ٹاپک 1 :پروفیشنلزم اور باطل

💥 ہنٹ 1: جائز نا جائز کا فرق
ہر انسان کو گزر بسر کےلئے کوئی نہ کوئی پیشہ اپنانا پڑتا ہے۔
جس پر بھی روزی روٹی کی ذمہ داری عاید ہوتی ہے اس کے سر پہ ہر وقت ایک بوجھ سا سوار رہتا ہے۔ فرمائشوں اور مطالبات کی لمبی فہرستیں بھی نظروں کے سامنے گھومتی رہتی ہیں اور آخر کار کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی کام ایسا کرنے پر مجبور ہو ہی جاتے ہیں جو کبھی کرنے کا سوچا بھی نہیں ہوتا۔ اور ایسا صرف اس لیئے ہوتا ہے کہ ہم نفس و شیطان کے بہکاوے میں آ کر اپنی ضروریات میں بے تحاشہ اضافہ کر لیتے ہیں۔
صرف یہی نہیں باطل اولاد کی محبت کا گُر بھی آزماتا ہے۔
ہم اپنی محبت میں اولاد کو بھی اسی ڈگر پر ڈال دیتے ہیں۔ ہم بچوں کی ہر بات مان کر پہلے ان کی خواہشات کو حد سے بڑھا دیتے ہیں اور پھر ان کو پورا کرنے کےلئے الٹے سیدھے حربے آزماتے ہیں۔ شیطان تب دل میں یہ خیال ڈالتا ہے کہ آخر ان کی ذمہ داریاں بھی پوری کرنا ہمارا فرض ہے۔ یہ بھُلا دیتا ہے کہ اولاد ہمارے لیئے آزمائش ہے اور یہ بھی آزمائش ہی ہوتی ہے کہ ہم کس طرح اللہ کی مقرر کردہ حدود کو عبور کیے بنا اپنے بچوں اور اہل و عیال کی ذمہ داریوں سے عہدہ برآہ ہوتے ہیں۔ اگر ہم اس آزمائش کو آزمائش ہی نہ سمجھیں بلکہ جذبات کی رو میں بہتے ہوئے اپنے اختیارات و وسائل اور ذرائع کا بے دریغ استعمال کرتے چلے جائیں تو پھر شیطان ہمیں کہیں رکنے نہ دے گا بلکہ ہر روز ایک نئی توجیہہ دے کر ہمیں اپنی پیروی پر مجبور کر دے گا۔ اور ہم بھی اس کی مان کر جائز نا جائز کے فرق کو بھول کر اپنا دین و دنیا داﺅ پر لگا دیں گے۔
باطل کے شکنجے میں جب پھنس جاتے ہیں تو یہ بھی بھول جاتا ہے کہ ہم جن لوگوں کی خاطر یہ سب جائز و ناجائز کرتے چلے جا رہے ہیں وہ ہمارے اعمال کا حساب ہماری جگہ نہیں دیں گے۔ ہم سے ہی ہمارے عمل کی پوچھ ہو گی۔
اس طرح باطل ہمیں اپنی دلیلیں دے کر مطمئن کیئے رکھتا ہے اور ہماری آخرت مشکل بناتا جاتا ہے۔

💥 ہنٹ 2: پیشہ وارانہ زندگی کی ڈیمانڈز
پیشہ وارانہ زندگی کی بہت سی ڈیمانڈز ہوتی ہیں۔ کبھی کبھی کچھ ایسا بھی کرنے کی نوبت آجاتی ہے کہ یا تو نوکری ہاتھ سے جاتی ہے اور یا پھر وہ ڈیمانڈ پوری کرنے پر منہ مانگی قیمت ادا کی جاتی ہے۔ اب نوکری کے لالے پڑ جائیں تو ڈیمانڈ پوری کرنے میں تاخیر کا سوال کم ہی پیدا ہوتا ہے۔ کیونکہ ہمارا اللہ پر یقین کمزور ہوتا ہے اسکئے اللہ کی اطاعت چھوڑ کر حکام بالا کی خوشی کو پورا کرنا جیسے زندگی موت کا سوال بن جاتا ہے اور ایسے میں ضمیر کی آواز بھی گھٹ کر رہ جاتی ہے۔ احساس بھی دب جاتے ہیں اور نہ چاہتے ہوئے بھی غلط فیصلے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
بے شک ہم نے اسے (حق و باطل میں تمیز کرنے کے لئے شعور و بصیرت کی) راہ بھی دکھا دی، (اب) خواہ وہ شکر گزار ہو جائے یا ناشکر گزار رہے۔(سورةالدہر: آیت۳)

جانتے بوجھتے کیے گئے ان فیصلوں کی پاداش میں ہمیں اس زندگی کے خاتمے پر جو بھی سہنا پڑے گا، اس کی کوئی سوچ بھی شیطان قریب بھٹکنے نہیں دیتا۔ اس وقت تو سب ہرا ہرا دکھائی دیتا ہے۔ دنیا کے سبز باغ اس وقت جنت کے باغوں کو بھی بھلا دیتے ہیں۔ وہ سبز باغ زندگی کو وقتی طور پر تو چمن میں تبدیل کر سکتے ہیں مگر اصل میں ہم اپنے ہی کیے کی وجہ سے اپنی آخرت خراب کر بیٹھتے ہیں۔
باطل ہمیں اس دنیاوی زندگی کی عیش میں الجھا کر آخرت کی تباہی کی جانب چلا دیتا ہے۔


💥 ہنٹ 3: دیانتداری
ہر پیشہ کا اپنا ایک تقدس بھی ہوتا ہے اور دیانت داری سے اپنی ذمہ داری کو نبھانا ہی اس کے تقدس کو نبھانے کے قابل بھی کرتا ہے۔ بعض اوقات ہم ناک پر بیٹھی مکھی بھی اڑانا نہیں چاہتے مگر یہ ضرور چاہتے ہیں کہ مہینے کے مہینے ایک معقول رقم ہمارے اکاﺅنٹ میں منتقل ہوتی رہے۔
باطل ہمیں یہ احساس نہیں ہونے دیتا کہ اس طرح کا کمایا ہوا رزق کبھی حلال نہیں ہوتا جس میں متعلقہ ادارے کی طرف سے دی گئی ذمہ داریاں پوری کرنے کی میں بد دیانتی سے کام لیا ہو۔
اگر اپنی ذمہ داریوں سے کنی کترائیں گے تو یہ بھی باطل کا وار ہی ہے جو ہم سے کام چوری کرواتا ہے، صحت تندرستی، عقل سمجھ اور تمام وسائل ہوتے ہوئے بھی ذمہ داری سے کام نہیں کرنے دیتا اور حلال رزق کمانے سے روکتا ہے۔ اس طرح باطل ہمارے رزق کو، جو گھر میں خیر خوشیوں اور راحت و سکون کا سبب ہوتا ہے، اسکو بھی حلال اور جائز طریقے سے گھر میں نہیں آنے دیتا۔
باطل کا یہ وار اسلئے ہے کہ دنیا میں بھی ہمیں اس رزق سے راحت نہ ملے اور آخرت میں بھی حساب کے وقت مشکل اٹھانی پڑے۔

💥 ہنٹ 4: اپنے عہدہ اور اس کے اختیارات کا جائز طریقے سے استعمال
ہم جس بھی عہدے پر ہوں ہر عہدہ ہمیں کچھ نہ کچھ اختیارات دیا جاتا ہے۔ اور کچھ لوگ ہوتے ہیں جن پر وہ اختیارات استعمال کرنے کا ہمیں حق حاصل ہوتا ہے۔ اب یہاں ہماری آزمائش ہوتی ہے کہ ہم اپنے ماتحتوں پر اپنے اختیارات کس طرح جائز طریقے سے استعمال کرتے ہیں۔ اگر ہم اختیار کے نشے میں اللہ کی حدود توڑ کر اپنی من مانیاں کر کے اختیارات کا نا جائز فائدہ اٹھائیں گے تو اس سے نا صرف دنیا میں ذلت ملے گی بلکہ آخرت میں حساب دینا بھی مشکل ہو گا۔
باطل ہمیں اختیار کو ایک بڑی ذمہ داری نہیں سمجھنے دیتا۔ نہ یہ احساس ہونے دیتا ہے کہ آخرت میں پوچھ بھی ہو گی کہ کس اختیار کو کس طرح استعمال کیا۔ باطل کے چنگل میں پھنس کر ہم دنیاوی لذت کیلئے اختیارات کا غلط استعمال کرنے سے گریز نہیں کرتے
خود غرضی اور نفس پرستی کی بھینٹ چڑھا کر باطل ہمیں اختیارات کے ناجائز استعمال کے ذریعے نا کامی کے اندھیروں میں دھکیلنے میں لگا رہتا ہے۔

💥 ہنٹ 5: حرام دولت سے جائز کام
حد سے بڑھی فکر معاش حرام حلال کا فرق مٹانے لگے تو پاس موجود دولت کے انبار سے ایسے کام بھی کرنے لگتے ہیں جن کی وجہ سے یقین ہو جاتا ہے کہ ناجائز بھی جیسے جائز ہو گیا۔ حرام پیسے سے مساجد کی تعمیر ، فلاحی کام ، غریبوں کی کفالت اور دیگر نیک کاموں کی انجام دہی کرنا اپنے ضمیر کو تسلی دے کر اسے مزید گہری نیند سلا دینے کے مترادف ہے۔ ایسے ہی دولت کے خزانے لٹا لٹا کر اپنے محل نما مکانات کی تعمیر کر وا کے ان کے ماتھے پر ھذا من فضل ربی کندہ کروانا باطل کی چال کا شکار ہو کر ہمارا اپنے ضمیر کو قبر میں زندہ دفن کرنا ہی تو ہے۔
باطل ہمیں یہ تسلی دیتا ہے کہ آخر تم نیک کام ہی تو انجام دے رہے ہو۔ باطل یہ نہیں سوچنے دیتا کہ کبھی گندے پانی سے وضو یا طہارت ہوئی ہے؟ اگر نہیں تو ایسے مال سے صدقہ خیرات اور زکوٰة کی ادائیگی کرنا کہاں کی عقلمندی ہے۔
باطل ہمیں جھوٹی تسلیاں دے کر مطمئن کئیے رکھتا ہے۔ اسکی کوشش ہوتی ہے کہ ہماری آنکھوں پر پٹی بندھی رہے اور ہم با آسانی خسارے کا شکار ہو جایئں۔


💥 ہنٹ 6: سرحد پار... یا...ہر حد پار
اور (یہ) وہ لوگ ہیں جو کذب اور باطل کاموں میں (قولا اور عملادونوں صورتوں میں) حاضر نہیں ہوتے اور جب بے ہودہ کاموں کے پاس سے گزرتے ہیں تو (دامن بچاتے ہوئے) نہایت وقار اور متانت کے ساتھ گزر جاتے ہیں۔
(سورة الفرقان آیت۲۷)
جب ہم اپنی زندگی میں دھن دولت، پرفیکشن، پروفیشنلزم ، ہر حال میں ترقی، ہر قیمت پر جیت وغیرہ جیسی چند گنی چنی چیزوں کو ہی اہمیت دے دیں تو بقیہ اخلاقی اقدار جیسی ضروری چیزوں کو اتنی بھی اہمیت نہیں دے پاتے جو زندگی میں شامل رہنے کے لئے ضروری ہیں۔
جب سرحد پار جاتے ہیں وہاں باطل ایک نئے روپ میں وار کرتا ہے۔ پروفشنلزم کی آڑھ میں اپنے دین کی حدود توڑنا، نا جائز روابط رکھنا، اور اپنے اقدار کو بھول کر وہاں کا رنگ اپنانا، یہ سب باطل کا ایسا شکنجا ہے کہ جب اس میں پھنستے ہیں تو رہا ہونا مشکل ہوتا چلا جاتا ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے لعنت فرمائی اس عورت پر جو مردوں کی مشابہت اختیار کرے اور اس مرد پر جو عورتوں کی مشابہت اختیار کرے۔(ابن ماجہ)
اگر دین سے وابستگی صرف پیدائشی مسلمان ہونے تک ہی باقی ہو... تو چاہے سرحد کے اِس پار ہوں یا اُس پار... اللہ کی مقررہ حدیں عبور ہوتی رہتی ہیں۔ سرحد پار کا مطلب... ہر حد پار...کرنا ہے یا نہیں... اس کا فیصلہ اور اختیار ہمارا اپنا ہے۔
حضرت جابرؓ بیان فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسولﷺ نے ارشاد فرمایا مجھے اپنی امت پر سب سے زیادہ جس چیز کا خوف ہے وہ قوم لوط کا عمل ہے۔ (ابن ماجہ)
باطل ہمارے سامنے ان سب لذتوں کے جال بچھا کر انکا غلام بنا لیتا ہے۔ اس طرح نافرمانیوں کی راہ پر چلا کر ناکامی کی منزل تک پہنچانے تک ہمارا پیچھا نہیں چھوڑتا۔

💥 ہنٹ 7: کمزور ایمان
اللہ جس کے لئے چاہتا ہے رزق کشادہ فرما دیتا ہے اور (جس کے لئے چاہتا ہے) تنگ کر دیتا ہے، اور وہ (کافر) دنیا کی زندگی سے بہت مسرور ہیں، حالانکہ دنیوی زندگی آخرت کے مقابلہ میں ایک حقیر متاع کے سوا کچھ بھی نہیں۔(الرعد:۶۲)
اگر ہمارا یہ ایمان مضبوط ہو کہ رزق اللہ نے دینا ہے، اسکو بچانے کیلئے اللہ کی حدود توڑنا خود کو نقصان میں دھکیلنا ہے، تو ہم اللہ کے احکامات پر مضبوطی سے قائم رہتے ہوئے ہر اس عمل سے کنارہ کشی اختیار کریں گے جس سے بچنے کا حکم ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم جب تک اپنا بھلا خود نہ چاہیں کوئی باہر سے آکے ہمارا بھلا نہیں کر سکتا۔ اپنی بھلائی کا دروازہ خود ہی پہلے خود پر کھولا جاتاہے اسی کے بعد کوئی باہر سے آکے ہمارا خیر خواہ ثابت ہوسکتاہے۔
اے ایمان والو! شیطان کے راستوں پر نہ چلو، اور جو شخص شیطان کے نقوشِ قدم پر چلتا ہے تو وہ یقینا بے حیائی اور برے کاموں (کے فروغ) کا حکم دیتا ہے، اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تم میں سے کوئی شخص بھی کبھی (اس گناہِ تہمت کے داغ سے) پاک نہ ہوسکتا لیکن اللہ جسے چاہتا ہے پاک فرما دیتا ہے، اور اللہ خوب سننے والا جاننے والا ہے (سورة النور آیت:۱۲)
باطل اس طرح بھی وار کرتا ہے کہ اگر ہم گمراہی کی راہ پر چل پڑیں اور کوئی ہمیں وہاں سے بچانے کی کوشش کر بھی لے تو اسکو ہی غلط سمجھنا شروع کر دیتے ہیں۔ حتی کہ بعض اوقات نیکی کی جانب بلانے والے کو بھی اپنے ساتھ شامل کر کے اسکے ایمان کو کمزور کرنے کی بھی کی پوری کوشش کرتے ہیں۔


💥 ہنٹ 8: پروفیشنلزم کے نام پر جائز و نا جائز اور حلال اور حرام کا فرق نہ مٹنے دیں
اے لوگو! زمین کی چیزوں میں سے جو حلال اور پاکیزہ ہے کھاو، اور شیطان کے راستوں پر نہ چلو، بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے(سورة البقرة آیت:۸۶۱)
دولت ، پیسہ زر، نام کوئی بھی ہو، زندگی گزارنے کےلئے ضروری ہے مگر یہ واحد شے نہیں جس کے بل پر زندگی گزاری جائے اور نہ ہی یہ وہ واحد شے ہے جس کے حصول کے لئے باقی سب داﺅ پر لگا دیاجائے۔
شیطان انہیں (غلط) وعدے دیتا ہے اور انہیں (جھوٹی) امیدیں دلاتا ہے اور شیطان فریب کے سوا ان سے کوئی وعدہ نہیں کرتا (سورةالنساءآیت۰۲۱)
باطل ہمارا کھلا دشمن ہے۔ وہ زندگی کے ہر شعبے میں اپنی ناک گھسائے ہوئے ہمیں ناکام کرنے کوششیں کرتا ہے تاکہ نہ تو ہم سیدھی راہ کو پکڑیں۔ اور نہ ہی اس پر چلتے ہوئے اس جنت کے حصول میں کامیاب ہو سکیں جس سے وہ نکالا جا چکا ہے۔وہ اپنی خار کی بنا پر ہمیں بھی دھکے دے کے وہاں سے نکلوانا چاہتا ہے۔ پروفیشنلزم کے نام پر جائز و نا جائز اور حلال اور حرام کا فرق مٹا کر باطل ہم سے دشمنی نبھانے کا کوئی موقع ضائع نہیں جانے دیتا۔
اسکی یہ کوشش اسلئے ہے کہ وہ جنت جہاں سے یہ نکالا گیا یہ ہمیں بھی وہ حاصل نہ ہونے دے۔

💥 ہنٹ 9: رسی دراز ہوتی چلی جاتی ہے
جب ہم جانتے بوجھتے ہوئے بھی جب اللہ کے احکامات کی نافرمانی کرنا نہیں چھوڑتے تو اللہ کی رسی دراز ہوتی جاتی ہے۔ یہاں باطل اور بڑھ کر آتا ہے اور یہ تسلی دیتا ہے کہ اللہ تو راضی ہے اسی لئے اسکا کرم اور مہربانیاں ابھی تک جاری ہیں۔ اس طرح باطل اپنی غلامی کرنے کی مزید ہمت بندھا کر اپنے اشاروں پر نچاتا جاتا یے۔ گناہوں، نافرمانیوں میں پھنسے ہونے کے باوجود اللہ کی مہربانیوں کو اللہ کے راضی ہونے کی علامت سمجھنے کے بجائے شرمندگی کا احساس ہونا چاہئے کہ وہ مہربان اللہ جو نافرمانیوں کے باوجود اپنے کرم و فضل کا سایہ کئے ہوئے ہے، اسکا شکر ادا کرتے ہوئے اسکی اطاعت کی طرف بڑھا جائے۔
لیکن باطل یہی تو چاہتا ہے کہ اللہ کی رسی دراز ہوتی جائے اور جب پکڑ میں آیئں تب بچت کی کوئی راہ باقی نہ رہے۔