🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

🧡تو کافی ھے(بھروسہ)۔۔۔ ٹاپک 11🧡

✏اس ہنٹ کو کرانے کے مقاصد:

🌹دیکھا جائے تو ہم اکثر اپنے ظاہری حالات کو دیکھ کر ان کے سبب پرنظر ڈالتے ہیں جو ہمیں ناممکن نظر آتے ہیں تو ہم مایوس اور پریشان یعنی ڈاون ہو جاتے ہیں۔
ہمیں اللہ پر یقین اور بھروسہ نہیں ہوتا جس کے لئے کچھ بھی ناممکن نہیں ہے۔
اللہ جو سب کچھ کر سکتا ہے جو ہر طرح سے سبب پیدا کرسکتا ہے اس مالکِ کائنات پر اگر بھروسہ رکھیں تو کبھی مایوس اورڈاون نہیں ہوں گے۔ اس بات کی گواہی قرآن پاک میں کتنی ہی جگہ ہمارے یقین کو مضبوط کرنے کے لئے دی گئی۔
🌹حضرت عیسیٰ کو بغیر باپ کے پیدا کرنا جب کہ سبب تو سامنے نہیں تھا۔ پھر حضرت زکریا کو بڑھاپے میں اولاد عطا کرنا جب کہ سبب تو نظر نہیں آ رہا تھا کہ اتنے بڑھاپے میں اولاد ہونا کیسے ممکن ہے۔ ایسے ہی بہت سے واقعات ہمیں نظر سبب پر نہیں بلکہ مسبب الاسباب پر ڈالنے کے لیئے بتائے گئے ہیں۔ اگر ہم اللہ پر ایمان رکھتے ہیں تو اللہ کی کتاب میں بیان کیے گئے ان تمام واقعات پر ہمارا ایمان ہونا یقینی ہے اور ان سب پر ایمان ہمیں اللہ کے مسبب الاسباب ہونے پر یقین کرنا سکھاتا ہے۔
ہمیں احساس ہو گا کہ اللہ جو کہ مسبب الاسباب ہے ہم کسی معاملے میں پھنس کر اس پر توکل کرنا مس کر جاتے ہیں۔ پہلے ظاہری اسباب اور سہارے پکڑتے تھے اور اب ہر معاملے میں سب سے پہلے مسبب الاسباب کی طرف ہی پلٹنا سیکھیں گے۔
🌹 اللہ پر بھروسے سے بڑھ کرظاہری اسباب پر یا اپنی صلاحیت پر بھروسے کے پیچھے ہم اپنی ذات کے چھپے یقین کی کمی کے پوائنٹس کو پکڑ سکیں گے اور اللہ پر اپنے ایمان کے لیول کی سچائی سے جانچ بھی کر سکیں گے۔
جب ذات کے پوائنٹس یا یقین کی کمی کی وجہ سے اللہ پر توکل نہ ہونا سمجھ آئےگا تو اب آئند الرٹ ہو کر چھوٹے بڑے معاملات میں توکل اللہ پر ہی کرنا سیکھیں گے۔
اسی معاملے میں اسباب اپنانا تب غلط ہو جاتا ہے جب ہم سارا یقین ان اسباب پر رکھتے ہیں کہ یہی سہارے کام آئیں گے اور ہم اللہ پر یقین کو مس کر جاتے ہیں۔
🌹ہمارا یقین صرف اللہ پر ہی ہو کہ وہی مسبب الاسباب ہے اور اسی پر یقین رکھ کر ضرورتاََ کسی بھی سبب کو اپنانا ہے۔ پہلے کسی معاملے میں ظاہری سہاروں اور خود پر مکمل یقین کی وجہ سے اللہ پر یقین رکھنا اور مدد مانگنا بھول جاتے تھے اب ایسا نہیں ہو گا۔
🌹جب اس حوالے سے ورکنگ کرتے ہوئے اپنے پوائنٹس کسی سے شئیر کریں گے تو اس سے اگلے کا زاویہ نظر بھی بہترین طور پر بدلتا چلا جائے گا وہ بھی الرٹ ہو گا اور اب جیسے مسبب الاسباب پر ہمارا یقین مضبوط ہوا اسی کو آگے بھی بتائیں گے تو ان کا یقین بھی مضبوط ہو گا۔انشااللہ۔

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹




🧡تو کافی ھے(بھروسہ)۔۔۔ ٹاپک 11🧡

🖍اپنی روٹین میں عملی طور پر اس ٹاپک کو شامل کرنے کی ہدایات:

🌹اس حوالے سے خود پر نظر رکھتے ہوئے اپنے پوائنٹس پکڑنے ہیں۔
🌹اور ہرپوائنٹ میں دو پورشن کرنے ہوں گے۔
🌹روٹین کے کسی بھی معاملے یا معمول سے بیک گراونڈ بتانا ہے جس میں ہم نے اللہ پہ بھروسے کے بجائے صرف اسباب پہ بھروسہ کیا ہو۔
🌹اس کو شئیر کرنا ہے
پھر اپنا زاویہ نظر درست کرتے ہوئے اللہ یعنی مسبب الاسباب پر بھروسا کرنے کو پکڑ کر اپنا احساس بتانا ہے۔
🌹ہر پوائنٹ میں یہ دونوں پورشن اسی طرح سے الگ الگ بتانے ہیں۔

💥نوٹ:💥
کم از کم پانچ دن اس ٹاپک کی پریکٹس کی جائے اور روزانہ کم از کم ایسے دو یا تین پوائنٹس پکڑنے ہیں۔



🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹



🧡تو کافی ھے(بھروسہ)۔۔۔ ٹاپک 11🧡

✒مثالیں
یہ پوائنٹ کس طرح سے کن کن معاملات میں ڈھونڈے جا سکتے ہیں۔اس کی چند مثالیں یہاں بیان کی جارہی ہیں۔

🧡مثال نمبر ۱:
معاملہ جس میں سبب پر بھروسا کیا:
آج کل میرے علاج کے سلسلہ میں سب کے ساتھ صلاح مشورے بھی ہو رہے ہیں۔ ہر کوئی مقدور بھر کوشش کر رہا ہے کہ اس حوالے سے مدد بھی کرے۔ آج کسی نے ایک ڈاکٹر کا بتایا اور کہا کہ ان کو ضرور ایک بار کنسلٹ کریں ۔ ان کے ہاتھ میں شفا ہے ۔ اور اگر میں بھی جاوں تو میرے مسئلے کا بھی حل نکل آئے گا۔ ان کی باتوں سے لگا کہ واقعی جانا چاہیے کہ اتنے لوگ وہاں گئے ہیں اور ان کے مسئلے حل ہوئے ہیں تو میں بھی ہمت کر کے چلی جاوں گی۔ وہا ں سے مجھے بھی مسئلے کا حل مل سکتا ہے۔
زاویہ نظر درست کرتے ہوئے اللہ یعنی مسبب الاسباب پر بھروسا کرنے کا احساس :
اچانک مجھے احساس ہواکہ میرا بھروسا اور توکل ظاہری سہارے پر بن رہا ہے کہ یہ ڈاکٹر یا فلاں دوا میرے مسئلے حل کر نے کے قابل ہے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ میری نظر اللہ سے ہٹ کر ظاہر کے سبب یا وسائل پر لگ گئی ہے۔وہیں آج کے پوائنٹ نے الرٹ کیا اور احساس بیدار ہوا کہ یہ ظاہر کے اسباب یا وسائل بھی اللہ نے ہی بنائے ہیں مگر نظر ان اسباب پر نہیں ان کے پیدا کرنے والے ،مسبب الاسباب پر رہنی چاییئے۔ یہ بھی احساس ہوا کہ اللہ ہی اپنے کرم سے ان اسباب تک پہنچنے کی راہ دکھاتا ہے اور وہ ہی ان وسائل کے ذریعے کسی بھی معاملہ سے سلجھانے یا حل کرنے میں مدد دیتا ہے۔ مگر ہمارا یقین سبب پر نہیں بلکہ اللہ پر ہی رہے جو مسبب الاسباب ہے ۔
🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹



🧡مثال نمبر:2
معاملہ جس میں سبب پر بھروسا کیا:
ہم نے اپنے گھر کی تعمیر شروع کرنی ہے۔ اس کے لیئے جتنے پیسوں کی ضرورت ہے ، اس سے کچھ کم ہی پیسے ہمارے پاس ہیں ۔اورسب کا کہنا ہے کہ کام شروع ہوا تو پیسے اندازے سے زیادرہ ہی لگ جائیں گے۔ اس وجہ سے پریشانی ہو رہی تھی۔ میری بہن آئی تو اس سے بھی اس بارے میں بات ہوئی اور باتوں باتوں میںنے ذکر کیا کہ پیسے کم ہیں ۔دل میں تھا کہ بہن کے مالی حالات ٹھیک ہیں تو وہ کچھ مدد کی آفر کر دے۔ نظر بہن اور ان کے پیسوں پر تھی یعنی ظاہری سبب میں اٹکی تھی۔
زاویہ نظر درست کرتے ہوئے اللہ یعنی مسبب الاسباب پر بھروسا کرنے کا احساس :
بہن نے کسی بات کے جواب میں کہا کہ اللہ ہر کمی اپنے کرم سے پوری کر دے کسی کامحتاج نہ کرے تو مجھے اچانک احساس ہوا کہ میں نے تو نظر اللہ کی بجائے سامنے نظر آنے والے اسباب پر لگا رکھی ہے اور مسبب الاسباب کو پکارا بھی نہیں ۔ مجھے یہ تو یقین تھا کہ اگر بہن کے سامنے ہاتھ پھیلائے تو وہ کچھ نہ کچھ مدد کر دے گی مگر مسبب الاسباب پر بھروسہ نہیں تھا کہ جہاں سے اور جیسے چاہے میرے لیئے مدد کی راہ کھولے گا اور مشکل آسان کرے گا۔
جب یہ احساس ہوا تو شرمندگی ہوئی کہ اسباب کو ہی سب کچھ سمجھ لیا تھا اور مسبب الاسباب سے مدد مانگنے سے غفلت برتی۔ اب اللہ کے کرم سے جیسے آنکھ کھلی تو اللہ سے ہی دل ہی دل میں مدد مانگی کہ اللہ تیرے لیئے تو کچھ ناممکن نہیں تو جو چاہے کر سکتا ہے۔ میرے لیئے بھی غیب سے اسباب بنا دے۔
یوں اپنے مسبب الاسباب کے سامنے اپنی حاجت بیان کرنے سے دل کا بوجھ ہلکا ہو گیا اور یقین بنا کہ اللہ ضرور کوئی وسیلہ بنا کر میرا کام آسان کر دے گا۔

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹