باطل اور عطاﺅں کے فیصلے


حق کے سفر میں حق والوں سے وابستگی عطاﺅں کا وسیلہ بنتی ہے۔ عطا تو عطا کرنے والوں کا کرم ہے ۔اور اس میں کوئی بھی کسی مقام کی عطا کا حقدار اپنی ذاتی کوشش کی وجہ سے نہیں ہو سکتا ۔مگر یہاں پر بھی باطل حق کے راہی کو پھنسانے سے باز نہیں آتا ۔اگر یہ عطا کسی بھی طرح سے کسی بھی صورت میں ہم پر ہو تو تب تو ہم بے شک دل و جان سے قبول کرتے ہیں اور زبانی بھی کہتے ہیں کہ ہم اس عطا کے قابل ہر گز ہرگز نہیں تھے ۔بس کرم کی نظر کے صدقے ہم پر عطا کر دی گئی ۔مگر دوسری طرف اگر یہی عطا کسی اور پر ہو رہی ہوتو ہم فوراً موازنہ کرنے لگتے ہیں۔ اور عطاکو اپنے پیمانوں میں ناپنے تولنے لگتے ہیں کہ آخر فلاں پر فلاں عطا کیوں ، کیسے اور کس بنیاد پر ہو گئی۔ جبکہ وہ تو ہماری سوچ کے مطابق اس عطا کے لائق نہیں ہوتا۔یہاں ہم اپنی باری کے وقت کے عطا کے قانون کو بھول جاتے ہیں کہ عطا تو دینے والے کا کرم ہے۔ جیسے ہم پر حقدار نہ ہوتے ہوئے بھی کوئی عطا ہو سکتی ہے تو اس طرح کسی اور کو بھی اس عطا کے لائق یا حقدارنہ ہو نے کے باوجود بھی ےہ عطا ہو سکتی ہے ۔
اس لئے جب کبھی بھی کسی پر عطا ہوتے دیکھیں تو وہاں تنگ نظری اور تنگ دلی کا مظاہرہ نہ کریں۔ جب ہم کسی کو بھی کسی عطا کے لائق نہ سمجھ کر دل ہی دل میںےازبانی کلامی اعتراض کرتے ہیں۔ تو اس وقت اصل میں ہم اس شخص کی اہلیت اور قابلیت پر اعتراض نہیںکرتے بلکہ عطا کرنے والی لجپال ہستیوں کے فیصلے پر اعتراض کی گستاخی کر رہے ہوتے ہیں ۔دوسری طرف اس اعتراض کا اندر اٹھنا ان لجپال ہستیوں پر دل کے ایمان کی کمی کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ کیونکہ دل کے ایمان اور یقین کی مضبوطی ہی ہر فیصلے کی قبولیت کا زبان سے اقرار اور دل سے تصدیق کرواتی ہے ۔ لہٰذا اپنی دانستہ نا دانستہ اس سر زد ہوئی گستاخی پر نادم و شرمندہ ہوں۔ اور قبول کریں کہ عطا کا فیصلہ لجپالوںکے ہاتھ ہے جس پر اعتراض کی گنجائش دل یا زبان سے کسی بھی طور پر نہیں بنتی ۔ یہ باطل ہے جو ہمیں اس گستاخی پر مجبور کرتا ہے۔ اگر ہم کھلے دل سے ہر ایک پر ہوتی عطا کے فیصلے کو قبول کر لیں تو یہی دل کی وسعت خود ہمارے لئے بھی کرم کی نظر ہونے اور عطا کی راہ کھولتی ہے۔ یہاں عطا کے ہر فیصلے پر آمناََصدقناََ کہیں اور باطل کا منہ کالا کریں۔