باطل اور معرفت واقعہ کربلا

آج سے 1400سال پہلے کربلا کے میدان میں آل محمد ﷺ، امام عالی مقامؑ حضرت امام حسین ؓ نے سارے کنبے و رفقاءاور اہل و عیال کو قربان کیا تو کلمہ حق بچا اور ہم تک پہنچا ۔ آج ہم مسلمان اس واقعہ کے بارے میں نہ تو جانتے ہیں اور نہ ہی جاننے کی چاہت رکھتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ دنیا کے کسی کونے میں کوئی واقعہ رونما ہو ہم پوری طرح سے دلچسپی لیتے ہیں۔ اس کی ساری تفصیل بھی معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور چاہے اس واقعہ سے متعلق لوگوں سے ہمارا کوئی رشتہ نہیں ہوتا مگر ہم ان کے درد کو محسوس کرتے ہیں ۔
دنیا کے کسی خطے میں مسلم امہ پر ظلم ڈھایا جانا ہمارے دل کو چیرتا ہے۔ ہم ان کی خبر سن کر بے چین ہو جاتے ہیں اور آنسو بھی بہاتے ہیں۔مگر ایسا کرتے ہوئے ہمیں کربلا کے شہید کبھی یاد نہیں آئے ۔کیونکہ باطل نے ہمیں کبھی جاننے کا موقع ہی نہیں دیا کہ آخر میدان کربلا میں ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفیﷺ کی آل پاک ؑپر کیا بیتی ۔ہم آنسو تو بہاتے ہیں مگر ان آنسوﺅں کو غم حسینؑ سے نسبت نہیں ہوتی ۔ ہم تو جانتے ہی نہیں کہ غم شبیرؑ کیا ہے اور باطل ہمارے کسی غم کو کسی آنسو کو اس غم سے نسبت پانے سے محروم رکھتا ہے اور یوں وہ آنسو بے مول ہی رہ جاتے ہیں جن کو غم حسین ؓ سے نسبت نہیں ہوتی کیونکہ آنسوﺅں کی قیمت تو غم حسینؑ سے نسبت پا کر طے ہوتی ہے۔
ذرا سوچیے کہ
ہم جن ہستیوں کی عظیم الشان قربانیوں کی وجہ سے ایک مسلم امہ ہیں ۔آج ہمیں انہی کے بارے میں جاننے سے باطل روک تو نہیں رہا ۔کیونکہ باطل جانتا ہے کہ جس پر واقعہ کربلا کا حق عیاں ہو جائے وہ باطل کے شکنجے سے نکل جاتا ہے۔ اور یہی تو وہ چاہتا نہیں ہے ۔اور اسی وجہ سے ہمیں معرفت کربلا حاصل کرنے سے روکنے کے لئے وہ ہر طرح کے ہتھکنڈے آزماتا ہے۔ مثلاََ ایک طرف اندر کہیں یہ وہم ڈالتا ہے کہ جیسے یہ واقعہ اور اس سے متعلق ہستیوں کے بارے میںجاننا ہمارے کرنے کا کام نہیں ہے۔ لہٰذا باطل کے جال میں پھنس کر ہم خود بھی اس واقعہ کے بارے میں نہیں جانتے۔ اور دوسری طرف اگر کوئی ہمیں اس واقعہ کے بارے میں بتائے تو ہم اس پر شیعہ ہونے کا لیبل لگا دیتے ہیں اور خود شیعہ ہونے کا لیبل لگنے کے ڈر سے اس واقعہ کے بارے میں جاننے سے انکار کر دیتے ہیں۔ اور اس طرح ہم حق کی حقیقت کو جان ہی نہیں پاتے ۔
آج ہم زمین کے ایک ٹکڑے کے لئے لڑنے یا شہید ہونے والوں کو سلام بھی پیش کرتے ہیں۔ ان کے عزیز و اقارب کے دکھ میںبھی شریک ہوتے ہیں اور ان کی لاشوں کو پرچم میں لپیٹ کر ان کو سیلوٹ بھی کرتے ہیں۔
ان سب شہیدوں کو ہمارا سلام
لیکن اگر معرکہ کربلا کے عظیم شہیدوں کو سلام پیش کرنے کی باری آئے تو ہمیں باطل آ گھیرتا ہے ۔اور ہم کئی طرح کی حیل وحجت کا شکار ہو جاتے ہیں کہ کیا اب یہاں ان ہستیوں کو سلام پیش کرنا بنتا ہے یا نہیں۔ سلام... اسلام... اور
سلامتی جن ہستیوں کے دم قدم سے ہے۔ انہی ہستیوں کے بارے میں باطل نہ تو دل میں درد کا احساس پیدا ہونے دیتا ہے اور نہ ےہ آل پاک ؑکے ہم پر کئے گئے احسان کے احساس دل میں اترنے دیتا ہے ۔
ہمارے دل آج وطن کے نام پر شہید ہونے والوں کے لئے تو پھٹ پھٹ جاتے ہیں ۔ہم ان کے حالات زندگی جاننے کے بارے میں بھی دلچسپی رکھتے ہیں۔ مگر دین حق کے لئے شہید ہونے والوں کے لئے کبھی ہماری آنکھ سے ایک آنسو بھی نہیں ٹپکا۔
وطن کے شہیدوں کو ہمارا سلام
مگر وہ جو دین پر قربان ہو گئے ہم ان ؑکے بارے میں جاننے کی زحمت ہی گوارا نہیں کرتے ۔وہ جن سے ہمارا حقیقی رشتہ ہے ۔جن کی وجہ سے آج ہم ایک امتی کہلاتے ہیں ان کے بارے میں جاننے میں کوئی دلچسپی ہی نہیں لیتے ہیں ۔
باطل ہمیں واقعہ کربلا کی سب تفصیلات جاننے سے روکتا ہے۔ کیوں کہ اگر ہم یہ تفصیل جان لیں گے تو ہم پر حق سچ کھل جائے گا۔ اور باطل کو منہ چھپانے کی جگہ نہ ملے گی ۔ےہی تو باطل نہیں چاہتا ۔اس لیے نہ تو وہ ہمیں خود سے اس کے بارے میں کوئی آشنائی پانے کی کوشش کرنے دیتا ہے۔ اور نہ ہی اس کی آشنائی کو پا کر اسے آگے پھیلانے کی طرف مائل ہونے دیتا ہے ۔ اس لیئے کہ جب معرفت کربلا کی حقیقت کے احساس دل میں اتر جاتے ہیں تو باطل کا ننگا پن ، کمزوری اور بودا پن سب پر کھلتا ہے ۔
باطل ہمیں سوچ میں یوں پھنساتا ہے کہ جیسے واقعہ کربلا کے حقائق جاننا فرقہ پرستی ہو۔ جبکہ ا صل میں تو معرفت کربلا ہی ہمیں فرقہ پرستی سے بچاتی ہے اورےہی باطل ہونے نہیں دیتا۔ ہم کیسے نادان ہیں جو باطل کے ہاتھوں بیوقوف بن جاتے ہیں۔ اور یہ نہیں سمجھتے کہ حضرت امام حسین ؓ تو دین حق کے علمبردار ہیں۔ وہ صرف ایک مذہب کے پیشوا نہیں۔ بلکہ وہ ہر حق پر کھڑے رہنے والے کے امامِ عالی مقامؑ ہیں۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ دین اسلام جسے بچانے کے لئے انہوں نے عظیم الشان قربانی دی وہ اس دین کے اندر ہی موجود کسی ایک فرقے یا گروہ کے امام ہوں ۔
باطل تو معرفت کربلا حاصل کرنے سے روکنے کی ہر صورت کوشش کرتا ہے۔
مگر ذرا سوچیئے
ہم کیسے مسلمان ہیں جو مسلمان تو کہلانا چاہتے ہیں۔ مگر مسلمانیت قائم کرنے کے لئے پڑھا جانے والا کلمہ حق کس طرح آل پاکؑ نے کربلا میں بلند کیا۔ اور یہ کلمہ ہم تک کیسے پہنچایا ہم یہ آشنائی ہی حاصل نہیں کرنا چاہتے۔
ہم کیسے اللہ کے بندے ہیںجو اللہ کے بندے تو کہلانا چاہتے ہیں مگر اللہ کا بندہ ہونے کا جو اعلیٰ ترین معیار میدان کربلا میں اللہ کی رضا میں راضی رہ کر اللہ کے پیارے بندوں نے قائم کیا ۔ہم اس کے بارے میں کچھ جانتے تک نہیں۔
ہم کیسے قرآن کے قاری ہیںجو قرآن پاک کو سینے سے تو لگانا چاہتے ہیں مگر اس قرآن پاک کی قرات کو نوک ِسناں پر سنانے والے لاجواب قاری پیارے آقا ومولا حسینؑ کے کردار کی عظمت کو نہیں جانتے۔ اور کئی بار تو جان کر بھی نہیں مانتے۔
ہم کیسے دین کے علمبردار ہیں جو آج دین کاپر چارگلی گلی کر کے عزت و تکریم تو کمانا چاہتے ہیں مگر اس دین کا پرچم سر بلند کس نے کیا؟ کیسے کیا ؟کب کیا اور کیا کیا لٹا کر کیا ہم یہ جاننا ہی نہیں چاہتے؟
ذرا سوچیے
ہم کیسے امتی ہیںجو امتی تو کہلانا چاہتے ہیں پر امت کے سردار پیارے آقائے دو جہاں حضرت محمد مصطفیﷺ کی آل پاکؑ کس طرح ناناﷺ کے دین پر میدان کربلا میں قربان ہو گئی۔ ہم یہ داستان حق سننے میں دلچسپی ہی نہیں لیتے۔
ذرا سوچئے ہم کیسے شفاعت کے دعویدار ہیں
جو پیارے آقاحضرت محمد مصطفی ﷺ کے امتی ہونے کے ناطے روزِقیامت انﷺکی شفاعت پر تو اپنا حق سمجھتے ہیں۔ مگر یہ شفاعت پیارے آقائے دو جہاںحضرت محمد مصطفیﷺ کی جس پیاری آل پاک ؑکے قدموں کی خاک کے صدقے ہمیں نصیب ہو گی۔ ہم اس آل پاکؑ کا حق کے علم کی سربلندی کے لئے میدان کربلا میں شہید ہو جانے کا واقعہ سننا ہی نہیں چاہتے اور نہ حقائق جاننا چاہتے ہیں۔
ذرا سوچیے
ہم کیسے غلام ہیں
جوغلامی کے دعوے تو کرتے نہیں تھکتے۔ پر وہ پیارے آقائے دو جہاں حضرت محمد مصطفیﷺ جن کی غلامی کا ہمیں دعویٰ ہے۔ ہم انﷺ کی آل پاکؑ کے دکھ درد اورغم کے آشنائی کے احساس بھی دل میں نہیں اتارنا چاہتے۔
ذرا سوچیے یہ کیسی غلامی ہے
جس میں اک غلام کو اپنے آقاحضرت محمد مصطفیﷺ کے غم کی نہ تو آشنائی ہے اور نہ ہی اس غم میں شریک ہونے کے احساس کیا ےہی ہے غلامی کیا یہی ہے غلامی کے دعوے کی حقیقت کیا یہی ہے غلامی کی لاج نبھانے کا انداز
ذرا سوچیئے
ہم کیسے غلام ہیں
جو آقاحضرت محمد مصطفیﷺ کے غلام تو کہلانا چا ہیں۔ ان ﷺکے قدموں کی خا ک کا تاج بنا کر تو سر پر سجانا چاہیں۔ مگر کربلا کی خاک پر 72پاک تن کیسے لٹ گئے ہم اس سے بے خبر رہیں۔ اور اس بے خبری پر ہمیں احساس ندامت اور احساس زیاں بھی نہ ہو۔
ذرا سوچئے
ہم کیسے غلام ہیں جنھیں اپنے آقاحضرت محمد مصطفیﷺ پر اپنی جان اور اولاد لٹانے کا تو دعویٰ ہے۔
مگر جب اپنے ہی آقاحضرت محمد مصطفیﷺ کے پیارے بیٹے حضرت امام حسینؑ اور ان ؑکے خاندان ،آل پاک ؑاور رفقاءکی قربانیوں کا تذکرہ ہو تو ہم وہ ذکر بھی سننا نہ چاہیں۔
اگر سن لیں تو بے بنیاد سوالوں اور باطل سوچوں میں پھنس کر رہ جائیں اور معرفت حق سے محروم رہ کر باطل کی سرخوشی کا سامان کرتے رہیں۔

اے پیارے آقائے دو جہاں حضرت محمد مصطفی ﷺکے امتیو
امت کی کشتی جو بھنور سے نکال کر لائے تھے ان 72پاک تن کی جانب رخ کر لو کہ اس میں فلاح ہے
اے غلامی کے دعویدارو
پیارے آقاحضرت محمد مصطفیﷺکی آل پاکؑ کی معرفت سے غفلت چھوڑو کہ اس معرفت میں بقا ہے۔
اسی میں بھلائی ہے۔ اس میں بہتری اور نجات کا راز چھپا ہے۔ اور اسی میں باطل کی شکست ہے۔
آئیں واقعہ کربلا کے احساس آشنائی اپنے دلوں میں اتار کر اور اس کی معرفت کے احساس آگے پھیلا کر اپنے حصے کی شکست باطل کو دیں۔اسے ناکوںچنے چبوا دیں ۔ اس کے دانت توڑ کر اس کی ہتھیلی پر رکھ دیں اوراپنے اپنے
دائرہ کار میں حق کا علم بلند کر کے امتی اور غلام ہونے کی لاج نبھانے کی کوشش کریں ۔
شاہ است حسینؑ بادشاہ است حسینؑ
دین است حسینؑ دین پناہ است حسینؑ
سرداد نداد دست در دست یزید
حقا کہ بنائے لا الہ است حسینؑ