ٹاپک 3 :شریعت، سنت اور باطل


💥 ہنٹ 1: سنت مبارکہ
سنت لغت میں عادت کو کہتے ہیں۔ شریعت میں پیارے آقائے دوجہاں حضرت محمد مصطفیﷺ کے عادات و اطوار اور آپﷺ کے عمل، آپﷺ کی سنت مبارک کہلاتے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا تم پر میری سنت لازمی ہے۔
عام طور پر ایک امتی ہونے کے باوجود ہم سنت کا علم نہیں رکھتے یا سنت نبویﷺ سے متعلق علم و آشنائی ہونے کے باوجود اس پر عمل کو مشکل سمجھتے ہیں۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ اپنی مرضی کی چند سنتوں کو اپنا کر باقی پر عمل کی کوشش ہی نہیں کرتے۔ پیارے آقائے دو جہاں حضرت محمد مصطفیﷺ کی ان پیاری پیاری سنتوں کی آشنائی پیارے آقائے دو جہاں حضرت محمد مصطفیﷺ سے محبت کا احساس بیدار کرتی ہے۔ روز مرہ زندگی کی روٹین کے معمولات اور معاملات میں ان عادات و اطوار کو ہم سنت مبارکہ کے مطابق ادا کریں تو اس سے نہ صرف ہماری صحت بہترین رہتی ہے بلکہ دین و دنیا کے معاملات سنورتے اور زندگی پرسکون ہونے لگتی ہے۔
حضرت امام مالکؓ کا قول ہے : "سنت مثل کشتی نوح ہے جو اس پر سوار ہوا وہ نجات پا گیا اور جو اس سے محروم ہوا وہ غرق ہوا۔"
نجات پیارے آقائے دو جہاںﷺ کی عملاً پیروی میں ہی ہے۔
باطل ہمیں سوچوں میں الجھاتا ہے تو کبھی سنت پر عمل کو مشکل کر کے دکھاتا ہے۔
اپنی ان چالوں کے ذریعے باطل ہمیں سنت پر عمل سے روکتا ہے۔ تاکہ ہم دنیا آخرت کی بھلائے نہ حاصل کر سکیں۔

💥 ہنٹ 2: حسن سلوک
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ مومن آدمی بھولا بھالا (دھوکہ کھانے والا) اور شریف ہوتا ہے اور فاسق انسان دھوکہ باز اور کمینہ ہوتا ہے۔ (مقصد یہ ہے کہ مومن عموما دھوکہ کھا جاتا ہے اپنی سادگی کی بناء پر اور پھر دھوکہ کھانے پر جھگڑا نہیں کرتا کیونکہ وہ شریف بھی ہوتا ہے جبکہ فاسق و فاجر انسان دھوکہ باز بھی ہوتا ہے اور لڑائی جھگڑا کرنے والا بھی)۔
(سنن ابو داﺅد)
ہمارے آقائے دو جہاں ہی کی سنت ہے کہ آپﷺ ہر ایک سے خندہ پیشانی سے ہی پیش آتے، چاہے و ہ دوست ہو یا دشمن، آپﷺ کے اسی حسن سلوک سے متاثر ہو کر دشمن بھی دوست ہو جاتے تھے۔ مگر یہاں ہم باطل کے نرغے میں آکر نظریں چرا تے ہیں اور ان پہلوﺅں پر عمل کی کوشش ہی نہیں کرتے کیونکہ یہاں ہم ذات کی غلامی کر رہے ہوتے ہیں۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ سنت یہ بھی ہے کہ ہم ہر ایک سے حسن سلوک سے پیش آئیں۔ باطل ہمیں ذات ہی کا غلام بنا کر رکھنا چاہتا ہے تاکہ ہم اپنے پیارے آقائے دو جہاںﷺکی ان پیاری پیاری سنتوں پر عمل کر کے انﷺ کی غلامی میں نہ جا سکیں۔ ہم اپنے پیارے آقائے دو جہاںﷺ کے غلاموں میں شامل ہو کر ہی تو اصل میں انﷺ کی خوشی بھی پاسکتے ہیں مگر باطل یہ نہیں ہونے دیتا۔
اسی لئے باطل لوگوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنے کے بجائے ہمیں اپنی ذات میں پھنسائے رکھتا ہے۔





💥 ہنٹ 3: زبان و ہاتھ سے کبھی کسی کو تکلیف نہ پہنچائیں
رسول اللہﷺ نہ بدگو تھے نہ بد زبانی کرتے تھے (کہ منہ سے گالیاں نکالیں) بلکہ آپﷺ فرمایا کرتے تھے کہ تم میں سب سے زیادہ بہتر وہ ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں۔(صحیح بخاری)
ہمارے آقائے دو جہاں علیہ صلوة والسلام نے کبھی کسی کو ایذاء نہ پہنچائی۔ انﷺ کی زبان و ہاتھ سے کبھی کسی کو تکلیف نہ پہنچی بلکہ وہ ہمیشہ ہر ایک کے لئے راحت کا سبب ہی بنے۔ اب اگر ہم اپنا جائزہ لیں تو دن بھر میں ہی بے شمار ایسی باتیں کر جاتے ہیں کہ اگلے کا جگر چھلنی ہو کے رہ جائے۔ ہمیں پرواہ تک نہیں ہوتی کہ اپنی زبان سے بھی کسی کو تکلیف نہ دیں کہ کہیں وہ آزردہ ہو اور اس کے دل کو رنج پہنچے۔ ہم باطل کے ہاتھوں ناچتے ہوئے ، دانستہ طور پر اپنے پیاروں کو زبان سے تکلیف پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ طنز کے نشتر چبھوتے ہیں تو دل کو خوشی محسوس ہوتی ہے۔
ہمیں اپنی زبان کو دو دھاری تلوار کی طرح استعمال کرنے کی بجائے اپنے پیارے آقائے دو جہاںﷺ کاانداز گفتگو اپنانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ باطل ہمیں مطمئن رکھتا ہے کہ تم فلاں فلاں سنت پر ہی عمل کر لو تو کافی ہے مگر وہ معاملات کی درستگی اور حسن اخلاق کی طرف متوجہ ہی نہیں ہونے دیتا۔
اخلاقی تنزلی کے باوجود باطل ہمیں اس مغالطہ میں مبتلا رکھتا ہے کہ چند پسندیدہ اور سہولت سے اپنائی جانے والی سنتوں پر عمل ہی کافی ہے۔ اس چال کے ذریعے ہمیں نقصان میں ڈالنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔

💥 ہنٹ 4: معاف کرنے کی سنت
ہر سنت اپنی جگہ اہم اور خوبصورت ہے مگریہ بھی سچ ہے کہ ہم جہاں جہاں نفس کے ہاتھوں مجبور ہوتے ہیں وہاں شریعت پر عمل کا دھیان تک نہیں رہتا۔
ہمارے آقائے دو جہاں علیہ صلوة والسلام نے تو اپنے اوپر کوڑا ، اوجھڑی اور پتھر پھنیکنے والوں کو بھی معاف کی... اور معاف ہی نہ کیا بلکہ ان کو دعا بھی دی۔ اور ہم کیاکرتے ہیں...؟ ہم پر تو نہ کوئی پتھر برستے ہیں... نہ کوئی اوجھڑی ڈالی جاتی ہے... اور نہ ہی کوڑا کرکٹ گرایا جاتاہے ...مگر اک ذرا سی ناقابل برداشت بات جو ہمار ے مزاج کے برعکس ہو اور کوئی ذرا سا معاملہ جو ہماری مرضی کے مطابق طے نہ ہو... ہم اس پر آگ بگولہ ہو جاتے ہیں۔
ہم یہ سب تعلیمات فراموش کر کے باطل کے ہاتھ ایسا کھلونا بن جاتے ہیں کہ اس وقت تک چین نہیں پاتے جب تک حالتِ غصہ میں اپنے مخالف کو خاک نہ چٹا دیں ، قتل و غارت گری پر اتر آتے ہیں۔ ہماری بد دعائیں نسلوں تک ان کا پیچھا نہیں چھوڑتیں۔ ہمارا بس نہیں چلتا کہ کس طرح سے ان کی تباہی و بربادی کا ایسا سامان کر جائیں کہ وہ جینے کے قابل ہی نہ رہیں بلکہ زندہ درگور ہو کر رہ جائیں۔ ہم ذرا سے غصے پر قابو پانے کے قابل بھی نہیں اور آپﷺ نے ہر ایک کو معاف کر دیا۔ اگر اپنے اپنے گریبان میں جھانکیں اور سچائی سے جائزہ لیں تو شاید ہم کسی ایک بھی مخالف کو معاف کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتے۔
باطل نے ہمارے دلوں میں نفرت کی ایسی آگ بھڑکا رکھی ہوتی ہے کہ ہم اس قابل ہی نہیں رہتے کہ کسی کے لئے دل کو وسیع کر کے اس کو معاف کر سکیں۔ کیونکہ جب ہم دوسروں کو معاف نہیں کرتے تو ہماری اپنی معافی بھی مشکل ہو جاتی ہے۔


💥 ہنٹ 5: امتیوں سے محبت
سنت ِ نبیﷺ سے محبت کا تقاضا ہے بندے کو صرف ایک ذاتی رشتے سے نہ دیکھا جائے بلکہ صرف ایک امتی کی نظر سے دیکھا جائے۔ نہ وہ دشمن رہے نہ دوست، نہ وہ اپنا لگے نہ پرایا، نہ وہ غیر لگے نہ ہمسایہ، اگر وہ ہم سے کسی رشتے کی قید میں بندھا ہو تو وہ صرف امتی کا رشتہ ہو۔ ہمیں اپنے آقائے دو جہاںﷺ سے محبت ہے تو انﷺ کا امتی کہیں نظر آئے تو ہمیں اس پر پیار آئے ،رحم آئے ، اور اس کےلئے دل میں محبت کے جذبے جاگیں، صرف اور صرف اس لیئے کہ یہ میرے نبی رحمتﷺ کا امتی ہے۔ وہاں یہ احساس ہو کہ اگر ہم اس امتی سے بدسلوکی کا معاملہ کر دیں گے تو اس عمل سے اس امتی کو بھی تکلیف ہو گی، اور ہم سے سنت کی پیروی بھی نہ ہو پائے گی۔
ہم باطل کا شکار ہو کر اسی امت کے افراد کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔ اسی امت کے دشمن بن کر ہم اس کی بربادیاں بھی چاہتے ہیں جس کی نجات کےلئے رحمت دو جہاںﷺ نے اپنی وہ واحد دعا بھی بچا کر رکھی کہ جو ہر نبی محترم کو تحفتاً عطا کی گئی تھی۔
ہم بھول جاتے ہیں کہ یہ انﷺکی لاڈلی پیاری امت ہے جس کے ایک ایک امتی کی بخشش کے لئے آپﷺ نے راتوں کو گریہ کیا۔ اسی امت تک اللہ کا پیغام پہنچانے کو بدنِ اطہر پر زخم کھائے۔ عرش پر اسی امت کے لیے شب معراج عرضیاں پیش کیں۔ اسی امت کی فلاح کی راہ آسان کرنے کی خاطر آپﷺ کی آل ِ پاکؑ کربلا کے میدان میں قربان ہو گئی۔
ہم باطل کے جھانسے میں آکر آپﷺ کی امت کی خیر خواہی کی بجائے بد خواہی چاہنے لگتے ہیں۔ شیطان کے وار میں پھنس کر کسی کی دنیا و آخرت کی تباہی کی چاہت رکھنا جہاں پیارے آقائے دو جہاں ﷺ کیلئے ہمیں تکلیف کا سبب بناتا ہے وہیں ہمارے اپنے لئے آخرت کو تباہ کن بنا سکتا ہے۔
اسی لئے باطل اپنا جال بن کر ہمیں تباہی کی اس راہ پر چلنے پر مجبور کرتا ہے۔

💥 ہنٹ 6: آقائے دو جہاں حضرت محمد مصطفی ﷺ کا درد
آپﷺ کا درد اس امت کا درد ہے کہ کس طرح اس کی بخشش کی راہ آسان ہو جائے۔ ہم اس راہ کو آسان کرنے کی کوشش اس امت سے محبت کر کے اور ہر امتی کو دل سے معاف کر کے کر سکتے ہیں۔ یونہی ہر امتی سے نفرت کے احساس دل سے چھٹنے لگتے ہیں۔ ہم ذاتیات کو بالائے طاق رکھ کر امتیوں سے اس لیئے محبت کرنے لگتے ہیں کہ ہمیں اپنے آقائے دو جہاںﷺ کی محبت کی ایک نظر درکار ہے۔ ہم محبت کی اک نظر پانے کےلئے تو کوشاں رہتے ہیں مگر نفس کے ہتھکنڈے نہیں سمجھ پاتے۔ اگر سمجھ جائیں تو تمام اختلاف، جھگڑے ،دشمنیاں ، مخالفتیں بھلا کر اس چاہت میں کہ ہمارے آقائے دو جہاں علیہ صلوة والسلام ہمیں اپنے کرم کی نگاہ سے نواز دیں ، انﷺ کی امت سے محبت کرنے لگیں۔ باطل کھوکھلے دعوے کراتا ہے اور دل کو بہلاتا ہے کہ خوب آقائے دو جہاںﷺ کا دامن رحمت تھام رکھا ہے۔
کیا ہمارے دل میں ہمارے آقائے دو جہاںﷺ کی لاڈلی امت سے محبت کے احساس جاگزین ہیں؟ کیا ہم کسی کو معاف کر کے اس کی طرف صلح کا قدم بڑھا سکتے ہیں؟ کیا ہم کسی امتی کی فلاح کی اور دو جہاں میں بخشش کی دعا کر سکتے ہیں؟ کیا ہم کسی امتی کو تباہی کے دہانے سے واپس بھلائی کی راہ پر لانے کی کوشش کر سکتے ہیں کیونکہ یہ بھی ہمارے ہادی دو جہاںﷺ ، پیارے آقائے دو جہاںﷺعلیہ صلوة والسلام کی سنت مبارکہ ہے؟ اگر ہم ان سب حوالوں سے اپنا جائزہ لیں تو شرمندگی ہو گی کہ زبان سے محبت کا دعوی کرنے والے ہم عمل سے محروم ہیں۔
نبیﷺ فرمایا کرتے تھے مسلمان مرد کی اپنے بھائی کے لئے پس پشت دعا قبول ہوتی ہے اس کے سر کے پاس موکل فرشتہ موجود ہے جب یہ اپنے بھائی کے لئے بھلائی کی دعا کرتا ہے تو موکل فرشتہ اس پر آمین کہتا ہے اور کہتا ہے کہ تیرے لئے بھی اس کی مثل ہو۔(صحیح مسلم)
باطل اسی لئے ہمارے دل میں پیارے آقا دو جہاں ﷺ کی امت کا درد نہیں پیدا ہونے دیتا کہ اگر یہ درد دل میں پیدا ہو گیا تو نہ صرف ہمارے دنیاوی معاملات بہترین ہوتے چلے جایئں گے بلکہ آخرت بھی سرخرو ہو گی۔


💥 ہنٹ 7: معمولات اورمعاملات میں سنت کی پیروی
ہم دن بھر کے معاملات کو نبھاتے ہوئے کہیں بھی سنت کی پیروی کا احساس نہیں رکھتے۔ کبھی یہ احساس نہیں رکھا کہ ہمارا کھانا پینا کس انداز میں ہوتا ہے۔
نہ یہ فکر کہ کیا ہمارے اٹھنے بیٹھنے کا انداز ایسا ہے کہ ہمارے آقائے دو جہاںﷺ کو پسند آجائے؟ یہ بھی نہیں سوچتے کہ ہمارے سونے جاگنے کے معمولات میں ہماری مرضی کا دخل ہے یا ہم سنت کے مطابق سونے جاگنے کے معمولات درست رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ نہ یہ جانچا کہ ہمارا گھریلو ، خاندانی معاملات اور رشتوں کو نبھانا ذاتی تعلق کی بناء پر ہے یا ہم یہ سب رشتے اور ان سے متعلقہ معاملات اس لیئے نبھاتے ہیں کہ یہ ہمارے آقائے دو جہاںﷺ کی سنت ہے؟ پیشہ وارانہ امور میں ہم نے کبھی سنت کی پیروی کا احساس دل میں بیدار رکھنے کو اہمیت نہ دی۔ اسی طرح دیگر شعبہ جات اور معاملات زندگی کو لیں تو ان کے حوالے سے بھی شریعت میں رہنما اصول موجود ہیں اور ہم جس پہلو پر رہنمائی چاہیں ہمیں وہ میسر ہے۔ ہم اپنا محاسبہ نییں کرتے کہ ان سب معاملات میں اپنی پسند کو مدِ نظر رکھ کر انہیں اپنی مرضی کے مطابق چلاتے ہیں یا اپنے آقائے دو جہاںﷺ کی پسند کو بالاتر رکھ کر اسی کے مطابق عمل کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔
باطل اپنا زور چلا کر ہمیں سنت کی پیروی سے محروم رکھتا ہے۔ تا کہ ہم اسکی برکت سے دو جہاں میں کامیاب نہ ہو سکیں۔

💥 ہنٹ 8: دنیا میں کامیابی اور آخرت میں نجات
(اے حبیب!) آپ فرما دیں: اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو تب اللہ تمہیں (اپنا) محبوب بنا لے گا اور تمہارے لئے تمہارے گناہ معاف فرما دے گا، اور اللہ نہایت بخشنے والا مہربان ہے۔(آل عمران:۱۳)
سنت کا احاطہ زندگی کے ہر میدان اور ہر شعبے کے ہر معاملہ پر پھیلا ہے۔ یہ ہم پر ہے کہ ہم کہاں کہاں سنت پر عمل کی کوشش کرتے ہیں۔ ہر چند کہ کوشش جاری بھی ہوتی ہے مگر وہ بھرپور کوشش جو ہمارے آقائے دو جہاںﷺ کی ہم سے محبت اور ہماری آپﷺ سے محبت کا تقاضا ہے وہ کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ صرف سطحی سی کوشش کرنا محبت کے تقاضے مکمل نہیں کرتا۔ باطل ہماری کوشش میں کمی کو محسوس نہیں کرنے دیتا، تا کہ سطحی کوشش کو بھرپور کوشش میں بدل نہ سکیں۔ ہماری محبت ہی ہمیں عمل کی طاقت عطا کرتی ہے اور یہی محبت ہم سے وہ سب کروا لیتی ہے جس سے ہمارے آقائے دو جہاںﷺ ہم سے راضی ہو جائیں۔ آپﷺ کی رضا ہماری دنیا اور آخرت کو سنوار سکتی ہے۔ اس کی بنا پر دنیا میں کامیابی میسر آتی ہے اور آخرت میں نجات ہو گی۔
باطل اس کوشش میں ہے کہ ہم ایسی کوئی بھلائی حاصل نہ کر سکیں اسلئے سنت کی پیروی کی اہمیت کو محسوس نہیں کرنے دیتا۔

💥 ہنٹ 9: دنیا میں کامیابی اور آخرت میں نجات
(اے حبیب!) آپ فرما دیں: اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو تب اللہ تمہیں (اپنا) محبوب بنا لے گا اور تمہارے لئے تمہارے گناہ معاف فرما دے گا، اور اللہ نہایت بخشنے والا مہربان ہے۔(آل عمران:۱۳)
سنت کا احاطہ زندگی کے ہر میدان اور ہر شعبے کے ہر معاملہ پر پھیلا ہے۔ یہ ہم پر ہے کہ ہم کہاں کہاں سنت پر عمل کی کوشش کرتے ہیں۔ ہر چند کہ کوشش جاری بھی ہوتی ہے مگر وہ بھرپور کوشش جو ہمارے آقائے دو جہاںﷺ کی ہم سے محبت اور ہماری آپﷺ سے محبت کا تقاضا ہے وہ کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ صرف سطحی سی کوشش کرنا محبت کے تقاضے مکمل نہیں کرتا۔ باطل ہماری کوشش میں کمی کو محسوس نہیں کرنے دیتا، تا کہ سطحی کوشش کو بھرپور کوشش میں بدل نہ سکیں۔ ہماری محبت ہی ہمیں عمل کی طاقت عطا کرتی ہے اوریہی محبت ہم سے وہ سب کروا لیتی ہے جس سے ہمارے آقائے دو جہاںﷺ ہم سے راضی ہو جائیں۔ آپﷺ کی رضا ہماری دنیا اور آخرت کو سنوار سکتی ہے۔ اس کی بنا پر دنیا میں کامیابی میسر آتی ہے اور آخرت میں نجات ہو گی۔
باطل اس کوشش میں ہے کہ ہم ایسی کوئی بھلائی حاصل نہ کر سکیں اسلئے سنت کی پیروی کی اہمیت کو محسوس نہیں کرنے دیتا۔