باطل اور ناشکری


ہماری زندگی کے خوشی کے معاملات اور مواقع پر باطل ہمیں اللہ کے سامنے شکر گزار ہونے سے روکتا ہے اور ایسے میں ہم اللہ کے کرم سے نوازے جانے پر اللہ کا شکر کرنے کے بجائے آپس کے اختلافات اور انا کا شکار ہو کر شکر کے احساس کھو دیتے ہیں۔ہماری نظر اس عطا پر نہیں رہتی جس کے لیے ہم نے خود ہی اللہ کے حضور عرضیاں پیش کی ہوتی ہیں۔اور رو رو کر دعائیں مانگی ہوتی ہیں۔
اللہ کی طرف سے اپنے بندوں پر ہونے والی کسی بھی عطا کے موقع پر بندگی کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ بندہ اپنے مالک کا شکر بجا لائے۔شکر دل کی حالت کا نام ہے اور شکر کے احساس کا دل میں موجود ہونا بندے کے عمل اور معاملات سے ظاہر بھی ہوتا ہے۔کسی قسم کا کوئی گلہ شکوہ دل میں نہ ہو بلکہ دل سچائی سے اللہ کے سامنے جھکتا ہو کہ یہ تو اس کا کرم اور مہربانی ہے ورنہ ہم کہاں اس قابل تھے کہ یہ عطا ہوتی۔اس طرح سے حالت ِ شکر میں رہنا ہی اللہ کے ہاں پسندیدہ ہے اور اس پر وہ خوش ہو کر اپنے بندوں کو اور نوازتاہے۔
باطل ایسے موقع پر ہمیں کسی بھی طرح کی بے معانی الجھن اور ذات کے جال میں پھنسا کر ہمارے دل کی حالت کو خراب کر دیتا ہے ۔ہم ناشکری کے مرتکب ہوتے ہیں اور جانے انجانے میں اللہ کی ناراضگی مول لیتے ہیں۔اور یہی اس کی چال ہے کہ اللہ کے بندوں کو اللہ کے سامنے جھکنے نہ دے۔وہ اللہ کے بندوں کو بھٹکا کے انہیں اللہ کے سامنے جھکنے سے روکتا ہے تاکہ وہ بھی اللہ کی رضا سے محروم ہو جائیں۔
ایسے کسی بھی موقع پہ سچے دل سے اللہ کا شکر ادا کر کے اور ذات کے جال سے باہر نکل کر باطل کے ایسے پرخچے اڑائیں کہ اس کو منہ چھپانے کی جگہ نہ ملے۔