وہ ذبح اسماعیل جس کا فدیہ ذبح عظیم سے کردیا گیا تھا بعثت محمدی کے بعد پایہ تکمیل کو پہنچنے والا تھا۔ امامت اور ولایت کی دعائے ابراہیمی کا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ختم نبوت کے بعد علی رضی اللہ عنہ اور فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ذریعہ اجرا ہو رہا تھا۔ اب اس وجود مسعود کی شہادت کا وقت قریب آگیا تھا جسے ذبح اسماعیل کا مظہر بنایا گیا تھا یعنی کربلا کے میدان میں نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظیم قربانی، ذبح عظیم کا منظر پیش کرنے والی تھی۔ میدان کربلا میں خاندان رسول ہاشمی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقدس خون سے روشن ہونے والے چراغوں کا منظر شام غریباں کے اندھیروں میں اترنے والا تھا۔ مٹتی ہوئی قدروں کو خون حسین رضی اللہ عنہ سے نئی توانائی عطا ہونے والی تھی۔ ازلی صداقتوں کے تحفظ کے لئے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اپنے خون سے افق عالم پر حریت فکر کا نیا عہد نامہ تحریر کرنے والے تھے۔ شہید کربلا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فضیلت کا عمامہ بھی جن کے سر اقدس پر باندھا گیا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے محبوبیت کی دستار سے بھی جنہیں نوازا، عظمت کی خلعت بھی عطا ہوئی اور شہادت کا پیرہن بھی جن کا مقدر بنا۔ اس لئے کہ اس عظیم انسان کی قربانی کو مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قربانی قرار دیا جاسکے۔

دس محرم کوحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اضطراب

تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو کربلا کی مٹی دے کر فرمایا ام سلمہ رضی اللہ عنہا! یاد رکھنا اور دیکھتے رہنا کہ جب یہ مٹی خون میں بدل جائے تو سمجھ لینا میرا حسین رضی اللہ عنہ شہید ہوگیا ہے۔،، (گویا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علم میں تھا کہ ام سلمہ، شہادت حسین رضی اللہ عنہ کے وقت زندہ ہوں گی) ام سلمہ فرماتی ہیں کہ میں نے وہ مٹی سنبھال کر رکھی حتی کہ ہجری کے 60 برس گزر گئے، 61 کا ماہ محرم آیا۔ 10 محرم الحرام کا دن تھا دوپہر کاوقت تھا میں لیٹی ہوئی تھی خواب میں دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رو رہے ہیں، ان کی مبارک آنکھوں سے آنسو رواں ہیں، سر انور اور ریش مبارک خاک آلودہ ہے، میں پوچھتی ہوں یا رسول اللہ! یہ کیفیت کیا ہے؟ میرے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم روتے ہوئے فرماتے ہیں ام سلمہ! میں ابھی ابھی حسین کے مقتل (کربلا) سے آ رہا ہوں، حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا منظر دیکھ کر آیا ہوں، ادھر حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے خواب میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کی اور ادھر مکہ معظمہ میں حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں کہ دوپہر کا وقت تھا میں لیٹا ہوا تھا۔ خواب دیکھتا ہوں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لا ئے ہیں، پریشان حال ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست مبارک میں ایک شیشی ہے، اس شیشی میں خون ہے میں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ خون کیسا ہے فرمایا! ابن عباس! ابھی ابھی مقتل حسین سے آیا ہوں یہ حسین اور اس کے ساتھیوں کا خون ہے، آج سارا دن کربلا میں گزرا۔ کربلا کے شہیدوں کا خون اس شیشی میں جمع کرتا رہا ہوں۔
اگر کوئی سوال کرنے والا یہ سوال کرے کہ 72 شہیدوں کاخون ایک شیشی میں کیسے سما سکتا ہے تو جواب محض یہ ہوگا کہ جس طرح 1400 صحابیوں کے غسل کا پانی حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک لوٹے میں بند ہوگیا تھا یا پندرہ سو صحابہ کا کھانا ایک ہنڈیا میں سما گیا تھا اسی طرح 72 شہداء کا خون بھی ایک شیشی میں سما سکتا ہے۔

ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں حضرت سلمی کہتی ہیں

میں حضرت ام سلمہ کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ وہ رو رہی تھیں میں نے پوچھا آ پ کیوں رو رہی ہیں؟،، حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہانے فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خواب میں دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سرانور اور داڑھی مبارک پر گرد و غبار ہے۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا بات ہے؟ (یہ گرد وغبار کیسا ہے) آپ نے فرمایا میں نے ابھی ابھی حسین رضی اللہ عنہ کو شہید ہوتے دیکھا ہے۔ ،،
(سنن، ترمذي، ابواب المناقب)

شب عاشور، عبادات کی رات
البدایہ والنہایہ اور ابن کثیر میں کثرت کے ساتھ ان روایات کو مختلف انداز میں بیان کیا گیا ہے کہ 9 محرم الحرام کو نواسہ رسول، حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ تھکے ماندے جسم کے ساتھ اپنی خیمے کے سامنے میدان کربلا کی ریت پر تشریف فرما ہیں۔ اپنی تلوار سے ٹیک لگا رکھی ہے، یوم عاشور کا انتظار کر رہے ہیں کہ اونگھ آگئی، ادھر ابن سعد نے حتمی فیصلہ ہوجانے کے بعد اپنے عساکر کو حکم دے دیا کہ حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں پر حملہ کردو، یزیدی عساکر حملہ کی نیت سے امام عالی مقام کے اہل بیت اطہار کے خیموں کے قریب پہنچ گئے۔ یزیدی عساکر کا شور و غوغہ سن کر حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی ہمشیرہ محترمہ سیدہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا باہر تشریف لائیں اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو بیدار کیا۔ آپ نے سر انور اٹھایا اور پوچھا زینب رضی اللہ عنہا کیا بات ہے؟ عرض کی امام عالی مقام ! دشمن کی طرف سے حملے کی تیاری مکمل ہوچکی ہے فرمایا ہمشیرہ زینب رضی اللہ عنہا! ہم بھی تیاری کرچکے ہیں بھائی جان تیاری سے کیا مراد ہے؟ زینب رضی اللہ عنہانے مضطرب ہوکر پوچھا۔ ۔ ۔ فرمایا! زینب رضی اللہ عنہا ابھی ابھی میری آنکھ لگی تھی، نانا جان خواب میں تشریف لائے اور بتایا کہ تم عنقریب ہمارے پاس آنے والے ہو! بہن ! ہم اس انتظار میں ہیں، حضرت زینب رضی اللہ عنہا فرمانے لگیں تو بھیا! یہ مصیبت کی گھڑی آپہنچی؟ فرمایا زینب رضی اللہ عنہا افسوس نہ کر، صبر کر بہن! اللہ تم پر رحم فرمائے گا۔ امام عالی مقام رضی اللہ عنہ نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے ذریعہ یزیدی لشکر سے ایک شب کی مہلت مانگی کہ زندگی کی آخری رات ہے میں اپنے رب کی جی بھر کر عبادت کرنا چاہتا ہوں۔ یزیدی لشکر نے نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایک رات کی مہلت دے دی۔
حسین رضی اللہ عنہ کے اصحاب وفادار
البدایہ النہایہ میں ابن کثیر روایت کرتے ہیں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے رفقاء کو جمع کیا اور فرمایا دیکھو کل کا دن دشمن سے مقابلے کا دن ہے۔ کل کا دن یوم شہادت ہے۔ آزمائش کی بڑی کڑی گھڑی آنے والی ہے۔ میں تمہیں اجازت دیتا ہوں کہ تم اپنے اپنے گھروں کو چلے جاؤ۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ قیامت کے دن اپنے نانا جان کے حضور تمہاری بے وفائی کا گلہ نہیں کروں گا اور گواہی دوں گا کہ نانا جان یہ میرے وفادار تھے، میں نے بخوشی انہیں جانے کی اجازت دی تھی۔ جس جس کو ساتھ لے کر جانا چاہتے ہو لے جاؤ، یزیدیوں کو صرف میری گردن کی ضرورت ہے جب میری گردن کاٹ لیں گے تو ان کے کلیجے ٹھنڈے ہوجائیں گے تم اپنی جانیں بچاؤ اور حفظ و امان سے واپس چلے جاؤ۔ جودوسخا کے پروردہ امام حسین علیہ السلام آخری لمحات میں بھی دوسروں کا بھلا چاہتے نظر آتے ہیں اور اپنے ساتھیوں کو زندگی کے اس نازک موڑ پر بھی اپنے ہمراہ یزیدی انتقام کی بھینٹ چڑھنے سے بچانا چاہتے ہیں لیکن عزیمت کے مسافروں کو آفرین کہ انہوں نے اپنی وفاداری کو زندگی کی عارضی مہلت پر ترجیح دی۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے جان نثار اصحاب اور شہزادوں نے عرض کیا کہ امام عالی مقام! خدا وہ دن نہ لائے کہ ہم آپ کو چھوڑ کر چلے جائیں....... آپ کے بغیر دنیا میں رہ کر ہم کیا کریں گے۔ ۔ ۔ ہم کٹ مریں گے۔ ۔ ۔ ہماری گردنیں آپ کے قدموں میں ہوں گی ......ہم اپنی جانیں آپ پر نثار کر دیں گے...... ہماری لاشوں پر سے گزر کر کوئی بدبخت آپ کو نقصان پہنچائے گا۔ ۔ ۔ ہم ہرگز ہرگز آپ کو تنہا نہیں چھوڑیں گے۔ حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ نے اپنے اصحاب وفادار کا یہ جذبہ ایثار دیکھا تو فرمایا اچھا! یہ آخری رات ہے، سجدے میں گر جاؤ، ساری رات عبادت اور مناجات میں گزری۔ جان نثاران حسین کے خیموں سے رات بھر اللہ کی حمد و ثنا کی صدائیں آتی رہیں۔

یوم عاشور

نماز فجر جان نثار اصحاب نے امام عالی مقام کی اقتداء میں ادا کی، بارگاہ خداوندی میں کربلا والے سربسجود تھے وہ سر جنہیں آج شام نیزوں پر بھی قرآن پڑھنا تھا، اللہ رب العزت کے حضور جھکے ہوئے تھے مولا! یہ زندگی تیری ہی عطا کردہ ہے ہم اسے تیری راہ میں قربان کرنے کے لئے تیار ہیں! یزیدی لشکر نے بھی بدبخت ابن سعد کے ساتھ فجر کی نماز ادا کی، 10 محرم الحرام کا سورج طلوع ہوا تو خون میں ڈوبا ہوا تھا، آسمان خون کے آنسو رو رہا تھا۔ آج علی اصغر کے حلقوم میں تیر پیوست ہونا تھا خاندان رسول ہاشمی کے بھوکے پیاسے شہزادوں کے خون سے ریگ کربلا کو سرخ ہونا تھا۔

انفرادی جنگ کا آغاز
اس ذبح عظیم کا لمحہ جوں جوں قریب آرہا تھا آل رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سختیاں بڑھتی چلی جا رہی تھیں تین دنوں کے پیاسے حسینی سپاہیوں نے منافقت کے خلاف فیصلہ کن معرکے کی تیاری شروع کر دی۔ انفرادی جنگ کا آغاز ہوا۔ جناب حر اصحاب حسین رضی اللہ عنہ کے پہلے شہید تھے اب ایک مجاہد لشکر حسین رضی اللہ عنہ سے نکلتا اور ایک یزیدی لشکر سے۔ آپ کے جان نثار دشمن کی صفوں کی صفیں الٹ دیتے، کشتوں کے پشتے لگاتے رہے، یزیدیوں کو واصل جہنم کر کے اور پھر خود بھی جام شہادت نوش کر کے نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں پر نثار ہوجاتے، پہلے اصحاب حسین شہید ہوئے، غلام نثار ہوئے، قرابت دار ایک ایک کرکے حق شجاعت دیتے ہوئے صفت شہادت سے سرفراز ہوئے۔

یزیدی لشکر نے جان نثاران حسین رضی اللہ عنہ کی استقامت، شجاعت اور جرات دیکھ کر انفردی جنگ بند کردی تھی، جب حسین مقتل میں آئے تو اجتماعی حملہ جاری تھا لیکن پورا لشکر بھی اجتماعی طور پر نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حملہ کرنے سے ڈر رہا تھا۔ دور دور سے تیر چلاتے رہے کئی گھنٹوں تک حسین رضی اللہ عنہ کے جسم پر تلوار کا زخم نہ لگا کیونکہ قریب آ کر علی رضی اللہ عنہ کی شجاعت کے وارث سے جنگ کرنے کا کسی کو حوصلہ نہ ہوا۔ تیروں کی برسات میں امام عالی مقام کا جسم اطہر چھلنی ہوگیا۔ زخموں سے چور امام پر چاروں طرف سے حملہ کیا گیا۔ شمر اور یزید کے بدبخت سپاہی قریب آگئے، یکبارگی حسین رضی اللہ عنہ کو تلواروں کے نرغے میں لے لیا گیا۔ آخر مردانہ وار جنگ کرتے کرتے شہسوار کربلا گھوڑے سے نیچے آگئے۔ نیزوں اور تلواروں سے بھی امام عالی مقام کا جسم چھلنی کردیا گیا۔

زندگی کا آخری لمحہ آپہنچا، امام عالی مقام نے دریافت فرمایا کہ کون سا وقت ہے جو اب ملا نماز کا وقت ہے۔ فرمایا : مجھے اپنے مولا کے حضور آخری سجدہ کرلینے دو۔ خون آلودہ ہاتھوں کے ساتھ تیمم کیا اور بارگاہ خداوندی میں سجدہ ریز ہوگئے باری تعالیٰ یہ زندگی تیری ہی دی ہوئی ہے اسے تیری ہی راہ میں قربان کر رہا ہوں اے خالق کائنات! میرا یہ آخری سجدہ قبول ہو۔ بدبخت شمر آگے بڑھا اور چاہا کہ امام عالی مقام کا سر تن سے جدا کر دے کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے کہا میرے قاتل! ذرا مجھے اپنا سینہ تو دکھا کیونکہ میرے نانانے مجھے جہنمی کی نشانی بتائی تھی۔

امام ابن عساکر نے سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا
کأنی أنظر إلی کلب أبقع يلغ فی دماء اهل بيتی
(کنز العمال، ح : 34322)
گویا کہ میں ایک سفید داغوں والے کتے کو دیکھ رہا ہوں جو میرے اہل بیت کے خون میں منہ مار رہا ہے۔
چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ نے نشانی دیکھ کر فرمایا ہاں یہ بدبختی تیرا ہی مقدر ہے، وہ بدبخت آگے بڑھا اور سر اقدس کو تن سے جدا کر دیا۔ ادھر روح نے قفس عنصری سے پرواز کی ادھر ندا آئی۔

o
يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُo ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةً
اے اطمینان پاجانے والے نفس۔ تو اپنے رب کی طرف اس حال میں لوٹ آ کہ تو اس کی رضا کا طالب بھی ہو اور اس کی رضا کا مطلوب بھی
ذبح عظیم
امام عالی مقام نے اپنے نانا اور ابا کے خون اور اپنی امی کے دودھ کی لاج رکھ لی، حسین کامیاب ہوگئے۔ حسینیت زندہ ہوگئی۔ واقعی یہ خانوادہ اور اس کا عالی وقار سربراہ۔ ۔ ۔ ۔ اس ذبح عظیم کا سزاوار ہے۔ آج سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی روح بھی رشک کر رہی تھی کہ یہ شرف بھی انکی نسل کے ایک فرد فرید کے حصے میں آیا۔ حسین رضی اللہ عنہ اس عظیم کامیابی پر قدسیان فلک باشندگان کرہ ارضی کا سلام قبول ہو، حسین راہ خدا میں نذرانہ جان پیشں کر کے اور ملوکیت اور آمریت کے اندھیروں میں اپنے خون کے چراغ روشن کر کے ذریت ابراہیمی کی محافظت کی علامت بن گئے، شہادت عظمیٰ نے انہیں ولایت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نشان بنا دیا۔ حسین رضی اللہ عنہ قیامت تک کے لئے اسلام کی حفاظت کا ستون بن گئے۔
شہادت حسین پر آسمان کا نوحہ
شہادت حسین رضی اللہ عنہ تاریخ انسانی کا ایک غیر معمولی واقعہ ہے کہ پیغمبر کے پیروکاروں نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسے کو بیدردی سے شہید کر کے اس کا سر اقدس نیزے پر سجایا۔ حسین ابن علی رضی اللہ عنہ اور ان کے 72 جان نثاروں کے خون سے کربلا کی ریت ہی سرخ نہیں ہوئی، بلکہ اس سرخی نے ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
محدثین بیان کرتے ہیں کہ امام عالی مقام کی شہادت پر نہ صرف دنیا روئی، زمین و آسمان نے بھی آنسو بہائے، شہادت حسین پر آسمان بھی نوحہ کناں تھا انسان تو انسان جنات نے بھی مظلوم کربلا کی نوحہ خوانی کی۔ محدثین بیان کرتے ہیں کہ نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شہادت کے وقت بیت المقدس میں جو پتھر اٹھایا گیا اس کے نیچے سے خون نکلا، شہادت حسین کے بعد ملک شام میں بھی جس پتھر کو ہٹایا گیا اس کے نیچے سے خون کا چشمہ ابل پڑا۔ محدثین کا کہنا ہے کہ شہادت حسین پر پہلے آسمان سرخ ہوگیا۔ پھر سیاہ ہوگیا۔ ستارے ایک دوسرے سے ٹکرانے لگے یوں لگتا تھا جیسے کائنات ٹکرا کر ختم ہوجائے گی یوں لگا جیسے قیامت قائم ہوگئی ہو دنیا پر اندھیرا چھا گیا۔
امام طبرانی نے ابوقبیل سے سند حسن کے ساتھ روایت کیا ہے کہ
جب سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کیا گیا تو سورج کو شدید گہن لگ گیا حتی کہ دوپہر کے وقت تارے نمودار ہوگئے یہاں تک کہ انہیں اطمینان ہونے لگا کہ یہ رات ہے۔
مجمع الزوائد، 9 : 197
امام طبرانی نے معجم الکبیر میں جمیل بن زید سے روایت کی ہے انہوں نے کہا
جب حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کیا گیا تو آسماں سرخ ہوگیا۔

معجم الکبير، ح : 2837