باطل اور اللہ کی صفات

حق کا راہی صرف زبانی کلامی اللہ کی صفات کا اقرار نہیں کرتا بلکہ وہ اللہ کی صفات پر دل سے ایمان رکھتا ہے۔باطل کو جہاں سے راہ ملے وہیں دل کے ایمان کو کمزورکرنے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔اس ایمان کو کمزور کرنے کا ایک دوہرا حربہ باطل کا یہ بھی ہوتا ہے کہ جب کبھی باطل حق کے راہی کو کسی بھی معاملے میں پھنسائے گا تو وہیں اللہ کی صفات پر ایمان اور یقین کمزور کرنے کے لیے اللہ کی صفات کو ہی دلیل بنا کر استعمال کرے گا اور ان صفات پر دل کا ایمان کمزور کردے گا۔
مثلاََدل میں وسوسے ڈالے گا کہ جب اللہ علیم و خبیر ہے ....وہ مددگار ہے....وہ طاقت رکھنے والا ہے....وہ حفاظت کرنے والا ہے....پیار کرنے والا ہے تواس نے مجھے باطل کے اس وار سے پہلے ہی خبردار کیوں نہ کردیا ۔اور جب میں باطل کے اس وار میں پھنس رہا تھا تو ا س وقت اللہ نے مجھے بچا کیوں نہ لیا؟ مجھے پھنسنے کیوں دیا ؟باطل یہاں بہت ہوشیاری سے دوطرفہ وار کرکے حق کے راہی کو گھیرتا ہے۔ جبکہ حق تو یہ ہے کہ یہ دنیا آزمائش کا گھر ہے۔ یہاں قدم قدم پر آزمائش پیش آتی ہے۔ اور جب حق کار اہی اللہ کے یقین پر کھڑا رہتا ہے تو وہ آزمائش اس کے ایمان کو اور مضبوط کرجاتی ہے۔ پر باطل حق کے راہی کی راہ کھوٹی کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا کیونکہ اس نے ازل سے بہکانے کی مہلت مانگی تو اللہ نے بھی کہا تھا کہ میرے بندے تیرے بہکاوے میں نہیں آئیں گے ۔اور اللہ نے اپنے بندوں کو بچانے کے لیے ان کی روحوں میں نیکی اور بدی کو الہام فرما دیا۔جیسا کہ اللہ قرآن میں کہتا ہے کہ میں نے تمہارے اندر فجور اور تقوی کا الہام کردیا ہے۔اب ہر روح میں یہ آشنائی اللہ نے ازل سے اتار دی ہے اور اسی آشنائی سمیت روح دنیا میں آتی ہے۔اور ساتھ اللہ نے انسان کو اختیار دیکر بھیجا کہ نیکی اور بدی میں سے جو راہ چاہے اختیار کرے۔یہی ایمان کی آزمائش ہے کہ کون ہے جو اختیار رکھتے ہوئے بھی اپنے آپ کو برائی سے بچا کر تقوی کی راہ اپناتا ہے۔ اور اللہ کے پسندیدہ بندوں میں شامل ہوجاتا ہے۔

غور کریں تو پتا چلے گا کہ اللہ نے صرف روح کی آشنائی عطا کردینے پر ہی اکتفا نہیں کیا کہ اس الہام و آشنائی کو استعمال کرکے بچ جائیں بلکہ اس نے دنیا میں بھی ہماری بچت کی بے شمار راہیں کھلی رکھی ہیں جن کی طرف باطل متوجہ نہیں ہونے دیتا۔ اگر دیکھا جائے تو عین اس لمحے جب باطل ہمیں اپنے جال میں پھنسانے کی کوشش کررہا ہوتا ہے اسی وقت اللہ ہماری مدد کی کوئی نہ کوئی راہ نکال دیتا ہے۔کبھی تو ضمیر کی آواز اندر اٹھتی ہے جسے سن کر ان سنی کردینا ہماری غلطی ہوتی ہے۔ کبھی مرشد /رہبر/استاد کی رہنمائی کی صورت میں اللہ حق کی راہ کھولتا ہے۔اورپھربھی اگر ہم خود کو نہ بچا پائیں تو اس کی غفور الرحیمی ہمیں بچا لیتی ہے ۔ وہ توبہ اور معافی کا در ہمارے لیے کھول کر کہتا ہے کہ میری طرف پلٹ آﺅ اور اے میرے بندے.....!میری رحمت سے مایوس نہ ہونا۔یہ اللہ کااپنے بندے کے لیے پیار ہی تو ہے لیکن شیطان ہمیں اللہ سے بھی بدظن کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا اور ہم بھی باطل کے جال میں پھنس کر ایمان کے کمزور ترین درجے پر جاکر اس کی
صفات پر یقین کو نہ صرف کمزور کر بیٹھتے ہیں بلکہ انہی صفات کے حوالے سے شکوے میں چلے جاتے ہیں۔ایک طر ف تو اپنے اندر کی آشنائی سے اور رہنمائی کے کسی بھی ذریعے سے فائدہ نہ اٹھا کر باطل کے جال میں پھنس جاتے ہیں۔ اور دوسری طرف مزید یہ کہ اپنی غلطی تسلیم کرنے کی بجائے اللہ سے شکوہ کرتے اور خود بری الذمہ ہوجاتے ہیں۔




یہاں آنکھیں کھولیں اور اپنے علم و آشنائی اور رہنمائی کے کسی بھی وسیلے سے پاور لیکر باطل کے وار سے نکلیں اور یقین رکھیں کہ یہ اللہ ہی کی مدد ہے جو کسی نہ کسی وسیلے سے ہم تک پہنچ رہی ہے ۔اس کا فائدہ اٹھا کر باطل کو شکست دینا ہمارا کام ہے