🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

🧡 ہر گل نُو اپنی خطا آکھ
۔۔۔ٹاپک 8🧡

✏اس ٹاپک کو کرنے کے مقاصد:

🌹ہم ہر دم دوسروں کو ہی غلط کہتے اور انگلی ہمیشہ دوسروں کی طرف ہی کرتے ہیں جب کہ ایسا کرتے ہوئے 3 انگلیاں ہماری طرف ہی ہوتی ہیں۔ اللہ بھی اشارہ دے رہا ہوتا ہے کہ خود پر نظر رکھ 3 انگلیاں تو تیری طرف ہیں ۔اپنے سے نظر ہٹا کر ہم دوسروں کو غلط سمجھنا شروع کر دیتے ہیں ۔ اور اپنے رویئے سے دوسروں کو بھی غلط کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں ۔
🌹 ہمارے اندر کی نیگیٹویٹی ہمارے رویے کو ایسا بنا دیتی ہے کہ اگلا بندہ بھی مجبور ہو کر ہمارے ساتھ نیگیٹو ہو جاتا ہے جس سے ہمارے معمولات اور معاملات بگڑ جاتے ہیں اور اس کے ذمہ دار ہم خود ہی ہوتے ہیں ۔
🌹اس ہنٹ پر ورکنگ کے ذریعے اس احساس کو دل میں اتار لیں تو نظر اپنے اوپر ہی رہے گی ایک لمحے کےلئے بھی کسی اور کو دیکھنے کی فرصت نہیں ہوگی۔ اس احساس میں زبان پر کنٹرول بھی رہتا ہے اور کسی معاملہ میں دوسرے کو موردِالزام ٹھہرانے سے بھی بچ جاتے ہیں۔ دل کا اللہ سے ٹانکا بھی مضبوط رہتا ہے، ایسے جیسے اللہ اور دل کے درمیان ایک پاور ٹرانسمیشن لائن قائم ہو گئی ہو۔
🌹ہم چاہتے ہیں کہ اللہ کے پسندیدہ بندے بنیں اور عاجزی جو اللہ کی پسندیدہ حالت ہے وہ ہم بھی اختیار کریں ۔ جب نظر دوسروں پر ہو... اور یہ احساس ہی نہ ہو کہ ہم غلط ہو سکتے ہیں...
دل میں اپنی ...پرفیکشن اور اپنے بہترین ہونے کا احساس موجود ہو...تو بھلا عاجزی کیسے آئے گی۔ اب خود پر اس حوالے سے نظر رکھنے سے اپنے اندر غلطی موجود ہونے اور اسکی اصلاح کرنے کا احساس ہی دل کو عاجزی کی حالت میں لانے میں مدد دیتا ہے۔
🌹جب میں اندر ہوتی ہے تو ہم تکبر کا شکار ہونے لگتے ہیں اور باطل ہمیں اپنے جال میں پھنسا کر ہمیں خود کو سب سے اعلیٰ اور اچھا ثابت کرنے کی طرف لگا دیتا ہے۔ یوں ہم روزمرہ زندگی کے معاملات میں ڈھیروں غلطیاں کرتے جاتے ہیں اور اللہ کی آشنائی کی اور قربت سے دور ہوتے جاتے ہیں ۔ خود اپنے لیے مشکلات پیدا کرلیتے ہیں کیونکہ جب نظر دوسروں پر جائے گی خود کو سنوار بھی نہیں سکیں گے ۔ اس لیے اس پوائنٹ سے اپنی چیکنگ میں مدد ملتی ہے اور عاجزی عطا ہوتی ہے جو اللہ کی قربت میں بڑھنے میں مدد گار ثابت ہوتی ہے۔
🌹اس دنیا تے ہر گل نوں بس اپنی خطا آکھ.... اتنے سادہ الفاظ میں اتنی بڑی حقیقت چھپی ہے۔ دل جب سچائی سے خطا کو قبول کر لیتا ہے اور ندامت میں جاتا ہے تب ہی آگے سٹیپ بھی لے سکتے ہیں ۔
🌹پہلا سٹیپ یہی ہے دل سے اپنی خطا مان لیں، پھر آگے قدم اٹھتے چلے جاتے ہیں۔
اس احساس کی وجہ سے ان پوائنٹس پر بھی اندر الرٹ ہو جاتا ہے جہاں خود کو سپیس دی ہو کہ یہ دوسرے بندے کی غلطی ہے... اس کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا... اس کو سمجھنا چاہیے تھا۔ اس طرح کی دلیلیں جو دل میں آتی ہیں اب ان کی بجائے دل سے نکلتا ہے کہ غلطی تو میری ہے۔ اور جب خطا اپنی نظر آنے لگی تو سب کے لئے دل میں پیار اور نرمی بھی محسوس ہونے لگتی ہے۔ ورنہ جب خطا دوسرے کی لگتی ہے تو دل میں کسی اللہ کے بندے کے لیئے پیار نہیں آتا ۔

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹


🧡 ھر گل نوں اپنی ِخطا آکھ۔۔۔ ٹاپک 8🧡

✏اس ٹاپک کو کرنے کے مقاصد:

🌹ہم زیادہ تر معمولات اور معاملات میں اپنی غلطی ڈھونڈنے اور تسلیم کرنے کے بجائے دوسروں کو قصور وار ٹھہرانے میں جلدی کر دیتے ہیں جب کہ ذات پر کام اور آشنائی کے اس سفر میں خود پر نظر رکھ کر ”ہر گل نو ں بس اپنی خطا آکھ“کے طور پر تسلیم کر نا ہوتا ہے ۔ یعنی ہر معاملے میں بس اپنی ہی غلطی ڈھونڈنی ہوتی ہے اور خود پر کام کرنا ہوتا ہے ۔
🌹جیسے ہی دوسرے کی خطا نظر آئے تو فوراً اپنا زاویہ سیٹ کر کے اتنی گہری نظر خود پر کرنی ہوتی ہے کہ اندر شرمندہ ہو جائے کہ نظر ادھر گئی ہی کیوں تھی۔
🌹اس حوالے سے اپنا جائزہ لیں گے کہ کہاں کہاں کس معاملے میں کس قدر کسی اور کو قصور وار سمجھ کر اس پر نظر گئی
اور پھر کیسے نظر کا زاویہ بدل کر خود کو دیکھا اور اپنی خطا دل سے قبول کی۔

💥نوٹ:💥
کم از کم پانچ دن اس ٹاپک کی پریکٹس کی جائے اور روزانہ کم از کم ایسے دو یا تین پوائنٹس پکڑنے ہیں۔

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹




🧡ھر گل نوں اپنی خطا آکھ۔۔۔ ٹاپک 8🧡

✒مثالیں
یہ پوائنٹ کس طرح سے کن کن معاملات میں ڈھونڈے جا سکتے ہیں۔اس کی چند مثالیں یہاں بیان کی جارہی ہیں۔

🧡مثال1:
آج جب میں سکول سے واپس آئی تو میری ساس کا موڈ مجھے آف سا لگا ۔ میرے اندر سوچ آئی کہ یہ تو اکثر ہی ایسے کرتی ہیں ۔ کوئی بات ہو نا ہو، انہوں نے موڈ بنا لینا ہوتا ہے۔ پھر احساس ہوا کہ میری نظر دوسرے پر جارہی ہے جب کہ غلطی میری ہے کہ میں پہلے سے ہی ساس کے بارے میں بد گمان ہو کے بیٹھ گئی ہوں ۔ کیا پتا انکی طبیعت ٹھیک نہ ہو یا پھر کوئی اور پریشانی یا مسئلہ ہو ۔ جب یہ احساس ہوا تو دل بہت شرمندہ ہوا اور پھر ان سے جا کر اچھے طریقے سے بات کی اور حال احوال پوچھا تو انکا موڈ بالکل آف نہیں تھا میں ہی بدگمان تھی۔
🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹





🧡مثال 2:
ابھی کچھ دیر پہلے امی آ کر کہنے لگیں کہ ماموں کو فون ملا دو ۔ میں نے فون ملا کر امی کو دے دیا ۔ امی نے کان پر لگایا تو پتا چلا کہ میں نے تو دوسرے ماموں کو کال ملا دی جو امریکہ میں ہوتے ہیں۔ امی ماموں سے کہنے لگیں کہ غلطی سے کال مل گئی اور پھر دونوں بہن بھائی آپس میں باتیں کرنے لگے ۔ مجھے امی پر بہت غصہ آیا کہ جب پتا چل گیا ہے کہ امریکہ کال لگی ہے تو بات لمبی کیوں کر رہی ہیں ۔ یہاں میری نظر مکمل طور پر خود سے ہٹ چکی تھی اور مجھے اپنی غلطی کی بجائے ساری کی ساری امی کی غلطی لگ رہی تھی جو میرا بیلنس ختم کر رہی تھیں۔ اندر بے چینی کی لہر اٹھی کہ ابھی امی سے پوچھتی ہوں ۔ پھر جب احساس ہوا کہ میری نظر دوسرے پر جارہی ہے ،امی کا بھلا کیا قصور بے،
بےخیالی میں نمبر تو میں نے ہی ملا کر دیا ۔ میری غلطی ہے اورمجھے اپنی غلطی ماننی ہے ۔ یہاں اس احساس سے شرمندہ ہو کر خود کو روکا اور جب کال بند ہوئی تو امی سے مزے سے ہنس کر بات کی کہ مجھے دھیان نہیں رہا اس لیے یہاں کال مل گئی۔
🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹




🧡مثال3:
آج صبح بیٹے کو اٹھا کر کہا کہ منہ دھو کر برش کر کے آ کر ناشتہ کرو۔ وہ بس پانی سے ہی منہ دھو کر آ گیا اور میرے پوچھنے پر کہنے لگا کہ صابن سے دھو کر آیا ہے۔ اسکے جھوٹ پر بہت غصہ آیا اور میں اس کو بہت ڈانٹا اور ہلکا سا تھپڑ بھی لگا دیا ۔ غصے میں غلطی بیٹے کی ہی نظر آ رہی تھی ۔وہ ناشتہ نہیں کر رہا تھا تو اپنے ہاتھ سے کھلانے لگی اور دیکھا تو وہ رو رہا تھا۔ منہ سرخ تھا اور آنسو گرتے ہوئے دیکھ کر مجھے احساس ہوا کہ غلطی میری ہی تھی۔ ڈانٹنے کے بجائے میں دوبارہ لے جا کر اس کا منہ دھلا سکتی تھی پر میں نے ڈانٹا اور ہاتھ اٹھایا کیونکہ میں بیٹے کو قصور وار سمجھ رہی تھی۔ جب احساس ہوا کہ غلطی تو میری ہے کہ مجھ میں اتنی بھی برداشت نہیں کہ ایک بچے کو بہتر طریقے سے نرمی سے بات سمجھا سکوں۔ اپنی غلطی کا احساس ہوا تو آئندہ پہلے اپنی خطا کو ڈھونڈنے کا ارادہ کیا کہ ایسے کسی بھی موقع یا معاملے میں تحمل مزاجی کا مظاہرہ کرنا ہے تاکہ اندر موجود ذات کی سختی نرمی میں بدلے اور عمل میں بھی بہتری آتی جائے۔



🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹