ٹاپک 2: شہادت، گواہی اور باطل

💥 ہنٹ 1: گواہی اور باطل
کسی بھی معاملہ میں گواہی یا شہادت دینا اس معاملہ میں ہماری شمولیت ، بنفس نفیس وھاں موجودگی، آنکھوں دیکھے حال کی بناء پر ہوتا ہے۔ اس معاملے کو دیکھ لینے کے بعد اس کے حوالے سے ہمارا گواہی دینا یا نہ دینا اس معاملے کو مثبت یا منفی رخ بھی دے سکتا ہے اور کسی حتمی نتیجے پر بھی پہنچا سکتا ہے۔
یہاں باطل مختلف انداز سے ہمیں پھنساتا اور ہدف پر تیر چلا کے کامیابی حاصل کرتا ہے۔
گھریلو معاملات کو ہی لیجئے۔ معاملہ چھوٹا ہو یا بڑا ، اس میں شامل افراد کی آپس میں رشتہ کی نوعیت ، جذبات کی شدت یا سادہ الفاظ میں ذاتی پسند و ناپسند کسی معاملہ کو اپنی مرضی کا رخ دینے کےلئے اپنی رائے بدلنے پر بھی مجبور کر دیتی ہے اور جھوٹی گواہی دینے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ ذاتی رنجش کی بنا ءپر کسی معاملے کو اپنی جھوٹی گواہی دے کر ایسا رنگ دینا کہ جس سے معاملہ درست ہونے کے بجائے بگڑتا چلا جائے، اصل میں اسی لیئے ہوتا ہے کہ باطل ہمیں اس بات کا احساس ہی نہیں ہونے دیتا کہ گواہی اصل میں ایک امانت بھی ہے اور ایک ذمہ داری بھی ہے۔
اصل میں باطل دشمنی کی آگ کو بھڑکانے کےلئے یہ پتا بھی استعمال کرتا ہے اور گواہی دینا اپنا ذاتی معاملہ دکھاتا ہے۔اس طرح اس دنیاوی معاملے کے ذریعہ آخرت مشکل بنا ڈالتا ہے۔

💥 ہنٹ 2: دنیا اور آخرت کا نقصان
شیطان نے ہمار ے دماغوں میں ایسے خناس بھر دیا ہوتاہے کہ یاد ہی نہیں رہتا کہ ہمارے دائیں اور بائیں کے فرشتے ہمارے ہر عمل کو تحریر کرتے جارہے ہیں۔ ہم آج گواہی دیتے ہوئے جھوٹ بولیں گے تو یہ جھوٹی گواہی قیامت کے دن ہمیں ثابت کرنا پڑ جائے گی اور اس کا نتیجہ بھی بھگتنا پڑے گا۔
اصل میں ہمارا کوئی بھی معاملہ ذاتی معاملہ نہیں ہوتا۔ وہ اللہ سے ہی جڑا ہوا ہوتاہے کیونکہ اسے اللہ کی پسند کے مطابق ہی نمٹانا ہمارے لیئے اللہ کی رضا کا باعث بن سکتا ہے۔ اگر ہم اس معاملہ کو اپنی ذاتی پسند کے مطابق نمٹانے کےلئے اپنے اختیار کو استعمال کریں، جھوٹی گواہی دیں ، جانتے بوجھتے ہوئے گواہی چھپاجائیں، صرف اس لیئے کہ کوئی بھی فریق جس کےلئے ہم منفی جذبات رکھتے ہیں وہ نقصان اٹھائے ، تو یہ اصل میں اپنا نقصان کرنے کے مترادف ہے۔
اور یہ نقصان آخرت میں جواب دہی تک کے لئے ملتوی نہیں بلکہ یہاں اسی دنیا میں بھی ہمارا عمل ہمارے سامنے آ سکتا ہے۔
اگر گھریلو یا ذاتی معاملات میں ہم ایسے ہی شیطان کے ہاتھوں کٹھ پتلی بن کر اپنی گھریلو سیاست کو چمکانے کےلئے جھوٹی گواہیاں دیتے رہیں تو بعید نہیں کہ جو گڑھا ہم دوسروں کے لئے کھودتے ہیں اس میں خود بھی جا گریں۔
اس وار کے ذریعے باطل ہماری دنیا اور آخرت بے سکون کرنے کی راہ ہموار کرتا جاتا ہے۔

💥 ہنٹ 3: ایک جھوٹی گواہی کے لیئے مزید جھوٹی گواہیاں
اگر ایک موقع پر جھوٹی گواہی دیں تو اب آگے کئی مواقع پر اس گواہی کو ثابت کرنے کےلئے مزید جھوٹی گواہیاں دینی پڑیں گے۔ دیکھی ان دیکھی سب جزئیات جو معاملہ سے وابستہ ہوں ان کو اپنی مرضی سے موڑ توڑ کر پیش کرتے ہیں تو یہ بھی جھوٹ کے زمرے میں آتاہے۔
اور پھر ہمارے پاس ہزار ہا دلائل ہوتے ہیں کہ ہم نے ایسا اپنے فائدے کےلئے نہیں بلکہ فلاں فلاں غرض سے فلاں فلاں کی بھلائی کی نیت سے کیا۔
ایک حدیث میں حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ وہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ سے کبیرہ گناہ کے متعلق پوچھا گیا تو نبیﷺ نے فرمایا :
اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک کرنا ، والدین کی نافرمانی کرنا ، کسی نفس کو قتل کرنا، جھوٹی گواہی دینا
(صحیح بخاری، صحیح مسلم)
اس طرح باطل ہمیں ایک بار جھوٹی گواہی کے پھندے میں پھنسا کر یہ پھندا مزید تنگ کرتا جاتا ہے اور بار بار جھوٹی گواہی دلوا کر نجات کی راہ ہمارے اپنے ہاتھوں مشکل کرتا جاتا ہے۔


💥 ہنٹ 4: اگلے کی کسی کمزوری کی بنا پر شہادت سے گریز
بعض معاملات میں ہم شہادت سے گریز کرتے اور گواہی چھپا بھی جاتے ہیں۔ یہ بھی اسی قدر غلط ہے جیسا کہ جھوٹی گواہی یا شہادت دینا۔ اگر کسی کمزور اور بے بس انسان کی چھوٹ ہماری گواہی کی وجہ سے ممکن ہو تو وہاں شیطان کے ورغلانے پر ہم ہونٹوں کو سی لیتے ہیں اور گواہی چھپا جاتے ہیں۔ گھریلو معاملات میں تو آئے دن ایسے مناظر دیکھنے کو ملتے ہی رہتے ہیں۔ گھریلو معاملات میں کمزور حیثیت والے رشتے ، مالی لحاظ سے کمتر، پسماندہ خاندانی بیک گراﺅنڈ، شخصی کمزوری وغیرہ بھی کو آڑ بنا کر باطل ہمیں حق بات کہنے اور سچی گواہی یا شہادت سے روک دیتا ہے۔
اور تو اور گھر میں موجود خدمتگاروں ، نوکروں ملازموں کی بھی چھوٹے بڑے معاملات میں کسی کی جھوٹی گواہی یا شہادت کی بنا پر درگت بنتی رہتی ہے۔ اور وہ خواہ کتنی ہی دلیلیں دے اور خود کو سچا ثابت کریں ان کی ایک نہیں سنی جاتی۔
یہاں باطل اللہ کے بندوں کے لیئے ہمیں تکلیف اور مصیبت کا باعث بنا کر خوش ہوتا رہتا ہے۔

💥 ہنٹ 5: طاقت اور اثر و رسوخ کی وجہ سے جھوٹی گواہی دینا
اس کے علاوہ دیگر شعبہ جات زندگی میں بھی ایسی مثالیں موجود ہیں کہ جہاں کوئی قد آور شخصیت ہو اور با اثر خاندان تو اس کی خاطر ہم جھوٹی گواہی دینا بھی درست سمجھتے ہیں۔ جبکہ اگر بات کسی بے بس اور لاچار خاندان یا فرد کی ہو تو وہاں اس معاملہ سے کنی کتراتے اور گواہی یا شہادت بھی چھپاتے ہیں۔
رسول اللہﷺ نے فرمایا:
تم میں سے سب سے بہتر میرے زمانے کے لوگ (صحابہ) ہیں پھر وہ لوگ جو ان کے بعد آئیں گے (تابعین) پھر وہ لوگ جو اس کے بھی بعد آئیں گے۔ (تبع تابعین) عمران نے بیان کیا کہ میں وہ نہیں جانتا آپﷺ نے دو زمانوں کا (اپنے بعد) ذکر فرمایا... یا تین کا... پھر آپﷺ نے فرمایا کہ تمہارے بعد ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو خیانت کریں گے ، جن میں دیانت کا نام نہ ہو گا ان سے گواہی دینے کے لئے نہیں کہا جائے گا لیکن وہ گواہیاں دیتے پھریں گے۔ موٹاپا ان میں عام ہوگا۔
صحیح بخاری
باطل کے اشاروں پر چل کر وقتی فائدے ذاتی مقصد کے تحت دی ہوئی جھوٹی گواہی یا شہادت دینا جس کا حقیقت سے کوئی لینا دینا نہ ہو، ہمارے لیئے ہی پھانسی کا پھندا ثابت ہو سکتی ہے۔

💥 ہنٹ 6: شادی کے موقع پر پوچھ پڑتال
ہمارے ہاں شادی کے موقع پر فریقین کے حوالے سے پوچھ پڑتال بھی کی جاتی ہے۔ ایسے موقع پر قریبی عزیز، دوست احباب ہی سے رابطہ کیا جاتا ہے۔ اگر وہ تسلی دیں تو معاملہ آگے بڑھتا ہے۔ اس معاملے کی حساسیت کو سمجھ کر گواہی دینا بہتر ہے۔ اگر ہم نے جانتے بوجھتے ہوئے کسی بھی فریق کے حق میں غلط گواہی دے دی تو اس کےلئے بھی جوابدہ ہوں گے۔ عام روایت یہی ہے کہ لڑکا یا لڑکی کی طرف سے قریبی لوگ دونوں کی زندگی کے مثبت اور منفی حقائق سے آگاہ ہوتے ہیں۔ اور اسی آگاہی کی وجہ سے ہی ایک طرح سے ہم یہاں بھی گواہی دیتے ہیں۔ یہاں یہ خیال ضرور رکھیں کہ اگر کوئی ایسی حقیقت ہماری نگاہ میں ہے جس کے باعث بعد از نکاح فریقین کے مابین چپقلش پیدا ہو جائے اور اس کے دوررس نتائج زندگیوں پر مرتب ہوں تو بہتر ہے کہ یہاں یا تو حقیقت کو پہلے ہی کھول کر بیان کر دیا جائے تاکہ معاملہ کو بہتر رخ دیا جاسکے اور یا پھر ایسی پوزیشن نہ ہو تو گواہی سے گریز کریں۔ یہ دو زندگیوں ہی کا معاملہ نہیں بلکہ اس سے کئی افراد کی زندگیاں متاثر ہوتی ہیں۔
باطل اس حوالے سے ہمارے دل میں احساس ذمہ داری پیدا نہیں ہونے دیتا۔ ہمیں خلوص کے ساتھ دوسروں کیلئے بھلائی کا سبب بننے سے روکتا ہے۔ کیونکہ یہ جانتا ہے کہ دوسروں کیلئے بھلائی خا دطب بننا در حقیقت ہماری اپنی نجات کی راہ آسان ہونے کا وسیلہ ہے۔



💥 ہنٹ 7: جرگہ ، پنچایت میں شہادت یا گواہی
جرگہ ، پنچایت بھی ہمارے معاشرتی رسم و رواج کا حصہ ہے۔ ایسے معاملات جو ایک شخص خود نہ سلجھا سکے اور اسے دوسرے سے مشورے کے بعد ہی بہتر طرح سے حل کیاجانا ضروری ٹھہرے تو اس مشورے میں جو چند افراد شامل ہو کر حالات و واقعات کا جائزہ لیں ، وہ جرگہ یا پنچایت میں شامل ہوتے ہیں۔
ایسے جرگہ یا پنچایت میں شامل ہو کر کسی دوسرے کے معاملے کا فیصلہ سنانا بھی بے حد بھاری ذمہ داری ہے۔ یہ ایک طرح سے معاملہ میں خود اپنی گواہی شامل کرتے ہوئے متعلقہ لوگوں کی رائے اور مشاورت کے بعد حتمی نتیجہ پر پہنچنا ہوتاہے۔ باطل یہاں بھی اپنی طاقت کا ناجائز فائدہ اٹھانے پر مجبو ر کرتا ہے۔ اپنی قوت فیصلہ اور حق رائے دہی کا غیر جانبدارانہ استعمال کرتے ہوئے یہاں بھی احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا جائے۔ ایسے نازک معاملات میں اگر ذرا سا قدم لڑکھڑا گیا تو اس سے نہ صرف ہم خود حق کی راہ سے ہٹ جائیں گے بلکہ آنے والی نسلوں کو بھی خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ دنیا مکافات عمل کا گھر ہے۔ یہاں جیسی کرنی ویسی بھرنی۔
اور تم گواہی کو چھپایا نہ کرو، اور جو شخص گواہی چھپاتا ہے تو یقینا اس کا دل گنہگار ہے، اور اللہ تمہارے اعمال کو خوب جاننے والا ہے۔
(سورة البقرہ:۳۸۲)
باطل یہاں ایمانداری سے کام لینے نہیں دیتا۔ اس طرح ہمارے لئے آخرتکا حساب دینا مشکل کرتا جاتا ہے۔

💥 ہنٹ 8: قانونی اورعدالتی معاملات میں گواہی
اے ایمان والو! تم انصاف پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہنے والے (محض) اللہ کے لئے گواہی دینے والے ہو جاو خواہ (گواہی) خود تمہارے اپنے یا (تمہارے) والدین یا (تمہارے) رشتہ داروں کے ہی خلاف ہو، اگرچہ (جس کے خلاف گواہی ہو) مالدار ہے یا محتاج، اللہ ان دونوں کا (تم سے) زیادہ خیر خواہ ہے۔ سو تم خواہشِ نفس کی پیروی نہ کیا کرو کہ عدل سے ہٹ جاو (گے)، اور اگر تم (گواہی میں) پیچ دار بات کرو گے یا (حق سے) پہلو تہی کرو گے تو بیشک اللہ ان سب کاموں سے جو تم کر رہے ہو خبردار ہے۔
(سورةا لنسائ:۵۳۱)
عدالتی معاملات در پیش ہوں تو وہاں بھی گواہی دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر ہم نے اپنے مخالف یا حریف کو شکست دینے کےلئے جھوٹے گواہان تیار کرلیں تو اب ہم نے بھی اپنے کندھوں پر گناہوں کا بوجھ اٹھا لیا اور کسی دوسرے کو بھی اس گناہ میں شریک کار کر لیا۔ عموماً طاقتور اپنا اثرو رسوخ استعمال کرتے ہوئے جھوٹی گواہیاں عدالت میں پیش کر ڈالتے ہیں۔ اب یہاں کاغذی ثبو ت اور جھوٹی گواہی کی وجہ سے دنیا کے قانون کی بالادستی تو قائم ہو جاتی ہے مگر اللہ کا قانون پس پشت ڈال دیا جاتا ہے۔ نہ گواہی دینے والے متذبذب ہوتے ہیں نہ ہی یہ جھوٹے گواہ خرید کر عدالتوں میں پیش کرنے والوں کو اللہ کا کوئی خوف ہوتا ہے۔ باطل اس وقت سر پر ایک ہی دھن سوار کرتا ہے کہ جس طرح بھی ممکن ہو ، مقدمہ کا فیصلہ اپنے حق میں ہو، مقدمہ کی نوعیت کوئی بھی ہو ، گواہ کے بغیر مقدمہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکتا۔
ان گواہوں کو اپنی مرضی سے سچی گواہی دینے کی بجائے، مظلوم یا لاوارث اور کمزور کے خلاف جھوٹی گواہی پر مجبور کیا جاتا ہے۔ اور اگر کوئی انکار کی جرات کر لے تو جان سے ہاتھ دھو بیٹھتاہے۔
باطل اپنا یہ کھیل رچا کر ایک ہی جال میں بہت سے شکاروں کو پھنسا لیتا ہے۔ یوں ایک ہی وار میں بہت سوں کی عاقبت تباہ کر کے خوشی کا جشن مناتا ہے۔



💥 ہنٹ 9: گواہی یا شہادت دینا انتہائی حساس معاملہ ہے
حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا :
جس نے ایسی گواہی دی جس سے مسلمان مرد کا مال ہلاک ہو جائے یا کسی کا خون بہایا جائے تو اس نے (اپنے اوپر) جہنم کو واجب کر لیا۔
(معجم الکبیر ، عکرمة عن ابن عباس)
حضرت عبداللہ بن عمرؓسے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:
جھوٹے گواہ کے قدم ہٹنے بھی نہ پائیں گے کہ اللہ تعالیٰ اس کےلئے جہنم واجب کر دے گا۔
(ابن ماجہ ، کتاب الاحکام ،باب شہادة الزور)
ان احادیث سے بہت اچھی طرح یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جھوٹی گواہی صرف ہلاکت کی طرف لے جاتی ہے اور اس میں کسی کا بھی کوئی بھلا نہیں۔
پیارے آقائے دو جہاں حضرت محمد مصطفیﷺ کا فرمان ہے :
بلاشبہ میں ایک انسان ہوں تم میرے پاس اپنے جھگڑے لاتے ہو۔ ممکن ہے تم میں سے بعض اپنے مقدمہ کو پیش کرنے میں فریق ثانی کے مقابلہ میں چرب زبان ہو اور میں تمہاری بات سن کر فیصلہ کردوں جس شخص کےلئے میں اس کے بھائی (فریق مخالف) کا کوئی حق دلا دوں، چاہئے کہ وہ اسے نہ لے کیونکہ یہ آگ کا ایک ٹکڑا ہے جو میں اسے دیتا ہوں۔(صحیح بخاری)
سورة الاعراف کی آیت نمبر ۳۳میں ہے:
آپﷺ فرما دیجئے کہ البتہ میر ے رب نے صرف حرام کیا ہے ان تمام فحش باتوں کو جو اعلانیہ ہیں اور جو پوشیدہ ہیں۔ اور ہر گناہ کی بات کو اور ناحق کسی پر ظلم کرنے کو اور اس بات کو کہ اللہ کے ساتھ کسی ایسی چیز کو شریک ٹھہراﺅ جس کی اللہ نے کوئی سند نازل نہیں کی اور اس بات کو کہ تم لوگ اللہ کے ذمے ایسی بات نہ لگا دو جس کو تم جانتے نہیں۔
ان تمام احکامات سے واضح ہوتا ہے کہ گواہی دینا بے حد حساس معاملہ ہے۔ اس میں کوتاہی کرنا ہمارے اپنے لئے نا قابل برداشت خسارے کا سبب بن سکتا ہے۔
باطل ہمیں یہ سب بھلا کر نفس پرستی اور خود غرضی سے کام لینے پر مجبور کر کے جہنم کی طرف دھکیلنے کی سازش کرتا ہے۔