باطل اور دوسروں سے دعا کروانا


باطل کسی دوسرے سے دعا کروانے کے حوالے سے اختلافی پوائنٹ بھی سامنے لاتاہے۔مثلاََیہ کہ ہم کسی کے ساتھ دعا کیوں کروائیں؟ کیااللہ ہماری نہیں سنے گا؟ جب کام اللہ نے کرنا ہے تو کسی دوسرے کے ساتھ دعا کیوں کریں؟ ہمارے اور اللہ کے درمیان کوئی تیسرا یا غیر کیوں آئے وغیرہ ۔اور یوں ہم باطل کے اس وار میں پھنس کر یہ نہیں سمجھ پاتے کہ ہم بندوں کو اللہ نے اپنی پہچان کروانے اور ہدایت کی راہ دکھانے کے لیے ہمیشہ کسی نہ کسی بندے کو ہی ذریعہ بنایا۔اس لیئے جو اللہ کا بندہ بھی ہمیں ہمارے مسائل کے حل کے لیے اللہ کے سامنے جھکنا سکھا رہا ہے تو اسے اللہ اور اپنے درمیان غیر نہیں سمجھنا چاہیے۔دوسری طرف باطل ہمارے یقین میں کمی کرکے ہمیں گھیرتا ہے تو اپنی زندگی کی آزمائشوں پر بے سکونی کا شکار ہوجاتے ہیں۔اس کا مطلب ہے کہ ہم اللہ پر ویسا یقین اور ایمان نہیں رکھتے جو ہمارے اطمینان کا باعث ہو۔ اب دل کو ایسے ایمان اور یقین کی حالت میں اللہ کی مدد سے صرف وہی شخص لاسکتا ہے جو خود بہت مضبوط ایمان والا ہو۔ کیونکہ کوئی بھی شخص کسی کو وہی دے سکتا ہے جو خود اس کے پاس ہو گا۔ جیسے اگر کسی کے پاس اللہ کی آشنائی ، سکون یا اللہ کی رضا میں راضی رہنے کی دولت ہے۔ تو ہم اس کے ساتھ دعا کر کے اپنے اندر بھی اسی جیسی قوتِ ایمانی اور سکونِ قلب پا سکتے ہیں۔باطل ہمیں اسی سکون سے محروم رکھنے اور اللہ پر یقین سے دور رکھنے کے لیے ہی ایسے کسی بھی حق کی پاور رکھنے والے کسی خالص اللہ والے سے دعا کروانے کی طرف آنے ہی نہیں دیتا۔ اللہ کے بندوں کا ایک دوسرے کے لیے دعا کرنا اللہ کا پسندیدہ عمل بھی ہے جواللہ کی رضا کے حصول کا سبب بھی بنتا ہے۔باطل یوں ایک دوسرے سے دعا کروانے سے روک کر ہمیں اللہ کی رضا کے حصول سے بھی محروم کردیتا ہے۔لہذا باطل کے اس وار کو پہچانیں اور اس پوائنٹ پر بلاوجہ اڑنے کی بجائے دعا کے لیے کسی بھی حق کی پاور والے،کسی خالص اللہ والے سے رابطہ رکھ کر دعا کروانے میں جھجھک ، آڑ یا اختلاف نہ رکھیں۔ بلکہ ان سے جڑ کر خود بھی اللہ کے یقین پر کھڑا ہونے اور دعا میں پیش ہونے کا سلیقہ سیکھیں۔ ان کی دعا کی برکت سے فیض یاب ہوکر زندگی کی آزمائشوں سے لڑ کر نکلیں اور باطل کے دانت کھٹے کردیں۔