ تعالیٰ نے ہر چیز پر احسان ضروری قرار دیا ہے، لہٰذا جب کسی چیز کو جان سے ختم کرنا ہو، تو اسے اچھی طرح ختم کردو۔ جب کسی کو ذبح کرو، تو اچھی طرح ذبح کرو اور تم اپنی چھری کو اچھی طرح تیز کرلیا کرو اور ذبیحہ کو آرام دیا کرو۔
(صحیح مسلم)

دین اسلام نے انسانی ضرورت پر جن جانوروں کو مارنے یا ذبح کرنے کی اجازت دی ہے، ان جانوروں کے ساتھ اس وقت بھی پوری نرمی اور ہمدردی کرنے کا مثالی حکم دیا ہے۔

✨ چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ
اللہ عزوجل نے ہر مخلوق کے ساتھ حسن و سلوک کرنا فرض کیا ہے، اس لئے جب تم کسی جانور کو مارو تو اچھے طریقہ سے مارو، اور جب ذبح کرو تو اچھے طریقے سے ذبح کرو تاکہ تم میں سے ہر آدمی اپنی چھری تیز کر لے، اور اپنے ذبیحہ کو آرام پہنچائے۔
(مسلم، ابنِ ماجہ)

▪امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ
جانور کے ساتھ احسان اور بھلائی یہ ہے کہ اس کو مذبح تک کھینچ کر نہ لے جایا جائے۔
(مجلة الجامعة الاسلامیة)

▪فقہاء نے ذابح کو ذبیحہ کے سامنے چھری تیز کرنے سے منع فرمایا ہے، اور اس کو بُری طرح سے لٹانے سے منع کیا ہے۔

▪ ایک حدیث میں ہے کہ ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے کہا:
یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! جب میں بکری کو ذبح کرتا ہوں تو مجھے اس پر رحم آتا ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
"اگر تم بکری پر رحم کرتے ہو تو خدا تم پر رحم کرے گا۔
(مجمع الزواید)

▪حضرت حین بن عطاء سے مروی ہے کہ فرمایا کہ
ایک قصاب نے بکری کو ذبح کرنے کے لیے اس کے کوٹھے کا دروازہ کھولا، تو وہ بھاگ پڑی، اس نے اس کا پیچھا کیا، اور اس کو اس کے پیر سے کھینچ کر لانے لگا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
اے قصاب! اس کو نرمی سے کھینچ لاؤ۔
(مصنف عبد الرزاق)


💥5. مذبوح جانوروں کو مارنے کا طریقہ:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے موذی اور تکلیف دہ جانوروں مثلاً سانپ، بچّھو، گرگٹ، چھپکلی وغیرہ کو مارنے کا حکم تو دیا ہے، لیکن انہیں مارنے میں بھی احسان اور بھلائی کا حکم ہے۔

✨ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اللہ نے ہر چیز میں احسان کرنا فرض کیا ہے؛ اس لیے جب تم لوگ کسی جانور کو مارو تو اچھے طریقے سے مارو اور جب ذبح کرو تو اچھے طریقے سے ذبح کرو۔
(مسلم)

▪آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا کہ یہ (جانور) کس نے جلایا؟ ہم نے کہا ہم نے جلایا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
کسی کے لیے یہ بات مناسب نہیں کہ وہ آگ سے تکلیف پہنچائے سوائے آگ کے پیدا کرنے والے کے۔
(ابوداؤد)

▪ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چھپکلی کو مارنے کا حکم فرمایا ہے؛ لیکن اس کے مارنے میں بھی نرمی اور احسان کا حکم کیا ہے، اس کو ایک ہی وار میں مارے ،اس کو متعدد مار میں مارنے پر کم اجر حاصل ہونے کی بات ارشاد فرمائی۔

✨ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
جس نے چھپکلی کو پہلی ضرب میں مار ڈالا تو اس کے لیے اتنی اتنی نیکیاں ہیں۔
(مسلم)

▪ مسلم کی روایت میں ہے:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
جو شخص گرگٹ کو ایک ہی وار میں مار ڈالے، اس کے لیے سو نیکیاں لکھی جائیں گی، دوسرے وار میں اس سے کم اور تیسرے وار میں اس سے بھی کم نیکیاں لکھی جائیں گی۔
(مسلم)

✨ ایک اور حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایک طبیب نے دوا و علاج میں کام آنے والے مینڈک کے مارنے کے بارے میں دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مینڈک مارنے سے ان کو منع فرمایا۔
(ابوداؤد)

✨حضرت عائشہؓ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
ایذاء پہنچانے والے پانچ جانور ہیں جن کو حدود حرم سے باہر بھی اور حدود حرم میں بھی مارا جا سکتا ہے۔ (مارنے والا خواہ احرام کی حالت میں ہو خواہ احرام سے باہر ہو) سانپ، ابلق کوا، چوہا، کٹ کھنا کتا، چیل۔
(بخاری ومسلم)

✨ حضرت سالم بن عبداللہؓ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سانپوں کو قتل کرو۔ اس سانپ کو بھی قتل کردو، جس کی پشت پر سیاہ نقطے ہوتے ہیں۔ اسی طرح چھوٹی دم والے سانپ کو بھی قتل کرو، کیوںکہ یہ دونوں بینائی کو زائل اور حمل کو گرادیتے ہیں۔ (ترمذی)


💥6. جانوروں کی سواری کرنے میں حسنِ سلوک:

جانور سواری کے لیے ضرور ہیں، یہ نقل و حمل کا ذریعہ بھی ہیں، اسی کو اللہ عزوجل نے فرمایا:

طویل سفر میں اس کے لیے آرام لینے اور چرنے چگنے کا موقع فراہم کرنے کو کہا ہے:

یعنی اثنائے راہ اگر ہریالی نظر آئے تو ان کو کچھ چرنے اور آرام لینے کا موقع دو ،بھوکا، پیاسا مسلسل چلا کر ان کو نہ تھکاؤ۔

✨ ایک جانور پر تین آدمیوں کو سوار ہونے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔
(مسلم)

✨ ابنِ ابی شیبہ کی روایت میں ہے کہ انھوں نے تین لوگوں کو خچر پر سوار دیکھا تو فرمایا:
تم میں سے ایک شخص اتر جائے؛ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسرے شخص پر لعنت فرمائی ہے۔
(مصنف ابن ابی شبیة: من کرہ رکوب ثلالة عل الدابة، حدیث:۲۶۳۸۰)

آیہ اُس صورت میں ہے جب کہ وہ جانور تین آدمیوں کے بوجھ کو اٹھانے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو، اگر استطاعت رکھتا ہو تو جائز ہے۔
(فتح الباری)

✨ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جانور پر اس طرح کھڑے ہونے سے منع فرمایا ہے کہ جس سے اس کو تکلیف ہو۔
(سنن ابی داؤد)

✨ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
جانوروں کی پشت کو منبر نہ بناؤ۔
(ابوداؤد)

اللہ تعالیٰ نے جانوروں کو محض اس لیے تمہارے تابع کیا ہے کہ وہ تمہیں ان شہروں اور علاقوں میں پہنچا دیں جہاں تم (پیدل چلنے کے ذریعہ) جانی مشقت و محنت کے ساتھ ہی پہنچ سکتے تھے یعنی جانوروں سے مقصود ان پر سواری کرنا اور ان کے ذریعہ اپنے مقصد کو حاصل کرنا ہے؛ لہٰذا ان کو ایذا پہنچانا رَوا نہیں ہے۔ جس جانور کی خلقت سواری کے لیے نہیں ہوئی جیسے گائے وغیرہ تو ان کی سواری کرنا جائز نہیں۔


🌹 جانوروں کے ساتھ حسنِ سلوک اجرو ثواب کا باعث


جانوروں پر احسان اجر و ثواب کا موجب ہے۔ جانور بھی احسان کے مستحق ہوتے ہیں، بلکہ بے زبان جانور انسانوں کے مقابلے میں کچھ زیادہ ہی احسان کے مستحق ہوتے ہیں، کیوں کہ وہ اپنی تکلیف بیانی کے لیے زبان نہیں رکھتے، لہٰذا آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے جہاں انسانوں کے ساتھ احسان کی تعلیم دی، وہیں جانوروں کے ساتھ بھی احسان کی ترغیب دی، بلکہ بعض خصوصی مواقع پر جانوروں کے ساتھ احسان کو مغفرت کا ذریعہ قرار دیا۔

▪ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا کہ:
اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! میں اپنے حوض میں پانی بھرتا ہوں اپنے اونٹوں کو پانی پلانے کے لیے، کسی دوسرے کا اونٹ آ کر اس میں سے پانی پیتا ہے تو کیا مجھے اس کا اجر ملے گا؟؟؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
”ہر تر جگر رکھنے والے میں اجر و ثواب ہے۔
(مسند احمد)

▪ ایک حدیث شریف میں ہے کہ ایک صحابی رضوان اللہ علیہم نے کہا کہ
اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)! میں بکری ذبح کرتا ہوں تو مجھے اس پر رحم آتا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم بکری پر رحم کرتے ہو تو اللہ تعالیٰ تم پر رحم فرمائے گا۔
(مسند احمد)

▪ ابوامامہ رضی الله عنه فرماتے ہیں:
جس نے مذبوحہ چڑیا ہی پر رحم کیوں نہ کیا ہو اللہ تعالیٰ روزِ محشر اس پر رحم فرمائیں گے۔
(طبرانی کبیر)

▪ مسلمانو! تم زمین پر بسنے والی تمام مخلوق کے ساتھ رحم کا معاملہ کرو تو آسمان والا (رب العرش) تم پر رحمت فرمائے گا۔
(ترمذی، مستدرک حاکم)

▪ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ
بدکار عورت کی بخشش صرف اس وجہ سے کی گئی کہ ایک مرتبہ اس کا گزر ایک ایسے کنوئیں پر ہوا جس کے قریب ایک کتا کھڑا پیاس کی شدت سے ہانپ رہا تھا، اور قریب تھا کہ وہ پیاس کی شدت سے ہلاک ہو جائے، کنویں سے پانی نکالنے کو کچھ تھا نہیں، اس عورت نے اپنا چرمی موزہ نکال کر اپنی اوڑھنی سے باندھا اور پانی نکال کر اس کتے کو پلایا، اس عورت کا یہ فعل بارگاہِ الٰہی میں مقبول ہوا، اور اس کی بخشش کر دی گئی۔
(مسلم)

▪ چنانچہ آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
ایک راہ رو پیاس سے بیتاب ہو کر کنوئیں میں اتر کر پانی پی لیتا ہے، جب کنویں سے باہر نکلتا ہے تو کیا دیکھتا ہے کہ ایک کتا پیاس کی شدت سے مٹی کھا رہا ہے، اس شخص نے محسوس کیا کہ یہ کتا بھی میری ہی طرح پیاسا ہے، لہٰذا وہ شخص کنوئیں میں اترا اور اپنے موزے میں پانی بھر لیا، اور کتے کو سیراب کیا اور اس خدمت پر اللہ نے اس بندہ کی قدر دانی کی، نیز اللہ تعالیٰ نے اس کی مغفرت کر دی۔ صحابہ کرام نے سوال کیا؟ کیا ہمیں جانوروں پر بھی احسان کرنے سے اجر ملے گا؟؟؟
آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
ہر ذی روح پر احسان کرنے سے اجر ملے گا۔
(بخاری)

✨ ایک صحابی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کرتے ہیں کہ میں نے بطورِ خاص اپنے اونٹوں کے لیے ایک حوض بنا رکھا ہے، اس پر بسا اوقات بھولے بھٹکے جانور بھی آجاتے ہیں، اگر میں انہیں بھی سیراب کردوں تو کیا اس پر بھی مجھے ثواب ملے گا ؟آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر پیاسے یا ذی روح کے ساتھ حسن سلوک کرنے سے ثواب ملتا ہے۔
(سنن ابن ماجہ)

⚡ غور کرنے کا مقام ہے ایسے جانورکے ساتھ رحم کرنے کو آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے مغفرت کا ذریعہ قرار دیا ہے، جسے بعض علماء نے نجس العین تک قرار دیا ہے، بعض علماء نے اگر کتا برتن میں منھ ڈال دے تو سات آٹھ دفعہ برتن کو دھونے کا حکم دیا ہے۔
اس کے بالمقابل جانوروں کے ساتھ بُرا سلوک بعض دفعہ انسانوں کو جہنم میں بھی لے جاتا ہے۔


🌹جانوروں کے ساتھ بدسلوکی پر وعید:

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جانورں کے ساتھ حسنِ سلوک کی تاکید اور بدسلوکی کوعذاب و عقاب اور سزا کی وجہ گردانا اور انتہائی درجہ کی معصیت اور گناہ قرار دیا اور انسانی ضمیر جھنجوڑنے والے سخت الفاظ استعمال فرمائے؛

💫 ایک عورت ایک بلی کو تکلیف دینے کی وجہ سے جہنم میں چلی گئی، اس عورت نے بلی کو باندھ دیا تھا، اس کو نہ کھلاتی تھی اور نہ ہی اس کو چھوڑتی تھی کہ باہر وہ اپنی غذا کا انتظام کر سکے، حتیٰ کہ وہ کمزور ہو گئی اور مر گئی۔
(مسلم)

💫 حضرت ابن ِعباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس سے ایک گدھا گزرا، جس کے منہ پر داغا گیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو دیکھ کر فرمایا:
اس شخص پر لعنت ہو جس نے اس کو داغا ہے۔
(مسلم)

💫 اور ایک روایت میں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چہرے پر مارنے اور داغنے سے منع فرمایا ہے۔
(مسلم)

💫 اور ایک روایت میں ہے کہ غیلان بن جنادة کہتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس اونٹ پر آیا جس کی ناک کو میں نے داغ دیا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
اے جنادہ! کیا تمہیں داغنے کے لیے صرف چہرے کا عضو ہی ملا تھا، تم سے تو قصاص ہی لیا جائے۔
(مجمع الزوائد)